غامدی صاحب نے سورة الفیل کی غلط تاویل کی

قرآن مجید کی سورة الفیل میں أصحاب الفیل(ہاتھی والوں ) کے جس واقعے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کی صحیح، متفقہ اور مجمع علیہ تفسیر میں بھی فکر فراہی کے حاملین نے اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔

اصل واقعہ جس پر سلف سے خلف تک، تمام مفسرین کرام کا اتفاق اور اجماع ہے، مختصر طور پر یہ ہے کہ یمن کا ایک متعصّب عیسائی حکمران اَبرہہ ساٹھ ہزار کا لشکر لے کر ہاتھیوں کے ہمراہ خانہ کعبہ پر حملہ آور ہوا تاکہ اسے مسمار کردے۔قریش ِمکہ اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے، اس لئے وہ اس موقع پر قریب کے پہاڑوں میں چلے گئے۔ جب وہ لشکر مزدلفہ اور منیٰ کے درمیان وادی مُحَسَّرمیں پہنچا تو اچانک ایک طرف سے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ نمودار ہوئے جنہوں نے اس لشکر پر سنگ ریزوں اور کنکروں کی بارش کردی۔ اس کے نتیجے میں ہاتھیوں سمیت پورا لشکر تباہ و برباد ہوگیا۔اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت ِکاملہ سے خانہ کعبہ کی حفاظت فرمائی اور ابرہہ کا منصوبہ ناکام بنا دیا گیا۔ یہ واقعہ اسی سال پیش آیا جس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی تھی۔

اصحاب ِ فیل کے واقعے کی اس تفسیر پر تمام مفسرین کرام کا چودہ سو برس سے اتفاق اور اجماع موجود ہے۔ اس کے برعکس فکرفراہی کے حامل جناب جاوید احمد غامدی صاحب سورۂ فیل کا درج ذیل ترجمہ اور تفسیر فرماتے ہیں :
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّ‌حْمَـٰنِ ٱلرَّ‌حِيمِ
أَلَمْ تَرَ‌ كَيْفَ فَعَلَ رَ‌بُّكَ بِأَصْحَـٰبِ ٱلْفِيلِ ﴿١﴾ أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِى تَضْلِيلٍ ﴿٢﴾ وَأَرْ‌سَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرً‌ا أَبَابِيلَ ﴿٣﴾ تَرْ‌مِيهِم بِحِجَارَ‌ةٍ مِّن سِجِّيلٍ ﴿٤﴾ فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّأْكُولٍ﴿٥سورۃ الفیل
اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے، جس کی شفقت ابدی ہے۔ ”تو نے دیکھا نہیں کہ تیرے پروردگار نے ہاتھی والوں سے کیا کیا؟ اُن کی چال کیا اُس نے اِکارت نہیں کردی؟ اور اُن پر جھنڈ کے جھنڈ پرندے مسلط نہیں کردیے؟ (اس طرح کہ) توپکی ہوئی مٹی کے پتھر اُنہیں مار رہا تھا اور اُس نے اُنہیں کھایا ہوا بھوسا بنا دیا۔1

اس ترجمے میں سب سے پہلے الرَّحِیْم کے ترجمے ”جس کی شفقت ابدی ہے”کی انفرادیت کی داد دیجئے اور اس کے بعد
{
تَرْ‌مِيهِم بِحِجَارَ‌ةٍ مِّن سِجِّيلٍ} کے ترجمہ: ”(اس طرح کہ) توپکی ہوئی مٹی کے پتھر اُنہیں ار رہا تھا۔” پر سر دُھنیے کہ آج تک ایسا ترجمہ کرنے کی توفیق صرف فکر فراہی کے حاملین کے سوا کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی۔

اب ذرا اُن تفسیری حواشی پر بھی نظر ڈالئے جو فکر ِفراہی کے علم بردار جناب جاوید احمد غامدی نے تحریر فرمائے ہیں ۔پہلی آیت کی وضاحت فرماتے ہوئے اُنہوں نے لکھا ہے کہ
اس واقعہ کی جو تفصیلات اس سورہ کی تفسیر میں ، امام حمیدالدین فراہی نے اپنی تحقیق کے مطابق بیان کی ہیں ، اُن کی رُو سے یمن کا نائب السلطنت ابرہہ جب نو ہاتھیوں اور ساٹھ ہزار کا لشکر لے کر بیت الحرام کو ڈھا دینے کی غرض سے مکہ پر حملہ آور ہوا، تو قریش کھلے میدان میں ،اُس کے مقابلے کی طاقت نہ پاکر منیٰ کے پہاڑوں میں چلے گئے، اور وہیں سے اُنہوں نے اس لشکر ِجرار پر سنگ باری کی۔ اُن کی یہ مدافعت، ظاہر ہے کہ انتہائی کمزور تھی، لیکن اللہ پروردگارِ عالم نے اپنی قوتِ قاہرہ اس میں شامل کردی اور اس کے نتیجے میں ہوا کے تندوتیز طوفان(حاصب)نے ابرہہ کی فوجوں کو اس طرح پامال کیا کہ وادئ محصب میں پرندے دنوں اُن کی نعشیں نوچتے رہے۔ اُس زمانے کے ایک شاعر ابوقیس نے کہا ہے:

