نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین عایشہؓ کے غسل پر اعتراض اور اس کا ازالہ

منکر حدیث قسم کے لوگ ایک حدیث مبارکہ پر اس طرح کے الفاظ میں اعتراض کرتے ہے۔

عائشہؓ فرماتی ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میں ایک ہی برتن میں نہاتے تھے صحیح بخاری۔

ازالہ:۔
یہ روایت صحیح بخاری میں ان الفاظ سے منقول ہے۔
عن عائشہ قالت کنت اغتسل أنا والنبیۖ من اناء واحد کلانا جنب(صحیح بخاری کتاب الحیض،رقم الحدیث 299)وکان یأمرنی فاتزرفیبا شرنی وأنا حائض(صحیح بخاری کتاب الحیض،رقم الحدیث 300)
”عائشہ فرماتی ہیں کہ میں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل فرماتے تھے اور ہم حالت جنابت میں ہوتے ۔اور آپ مجھے ازار باندھنے کا حکم دیتے اور مجھ سے حالت حیض میں اختلاط فرماتے ”

اعتراض کرنے والے یہاں حدیث کا ترجمہ کرتے ہوئے تلبیس سے کام لیتے ہے اور ترجمہ کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میں ایک برتن میں نہاتے تھے حالانکہ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ ایک برتن “سے” نہاتے تھے۔

قارئین کرام !اس حدیث سے جس مسئلہ کی وضاحت ہوتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کے ساتھ غسل کرسکتا ہے آخر اس میں اعتراض کی کیا بات ہے ؟اگر ہم اس حدیث کا پس منظر دیکھیں تو اعتراض کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہتی۔

عن عائشہ زوج النبی ۖانھا اخبرتہ قالت کنت انام بین یدی رسول اللہ ۖورجلائی فی القبلة فاذا سجد غمزنی فقبضت رجلیَّ واذا قام بسطتھا۔۔۔۔والبیوت یومیئذلیس فیھا مصابیح(مؤطا امام مالک باب المرأةتکون بین الرجل یصلی۔۔۔۔رقم الحدیث288)
ّام المؤمنین عائشہ فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لیٹی ہوتی تھی اور میرے پیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلے کی جانب ہوتے تھے پس جب آپ سجدہ کرتے تو میرے پیر کو دباتے میں اپنے پیر سمیٹ لیتی پھر جب آپ کھڑے ہوجاتے تو میں پیر پھیلالیتی، “والبیو ت یومئذ لیس فیھامصابیح” اور ان دنوں گھر میں چراغ نہیں ہوا کرتے تھے۔

ایک اور روایت میں مزید وضاحت ملاحظہ فرمائیں۔
عن عائشہ قالت:۔فقدت رسول اللہ ۖلیلة من الفراش فالتمستہ۔فوقعت یدی علی بطن قدمیہ وھو فی المسجدوھما منصوبتان(صحیح مسلم کتاب الصلوة باب مایقال فی الرکوع والسجود رقم الحدیث۔1090)
”عائشہ فرماتی ہیں:میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر پر نہیں پایا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ٹٹولنا شروع کیا تو میرے ہاتھ آپ ۖکے تلوؤں پر لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں تھے۔

مندرجہ بالااحادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں عموماً اندھیرا رہا کرتا تھا ہفتوں چراغ نہیں جلتا تھا تو اس قدر اندھیرے میں ایک دوسرے کو دیکھنا محال تھا اور رہی بات پردہ پوش کی تو حدیث میں صراحت موجود ہے کہ ” من اناء بینی وبینہ واحد ” (صحیح مسلم کتاب الحیض باب قدر المستحب من الماء رقم الحدیث 732)
کہ “ہم ایک برتن سے نہاتے تھے جو ہمارے درمیان رکھا ہوتا تھا” لہٰذا یہ برتن(ٹب) دونوں کے درمیان پردہ کا کام بھی کرتا تھا ۔

