غامدی صاحب کے پیدا کردہ ایک شبہ کا جواب

By Jani Awan in Munkir e Hadees exposed

السلام علیکم

جاوید احمد غامدی صاحب نے حال ہی میں ایک پروگرام میں جب ان سے حدیث کے “ظنی” ہونے کا سوال پوچھا گیا تو جناب نے یہ جواب دیا کہ حدیث کے ظنی ہونے مطلب یہ ہے کہ نبیﷺ سے منسوب روایت مختلف راویوں سے ہوتے ہوئے جب ہم تک پہنچتی ہے تو ہم یقین سے نہیں کہ سکتے کہ یہ بعین ہی نبیﷺ کے الفاظ ہیں۔اسی لئے ہم روایت کے آخر میں اؤ کما قال(یا جیسے نبیﷺ نے فرمایا) کہتے ہیں تاکہ کوئی غلط بات نبیﷺ سے منسوب نہ ہو جائے۔

سوال یہ ہے کہ غامدی صاحب کی بات کس حد تک درست ہے اور کیا کسی حدیث کےراوی سے بھی اؤ کما قال کہنا ثابت ہے؟ یا یہ صرف بعد والے لوگ ہی کہتے ہیں؟

جواب۔

1۔ محترم بھائی ! راویان حدیث‌ ہر دور میں حدیث نبوی کی حفاظت کی خاطر اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط بات کی نسبت ہو جانے سے بچنے کے لیے بہت سخت احتیاط سے کام لیتے رہے ہیں۔ اسی احتیاط کا ایک پہلو ”او کما قال” کے الفاظ بھی ہیں۔ مگر ان الفاظ سے حدیث نبوی کا اس معنی میں ظنی ہونا ثابت نہیں ہوتا کہ اس کی صحت میں کوئی شک و شبہ پیدا ہو گیا ہے۔ ان الفاظ کا زیادہ سے زیادہ تقاضا یہ ہے کہ راوی کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا مفہوم تو یاد ہے لیکن بعینہ وہی الفاظ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے تھے ، ان کے بارے میں اسے یقین نہیں رہا۔ کسی کی بات کو آگے منتقل کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ انہی الفاظ کو آگے منتقل کیا جائے جو کہنے والے نے استعمال کیے تھے، دوسرا یہ کہ اس کی بات کا مفہوم اور الفاظ میں بیان کر دیا جائے۔ مثلا :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص میری طرف جان بوجھ کر جھوٹ منسوب کرے ، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم سمجھے ۔

اس حدیث کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے:
سنن الترمذي ت شاكر (5/ 35)
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَكْذِبُوا عَلَيَّ فَإِنَّهُ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ يَلِجُ فِي النَّارِ»
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یوں‌ بیان فرمایا :
سنن الترمذي ت شاكر (5/ 35)

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اس طرح بیان کیا :
سنن الترمذي ت شاكر (5/ 36)

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ – حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ – مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ بَيْتَهُ مِنَ النَّارِ»
سیدنا سلمہ بن اکواع رضی اللہ عنہ کا بیان یوں ہے :
صحيح البخاري (1/ 33)

قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ يَقُلْ عَلَيَّ مَا لَمْ أَقُلْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ»

غور فرمائیں‌ کہ ایک ہی بات مختلف صحابہ کرام نے مختلف الفاظ میں بیان فرمائی ہے۔

یہی حدیث اور بھی الفاظ سے مروی ہے لیکن ان سب الفاظ کا مفہوم بالکل ایک ہی ہے۔

اسے اصول حدیث کی اصطلاح میں ”روایت بالمعنی” کہتے ہیں اور جب تک مفہوم تبدیل نہ ہو ، روایت بالمعنی جائز ہوتی ہے۔ محدثین کرام نے روایت بالمعنی کو بھی اس شرط کے ساتھ جائز قرار دیا ہے کہ ایسا کرنے والا عربی زبان پر پورا عبور رکھتا ہو تاکہ اسے اپنے الفاظ میں بیان کرتے وقت غلطی نہ لگ جائے۔

2۔ ثقہ راویان حدیث ہر دور میں حدیث‌ نبوی میں پوری احتیاط سے کام لیتے رہے ہیں۔ صحابہ کرام سے لے کر آج تک احتیاط کے اس پہلو کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا گیا۔ جب بھی کسی کو حدیث کے اصل الفاظ میں شبہ ہوا یا کوئی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط بات کے منسوب ہونے سے زیادہ ڈرا تو اس نے یہ الفاظ کہے ۔

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ اکثر اوقات ایسا کہتے تھے۔

الكفاية في علم الرواية للخطيب البغدادي (ص: 206)

أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ التَّمِيمِيُّ، أنا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ حَمْدَانَ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، ثنا أَبُو قَطَنٍ، ثنا ابْنُ عَوْنٍ , عَنْ مُحَمَّدٍ , قَالَ: كَانَ أَنَسٌ إِذَا حَدَّثَ حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَفَرَغَ مِنْهُ قَالَ: أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ

اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ”

واللہ اعلم بالصواب !!!

About thefinalrevelation
Leave a reply