فـأرسل من ربھم حاصـب
یلفھم مثل لـف القـزم


پھر اُن کے پروردگار کی طرف سے اُن پر حاصب بھیجی گئی جو خس و خاشاک کی طرح اُنہیں لپیٹتی چلی جاتی تھی۔

‘تو نے دیکھا نہیں ، میں واحد کے صیغے سے خطاب کا جو اُسلوب اس آیت میں ہے،یہ بالعموم اُس وقت اختیار کیا جاتا ہے، جب مخاطبین کے ایک ایک شخص کو فرداً فرداً متوجہ کرنا پیش نظر ہو۔2

اس کے بعد تیسری آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ
یہ ابرہہ کی فوجوں کی بے بسی سے کنایہ ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ساف وحاصب کے طوفان سے اُنہیں اس طرح پامال کیا کہ کوئی اُن کی لاشیں اُٹھانے والا بھی نہ رہا۔ وہ میدان میں پڑی تھیں اور گوشت خور پرندے اُنہیں نوچنے اور کھانے کے لئے، اُن پر جھپٹ رہے تھے۔3

پھر آگے چل کر آیت 4 کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
اصل میں تَرْمِیْھِمْ ہے۔ یہ اس سے پچھلی آیت میں عَلَیْھِمْ َکی ضمیر مجرور سے حال واقع ہوا ہے۔ ہوا کے تندوتیز تھپیڑوں کے ساتھ ابرہہ کے لشکر پر آسمان سے جو سنگ باری ہوئی، اس کے لئے اگر غور کیجئے تو یہ لفظ نہایت صحیح استعمال ہوا ہے۔ پرندوں کے پتھر پھینکنے کے لئے، جس طرح کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے، اسے کسی طرح موزوں قرار نہیں دیا جاسکتا۔4

”اصل میں کَعَصْفٍ مَّاْکُوْلٍ کے الفاظ آئے ہیں ۔ کسی چیز کا نام اُس کے انجام کے لحاظ سے رکھنا عربی زبان کا ایک معروف اُسلوب ہے۔ یہ اسی نوعیت کی ترکیب ہے اور آیت کا مدعا یہ ہے کہ تمہاری مدافعت اگرچہ ایسی کمزور تھی کہ تم پہاڑوں میں چھپے ہوئے اُنہیں کنکر پتھر مار رہے تھے، لیکن جب تم نے حوصلہ کیا اور جو کچھ تم کرسکتے تھے، کر ڈالا تو اللہ نے اپنی سنت کے مطابق تمہاری مدد کی اورساف وحاصب کا طوفان بھیج کر اپنی ایسی شان دکھائی کہ انہیں کھایا ہوا بھوسا بنا دیا۔5

غامدی صاحب نے سورة الفیل کی جو تفسیر فرمائی ہے وہ اس سے پہلے اُن کے استاذ امام مولانا امین احسن اصلاحی بھی اپنی تفسیر ‘تدبر قرآن’ میں فرما چکے ہیں ۔ اُنہوں نے بھی سورۂ الفیل کا درج ذیل ترجمہ کیاہے :
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے خداوند نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا۔ کیا ان کی چال بالکل برباد نہ کردی۔ اور اُن پر جھنڈ کی جھنڈ چڑیاں نہ بھیجیں ۔ تم ان کو مارتے تھے سنگ گل کے قسم کے پتھروں سے، بالآخر ان کو اللہ نے کھائے ہوئے بُھس کی طرح کردیا۔6

اس ترجمے کے بعد مولانا اصلاحی صاحب اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ
ہمارے مفسرین تو عام طور پر کہتے ہیں کہ قریش نے ابرہہ کا کوئی مقابلہ نہیں کیا بلکہ ان کے سردار عبدالمطلب قوم کو لے کر پہاڑوں میں جا چھپے اور خانہ کعبہ کو خدا کے سپرد کردیا کہ جس کا یہ گھر ہے وہ خود اس کی حفاظت کرے گا۔ ان کے نزدیک ترمی کا فاعل طَیْرًا أَبَابِیْلَ ہے۔ یعنی چڑیوں نے ابرہہ کی فوجوں پر سنگ باری کرکے اُن کو پامال کردیا۔ اگرچہ اس قول پر تمام مفسرین متفق ہیں لیکن گونا گوں وجوہ سے یہ بالکل غلط ہے۔7

دراصل سورةالفیل کا یہی ترجمہ وتفسیر مولانااصلاحی صاحب کے استاد مولانا حمید الدین فراہی کی تحقیق ِ انیق ہے۔ جو ‘مجموعہ تفاسیر فراہی’ میں موجود ہے۔ اس طرح گویا فکر فراہی کے حاملین کی یہ متفقہ تفسیر ہوگئی ہے۔

لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ مذکورہ تفسیر قرآن کے نظائر، اجماعِ اُمت اور تاریخ و کلامِ عرب کے خلاف ہے، اس لئے ناقابل قبول ہے۔ اب ہم اپنے نقطہ نظر کو تفصیل سے پیش کریں گے:

صحابہ کرامؓ کی تفسیر
سب سے پہلے ہم اس سورہ کی تفسیر میں صحابہ کرامؓ کے اقوال کو دیکھتے ہیں :
(1)
ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں صحیح بخاری کی اس حدیث )إن اﷲ حبس عن مکة الفیل( کی شرح میں حضرت ابن عباس ؓ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ
وأخرج ابن مردویہ بسند حسن عن عکرمة عن ابن عباس قال: جاء أصحاب الفیل حتی نزلوا الصفاح وهو بکسر المهملة ثم فاء ثم مهملة موضع خارج مکة من جهة طریق الیمن،فأتاهم عبد المطلب فقال: إن هذا بیت اﷲ لم یسلط علیہ أحدا،قالوا لا نرجع حتی نهدمه، فکانوا لا یقدمون فیلهم إلا تأخر، فدعا اﷲ الطیر الأبابیل فأعطاہا حجارة سوداء فلما حاذتهم رمتهم فما بقي منهم أحد إلا أخذته الحکة فکان لا یحُك أحد منهم جلدہ إلا تساقط لحمه 8
اور ابن مردویہ نے عکرمہ سے اور اُنہوں نے ابن عباسؓ سے حسن سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ ہاتھیوں والے آئے اور وہ صِفاحکے مقام پر پہنچ گئے جو مکہ سے باہر (مضافات میں ) یمن کے راستے پر ایک جگہ کا نام ہے۔عبد المطلب ان کے پاس گئے اور ان سے کہا: ”یہ اللہ کا گھر ہے جس پر وہ کسی اور کو مسلط نہیں ہونے دیتا۔” وہ بولے :” ہم اس کو گرائے بغیر واپس نہ جائیں گے۔” اُن کے ہاتھی آگے نہیں بڑھ رہے تھے۔ اس وقت اللہ نے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بلا لیے،ان کو سیاہ کنکر دے دیے۔ پھر جب وہ لشکر کے پاس پہنچے تو اُنہوں نے اُن پر کنکر برسائے (جس سے وہ سب مر گئے) اور جو کوئی بچ گیا تو اسے حُکَّہ(جلد کی بیماری) نے آ لیا جس سے اس کے جسم کا گوشت اس سے الگ ہو کر گر جاتا تھا۔

(2) امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر کبیر میں سورة الفیل کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت ابن عباسؓ کا یہ قول نقل کیا ہے:
روي عن عکرمة عن ابن عباس، قال: لما أرسل اﷲ الحجارةعلی أصحاب الفیل لم یقع حجر علی أحد منهم إلا نفط جلدہ وثار به الجُدري9
عکرمہ نے حضرت ابن عباسؓ سے روایت کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہاتھی والوں پرکنکر بھیجے تو ان میں سے جس کو وہ کنکر لگا، اس کی کھال گلنے لگی اور اس کو جُدري (جلد کی بیماری) نے آ لیا۔

اب ظاہر ہے قرآن کی جس تفسیر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مجمل طور پر بیان کر رہی ہو، اسی حدیث کی تشریح ایک جلیل القدر صحابی حضرت ابن عباس ؓ فرما رہے ہوں تو پھر اس تفسیر میں کیا شک باقی رہ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہاتھیوں کو مکہ پہنچنے سے روک دیا اور پرندوں کے کنکر پھینکنے کے ذریعے ان کو تباہ کر دیا تھا اور اس دعویٰ کا کیا جواز رہتا ہے کہ ہاتھیوں کا لشکر تو قریش کے پتھراؤ سے برباد ہوا اور پرندے صرف ان کی لاشوں کو کھانے کے لئے آئے تھے۔

قرآن کا اسلوب ِ بیان
سب سے پہلے اس سورہ میں قرآن مجید کے اسلوب ِ بیان پر غور کریں تو آغاز میں اَلَمْ تَرَ (کیا تو نے نہیں دیکھا) کے الفاظ آئے ہیں ۔ یہ اسلوبِ بیان قرآن میں عموماًغیر معین مخاطب کے لئے آتا ہے۔ جسے اصطلاح میں خطاب لغیر معین کہا جاتاہے اور یہ استفہامِ انکاری کے طور پر آتا ہے۔ اس اُسلوب میں کوئی خاص فرد یا گروہ مخاطب نہیں ہوتا بلکہ عام انسانوں سے خطاب کیا جاتاہے۔مثال کے طور پر قرآن میں ہے کہ
أَلَمْ تَرَ‌ كَيْفَ فَعَلَ رَ‌بُّكَ بِعَادٍ ﴿٦سورۃ الفجر
کیا تو نے دیکھا کہ تیرے رب نے قوم عاد سے کیا سلوک کیا ۔

ایک اور مثال یہ ہے کہ
أَلَمْ تَرَ‌ إِلَىٰ رَ‌بِّكَ كَيْفَ مَدَّ ٱلظِّلَّ﴿٤٥سورہ الفرقان
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے ربّ نے سائے کو کیسے پھیلایا ہے۔

اس طرح سورۂ فیل کے شروع میں بھی اَلَمْ تَرَ کا خطاب کسی خاص فرد یا گروہ کے لئے نہیں ہے۔ لہٰذا اس سے خاص قریش کو مخاطب ماننا ہر گز درست نہیں ہے۔

تفسیر القرآن بالقرآن
قرآن کی تفسیر کا سب سے عمدہ اُصول جسے سب مانتے ہیں ، یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر خود قرآن سے کی جائے۔ اس اُصول کے مطابق جب ہم سورۂ فیل پر غور کرتے ہیں تو اس کی کئی نظیریں موجود ہیں ۔
ا: پہلی نظیر یہ ہے:أَلَمْ تَرَ‌ كَيْفَ فَعَلَ رَ‌بُّكَ بِعَادٍ ﴿٦سورۃ الفجر
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے ربّ نے قوم عاد سے کیا سلوک کیا۔

