جاوید غامدی اور انکار حدیث کا جواب – حدیث اور سنت میں تفریق؟

جناب غامدی صاحب نت نئے طریقوں سے حدیث کی حجیت کا انکار کرتے ہیں :
کبھی وہ حدیث اور سنت میں تفریق پیدا کرتے ہیں ۔

کبھی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوۂ حسنہ اور حدیث دو الگ الگ اور مختلف چیزیں ہیں ۔کبھی فرماتے ہیں کہ حدیث سے دین کا کوئی عقیدہ، عمل اور حکم ثابت نہیں ہوتا۔کبھی ارشاد ہوتا ہے کہ سنت، خبر واحد (اخبارِ آحاد) سے ثابت نںین ہوسکتی اس کے لیے تواتر شرط ہے۔ اس طرح وہ مختلف حیلوں بہانوں سے حدیث کی اہمیت گھٹانے اور اسے دین اسلام سے خارج سمجھتے ہیں ۔
اس مضمون میں ہم اُن کے ایک اور نرالے اُصولِ حدیث کا علمی جائزہ لیں گے جس کو وہ فہم حدیث اور تدبر حدیث کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں مگر اس سے اُن کا اصل مقصد اور مدعا بھی انکارِ حدیث ہے۔ اُن کا وہ نرالا اصولِ حدیث یہ ہے کہ
حدیث کو قرآن کی روشنی میں سمجھا جائے۔
چنانچہ وہ اپنی ڈنڈی مار کتاب ‘میزان’ میں تحریر فرماتے ہیں کہ
دوسری چیز یہ ہے کہ حدیث کو قرآن کی روشنی میں سمجھا جائے۔ دین میں قرآن کا جو مقام ہے، وہ ہم اس سے پہلے بیان کرچکے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیثیت ِنبوت و رسالت میں جو کچھ کیا، اس کی تاریخ کا حتمی اور قطعی ماخذ بھی قرآن ہی ہے۔ لہٰذا حدیث کے بیشتر مضامین کا تعلق اس سے وہی ہے جو کسی چیز کی فرع کا اُس کی اصل سے اور شرح کامتن سے ہوتا ہے۔ اصل اور متن کو دیکھے بغیر اس کی شرح اور فرع کو سمجھنا، ظاہر ہے کہ کسی طرح ممکن نہیں ہوتا۔ حدیث کو سمجھنے میں جو غلطیاں اب تک ہوئی ہیں ، ان کا اگر دقت ِ نظر سے جائز لیا جائے تویہ حقیقت صاف واضح ہوجاتی ہے۔ عہد ِرسالت میں رجم کے واقعات،کعب بن اشرف کا قتل، عذاب ِ قبر اور شفاعت کی روایتیں ، (أمرت أن أقاتل الناس) اور (من بدَّل دینه فاقتلوہ) جیسے احکام اسی لیے اُلجھنوں کا باعث بن گئے کہ انہیں قرآن میں ان کی اصل سے متعلق کرکے سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ حدیث کے فہم میں اس اُصول کو ملحوظ رکھا جائے تو اس کی بیشتر اُلجھنیں بالکل صاف ہوجاتی ہیں ۔1

اس سے معلوم ہوا کہ غامدی صاحب کے نزدیک

  1. حدیث فہمی کے لیے ایک اُصول یہ ہے کہ حدیث کو قرآن کی روشنی میں سمجھا جائے، کیونکہ اُن کے نزدیک قرآن اور حدیث میں اصل اور اُس کی فرع کا تعلق ہے یا پھر متن اور اُس کی شرح کا۔
  2. نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیغمبرانہ حیثیت سے جو کام کیا، اُس کی تاریخ کا حتمی اور قطعی ماخذ قرآن ہے۔
  3. عہد ِ رسالت میں رجم کے واقعات،کعب بن اشرف کا قتل، عذابِ قبر اور شفاعت کی روایتیں ، (أمرت اَن اُقاتل الناس) اور(من بدَّل دینه فاقتلوہ) جیسے احکام علماے اسلام کے لیے اُلجھنوں کا باعث اس لیے بن گئے کہ اُنہوں نے فرع (حدیث) کو اصل (قرآن) سے متعلق کرکے سمجھنے کا ‘اُصولِ حدیث’ نہیں اپنایا تھا۔
  4. حدیث کو سمجھنے میں اب تک بہت غلطیاں ہوئی ہیں ۔


اب ہم ان چاروں نکات پر تفصیلی تبصرہ کریں گے:

کیا حدیث کو قرآن کی روشنی میں سمجھا جائے گا؟

فہم حدیث کے بارے میں غامدی صاحب کا یہ دعویٰ کہ حدیث کو قرآن کی روشنی میں سمجھا جائے گا، کیونکہ اُن کے نزدیک قرآن اور حدیث میں اصل اور اُس کی فرع کا تعلق ہے یا پھر متن اور اُس کی شرح کا… تو یہ ان کی اپنی ذہنی اختراع ہے جس کا مقصد انکار ِ حدیث کے سوا کچھ نہیں ۔ کیونکہ علماے اسلام کے ہاں یہ اُصولِ تفسیر تو مسلمہ ہے کہ قرآن کو حدیث کی روشنی میں سمجھنا چاہئے کہ اس سے قرآن کے مجمل احکام کی وضاحت ملتی ہے۔ مگر آج تک اہل علم میں سے کسی نے یہ دعویٰ کبھی نہیں کیا کہ حدیث کو قرآن کی روشنی میں سمجھنا بھی کوئی ‘اُصول حدیث’ ہے اور یہ کہ قرآن اور حدیث میں اصل اور اُس کی فرع کا تعلق متن اور اس کی شرح کا ہے ۔ مثال کے طور پر قرآن مجید میں نماز کا حکم اس طرح دیا گیا ہے کہ
وَأَقِيمُواٱلصَّلَو‌ٰةَ﴿٥٦…”اور نماز قائم کرو۔

قرآن کے اس مجمل حکم کو احادیث کی روشنی میں اس طرح سمجھا جائے گا کہ اس سے مراد دن رات میں پانچ مخصوص اوقات… فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء … کی فرض نمازیں مراد ہیں جن میں بالترتیب دو، چار، چار، تین اور چار فرض رکعات پڑھی جائیں گی اور ان نمازوں کے پڑھنے کا مسنون طریقہ ہے جو تکبیر تحریمہ سے لے کر قیام، رکوع، سجود اور قعدہ اخیرہ کے بعد دائیں بائیں سلام پھیرنے تک کا ہے۔ اس طرح حدیث کی روشنی میں قرآن کے مجمل حکم وأقیموا الصلٰوة(اور نماز قائم کرو) کا اصل منشا اور صحیح مدعا سمجھا جاسکتا ہے۔

اسی طرح زکوٰة کے بارے میں قرآن مجید میں حکم ہے کہ
وَءَاتُوا ٱلزَّكَو‌ٰةَ﴿٥٦…”اور زکوٰة ادا کرو۔

قرآنِ مجید کے اس مجمل حکم کو حدیث کی روشنی میں اس طرح سمجھا جائے گا کہ زکوٰة سے مراد وہ مخصوص مال ہے جسے ایک مسلمان شخص اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے مال میں سے مقررہ نصاب کے مطابق اس کے مستحق لوگوں کے لیے نکالتا ہے۔ یہ زکوٰة سونے اور چاندی (نقدی)، مالِ تجارت، زرعی پیداوار اور مویشی وغیرہ پر دی جاتی ہے۔ سونے کا نصاب ساڑھے سات تولے اور چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولے ہے۔ ان دونوں پر ڈھائی فیصد یعنی چالیسواں حصہ کے حساب سے سالانہ زکوٰة ادا ہوگی۔ نقدی اور مالِ تجارت کے لیے بھی یہی شرح ہے۔ زرعی پیداوار میں سے بعض عشر اور بعض پر نصف عشر ادا کیا جائے گا اور اس کے لیے سال گزرنے کی شرط نہیں ہے بلکہ یہ فصل کٹنے پر فرض ہوجاتاہے۔ مویشیوں میں سے اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری پر ان کی مختلف تعداد کے لحاظ سے نصاب کے مطابق سالانہ زکوٰة ہے۔ لہٰذا احادیث کی ان تفصیلات کی روشنی میں قرآن کے اس مجمل حکم واٰتوا الزکوٰة (اور زکوٰة ادا کرو) کو سمجھا جائے گا۔ اسی طرح قرآنِ مجید کے دوسرے احکامات کو احادیث کی روشنی میں سمجھنا چاہئے۔

لیکن اگر غامدی صاحب کے بنائے ہوئے اس اُصولِ حدیث کو صحیح مان لیا جائے تو اس کے نتیجے میں 90 فیصد احادیث ِصحیحہ کا انکا رکرنا پڑے گا، کیونکہ وہ قرآن کی روشنی میں سمجھی نہیں جاسکتیں اس لیے کہ وہ قرآن میں موجود ہی نہیں ہیں ۔

