کیا حجة الوداع کا خطبہ غیر معتبر ہے؟’طلوع اسلام’ میگزینکو جواب Part 2

طلوع اسلام” جون 1986ء کے شمارے میں ایک مضمون بعنوان ”خطبہ حجة الوداع او رمقام حدیث” شائع ہوا تھا۔ جس میں یہ بے پرکی اُڑائی گئی کہ خطبہ حجة الوداع کی روایات غلط ہیں۔ طلوع السام چونکہ احادیث رسول اللہ ﷺ کی صحت کے لیے، ان کی قرآنی تعلیمات سےمطابقت ، کی شرط لگاتا ہے، اس لیے فاضل مضمون نگار حضرت مولانا محمد رمضان سلفی صاحب نے خطبہ حجة الوداع کے ایک ایک جملہ کی صحت ثابت کرنے کے لیےطلوع اسلام کی یہ شرط یوں پوری کی ہے کہ پہلے خطبہ حجة الوداع کا ایک (ایک) جملہ (ترتیب وار) درج کیاہے، پھر اس سےمتعلق قرآنی آیت، اس کے بعد اس آیت کامفہوم پرویزی لٹریچر سے نقل کیاہے۔اس مضموں کی پہلی قسط گزشتہ شمارہ محدث میں شائع ہوچکی ہے زیر نظر تعارفی سطور اس لیے شائع کی جارہی ہیں کہ نئے پڑھنے والے حضرات کے لیے اصل بحث کو سمجھنے میں آسانی رہے۔ (ادارہ)


ہم ذکر کر آئے ہیں کہ پرویز اور ان کی پارٹی کے نزدیکالحمدسے لے کروالناستک قرآن مجید کا ایک لفظ بھی منسوخ نہیں۔ بایں ہمہ سورہ محمدؐ کی آیتفَإِمَّا مَنًّۢا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَآءًکےتحت طلوع اسلام کے ”بابا جی پرویز مرحوم” غلامی کے دروازے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کرتے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کریم میں غلام آزاد کرنے کو متعدد جرائم کا کفارہ بتلایا گیا ہے او ریہ جرائم تا قیامت کسی بھی وقت چونکہ ممکن الوقوع ہیں۔مثلاً ظہار ، قتل، خطاء، جھوٹی قسم وغیرہ۔لہٰذا یا تو غلامی کے دروازہ کو تاقیامت کھلا چھوڑنا ہوگا اور یا ان تمام قرآنی آیات کو، جن میں غلام آزاد کرنےکے کفارہ کا ذکر ہے، منسوخ ماننا ہوگا۔لیکن ”پرویز اینڈکو” قرآن میں نسخ کے بھی قائل نہیں اور غلامی کادراوزہ بھی بڑے دھڑلّے سے بند کرنا چاہتے ہیں۔چنانچہ لکھتے ہیں کہ:
ہمارے نزدیک تو ناسخ و منسوخ کا مسئلہ ایک فقرہ میں حل ہوجاتا ہے، قرآن مجیدمیں قرآن کے ناسخ و منسوخ کاکوئی ذکر نہیں، اس لیے قرآن کریم کی کسی آیت کامنسوخ تصور کرنا ہی قرآن کے خلاف ہے، اللہ اللہ خیر صلّا! ”1

قرآن میں نسخ :
قطع نظر اس سے کہ قرآن کریم کی کون کون سی آیات ناسخ و منسوخ ہیں؟ جمہور مسلمانوں کے نزدیک نسخ، شریعت میں وارد بھی ہے او رعقلاً ممکن بھی۔ ہاں یہودی اس کے منکر ہیں۔ امام رازی، جن کی ”تفسیر کبیر” کو پرویزیوں نے جملہ کتب تفسیر میں معتبر تسلیم کیا ہے، اپنی اسی تفسیر میں لکھتے ہیں:
النسخ عندنا جائز عقلا، واقع سمعا خلافا للیهود” 2
یعنی ”نسخ ہمارےنزدیک عقلاً جائز ہے اور شریعت میں واقع، ہاں یہودی اس کے خلاف ہیں۔