یہ آیت اپنے انداز ِ بیان ہی سے واضح کررہی ہے کہ قومِ عاد کے لئے جس عذابِ الٰہی کی طرف اشارہ ہے، اس میں کسی انسانی کوشش اور کسب کا کوئی دخل نہیں ہے۔ قومِ عاد پر جو عذاب بھیجا گیا وہ کوئی انسانی فعل نہیں تھا بلکہ سراسر قدرتِ الٰہی کا کرشمہ تھا۔

{أَلَمْ تَرَ‌ كَيْفَ فَعَلَ رَ‌بُّكَ} ”کیا تو نے دیکھا کہ تیرے ربّ نے کیا کیا۔کے اُسلوب سے واضح ہے کہ اس کے ضمن میں واقع ہونے والے فعل کا فاعل صرف ربّ ہی ہے۔ بالکل اسی طر ح سورۂ فیل کے شروع میں بھی پہلی آیت یوں ہے کہ

أَلَمْ تَرَ‌ كَيْفَ فَعَلَ رَ‌بُّكَ بِأَصْحَـٰبِ ٱلْفِيلِ ﴿١سورۃ الفیل
کیا تو نے دیکھا کہ تیرے ربّ نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔

اس آیت ِزیر بحث کا اُسلوب ِبیان بھی اس امر کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ آگے جو فعل بیان ہوگا اس کا فاعل صرف ربّ ہے، بندوں کے فعل کا اس میں کوئی دخل نہیں ۔ لہٰذا اصحابِ فیل کے واقعے کی تفسیر میں ابرہہ کے لشکر کو تباہ کرنے میں بندوں کا خواہ وہ قریش ہوں یا کوئی اور، قطعاً کوئی دخل نہیں ہوسکتا۔ قریش کے کسی فعل کو بیان کرنے کے لئے یہ اُسلوب بالکل مناسب نہیں ہے۔

ب ۔ دوسری نظیر یہ ہے:أَلَمْ تَرَ إِلَى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ..﴿٤٥سورہ الفرقان
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے ربّ نے سائے کو کیسے پھیلایا ہے۔

ظاہر ہے اشیا کا سایہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے گھٹتا بڑھتا ہے اور سورج کی روشنی کے مختلف زاویوں سے بدلتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس قدرت میں انسانی فعل اور کوشش کا کوئی دخل نہیں ۔ یہاں بھی اُسلوب ِ بیان وہی ہے جو سورۂ فیل کے شروع میں بیان ہوا ہے۔

ج۔ تیسری نظیر یہ ہے:{اَوَلَمْ یَرَوْا کَیْفَ یُبْدِیُٔ اﷲُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ}
کیا اُنہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ کس طرح پہلی بار پیدا کرتا ہے اور پھر دوبارہ پیدا کرے گا۔” (العنکبوت :19)

یہ حقیقت ہے کہ اشیا کو پہلی بار پیدا کرنا اور دوبارہ پیدا کرنا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت و صنعت ہے، اس میں انسانی محنت اور کوشش کا کوئی دخل نہیں ۔

اس آیت کا اندازِ بیان بھی سورۂ فیل کی مذکورہ آیت جیسا ہے لہٰذا اصحاب ِ فیل کی تباہی وبربادی میں بھی قریش یا دوسرے انسانوں کی کسی کوشش کا کوئی دخل نہیں ہوسکتا۔

د۔ چوتھی نظیر یہ ہے:{اَلَمْ تَرَوْا كَيفَ خَلَقَ اﷲُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا} (نوح :15)
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کس طرح اُوپر تلے سات آسمان پیدا کئے ہیں ۔

اب ظاہر ہے کہ جس طرح سات آسمانوں کو ایک دوسرے کے اُوپر تلے پیدا کرنے میں کسی انسان کے کسب و فعل کو دخل نہیں ،اسی طرح سورۂ فیل میں بھی اس کے آغاز کے اُسلوب بیان میں اصحاب ِ فیل کی تباہی و بربادی میں قریش کا کوئی دخل نہیں ہوسکتا۔

اَرْسَلَ عَلَیْھِمْ کے معنی
قرآن میں جہاں کہیں کسی قوم کی ہلاکت و بربادی کے سلسلے میں اَرْسَلَ عَلَیْھِمْ کے الفاظ آئے ہیں ، وہاں اس کے بعد آنے والا اسم اس قوم کی ہلاکت و بربادی کی شکل کے طورپر آیاہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی کو عذاب کی صورت قرار دیا ہے۔ قرآن میں اس کی کئی مثالیں ہیں :
أ۔ پہلی مثال:{وَفِي عَادٍ إذْ اَرْسَلْنَا عَلَيهِمُ الرِّيحَ الْعَقِيم} (الذاریات:41)
اور عاد کے بارے میں ، جب ہم نے اُن پر منحوس آندھی چلا دی۔

