فتنے آسمان سے نازل ہونے والی حدیث پر اعتراضات

ایک حدیث کا غلط مفہوم اور اس کا ازالہ۔

صحیح بخاری

کتاب التہجد

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کی نماز اور نوافل پڑھنے کے لیے ترغیب دلانا لیکن واجب نہ کرنا

حدیث نمبر : 1126

عن أم سلمة ـ رضى الله عنها ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم استيقظ ليلة فقال ” سبحان الله ماذا أنزل الليلة من الفتنة، ماذا أنزل من الخزائن من يوقظ صواحب الحجرات، يا رب كاسية في الدنيا عارية في الآخرة “.
ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات جاگے تو فرمایا سبحان اللہ! آج رات کیا کیا فتنے اترے ہیں اور ساتھ ہی (رحمت اور عنایت کے) کیسے خزانے نازل ہوئے ہیں۔ ان حجرے والیوں (ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن) کو کوئی جگانے والا ہے افسوس! کہ دنیا میں بہت سی کپڑے پہننے والی عورتیں آخرت میں ننگی ہوں گی۔

حدیث پر اعتراضات

1.پورے قرآن میں نازل ہونے والی اشیاء میں کہیں بھی فتنوں کے نازل ہونے کا زکر نہیں۔ لیکن بخاری نے فتنے بھی آسمان سے نازل کروادئے۔ فتنہ کا ایک مطلب ہے آزمائش جو اللہ کی جانب منسوب ہوسکتی ہے دوسرا معنی ہے فساد فی الارض۔ یہ دونوں چیزیں معاشرہ کی پیداوار ہے جن کا تعلق لوگوں کے کرتوتوں سے ہے۔ اگر فتنوں کو آسمان سے نازل کردہ سمجھا جائے تو پھر انسان ان میں مبتلا ہونے کے بعد جزا و سزا سے بج جائے گا اے رب جو چیز نازل ہی تو نے کی اس سے میں کیسے جان چھڑاتا؟ بخاری نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اللہ بھی بندوں میں فساد پھیلاتا ہے۔
2.پھر ازواج مطہراتؓ کی شان اقدس میں کس قدر گھٹیا اور نیچ زبان میں تبرائی الفاظ استعمال کرتے ہوئے رسول اللہ کو دکھایا گیا ہے۔

محترم قارئین اس مختصر مضمون میں ھم ان دو اعتراضات کا علمی جائزہ لینگے۔ جوکہ حدیث مبارکہ سے بد طن کرنے کے لئے کئے گئے ہے۔

مضمون نگار کا یہ دعوا ہے کہ فتنوں کا نزول اللہ کی طرف سے نہیں ہوتا اور اگر ایسا کوئی کہے تو گویا اس نے اللہ کی شان میں گستاخی کی۔۔

اور جو معنی اس نے فساد فی الارض کئے وہ اللہ کی طرف کوئی کافر بھی منسوب نہیں کر سکتا۔۔ ایسا کہ کر مضمون نگار نے مسلمانوں پر صرف طعن کیا ہے۔

اس حدیث مبارکہ میں خزانے سے مراد رحمت الہیٰ ہے اور فتنے سے مراد اللہ کی ازمائش ہے۔۔

یہ اعتراض ایسا ہی ہے کہ ایک استاد اپنے طلباء کو کوئی امتحان میں ڈالے اور بعد میں کوئی کہے کہ امتحان کا استاد سے منسوب کرنا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ طلباء یہ کہ سکتے ہے اپنے استاد کو کہ استاد محترم! جو امتحان دیا ہی آپ نے ہے بھلا ھم اسے کرنے میں کیسے کامیاب ہو سکتے ہے؟۔۔ کچھ ایسا ہی اعتراض مضمون نگار نے کیا ہے حدیث مبارکہ پر۔

اب ھم دیکھتے ہے کہ کیا اللہ نے انسانوں پر ازمائش ہونا اپنی طرف منسوب کیا ہے۔

اگر حدیث مبارکہ نے فتنہ “آزمائش” کے معنی میں استعمال کر کے کوئی جرم کیا ہے تو یہ جرم آپ کے مطابق قرآن نے بھی کیا ہے۔

قوم ثمود جن کی طرف صالحؑ بھیجے گئے ان کی قوم کے مطالبہ پر اللہ نے ایک اونٹنی بھیجی،،