نسخ کی اس مفصل بحث اور اس کی حکمتوں کو، جن کی بناء پر ایک حکم کومنسوخ کرکے اس کی جگہ دوسرا حکم لایاجاتا رہا ہے، اہل اسلام کی منصفات میں دیکھاجاسکتاہے ۔ اس لیےکہ شریعت اسلامیہ کا ہر حکم کسی حکمت پر مبنی ہوتاہے۔چنانچہ عہد رسالت میں بعض احکام کو اسی حکمت کے تحت یکدم نافذ کرنےسے روک لیا جاتا تھا۔ کیونکہ :
ہنوز انسانیت اس سطح پرنہیں پہنچ سکی تھی کہ انہیں سمجھ سکے یااپنا سکے، اب انہیں بھی نازل کردیا جاتاہے۔” 3

مسٹر غلام احمد پرویز نے اگرچہ مذکورہ حکمت کونسخ یہودیت کے ضمن میں ذکر کیا ہے، تاہم یہ او رایسی بہت سی حکمتیں شریعت اسلامیہ کے ابتدائی دور میں ملحوظ رکھی گئیں، تاکہ لوگ اپنی ذہنی پختگی کو پہنچ جائیں او ران مفاسد کو ترک کرنے کی ان میں استعداد پیدا ہوجائے، جن کے ارتکاب کے وہ لوگ عادی ہوچکے تھے۔ چنانچہ ایسی استعداد و صلاحیت پیدا کرنےکے لیے بعض احکام کو بتدریج نازل کیا گیا۔ تدریج کے اس عمل سے امت کی ایسی تربیت مقصود تھی کہ جس کے باعث بعد میں امت کے ڈگمگانے کا تصور بھی نہ کیاجاسکے۔ اسی بناء پر پہلے ایک سہل حکم دیاجاتا اور پھر اس سہل حکم کومنسوخ کرکے اس کے قائم مقام دوسرا حکم لایا جاتا۔ اسی کونسخ کہا جاتاہے اور قرآن کریم میں جسے متعدد آیات میں ذکر کیا گیاہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِذَا بَدَّلْنَآ ءَايَةً مَّكَانَ ءَايَةٍ ۙ وَٱللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُوٓاإِنَّمَآ أَنتَ مُفْتَرٍ‌ ۚ بَلْ أَكْثَرُ‌هُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿١٠١سورۃ النحل
یعنیجب ہم کسی آیت کوبدل کر اس کی جگہ دوسری آیت لے آتے ہیں، تو کفار، جن کی اکثریت لاعلم ہے، اسی بہانے آپ کو ”مفتر” (جھوٹ گھڑنے والا)کہہ دیتے ہیں۔ حالانکہ اللہ خوب جانتا ہے کہ کون سا حکم کس حکم کے قائم مقام نازل فرماتا ہے۔

قرآن مجید کے اس مقام پر ”آیت کی تبدیلی” کےالفاظ انتہائی واضح ہیں، جبکہ :
قرآن کریم کےہرٹکڑے کو آیت کہتے ہیں۔” (i)

پھر کیااب بھی قرآن میں بعض آیات کانسخ ثابت ہوا یا نہیں؟ او رسورہ بقرہ کی اس آیت سے تو یہ مسئلہ او ربھی نکھر کر سامنے آجاتا ہے، جس میں ”نسخ آیت” صراحتاً مذکور ہے:
﴿مَا نَنسَخْ مِنْ ءَايَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ‌ۢ مِّنْهَآ أَوْ مِثْلِهَآ ۗ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ‌ ﴿١٠٦سورۃ البقرۃ
کہہم جوبھی آیت منسوخ کردیتے یا بُھلا دیتے ہیں، اس کی جگہ اس سے موزوں یااسی کی مثل (دوسری) آیت لے آتے ہیں، کیا آپ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے؟