اس مقام پر جس طرح اَرْسَلْنَا عَلَیْھِمُ کے بعد جو الرِّیْحَ الْعَقِیْم (منحوس آندھی) ہے، وہ قومِ عاد پر عذاب کی شکل ہے جس سے ان کی ہلاکت و بربادی ہوئی۔ بالکل اسی طرح {وَاَرْسَلَ عَلَيهِمْ طَيرًا اَبَابِيلَ}(اور ہم نے ان پرپرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ مسلط کردیے) میں بھی َارْسَلَ عَلَیْھِمْ کے بعد جو طَیْرًا اَبَابِیْلَ (جھنڈ کے جھنڈ پرندے) آیا ہے تو یہی عذابِ الٰہی کی وہ صورت ہے جس کے ذریعے اصحابِ فیل کی تباہی و بربادی ہوئی۔ اس کے باہر عذاب کا کوئی اور سبب تلاش کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

ب۔ دوسری مثال یہ ہے:{ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ سَیْلَ الْعَرِمِ }(سبا:16)
پھر ہم نے اُن پر بند کا سیلاب مسلط کردیا۔

اس مقام پر بھی قومِ سبا جس ذریعے اور سبب سے ہلاک ہوئی وہ سَیْلَ الْعَرِم ہے جو اَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ کے فوراً بعد آیا ہے۔بالکل یہی انداز سورۂ فیل کا بھی ہے۔

ج۔تیسری مثال یہ ہے:{لِنُرْ‌سِلَ عَلَيْهِمْ حِجَارَ‌ةً مِّن طِينٍ ﴿٣٣سورة الذاريات}
تاکہ ہم اُن پر کھنگر کے پتھر برسائیں ۔

اس جگہ پر قومِ لوطؑ کی تباہی کا ذکر کرتے ہوئےلِنُرْ‌سِلَ عَلَيْهِمْ (تاکہ ہم اُن پر مسلط کردیں ) کے بعد حِجَارَ‌ةً مِّن طِينٍ (کھنگر کے پتھر) آیا ہے جو کہ قوم لوط کی ہلاکت و بربادی کی شکل ہے۔ بالکل یہی معاملہ سورۂ فیل میں بھی ہے۔ وہاں بھی وَأَرْ‌سَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرً‌ا أَبَابِيلَ میںطَيْرً‌ا أَبَابِيلَ ہی اصحابِ فیل کی تباہی کی صورت اور ذریعہ بنے ہیں نہ کہ قریش کا پتھراؤ یا کچھ اور۔

تَرْمِیْھِمْ کا مفہوم
غامدی صاحب بھی فکر فراہی کے دوسرے حاملین کی طرح تَرْمِیْھِمْ میں فعل کا فاعل قریش کو قرار دیتے ہیں ۔ حالانکہ اُن کا سرے سے اس سورت میں کہیں ذکر نہیں ( البتہ آگے کی سورۂ قریش، بعد میں موجود ہے) اور یہ ان لوگوں کی ذہنی اختراع اور اُپچ کے سواکچھ نہیں ۔

ہم اس سے پہلے واضح کرچکے ہیں کہ اَلَمْ تَرَ کا خطاب عام اور غیر معین ہوتا ہے۔ اس سے کوئی خاص گروہ مراد لینا قرآنی اُسلوب کے خلاف ہے۔ اس لئے یہاں قریش مخاطب نہیں ہوسکتے۔ بلکہ ان کو یہاں مخاطب سمجھنا قرآنِ مجید کی معنوی تحریف کے زمرے میں آتا ہے۔ سیدھی بات یہ ہے کہ تَرْمِیْھِمْ میں فاعل کی ضمیر اپنے قریبی مرجع طَیْرًا اَبَابِیْلَ کی طرف لوٹتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ پرندوں کے جھنڈ ہی تھے جو ہاتھی والوں پر کنکریاں پھینکتے تھے اور جس کے نتیجے میں اصحابِ فیل تباہ ہوئے۔

اس مقام پر ان لوگوں نے ایک اور لغوی نکتہ نکالنے کی کوشش کی ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ عربی زبان میں رمي کا فعل کسی چیز کو صرف بازو یا فلاخن(i)کے ذریعے پھینکنے کے معنوں میں آتا ہے اور یہ لفظ اُوپر سے کسی چیز کو گرانے کے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔ لیکن ان لوگوں کا یہ دعویٰ بھی غلط ہے۔حقیقت یہ ہے کہ عربیت میں رمي کا لفظ کئی معنوں میں آتا ہے۔ اس کے معنی کسی چیز کو ہاتھ یا فلاخن سے پھینکنے کے بھی ہیں اور بلندی سے نشانہ باندھ کر کوئی چیز نیچے گرانے کے معنی بھی ہیں ۔ اصل میں اس لفظ کے مفہوم میں بلندی یا پستی کا کوئی مفہوم شامل نہیں بلکہ اس لفظ کا بنیادی مفہوم کسی چیزکا نشانہ لے کر اس پر کوئی شے پھینکنا ہے۔ اہل عرب آج کل لڑاکا اور بمبار طیاروں کی گولہ باری اور بمباری کے لئے بھی یہی رمي کالفظ استعمال کرتے ہیں ۔ قرآن میں رمي کے مجازی معنی کسی پر تہمت لگانے، الزام تراشی کرنے اور بہتان طرازی کرنے کے بھی آئے ہیں جیساکہ سورۂ نور میں ہے کہ {وَٱلَّذِينَ يَرْ‌مُونَ ٱلْمُحْصَنَـٰتِ﴿٤سورۃ النور} ”اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر (زنا کی)تہمت لگاتے ہیں ۔”(آیت4)

