جاوید احمد غامدی کے من پسند اُصولِ تفسیر

کیا سورة النصرمکی ہے؟ …ایک جائزہ


نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چلتا پھرتا قرآن تھے تو صحابہ کرامؓ اس کے شاہد اور امین۔بلا شبہ قرآنِ کریم کے جواہرات جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معصوم زندگی کی لڑی میں پروئے جاتے تو یہ ہار صحابہ کی نظروں کو خیرہ کرتا۔چنانچہ بعد کے مفسرین قرآن پر آپؐ کے اصحابؓ کو یہی امتیاز حاصل ہے کہ قرآنِ مبین اُن کی زبان میں اُترتا تھا اور وہ اپنے سامنے وحی ٔ نبوت کا مشاہدہ بھی کرتے تھے۔ارشادِ گرامی: (ما أنا علیہ وأصحابي) کی تعمیل کا ایک تقاضا یہ بھی ہے۔اسی بنا پر قدیم مفسرین خواہ وہ فلسفی ہوں یامعتزلی (عقل پرست)، سب اس پر متفق نظر آتے ہیں کہ اگر قرآن کی کسی آیت یا سورت کا موقع محل صحابہ کرام متعین کر دیں تو اسے تسلیم کر لیاجائے۔سورة النصرکے موقع محل کے حوالے سے جب حضرت عمرؓ کے سامنے علما کے ایک مجمع میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے اسے نبیؐ کے قربت ِوصال کا اشارہ بتایا تو سب نے اس پر صاد کیا،لیکن دورِ حاضر کے ندرت پسند فلسفۂ فطرت (اعتزالی نیچریت( کے اُصولوں سے اس امر کے لیے کوشاں رہتے ہیں کہ قرآنی سُوَریا آیات کو قرآنِ کریم کے اوّلین مخاطبین کو نظر انداز کر کے اپنے من پسند سانچوں میں جہاں چاہیں، فٹ کریں۔درج ذیل مضمون اسی غلط’ اُصولِ تفسیر’ کی نشاندہی کے لیے لکھا گیا ہے جو ہدیۂ قارئین ہے۔ (محدث(

اہل علم جانتے ہیں کہ سلف و خلف کے تمام مفسرین کے نزدیک سورۂ نصر مدنی ہے اور اس کے مدنی سورہ ہونے پر سب کا اتفاق اور اجماع ہے۔

مگر جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے اس متفقہ اور مجمع علیہ امر میں بھی اختلاف پیدا کیا ہے اور ان کو سورۂ نصر کے مکی سورہ ہونے پر اصرار ہے۔چنانچہ وہ اپنی اُلٹی تفسیر البیان (میں اس تفسیر کو اُلٹی اس لئے کہتا ہوں کہ یہ آخری سورتوں سے شروع ہوکر ابتدائی سورتوں کی طرف چلی آرہی ہے اور ابھی تک نامکمل ہے) میں لکھتے ہیں :
(1) ”
سورة النصر کامرکزی مضمون آپؐ کے لئے سرزمین عرب میں غلبہ حق کی بشارت اور آپؐ کو یہ ہدایت ہے کہ اس کے بعد آپؐ اپنے پروردگار سے ملاقات کی تیاری کریں۔
سورۂ کافرون کے بعد اور لہب سے پہلے یہاں اس سورہ (النصر) کے مقام سے واضح ہے کہ سورۂ کوثر کی طرح یہ بھی، اُمّ القریٰ مکہ میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مرحلہ ہجرت وبراء ت میں آپؐ کے لئے ایک عظیم بشارت کی حیثیت سے نازل ہوئی ہے۔1

اس سے معلوم ہوا کہ غامدی صاحب سورۂ نصر کو مکی قرار دیتے ہیں اور ”مرحلہ ہجرت و براء ت” کے زمانے میںاس کا نزول بتاتے ہیں۔

(2) اسی بات کو وہ دوسرے مقام پر مختصر اور واضح طور پر یوں فرماتے ہیں کہ
ساتواں باب سورۂ ملک سے شروع ہوکر سورۂ ناس پر ختم ہوتا ہے۔ اس میں آخری دو یعنی معوذتین مدنی اور باقی سب مکی ہیں۔2