الغرض سورہ محمدؐ کی آیتفَإِمَّا مَنًّۢا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَآءًسے اگر مسٹر پرویز کے نزدیک غلامی کادروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کیاجاچکا ہے تو اس کے پیش نظر وہ تمام آیات قرآنیہ منسوخ ٹھہرتی ہین جن میں غلاموں کا کسی بھی صورت میں ذکر ہوا ہے او ریہ ایسا تیر ہے جو صرف غلام احمد پرویز نے مارا ہے، ورنہ کسی بھی مفسر قرآن نے غلاموں کے تذکرہ پر مشتمل آیات کو، غلامی کا دروازہ بند کرکے، ان کے منسوخ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا، ہاں یہ وہ ذات شریف ہیں کہ ایک طرف غلامی کا دروازہ بند کرتے اور دوسری طرف فرماتے ہیں کہ :
قرآن کریم کی کسی آیت کامنسوخ تصور کرنا ہی قرآن کے خلاف ہے، اللہ اللہ خیر صلّا

7۔ارشاد رسالت مآبﷺ ہے:
جاہلیت کے تمام خون باطل کردیئے گئے ہیں۔

خطبہ حجة الوداع کے اس جملے کی قرآنی تعلیمات سے مطابقت کے لیے قرآنی آیات ہم اوپر درج کر آئے ہیں، جن میں جاہلیت کے تمام احکام و معاملات کو باطل قرار دیا گیاہے۔لہٰذا یہاں اعادہ کی ضرورت نہیں۔

8۔ارشاد رسالت مآبﷺ :
جاہلیت کے تمام سود باطل کردیئے گئے ہیں۔

اس کی مطابقت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا ٱتَّقُواٱللَّهَ وَذَرُ‌وامَا بَقِىَ مِنَ ٱلرِّ‌بَو‌ٰٓا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٧٨سورۃ البقرۃ

غلام احمد پرویز نے اس آیت قرآنی کا مفہوم یوں بیان کیاہے:
اےجماعت مؤمنین! تم قوانین خداوندی کی نگہداشت کرو ، اور ربوا میں سے جو کچھ کسی کے ذمہ باقی رہ گیا ہے، اسےمعاف کردو، تمہارے ایمان کایہی تقاضا ہے۔” (ii)

ربوی معاملات کے ارتکاب پر بنی اسرائیل کی مذمت یوں کی گئی:
﴿فَبِظُلْمٍ مِّنَ ٱلَّذِينَ هَادُوا حَرَّ‌مْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَـٰتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ كَثِيرً‌ا ﴿١٦٠﴾ وَأَخْذِهِمُ ٱلرِّ‌بَو‌ٰاوَقَدْ نُهُواعَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَ‌ٰلَ ٱلنَّاسِ بِٱلْبَـٰطِلِ﴿١٦١سورۃ النساء
ان (بنی اسرائیل)کیا اس قسم کی زیادتیوں او رسرکشیوں کا نتیجہ تھا کہ وہ خوشگوار چیزیں، جو پہلے ان کے لیے حلال تھیں، ان پرحرام قرار دے دی گئیں، ان کے جرائم کی فہرست طویل ہے، لیکن مختصراً یہ سمجھو کہ یہ لوگ ہمیشہ نظام خداوندی کی راہ میں، جو عالمگیر انسانیت کے لیے نفع بخشیوں کی راہ ہے، روک بن کر بیٹھ جایا کرتے تھے یہ محتاجوں کی مدد کرنے کی بجائے ان کی احتیاج سےناجائز فائدہ اٹھاتے تھے، انہیں کچھ قرض دیتے تھے تو اصل سے زیادہ واپس لیتے تھے۔حالانکہ انہیں اس سے منع کیا گیاتھا۔ اس طرح نیز دوسرے طریقوں سے لوگوں کا مال ناجائز طور پرکھایاجایاکرتے تھے۔” 4