اِنَّا مُرْسِلُوا النَّاقَةِ فِتْنَةً لَّهُمْ فَارْتَقِبْهُمْ وَاصْطَبِرْ 27۝ۡ
ترجمہ:ہم اونٹنی کو ان کے لیے فتنہ(آزمائش) بنا کر بھیج رہے ہیں ۔ اب ذرا صبر کے ساتھ دیکھ کہ ان کا کیا انجام ہوتا ہے ۔(سورہ القمر:27)
اس ایت میں اللہ تعالی نے فتنہ(آزمائش) کو اپنی طرف منسوب کیا ہے۔۔ قرآن نے بیان کیا ہے کہ اس فتنہ(آزمائش) کے بعد قوم کو ایک ہولناک چیخ نے آپکڑا اور یہ سب اللہ کے عزاب کا شکار ہوئے۔۔ اب قوم ثمود تو اللہ کے ثامنے یہ کہ سکتی ہے کہ اے اللہ جو آزمائش بھیجی ہی تو نے تھی بھلا ھم اس سے کیسے بچ سکتے تھے۔ اس سے کیسے جان چھڑا سکتے تھے ؟ کیا وہ اس طرح جزا و سزا سے بچ سکتے ہیں؟
ایک اور ایت ملاحظہ کی جئے۔

ۤوَمَآ اُنْزِلَ عَلَي الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ ھَارُوْتَ وَمَارُوْتَ ۭ وَمَا يُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى يَقُوْلَآ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ
ترجمہ:نیز یہ یہود اس چیز کے بھی پیچھے لگ گئے جو بابل میں ہاروت اور ماروت دو فرشتوں پر اتاری گئی تھی۔ یہ فرشتے کسی کو کچھ نہ سکھاتے جب تک یہ نہ کہہ لیتے کہ ہم تو تمہارے لیےفتنہ( آزمائش) ہیں سو تو کافر نہ بن۔(سورہ البقرہ:102)
یہ لی جئے اللہ نے نا صرف فتنہ (آزمائش )کو اپنی طرف منسوب کیا بلکہ یہ بھی فرمایا کہ یہ فتنہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے سلیمٰنؑ کی قوم پر دو فرشنے آزمازئش بنا کر بھیجئے گئے اور ان فرشتوں کی جانب اللہ تعالی نے جادؤ کا فتنہ(آزمائش) نازل کیا اس دور کے لوگوں کے لئے ۔۔اس ایت میں فتنہ نازل ہونے کا مطالبہ بھی پورا ہوا۔۔ اب قوم سلیمٰن آپ کے بقول کہ سکتی ہے اے اللہ جو فتنہ(آزمائش) نازل ہی تونے کی تھی بھلا ھم اس فتنہ میں متبلا ہونے سے کیسے بچ سکتے تھے ؟ کیا وہ اس طرح قیامت کے دن جزا و سزا سے بچ سکتے ہے ؟۔۔

قارئین کرام ان باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے حدیث مبارکہ ہر ایک اعتراض سے پاک ہے۔۔ اللہ تعالی اپنے بندوں کی آزمائش کرتا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ ھم میں سے کون کتنا فرماں بردار ہے اور کون کتنا نافرمان۔ امید ہے حدیث مبارکہ میں جو لفظ فتنہ استعمال ہوا ہے اس سے جو الرجی منکرین حدیث کو ہوگئی ہے ختم ہوگئی ہوگی۔

دوسرے سوال کا جواب ان گزارشات میں ملاحظہ کی جئے۔

منکرین حدیث کو اس حدیث کے آخری الفاظ پر اعتراض ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس روایت کے مطابق اپنی ازواج سے درشت رویہ رکھتے تھے اور ان کو رات میں جگا دیا کرتے تھے ۔
اگر ہم پوری روایت کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں یہ بات معلوم ہوگی کہ آپۖ نے اپنی ازواج کے ساتھ درشت (سخت) رویہ اختیار نہیں کیا بلکہ ان کے ساتھ بھلائی کی کہ ان کو صلاة تہجد کے لئے بیدار کیا ۔اور”رب کاسیة فی الدنیا ”(بہت سے کپڑے والی آخرت میں ننگی ہوگی ) کے الفاظ ازواج مطہرات کے متعلق نہیں بلکہ ان عورتوں کے متعلق فرمائے جو اپنے شوہروں کی خیانت کرتی ہیں ۔