لہٰذا رمي کے لفظ کو صرف بازو اور فلاخن کے ذریعے کسی چیز کے پھینکنے کے معنوں میں محدود اور منحصر سمجھنا عربیت کے خلاف ہے۔

بِحِجَارَة مِّنْ سِجِّیْلٍ کے معنی
تفسیر کا یہی طریقہ سب سے عمدہ اور مستند ہے کہ پہلے قرآن کی تفسیر خود قرآن سے کی جائے۔ اس لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجیدبِحِجَارَ‌ةٍ مِّن سِجِّيلٍ کے الفاظ اسی انداز میں صرف دوبار آئے ہیں اور دونوں مقامات پر ان سے مراد عذابِ الٰہی کے پتھر’ ہیں نہ کہ انسانوں (یا قریش) کے پھینکے ہوئے پتھر۔

پہلی جگہ یہ الفاظ سورۂ ہود کی آیت 82 میں اس طرح آئے ہیں کہ
{
فَلَمَّا جَآءَ أَمْرُ‌نَا جَعَلْنَا عَـٰلِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْ‌نَا عَلَيْهَا حِجَارَ‌ةً مِّن سِجِّيلٍ مَّنضُودٍ ﴿٨٢سورۃ ھود}”پھر جب ہمارا حکم آن پہنچا تو ہم نے اس (بستی)کی بلندی کو پستی بنا دیا اور ہم نے وہاں کھنگر کے پتھر برسا دے۔
یہ قومِ لوط پر عذابِ الٰہی کی کیفیت کا بیان ہے۔ اس میں حِجَارَة مِّنْ سِجِّیْلٍکے الفاظ واضح طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے عذاب کے پتھروں کے لئے آئے ہیں ۔ ان سے انسانوں کے پھینکے ہوئے پتھر یہاں کسی صورت مراد نہیں لئے جاسکتے۔

دوسرے مقام پر یہی الفاظ سورةالحجر کی آیت 74 میں آئے ہیں :
جَعَلْنَا عَـٰلِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْ‌نَا عَلَيْهَا حِجَارَ‌ةً مِّن سِجِّيلٍ﴿٨٢سورۃ ھود
پھر ہم نے اُس (بستی) کو زیر و زبر کردیا اور اُن لوگوں پر کھنگر کے پتھر برسا دیے۔

اس جگہ بھی {حِجَارَ‌ةً مِّن سِجِّيلٍ}کے الفاظ انسانوں کے پھینکے ہوئے پتھروں کے مفہوم میں نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کی صورت میں برسائے گئے اُن پتھروں کے لئے استعمال ہوئے ہیں جن کے ذریعے قومِ لوط کو تباہ و برباد کردیا گیا تھا۔ بالکل یہی الفاظ {بِحِجَارَ‌ةٍ مِّن سِجِّيلٍ} جب سورة الفیل میں بھی آئے ہیں تو ہم کیوں نہ ان سے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابرہہ کے لشکر پر عذاب کی صورت میں برسائے گئے پتھر مراد لیں جو اُن پرندوں کے ذریعے پھینکے گئے جن کو اللہ تعالیٰ نے اس لشکر پرمسلط کردیا تھا۔ جب یہاں قرآن کی تفسیر قرآن سے ہوسکتی ہے تو کیوں ان الفاظ کی دور از کار تاویلیں کرنی شروع کردیں ۔

حَاصِب یعنی سخت آندھی
غامدی صاحب اپنے ‘اساتذہ ائمہ’ کی ہم نوائی میں یہ کہتے ہیں کہ اصحابِ فیل کا لشکر تباہ کرنے میں دو عناصر کارفرما تھے: ایک قریش کی طرف سے پتھر پھینکنا اور دوسرے بعد میں اچانک سخت آندھی (حاصب) آجانا،مگر یہ تاویل کئی لحاظ سے صحیح نہیں ہے۔

أ۔ اوّل یہ کہ اس آندھی (حاصب) کے آنے کا کوئی ذکر سورۂ فیل میں نہیں آیا ہے صرف پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیجے جانے کا ذکر آیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان میں سے کون سی تاویل اختیار کی جائے: وہ جسے قرآن بیان کرتا ہے یا وہ جسے قرآن بیان نہیں کرتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اصحابِ فیل کی تباہی میں آندھی (حاصب) ہی کا عنصر شامل کرنا ایک غلط تاویل ہے اور یہ ایک من گھڑت افسانے سے زیادہ نہیں ۔
ب۔ منیٰ کی پہاڑیوں سے قریش کا وادی مُحسّرمیں پتھر پھینک لینا یوں بھی ممکن نہیں ، جو لوگ حج کی سعادت حاصل کر چکے ہیں ، وہ ان دونوں وادیوں کی وسعت سے بخوبی واقف ہیں ۔
ج۔تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ سے اگر یہ ممکن ہے کہ وہ بے جان ہوا میں اتنی طاقت پیداکرسکتا ہے جس کے ذریعے کوئی لشکر تباہ ہوجائے تو کیا اللہ تعالیٰ سے یہ ناممکن ہے کہ وہ جاندار پرندوں کے پھینکے ہوئے سنگریزوں کے ذریعے کسی لشکر کو برباد نہ کرسکے۔ کیا یہ بات آج ایٹمی دور کے انسان کی عقل سے بالاتر ہے کہ اللہ تعالیٰ بلندی سے پتھروں کو گرا کر اُن سے چھوٹے چھوٹے ایٹم بموں کا کام نہیں لے سکتا۔ افسوس ایسی انسانی عقل پر جو ایک جگہ معجزے کا انکار کردیتی ہو اور دوسری جگہ معجزے کا اقرار کرلیتی ہو۔