مثال کے طور پر درج ذیل صحیح احادیث ایسی ہیں جن کو قرآن میں تلاش نہیں کیا جاسکتا مگر یہ ایسی ہیں جن کو علماے اسلام چودہ سو برس سے مانتے آرہے ہیں اور اُمت ِ مسلمہ ان پر عمل پیرا رہی ہے :
1
۔ مردوں کے لیے ریشم اور سونے کاحرام ہونا۔
2
۔ پالتو گدھے کے گوشت کا حرام ہونا۔
3
۔ کُتے کا گوشت حرام ہونا۔
4
۔ مُرتد کے لیے قتل کی سزا ہونا۔
5
۔ شادی شدہ زانی کے لیے رجم (سنگساری) کی حد (سزا)
6
۔ شراب، مردہ جانور اور بتوں کی تجارت کا حرام ہونا۔
7
۔ عورت کے لیے خاص ایام میں نمازیں نہ پڑھنا اور بعد میں اُن کی قضا نہ کرنے کا حکم۔
8
۔ حیض کی حالت میں بیوی سے بوس و کنارکی اجازت ہونا۔
9
۔ شہید کی میت کو غسل نہ دینا اور اُس کو کفن نہ پہنانا۔
10
۔ قرآن پڑھنے کے دوران اُس کے بعض مقامات پر سجدۂ تلاوت کرنا۔
11
۔ سورۂ فاتحہ پڑھنے کے بعد آمین کہنا۔
12
۔ مردہ مچھلی کا حلال ہونا۔
13
۔ وضو کرتے وقت موزوں پرمسح کرنا۔
14
۔ کسی عورت اور اس کی پھوپھی یا خالہ کا بیک وقت کسی مرد کے نکاح میں ہونا حرام ہے۔
15
۔ قاتل شخص کا مقتول کی وراثت سے محروم ہونا۔
16
۔ وارث کے حق میں وصیت کا ناجائز ہونا۔
17
۔ ایک تہائی سے زیادہ وصیت کرنے کی ممانعت۔
18
۔ مسلمان اور کافر کا ایک دوسرے کے لیے وارث نہ ہونا۔
19
۔ شراب نوشی پر سزا ہونا۔
20
۔ مکہ مکرمہ کی طرح مدینہ منورہ کا حرم ہونا۔
21
۔ ذمّی (غیر مسلم اقلیت) کے حقوق
22
۔ مریض کی عیادت کرنا۔


یہ اور اس طرح کی بے شمار احادیث ہیں جن کو اُمت مانتی اور ان پر عمل کرتی ہے۔ حالانکہ ان کا ثبوت قرآنِ مجید سے نہیں ہوسکتا۔

اب اگر غامدی صاحب کے بنائے ہوئے ‘اُصولِ حدیث’ کو درست تسلیم کرلیا جائے تو ایسی بے شمار احادیث کا انکار کرنا پڑے گا، کیونکہ جب کوئی شخص ان احادیث کو قرآن میں نہیں پاسکے گا تو وہ لامحالہ ان کا انکار کرکے منکر ِحدیث ہوجائے گا یا پھر غامدی صاحب کے اس گھڑے ہوئے مذکورہ ‘اُصولِ حدیث’ ہی پر لعنت بھیجے گا کہ حدیث کو قرآن کی روشنی میں سمجھنا ضروری ہے۔

اسی طرح غامدی صاحب کا یہ دعویٰ کہ قرآن اور حدیث میں اصل اور اُس کی فرع کاتعلق یا متن اور اُس کی شرح کا ہے تو مذکورہ بالا احادیث کے احکام اگر فرع ہیں تو ان کی اصل کہاں ہے اور اگر وہ شرح ہیں تو اُن کا متن قرآنِ مجید میں کہاں موجود ہے؟ پھر اگر یہ دونوں چیزیں وہاں نہ مل سکیں اور یہ کبھی نہیں مل سکتیں تو کیا پھر یہ اعلان کردیا جائے کہ غامدی صاحب کے بتائے ہوئے اُصولِ حدیث کے مطابق ایسی تمام احادیث ناقابل اعتبار ہیں اور صحابہ کرامؓ سمیت پوری اُمت ِمسلمہ ان سب احادیث کو مان کر چودہ سو برس سے گمراہی میں بھٹک رہی ہے؟

کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغمبرانہ کام کی تاریخ کا حتمی اورقطعی ماخذ صرف قرآن ہے؟
غامدی صاحب کا یہ دعویٰ بھی صحیح نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغمبرانہ کام کی تاریخ کا حتمی اور قطعی ماخذ صرف قرآن ہے کیونکہ یہ حقیقت اہل علم سے ہرگز پوشیدہ نہیں ہے کہ قرآنِ مجیدبجائے خود کوئی تاریخ کی کتاب نہیں ہے بلکہ وہ بنیادی طور پر ہدایت کی کتاب ہے اور اس میں تاریخی واقعات و احوال ضمنی طور پر آئے ہیں جن کامقصد عبرت اور سبق آموزی ہے۔

یہ درست ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے کچھ پہلو اجمالی طور پر قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں ، لیکن یہ دعویٰ محل نظر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سارے پیغمبرانہ کام کی تاریخ کا حتمی اور قطعی ماخذ صرف قرآن ہے اور جو نبوی کام قرآن میں نظر نہ آئے تو اس سے انکار کردیا کہ یہ آپؐ کاپیغمبرانہ کام نہیں ہے۔اگر غامدی صاحب کے اس دعوے کو درست تسلیم کرلیا جائے تو اُمت ِمسلمہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے بہت سے واقعات کا انکار کرنا پڑے گااور احادیث ِصحیحہ کے بہت بڑے ذخیرے سے محروم ہونا پڑے گا۔

مثال کے طور پر درج ذیل پیغمبرانہ کاموں کی تاریخ قرآنِ مجید میں موجود نہیں ہے:
1
۔ قرآنِ مجید کی نزولی ترتیب کے بعد موجودہ تلاوت کی ترتیب قائم کرنا۔
2
۔ کاتبینِ وحی کے ذریعے قرآنِ مجید کی کتابت کرانا۔
3
۔ وضو میں پاؤں دھونے کی بجائے موزوں پر مسح کرنا۔
4
۔ فرض نمازوں سے پہلے اذان اور اُس کاطریقہ
5
۔ فرض نمازوں کی رکعات کا تعین
6
۔ سری اور جہری نمازوں میں فرق کرنا۔
7
۔ سجدئہ سہو اور اُس کا طریقہ
8
۔ حالت ِحیض میں بیوی سے بوس و کنار کی اجازت دینا۔
9
۔ حج کے لیے میقات (مواقیت) کی تعیین
10
۔ میت کی نماز جنازہ پڑھنے کا حکم
11
۔ دُعا کے وقت ہاتھ اُٹھانا
12
۔ درجنوں بادشاہوں اور حکمرانوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے خطوط بھیجنا اور اُن پر مہر ثبت کرنا
13
۔ صحابہ کرامؓ کو ہجرتِ حبشہ کی اجازت دینا
14
۔ نجاشی کا مسلمان ہونا اور اُس کی وفات پر آپؐ کا اُس کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھنا
15
۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا 27 غزوات میں شرکت فرمانا
16
۔ خطبۂ حجة الوداع


تو کیا ان جیسے بے شمار پیغمبرانہ اُمور کا صرف اس لیے انکار کردیا جائے گا کہ ان کی تاریخ کا حتمی اور قطعی ماخذ قرآن نہیں ہے اور یہ قرآن میں موجود نہیں ہیں ، اس لیے یہ سب غلط اور بے اصل ہیں ۔

کیا عہد ِرسالتؐ کے بعض احکام اُمت کے لیے اُلجھن کا باعث بن گئے؟
غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ عہد ِ رسالت میں رجم کے واقعات ، کعب بن اشرف کا قتل، عذاب ِ قبر، شفاعت کی روایتیں ،(أمرت أن أقاتل الناس)اور(من بدَّل دینه فاقتلوہ) جیسے احکام اُمت کے لیے اُلجھنیں بن گئیں ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ بالا تمام امور غامدی صاحب کی اپنی خانہ ساز عقل کے لیے تو اُلجھنیں ہوسکتی ہیں مگر یہ سب چیزیں اُمت ِمسلمہ اور علمائے اسلام کے دل و دماغ میں کبھی اُلجھنیں نہیں رہیں ، ہمیشہ بالکل واضح رہی ہیں ۔

اب ہم ان اُمور پر تفصیلی بحث کریں گے جن کو غامدی صاحب اُلجھنیں قراردیتے ہیں :
عہد ِ نبویؐ میں شادی شدہ زانیوں پررجم یعنی سنگساری کی حد جاری کی گئی اور غیر شادی شدہ زانیوں کوسو کوڑوں کی سزا دی گئی۔ بتائیے اس بارے میں کون سی اُلجھن ہے؟