مکمل حدیث درج ذیل ہے :
”عن ام سلمة قالت استیقظ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ذات لیلة فقال سبحان اللہ ماذا انزل اللیلة من الفتن ۔وماذا فتح من الخزائن ایقظوا صواحبات الحجر فرب کاسیة فی الدنیا عاریة فی الآخرة ”(صحیح بخاری کتاب العلم باب العلم والعظة باللیل رقم الحدیث 115)

” ام سلمہ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ بیدار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ سبحان اللہ آج رات کیا کیا فتنے نازل ہوئے ہیں ۔ اور آج کن کن خزانوں کے دروازے کھلے ہیں۔ حجرے والیوں کو جگادو ۔ بہت سی لباس والیاں آخرت میں بے لباس ہونگی ”

منکرین حدیث نے غلط فہمی کی بناء پر سمجھ لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کو بلاوجہ رات میں بیدار کرکے درشتگی کا رویہ اختیار فرمایا (نعوذ بااللہ)بلکہ جگانے کا مقصد صرف عبادت تھا جیساکہ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ:

”واشارہ بذلک الی موجب وایقاظ ازواجہ الی ینبغی لھن أن لا یتغافلن عن العبادة ویعتمدن علی کونھن ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم (فتح الباری جلد 1صفحہ 279)

” (اس حدیث)میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی ازواج کو رات میں بیدار کرنا اس لئے تھا کہ وہ عبادت سے غافل نہ رہ جائیں اور صرف اس پر ہی اعتماد نہ کرلیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں ”

دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ”رب کاسیة” کہنا ازواج مطہرات کے لئے تھا ۔یہ بھی بہت بڑی غلط فہمی ہے حدیث میں کہیں یہ بات موجود نہیں کہ آپ نے یہ بات ازواج مطہرات کے متعلق فرمائی ۔ بلکہ دوسری احادیث میں یہ بات موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدکار عورتوں کے متعلق یہ الفاظ استعمال فرمائے تھے ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قوم کو مخاطب کیا:

”یا رب کاسیة فی الدنیا والآخرة”(صحیح بخاری کتاب لاتھجد باب تحریض النبیۖ علی صلوة الیل رقم الحدیث 1126)

علامہ بدرالدین عینی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں ۔

”رب کاسیة ای قوم رب کاسیة”(عمدة القاری جلد7صفحہ 260)

” اے قوم والوں بہت سی لباس والیاں آخرت میں بے لباس ہونگی ”

بالفرض اگر تسلیم بھی کرلیا کہ یہ الفاظ ازواج مطہرات کو کہے گئے تو اس سے مراد صرف ترغیب وتنبیہ ہے ناکہ وعید۔

جیساکہ قرآن مجید میں اللہ رب العالمین نے ازواج مطہرات کو مخاطب کرکے فرمایا :

یا نساء النبی من یات منکن بفاحشة مبینة یضٰعف لھا لعذاب ضعفین(سورہ الاحزاب ۔آیت 30)

” اے نبی کی بیویوں تم میں سے جو کوئی کھلی بے حیائی کرے گی تو اس کو دہرا عذاب دیا جائے گا ”

اب اس آیت کا منشاء یہ نہیں کہ ازواج ایسا کریں گی بلکہ محض تنبیہ مراد ہے تو حدیث کامنشاء بھی یہی ہے ۔ اور حدیث سے زیادہ قرآن میں سخت الفاظ بیان ہوئے اس ایت میں اللہ نے ازواج مطہرات کو مخاطب کیا جب کہ حدیث سے یہ بات ثابت بھی نہیں تو اب اعتراض تو قرآن پر آگیا ؟ جو اعتراض حدیث مبارکہ پر کیا گیا ہے اس اعتراض کو ثامنے رکھتے ہوئے اس ایت کو پڑھنے سے کتنا زبردست اعتراض قرآن پر وارد ہوتا ہے۔۔ کاش کہ یہ دین کے نادان دوست کچھ غور و فکر سے کام لیا کریں،
الغرض حدیث مبارکہ اعتراض سے پاک ہے ۔

آخر میں ان دین کے نادان دوستوں سے گزارش ہے کہ جو آپ نے اس حدیث مبارکہ کہ حوالے سے مؤقف اپنایا ہے۔۔ اس پر نظر ثانی کی جئے صحیح احادیث ہر ایک اعتراض سے ہاک ہے ۔۔ اور اللہ نے اپنے محبوب بندہ محمدﷺ کا قول و عمل کو حفاظت سے لوگوں تک پہنچایا ہے۔۔

About thefinalrevelation
Leave a reply