نصرتِ الٰہی کا قانون
فکرِ فراہی کے حاملین سورة الفیل کی نادر تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اصحاب فیل کے واقعے کو بھی اللہ تعالیٰ کی اس سنت کی روشنی میں سمجھنا چاہئے کہ افراد کی جدوجہد ہوگی تو اللہ تعالیٰ اُن کی مدد کرے گا۔ اگر بندے کوئی کوشش نہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ بھی اُن کی کوئی مدد نہیں کرے گا۔

اللہ تعالیٰ کی یہ سنت نصرت و تائید بندوں کی کوشش کے ساتھ ہر حال میں مشروط نہیں ہے۔ قرآنِ مجید میں ایسے بکثرت واقعات موجود ہیں اور تاریخ اسلام بھی اس پر شاہد ہے کہ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ یہ دیکھتا ہے کہ اس کے کمزور اور عاجز بندے کسی بوجھ اور ذمہ داری کواُٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے تو وہ اپنے خاص فضل و کرم سے بندوں کو اُن کی سعی وکوشش کے بغیر ہی اپنی تائید و نصرت سے نوازتا ہے۔

مثال کے طور پر جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو آگ کے الاؤ میں ڈالا گیا تھا تو اُس وقت اُن کی کون سی سعی و کوشش تھی جس کے نتیجے میں وہ آتش ِ نمرود سے محفوظ رہے؟ حضرت خلیل اللہ کی وہ کون سی جدوجہد تھی جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس آتش کدے کو سرد کردیا تھا۔ یا جب حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے تو ان کی وہ کون سی کوشش اور عملی جدوجہد تھی جس کے نتیجے میں ان کو وہاں سے نجا ت ملی؟ اگر یہ کہا جائے کہ اُنہوں نے اس مصیبت کے وقت دعا اور تسبیح کی تھی تو یہی دعا واقعہ اصحابِ فیل میں بھی موجود ہے۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ عبدالمطلب اور دوسرے سردارانِ قریش نے خانہ کعبہ کے دروازے پر اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ وہ اُن کو ابرہہ کے لشکر کے خطرے سے بچائے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی اور قریش کو اس آفت سے نجات دلائی۔

یا پھر جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت فرماتے وقت اپنے گھر سے نکل رہے تھے اور اس گھر کامحاصرہ شمشیر بردار جوانوں نے کررکھا تھا تو اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تحفظ کے لئے کون سی عملی کوشش فرمائی تھی جس کے نتیجے میں آپؐ دشمن کی آنکھوں میں دھول جھونک کر گھر سے بحفاظت نکل گئے تھے۔

اور یہ تو انفرادی واقعات کی مثالیں تھیں ۔ اجتماعی صورت میں بھی اللہ تعالیٰ کی نصرت کا قانون صرف وہ نہیں جو غامدی صاحب جیسے لوگوں نے سمجھ رکھا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھ بنی اسرائیل مصر سے نکل کر فلسطین جارہے تھے اور ان کے آگے بحیرۂ قلزم کی موجیں اور پیچھے فرعون کی فوجیں تھیں تو اس وقت وہ کون سی عملی جدوجہد تھی جس کے نتیجے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ کے ساتھی سمندر کو بحفاظت پار کرگئے اور فرعون اپنے لشکروں سمیت غرق ہوگیاتھا؟

غامدی صاحب قسم کے لوگ اس واقعے کی جھٹ سے تاویل کردیتے ہیں کہ اُس وقت بحرقلزم کے مدوجزر کی وجہ سے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل تو بسلامت پار اُترگئے لیکن اندھے فرعون اور اس کے لشکروں کو سمندر کی اس صورت حال کا علم نہیں ہوسکا اور وہ مدوجزر کی زد میں آکر غرق ہوگئے تھے۔ مگر یہ تاویل قرآن کے صریح الفاظ اور نصوص کے اس قدر خلاف ہے اور عقلی اعتبار سے اتنی بھونڈی ہے کہ اس کی تردید کی ضرورت نہیں ۔

تاریخ و کلام عرب کی شہادت
خود تاریخ و کلام عرب کی شہادت بھی سورۂ فیل کی متفقہ اور مجموع علیہ تفسیر کی تائید کرتی ہے کہ پرندوں کی سنگ باری ہی سے ابرہہ کا لشکر تباہ ہوا تھا۔
نفیل بن حبیب، جو کہ قبیلہ خثعم سے تعلق رکھتا تھا اور جس نے ایک موقع پر ابرہہ کے لشکر کی رہنمائی بھی کی تھی، اُس موقع پر کہتا ہے کہ