ان آیات سے ثابت ہواکہ اسلام سے قبل کے تمام سودی معاملات کو قرآن مجید نے چھوڑ دینے کا حکم دیاہے او رانہیں باطل قرار دیا ہے۔خطبہ حجة الوداع میں رسول اللہ ﷺ نے بھی جاہلیت کے تمام سود باطل قرار دیئے، تو طلوع اسلام کے نزدیک جو احادیث رسول اللہ ﷺ کی صحت کے لیے ان کی قرآنی تعلیمات سےمطابقت کی شرط لگاتا ہے، خطبہ حجة الوداع کی روایات غلط کیونکر قرار پائیں۔؟

9۔ارشاد رسالت مآبﷺ :
عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو، تمہاراعورتوں پر اور عورتوں کا تم پر حق ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ :
وَلَهُنَّ مِثْلُ ٱلَّذِى عَلَيْهِنَّ بِٱلْمَعْرُ‌وفِ ۚ وَلِلرِّ‌جَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَ‌جَةٌ ۗ وَٱللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٢٢٨سورۃ البقرۃ
قانون خداوندی کا رُو سے مرد اور عورت کے حقوق و فرائض یکساں ہیں اس لیےکہ یہ اس خدا کا قانون ہے جو ہر معاملہ کی حکمت سے واقف ہے، اور ہر ایک کو اس کے صحیح مقام پر رکھنے پر قادر اور غالب۔” 5

10۔ارشاد رسالت مآبﷺ:
تمہارا خون او رتمہارا مال تاقیامت اسی طرح حرام ہے جس طرح یہ دن اس مہینہ او راس شہر میں حرام ہے۔

”خون” کی حرمت کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَا تَقْتُلُواٱلنَّفْسَ ٱلَّتِى حَرَّ‌مَ ٱللَّهُ إِلَّا بِٱلْحَقِّ﴿٣٣سورۃ بنی اسرائیل
جس جان کامارنا اللہ نے حرام قرار دیا ہے (اسے واجب الاحترام قرار دیا ہے، یعنی بے گناہ کا قتل) اسےقتل مت کرو، بجز اس کے کہ ایسا کرنا قانون عدل کا تقاضا ہو۔” (iii)

نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَا تَقْتُلُوا ٱلنَّفْسَ ٱلَّتِى حَرَّ‌مَ ٱللَّهُ إِلَّا بِٱلْحَقِّ ۚ ذَ‌ٰلِكُمْ وَصَّىٰكُم بِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿١٥١سورۃ الانعام

جبکہ”مال” کی حرمت کے متعلق ارشاد ربانی ہے:
وَلَا تَأْكُلُوٓا أَمْوَ‌ٰلَكُم بَيْنَكُم بِٱلْبَـٰطِلِ وَتُدْلُوابِهَآ إِلَى ٱلْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوافَرِ‌يقًا مِّنْ أَمْوَ‌ٰلِ ٱلنَّاسِ بِٱلْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿١٨٨سورۃ البقرۃ
آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریق پرنہ کھاؤ، یا اگرمعاملہ عدالت تک جاچکا ہے، تو ایسا نہ کرو کہ حکام کو رشوت دےکر ایسا فیصلہ لے لو جس سے دوسروں کاکچھ مال ناجائز طور تمہیں مل جائے، حالانکہ تم جانتے ہو کہ جو مال اس طرح حاصل کیاجائے، اس کےنتائج کیا ہوا کرتے ہیں۔” (iv)

اور وہ”دن” جس میں آپؐ نے یہ اعلان فرمایاتھا، اس کی طرف درج ذیل آیت میں اشارہ موجود ہے:
﴿وَأَذَ‌ٰنٌ مِّنَ ٱللَّهِ وَرَ‌سُولِهِۦٓ إِلَى ٱلنَّاسِ يَوْمَ ٱلْحَجِّ ٱلْأَكْبَرِ‌ أَنَّ ٱللَّهَ بَرِ‌ىٓءٌ مِّنَ ٱلْمُشْرِ‌كِينَ ۙ وَرَ‌سُولُهُۥ﴿٣سورۃ التوبہ
آج اس اجتماع عظیم کے دن جو کہ تشکیل مملکت کے بعد سب سے بڑے اجتماع کا دن ہے، تمام لوگوں کی اطلاع کے لیے اعلان کیا جاتا ہے کہ نظام خداوندی مشرکین عرب کے عہد و پیمان سے بری الذّمہ ہے۔” 6