یہودی سردار کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ صحیحین کے علاوہ ‘سیرت ابن ہشام’ میں بھی موجود ہے۔ اس شخص نے دوسری شرارتوں کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی تدبیریں اور سازشیں کی تھیں جس کے نتیجے میں ایک صحابی حضرت محمد بن مسلمہؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر اُسے قتل کردیا تھا۔ علامہ شبلی نعمانی نے بھی ‘سیرت النبیؐمیں لکھا ہے کہ

”فتنہ انگیزی کا زیادہ اندیشہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ ؓ سے شکایت کی اور آپؐ کی مرضی سے حضرت محمد بن مسلمہؓ نے یہ مشورہ رؤساے اوس جاکر اُس (کعب بن اشرف) کو ربیع الاوّل 3 ہجری میں قتل کردیا۔2

مؤرّخِ اسلام اکبر شاہ خاں نجیب آبادی نے لکھا ہے کہ
جب کعب بن اشرف کی شرارتیں حد سے بڑھ گئیں تو ایک صحابی محمد بن مسلمہ ؓ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شریر کے قتل کی اجازت لینے کے بعد کئی اوردوستوں کو ہمراہ لیا اور اس کے گھرجاکر اُس کو قتل کیا۔3
بتائیے اس واقعے میں کیا اُلجھن ہے!!

عذاب ِ قبر کے بارے میں صحیح اور مستند احادیث موجود ہیں ۔یہ اللہ کے مجرموں کے لیے دوزخ کے قید خانے کی اصل سزا سے پہلے اُن کو عالم برزخ کی حوالات میں رکھنے کی حالت ہے۔ بتائیے اس میں کیا اُلجھن ہے؟ جبکہ خود قرآنِ مجید میں بھی عذاب قبر کے بارے میں واضح اشارہ موجود ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ

ٱلنَّارُ‌ يُعْرَ‌ضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ ٱلسَّاعَةُ أَدْخِلُوٓا ءَالَ فِرْ‌عَوْنَ أَشَدَّ ٱلْعَذَابِ ﴿٤٦سورہ غافر
ان لوگوں کو(عالم بزرخ میں ) صبح و شام دوزخ کی آگ کے سامنے کھڑا کیا جاتاہے اور جس دن قیامت قائم ہوگی تو حکم ہوگا کہ ‘فرعون والوں ‘ کو سخت ترین عذاب میں ڈالا جائے۔

صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ آخرت میں مسلمان گناہگاروں کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت فرمائیں گے۔ قرآنِ مجید سے بھی اس شفاعت کے حق میں دلیل موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اِذن سے شفاعت ہوسکے گی جیساکہ آیت الکرسی میں ہے کہ

مَن ذَا ٱلَّذِى يَشْفَعُ عِندَهُۥٓ إِلَّا بِإِذْنِهِۦۚ﴿٢٥٥سورة البقرة
ایسا کون ہے جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر شفاعت کرے۔

اس میں الا باذنہ کا استثنا موجود ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے حکم سے اس کی جناب میں شفاعت ممکن ہے۔ اسی طرح ایک اور مقام پرارشاد ہوا ہے کہ:

مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِنۢ بَعْدِ إِذْنِهِۦۚ﴿٣سورہ یونس
اُس (اللہ) کی اجازت کے بغیر کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ۔

اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے شفاعت ہوسکتی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ ہی کی اجازت سے اپنی اُمت کے لیے شفاعت فرمائیں گے۔ بتائیے اس بارے میں کیا اُلجھن ہوسکتی ہے؟

حدیث (أمرت أن أقاتل الناس) ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں …” صحیحین میں موجود ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کے خلاف جہاد و قتال کاحکم دیا گیا ہے اور اسی کے مطابق آپؐ نے کفار کے خلاف عملی طور پر جہاد و قتال کیا ہے اور یہ قرآن مجید کابھی حکم ہے۔ بتائیے اس میں کیا اُلجھن ہے؟

صحیح حدیث (من بدَّل دینه فاقتلوہ) ”جوشخص اپنا دین بدل ڈالے تو اُسے قتل کردواور اسی مضمون کی چند اور صحیح احادیث میں بھی مرتد کی سزا کا قانون بیان ہوا ہے۔ اس قانون کو صحابہ کرامؓ نے بھی نافذ کیا ہے اور اس اُمت ِمسلمہ کا اجماع قطعی موجود ہے کہ اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے۔ بتائیے اس میں کیا اُلجھن ہے؟