گویا غامدی صاحب کی رائے میں سورۂ نصر بھی مکی ہے کیونکہ وہ بھی سورۂ ملک اور معوذتین کے درمیان واقع ہے۔

(3) البتہ اُن کے نقطہ نظر کومزید اچھی طرح سمجھنے کے لئے پہلے حوالے میں ایک دریافت طلب بات یہ ہے کہ ‘مرحلہ ہجرت و براء ت’ سے اُن کی کیا مراد ہے تو اسے بھی خود ان کی زبانی سنئے، وہ لکھتے ہیں:
مرحلہ ہجرت و براء ت الماعون 7 10 … الإخلاص 112
قریش کے سرداروں کی فرد قرار داد ِجرم، اُنہیں عذاب کی وعید اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بشارت کہ حرم کی تولیت اب اُن کی جگہ آپؐ کو حاصل ہوگی اور آپ کے دشمنوں کی جڑ اس سرزمین سے ہمیشہ کٹ جائے گی۔ 107،108
اُمّ القریٰ کے ائمہ کفر سے آپ کا اعلانِ براء ت اور سرزمین عرب میں غلبہ حق کی بشارت 109، 110
قریش کی قیادت، بالخصوص ابولہب کا نام لے کر اُس کی ہلاکت کی پیشین گوئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے، اس مرحلے کے اختتام پر عقیدۂ توحید کے فیصلہ کا اعلان۔ 111،1123
گویا غامدی صاحب کا خود ساختہ مرحلہ ‘ہجرت و براء ت ‘دراصل ہجرت سے پہلے کامکی دور ہے اوروہ سورۂ نصر کو اسی دور کی نازل شدہ مکی سورت مانتے ہیں۔

(4) ایک اور مقام پر جناب غامدی قرآنِ مجید کے بارے میں اپنے خود ساختہ ‘سات ابواب’ میں آخری باب کی وضاحت کرتے ہوئے بھی سورئہ نصر کو مکی سورہ قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ
یہ قرآن مجید کا ساتواں باب ہے۔ اس میں الملک (67) سے الناس(114) تک 48 سورتیں ہیں۔ ان سورتوں کے مضامین، اور اس باب میں ان کی ترتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے پہلی 46 سورتیں اُمّ القریٰ مکہ میں، اور آخری دو الفلق اور الناس ہجرت کے فوراً بعد مدینے میںنازل ہوئیں ہیں۔

قرآنِ مجید کے دوسرے سب ابواب کی طرح یہ چیز اس باب میں بھی ملحوظ رہے کہ یہ مکی سورتوں سے شروع ہوتا اورمدنیات پرختم ہوجاتاہے۔4

گویا غامدی صاحب کی رائے میں زمانی اعتبارسے بھی سورۂ نصر ہجرت سے پہلے مکہ میں نازل ہونے والی مکی سورت ہے۔ ہمارے نزدیک غامدی صاحب کی مذکورہ رائے نہ صرف یہ کہ غلط ہے بلکہ اجماعِ مفسرین اور اجماعِ اُمت کے بھی خلاف ہے۔ اس سلسلے میں ہم ذیل میں چند معتبر اور مستند تفاسیر کے حوالے پیش کرتے ہیں :
(1)
تفسیر الکشاف از علامہ محمود زمخشری
سورة النصر،مدنیة وھي ثلاث آیات … روي أنھا نزلت في أیام التشریق بمنی في حجة الوداع 5
سورئہ نصر مدنی ہے، اس کی تین آیات ہیں۔۔۔ روایت ہے کہ یہ سورت ایام تشریق میں منیٰ میں حجة الوداع کے موقع پر نازل ہوئی تھی۔

(2) تفسیر قرطبی از امام قرطبی
وھي مدنیة بـإجماع وتُسمّٰی سورة التودیع، وھي ثلاث آیات وھي آخر سورة نزلت جمیعًا۔ قاله ابن عباس في صحیح مسلم 6
اور وہ (سورۂ نصر) مدنی ہے، اس کے مدنی ہونے پر اجماع ہے۔ اسے سورۂ تودیع )الوداعی سورت) بھی کہتے ہیں۔ اس کی تین آیتیں ہیں۔ یہ آخری مکمل نازل ہونے والی سورت ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابن عباسؓ کا یہی قول نقل ہوا ہے۔