حَمِدْتُّ اﷲَ اِذْ اَبْصَرْتُ طَیْرًا
وَخِفْتُ حِجَارَةتُلْقَي عَلَیْنَا


جب میں نے پرندوں کو دیکھا تو اللہ کی تعریف کی اور ان پتھروں سے ڈرا جو ہم پر پھینکے جارہے تھے۔” (محمود شکری آلوسی، بلوغ الارب،1؍ 545 مترجم ڈاکٹر پیر محمد حسن،لاہور ، 1967ء)

اسی طرح عبداللہ بن قیس جو کہ قبیلہ بنی عامر بن لؤی بن غالب سے تھا، اُس نے اس واقعے کے بارے میں یہ اشعار کہے تھے :

کَادَہُ الأَشْرَمُ الَّــذِيْ جَــآئَ
بِالْفِیْلِ فَوَلّٰی وَ جَیْشُہٗ مَھْزُوْمٌ
وَاسْتَھَلَّتْ عَلَیْھِمُ الــطَّیْرُ
بِالْجَـنْدَلِ حَتّٰی کَأَنَّہٗ مَرْجُوْمٌ


”(
ابرہہ) اشرم نے جو ہاتھی لے کر آیا تھا اس کعبے کے خلاف چال چلی مگر اس کی فوج کو شکست ہوگئی اور وہ پیٹھ دکھا کر لوٹ گیا۔ پرندوں نے اُن پر پتھروں سے ہلّہ بول دیا اور ا س کی حالت یہ ہوگئی کہ گویا اسے سنگسار کردیا گیا ہے۔10

0اجماعِ سنت کے خلاف
غامدی صاحب جیسے تاویل بازوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ قرآن و سنت کے جن تفسیری اُمور پر اجماعِ اُمت ہے، اُس کے خلاف کوئی تاویل جائز نہیں ۔ایسی ہر تاویل گمراہ اور ضلالت کے سواکچھ نہیں ۔ سورۂ فیل کی متفقہ اور مجمع علیہ تفسیر وہی ہے جو ہم اس مضمون کے آغاز میں بیان کرچکے ہیں ، اس کے ہوتے ہوئے محض اختلاف کے شوق میں نئی تفسیر کرنا ہرگز درست نہیں ۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ چودہ برس سے پوری اُمت ِمسلمہ تو قرآنِ مجید کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکی اور صرف آج کل کے نام نہاد دانشور اُسے سمجھتے ہیں ۔کیا عقل سلیم یہ مان سکتی ہے کہ سلف و خلف کے علماے اسلام تو کتابِ مبین کی صحیح تفسیر نہیں کرسکتے اور آج کے وہ لوگ جن کا سرمایۂ افتخار ہی مغرب زدگی اور روشن خیالی کا احساس ہے۔ جن کے اذہان مغرب سے مرعوب ہوکر اصول دین کو بگاڑنے میں سرگرم عمل ہیں ۔ جو ‘سبیل المومنین’کی شاہراہ کو چھوڑ کر اِدھر اُدھر کی پگڈنڈیوں میں بھٹک رہے ہیں ۔ جن کے جنونِ اختلاف نے ان کو گمراہی کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے؛کتاب اللہ کی پہلی بار درست تفسیر فرما رہے ہیں ؟

دراصل سورۂ فیل کا مرکزی مضمون اور موضوع قریش کو ہیرو بناکر پیش کرنا اور اللہ تعالیٰ کو اُن کا محض معاون و مددگار ثابت کرنا نہیں ہے بلکہ اس سورہ کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے نوعِ انسانی کے سامنے یہ حقیقت کھول کر بیان کی ہے کہ فی الواقع وہی قادرِ مطلق ہے۔ وہ اپنی قدرت ِکاملہ سے جو چاہے کرسکتا ہے۔ سب کے سامنے اصحاب ِ فیل کا واقعہ ہوا تھا اور یہ صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت ِ قاہرہ تھی جس نے خانہ کعبہ کی حفاظت فرمائی کیونکہ قریش کے لئے بیت اللہ کا دفاع کرنا ممکن نہ تھا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک کمزور اور حقیر مخلوق پرندوں کے ذریعے ایک بڑے طاقتور دشمن کونیست و نابود کردیا اور قریش کو بھی ہلاکت و بربادی سے بچا لیا۔ شرک کے پجاری اور اُن کے جھوٹے معبود سب بے بس تھے مگر اس موقع پر صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت ِ کاملہ تھی جس نے اپنے گھر کو اور اہل مکہ کو ایک عظیم خطرے اور آفت سے محفوظ رکھا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ ہی قادر ِ مطلق اور معبودِ حقیقی ہے۔ اس کاکوئی شریک نہیں اور بندوں کو صرف اُسی کی عبادت کرنی چاہئے۔


حوالہ جات
1.
البیان، ص239 مطبوعہ جنوری 2000ء
2.
البیان، صفحہ 239
3.
البیان، صفحہ 240
4.
البیان، صفحہ 240
5.
البیان، صفحہ 241
6.
تدبر قرآن جلد 9؍ صفحہ 557
7.
تدبر قرآن، جلد9، صفحہ 561
8.
ج15؍ص 255،مطبوعہ بیروت
9.
ج 32،ص100،مطبوعہ تہران
10.
بلوغ الارب، جلد اوّل؍ صفحہ 552


i.بازو سے گھما کر کسی چیز کو غلیل کی طرح دور تک پھینکنے والا آلہ

About thefinalrevelation
Leave a reply