اگر اعتراض اس بات پر ہے کہ یہ فحش الفاظ۔ احادیث رسول اللہ ۖکس طرح ہوسکتے ہیں یا اس طرح کی حدیث کو بنیاد بناکر غیر مسلم اسلام پر بے ہودہ اعتراض کرتے ہیں وغیرہ۔ تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے مشرکین شروع دن ہی سے اسی طرح اسلام و مسلمان کو طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے رہے ہیں جیساکہ حدیث میں ہے۔
عن سلمان قال:قال بعض المشرکین وھم یستھزئ ون بہ لاری صاحبکم یعلمکم حتی الخرا ة قال سلمان اجل
أمرناأن لانستقبل القبلة ولا نستنجی بأیماننا ولا نکتفی بدون ثلاثة أحجارلیس فیھا رجیع ولا عظم(مسند احمد 5/437رقم الحدیث 23593قال احمد شاکر اسنادہ صحیح۔)
”سلمان فارسی سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ بعض مشرکوں نے بطور استہزاء کے کہا کہ میں تمہارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جانتا ہوں کہ وہ تمہیں ہر چیز کی تعلیم دیتے ہے یہاں تک کہ قضائے حاجت کے طریقے بھی بتاتے ہے ۔تو سلمان فارسی نے جواب دیا ۔بالکل درست بات ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم قبلہ کی جانب منہ نہ کریں اور نہ ہی دائیں ہاتھ سے استنجا کریں اور تین ڈھیلوں سے کم پر اکتفاء نہ کریں نیز ڈھیلوں میں گوبر اور ہڈی نہ ہو ۔”

مذکورہ روایت میں صحابی رسول نے کس قدر فخر کے ساتھ طہارت پر مبنی مسائل کو بیان فرمایا اور ذرہ برابر بھی احساس کمتری کا شکار نہیں ہوئے. اعتراض کرنے والوں سے عرض یہ ہے کہ جس چیز کو آپ اسلام کا جرم سمجھ رہے ہیں ۔صحیح احادیث پر مبنی اس سرمائے پر ہم فخر کرتے ہیں اور” ڈنکے کی چوٹ” پر کہتے ہیں کہ دین اسلام ایک ایسا مکمل ضابطہ حیات ہے کہ ہمیں اپنی رہنمائی کے لئے باہر جانے کا تکلف نہیں کرنا پڑتا۔

لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة (سورہ الاحزاب ۔آیت 21)
”یقینا تمہارے لئے اللہ کے رسول ۖمیں بہترین نمونہ ہے” ہی کا تقاضہ تھا کہ احادیث کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزو شب اعمال و اقوال خلوت وجلوت سے ضابطہ حیات تیار کروایا جارہا ہے ۔مسائل ڈھل رہے ہیں حرام وحلال جائز وناجائز میں احادیث وسنن کے ذریعے امتیاز کیا جارہا ہے آپ کو یہاں ہر وہ چیز دستیاب ہوگی جس سے تہذیب وتمدن اور انسانی ضابطہ حیات پر روشنی پڑتی ہو ۔ایسے بیش بہا سرمائے پر فخر کرنا چاہئے نہ کہ احساس کمتری کا شکار ہوکر ان پر اعتراضات شروع کردئیے جائیں ۔
ان سب گزارشات سے بات واضح ہوئی اب ھم مولانہ مودودی رحمہ اللہ کا ایک تاریخی جواب اپنے جواب میں شامل کر دیتے ہے جو کہ حدیث مبارکہ ہر ہر ایک اعتراض کے جواب کے لئے کافی ہوگا۔

مولانہ مودودی رحمہ اللہ رقم طراز ہے۔
“ایک حدیث میں حضرت عائشہ نے یہ بتایا ہے کہ زوجین ایک ساتھ غسل کر سکتے ہیں اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایسا کیا ہے۔ اس مسئلے کے معلوم کرنے کی ضرورت دراصل ان لوگوں کو پیش آئی تھی جن کے ہاں بیویاں اور شوہر سب نماز کے پابند تھے۔ فجر کے وقت ان کو بارہا اس صورت حال سے سابقہ پیش آتا تھا کہ وقت کی تنگی کے باعث یکے بعد دیگرے غسل کرنے سے ایک کی جماعت چھوٹ جاتی تھی۔ ایسی حالت میں ان کو یہ بتانا ضروری تھا تاکہ دونوں کا ایک ساتھ غسل کر لینا نہ صرف جائز ہے بلکہ اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ مدینے میں اس وقت بجلی کی روشنی والے غسل خانے نہیں تھے اور فجر کی نماز اس زمانے میں اول وقت ہوا کرتی تھی اور عورتیں بھی صبح اور عشا کی نمازوں میں مسجد جایا کرتی تھیں۔ ان باتوں کو نگاہ میں رکھ کر ہمیں بتایا جائے کہ اس حدیث میں کیا چیز ماننے کے لائق نہیں ہے”۔

About thefinalrevelation
Leave a reply