بات دراصل یہ ہے کہ غامدی صاحب منکر ِحدیث ہیں اور وہ اُلجھنوں ‘ کے نام سے بھی صحیح احادیث کی غلط تاویلں کرتے اور اُن کا انکار کرتے ہیں اور یہ بھی اُن کا ایک ‘طریق واردات’ ہے۔ جو وہ اپنی میزان’ نامی کتاب کے ذریعے استعمال کرتے ہیں :

عدل کا جس کے بہت چرچا سنا تھا ہم نے
اُس کے انصاف کے بھی کتنے ترازو نکلے

کیا حدیث کو سمجھنے میں اب تک غلطیاں ہوئی ہیں ؟
غامدی صاحب کا یہ دعویٰ بھی محل نظر ہے کہ حدیث کو سمجھنے میں اب تک غلطیاں ہوئی ہیں ۔اس کا سبب ظاہر ہے کہ صحابہ کرامؓ، تابعین،تبع تابعین، خیرالقرون کے سلف صالحین اور ان کے بعد صدیوں تک اُمت ِمسلمہ کے محدثین، فقہا اور مجتہدین رحمہم اللہ بے چارے ساری عمر یہ حسرت اپنے دلوں میں لیے اسی انتظار میں دنیا سے رخصت ہوگئے کہ کب جاوید غامدی پنجاب کے خطے میں جنم لیں اور پھر ان سب کو حدیث پر غوروتدبر کرنے کے صحیح اُصول سکھائیں تاکہ حدیث کو سمجھنے میں کسی قسم کی غلطی کاکوئی امکان باقی نہ رہے۔

کیا کوئی معقول آدمی یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ پوری اُمت ِمسلمہ توآج تک حدیث کو سمجھنے میں غلطیاں کرتی چلی آرہی ہے اور وہ خود حدیث کو سمجھنے میں کوئی غلطی نہیں کرسکتا، کیونکہ اُس کی جیب میں ایسے اُصولِ حدیث رکھے ہیں جو آسمان سے نازل ہوئے ہیں اور خود اس پر ایسا الہام ہوتاہے جس میں کسی غلطی کاکوئی شائبہ تک نہیں ؟ اس طرح کا دعویٰ کرنا علمیت کی نہیں ، جہالت کی دلیل ہے۔

اگر اُمت ِمسلمہ چودہ صدیوں سے حدیث کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکی تو جناب غامدی صاحب کو کون سے سرخاب کے پَر لگے ہیں کہ وہ حدیث کو جو کچھ سمجھتے ہیں ، وہی حرف ِ آخر ہے۔ کیا وہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں ؟ یا اُنہیں اپنے بارے میں معصوم عن الخطا ہونے کا زعم ہے؟

ان کی حدیث فہمی کا حال جاننے کے لیے ایک مثال ہی کافی ہے:
صحیح احادیث کے مطابق شادی شدہ زانی کی سزا رجم یعنی سنگساری ہے اور اسی پر اجماعِ اُمت ہے۔مگر انہی احادیث کو جب غامدی صاحب اپنے خانہ ساز ‘حدیث کے اُصول’ کی روشنی میں سمجھتے ہیں تو ان سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اسلام میں رجم یعنی سنگساری کی حد کسی شادی شدہ شخص کے جرم زنا کی سزا نہیں ہے بلکہ یہ بدمعاشی کی سزا ہے۔ حالانکہ رجم سے متعلق (احادیث) صحیحہ سے ایسا نتیجہ نکالنا بجائے خود زیادتی سے کم نہیں ۔اسی طرح کا سلوک وہ دوسری تمام احادیث سے کرتے ہیں اور سب کو دین سے خارج سمجھتے ہیں اور اُن سے ثابت شدہ کسی عقیدے، عمل اور حکم کو ضروری اور واجب الاطاعت تسلیم نہیں کرتے۔ کیا یہ انکار ِ حدیث نہیں ہے؟


حوالہ جات
1.
میزان:ص72، طبع اپریل2002ء لاہور،اُصول و مبادی: ص72، طبع فروری 2005ء لاہور
2.
سیرت النبیؐ: جلد اوّل، ص233، طبع لاہور
3.
تاریخ اسلام از اکبر شاہ خاں : جلد اوّل؍ ص176، طبع لاہور

About thefinalrevelation
Leave a reply