(3) تفسیر ابن کثیر از حافظ ابن کثیر
تفسیر سورة إذا جاء نصر اﷲ والفتح وھي مدنیة7
تفسیر سورہ أذا جاء نصر اﷲ والفتح اور یہ سورة مدنی ہے۔

(4) تفسیر رازی از امام فخر الدین رازی
هذہ السورة من أواخر ما نزل بالمدینة۔8
یہ سورة مدینے میں نازل ہونے والی آخری سورتوں میں سے ایک ہے۔

(5)  تفسیر روح المعانی از علامہ محمود آلوسی
وتُسمّی سورة إذا جآء،وعن ابن مسعود : أنھا تُسمّٰی سورة التَّودیع لما فیھا من الإیماء إلی وفاتِه علیه الصلاة والسلام وتودیعه الدنیا وما فیھا … وھي مدنیة علی القولِ الأصح في تعریف المدني… عن ابن عمر رضی اﷲ عنھما أنه قال: ھذہ السورة نزلت علی رسول اﷲ ﷺ أوسط أیام التشریق بمنی وھو في حجة الوداع9
اور یہ (سورۂ نصر) سورۂ إذا جآئبھی کہلاتی ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ کا قول ہے کہ اسے سورۂ تودیع (الوداعی سورت) بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور آپؐ کے دنیا و مافیہا سے رخصت ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔ اور یہ ‘مدنی’ کی تعریف کے اصح قول کے مطابق مدنی سورت ہے… حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ یہ سورت حجة الوداع کے موقع پر منیٰ میں ایامِ تشریق کے وسط میںرسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئی۔

(6) تفسیر مراغی از احمد مصطفی مراغی
ھي مدنیة وآیاتھا ثلاث،نزلت بعد التوبة 10
یہ (سورۂ نصر) مدنی سورت ہے، اسکی تین آیتیں ہیں اور یہ سورۂ توبہ کے بعد نازل ہوئی۔

پھر آگے چل کر علامہ مراغی لکھتے ہیں :
وقد فَھِم النبي ﷺ من ھذا أن الأمر قد تمَّ۔ ولم یبقَ إلا أن یَلْحَقَ بالرفیقِ الأعلیٰ11
اور اس سورت کے نازل ہونے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سمجھ لی کہ اب کام ختم ہوچکا ہے۔ اب صرف ‘رفیق اعلیٰ’ سے ملنا باقی رہ گیا ہے۔

(7) تفسیر جلالین از علامہ محلی وسیوطی
سورة النصر نزلت بمنی في حجة الوداع فتعد مدنیة وھي آخر ما نزل من السور وآیاتها ثلاث12
سورئہ نصر منیٰ میں حجة الوداع کے موقع پر نازل ہوئی۔ اسے مدنی شمار کیا گیا ہے اور یہ نازل ہونے والی سورتوں میں سے آخری ہے، اس کی آیتیں تین ہیں۔

(8) فتح القدیر از امام شوکانی
إذا جاء نصر اﷲ والفتح وتسمی سورة التودیع هي ثلاث آیات وهي مدنیة بلاخلاف13
یہ سورہ إذا جاء نصر اﷲ والفتح ہے اور یہ الوداعی سورہ بھی کہلاتی ہے۔ اس کی آیات تین ہیں۔ اور اس کے مدنی ہونے میں کسی کا بھی اختلاف نہیں۔

(9) البرہان فی علوم القرآن از بدر الدین زرکشی
یہ اگرچہ تفسیر کی کتاب نہیں ہے لیکن علوم القرآن کے موضوع پر سند کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی چارجلدیں ہیں۔ اس میں سورۂ إذا جاء نصر اﷲ یعنی سورۂ نصر کو بالاتفاق مدنی سورتوں کی فہرست میںشمار کیا گیاہے۔ 14

(10) تدبر قرآن ازمولانا امین احسن اصلاحی
یہ جناب جاوید احمد غامدی کے ‘استاذ امام’ کی تفسیر ہے جو پہلے 8 جلدوں میں اور اَب 8جلدوں میں شائع ہورہی ہے۔ اس میں بھی سورۂ نصر کو’بالاتفاق مدنیقرار دیا گیا ہے۔ اور اصلاحی صاحب اسے صلح حدیبیہ کے بعد اور فتح مکہ سے پہلے کی نازل شدہ مدنی سورت مانتے ہیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ
ہجرت اور فتح و نصرت کے درمیان یہی وہ رشتہ ہے جس کے سبب سے یہ سورہ جو بالاتفاق مدنی ہے، ایک مکی سورہ کی مثنیٰ قرار پائی۔ اس سورہ کے زمانۂ نزول سے متعلق دو قول ہیں: ایک یہ کہ فتح مکہ کے بعد نازل ہونے والی سورتوں میں یہ سب سے آخری سورہ ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ فتح مکہ سے پہلے اس کی بشارت کے طور پر نازل ہوئی ہے۔ میرے نزدیک اسی دوسرے قول کو ترجیح حاصل ہے۔15

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ تمام مفسرین اور علماے امت کے نزدیک سورۂ النصر مدنی سورت ہے۔ اس کے مدنی ہونے پر اجماعِ امت ہے اور امام قرطبی نے، جیسا کہ اُوپر مذکور ہوا، اس پر اجماع نقل کیا ہے اور امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس بارے میں کسی کا بھی اختلاف نہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایک اجماعی اور متفق علیہ امر میں اختلاف پیدا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

میرے نزدیک اس کا واحد سبب جناب غامدی صاحب کے وہ من گھڑت، خود ساختہ اور موضوعہ اُصولِ تفسیر و اُصولِ دین ہیں جن کا لازمی نتیجہ اُمت کے متفقہ اور مجمع علیہ مسائل میں بھی اختلاف کی صورت میں نکلتا ہے اور جس سے اُمت میں افتراق و انتشار پیدا ہوتا ہے۔

چنانچہ حد ِ رجم کا مسئلہ ہو یا مرتد کی سزا کا، جہاد و قتال کا حکم ہو یا قراء اتِ سبعہ کا، حدود میں عورت کی گواہی کا مسئلہ ہو یا دیت کا، وحی ِخفی کی بات ہو ، یا عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ آسمان پر اُٹھا لینے کی یا پھر رسولوں کا قتل ممکن ہونے کی؛ وہ ہر معاملے میں اُمت سے الگ کھڑے نظر آتے ہیں اور غیر سبیل المؤمنین پر چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ ع

بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
اس کے باوجود ان کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ تعامل اُمت (جسے وہ ‘سنت’ کی اصطلاح بتاتے ہیں) کو مستند، معتبر اور حجت مانتے ہیں۔ ع
جنا ب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی!


حوالہ جات
1.
البیان: صفحہ 252، مطبوعہ 2000ئ
2.
البیان: صفحہ 6
3.
البیان: صفحہ 14
4.
البیان: صفحہ 11
5.
تفسیر الکشاف: جلد4 ؍صفحہ 293، مطبوعہ مصر
6.
الجامع لأحکام القرآن، جلد10؍ صفحہ 229
7.
تفسیر القرآن العظیم: جلد4؍ص561، مطبوعہ بیروت
8.
تفسیر کبیر: جلد32؍ص150، مطبوعہ تہران
9.
روح المعانی: ج16؍ص 458
10.
تفسیر مراغی: جلد30؍صفحہ 257
11.
تفسیر مراغي: جلد30؍ صفحہ 260
12.
جلالین: جلد 1؍ صفحہ825،مطبوعہ قاہرہ
13.
فتح القدیر: جلد 5؍ صفحہ 724
14.
ملاحظہ ہو : البرہان فی علوم القرآن، جلد اول؍ صفحہ 194
15.
تدبر قرآن: جلد9؍ صفحہ 615،616

About thefinalrevelation
Leave a reply