امام رازیفرماتے ہیں:
قال ابن عباس في روایة عکرمة أنه یوم عرفة” 7
کہ ”عکرمہؓ، ابن عباسؓ سے بیان کرتے ہین کہ اس یوم الاکبر سے عرفة کادن مراد ہے۔

اسی طرح ”اس مہینے” کی حرمت کا ذکر درج ذیل آیت قرآنی میں موجود ہے:
إِنَّ عِدَّةَ ٱلشُّهُورِ‌ عِندَ ٱللَّهِ ٱثْنَا عَشَرَ‌ شَهْرً‌ا فِى كِتَـٰبِ ٱللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتِ وَٱلْأَرْ‌ضَ مِنْهَآ أَرْ‌بَعَةٌ حُرُ‌مٌ ۚ ذَ‌ٰلِكَ ٱلدِّينُ ٱلْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوافِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ﴿٣٦سورۃ التوبہ
کہزمین و آسمان کی پیدائش کے دن سےمہینوں کی گنتی اللہ تعالیٰ کے نزدیک بارہ ہے جن میں سے چار حرمت والے ہیں، یہ دین قیم ہے، پس ان (مہینوں)میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔

امام رازیفرماتے ہیں:
منھا أربعة حرم ، قد أجمعوا علیٰ أن ھٰذہ الأربعة ثلاثة منھا سرد وھي ذوالقعدہ و ذوالحجة والمحرم و واحد منھا فرد وھو رجب و معنی المحرم أن المعصیة فیھا أشد عقابا والطاعة فیھا أکثر ثوابا” 8
یعنی ”سب مسلمانوں کا ا س بات پر اتفاق ہے کہ حرمت والے ان چار مہینوں میں سے تین (ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم) ترتیب وار ہیں، جبکہ رجب اکیلا ہے او رحرمت والے ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ان مہینوں میں کسی قسم کی نافرمانی سخت عذاب کی موجب جبکہ ان میں طاعت و فرمانبرداری بہت زیادہ اجر وثواب کی حامل ہے۔

او رجہاں تک ”اس شہر” کی حرمت کاتعلق ہے، تو اس کاذکر بھی قرآن مجید کی درج ذیل آیت میں موجود ہے:
﴿جَعَلَ ٱللَّهُ ٱلْكَعْبَةَ ٱلْبَيْتَ ٱلْحَرَ‌امَ قِيَـٰمًا لِّلنَّاسِ﴿٩٧سورۃ المائدہ
یہ مرکز کعبہ ہے، یعنی وہ واجب الاحترام مقام جس کی مرکزیت سے مقصود یہ ہے کہ تمان نوع انسانی اپنے پاؤں پرکھڑے ہونے کے قابل ہوجائے۔” 9

جبکہ سورة البقرہ میں ہے:
يَسْـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلشَّهْرِ‌ ٱلْحَرَ‌امِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ‌ ۖ وَصَدٌّ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ وَكُفْرٌ‌ۢ بِهِۦ وَٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَ‌امِ وَإِخْرَ‌اجُ أَهْلِهِۦ مِنْهُ أَكْبَرُ‌ عِندَ ٱللَّهِ﴿٢١٧سورۃ البقرۃ
اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھو کہ لوگوں کو خدا کے راستے کی طرف آنے سے روکنا، اس کے قوانین کی صداقت سے انکار و سرکشی برتنا، مسجد حرام تک میں جنگ سےباز نہ رہنا، اور جو لوگ وہاں پناہ لےچکے ہیں، انہیں نکال باہر کرنا، یہ جرائم بہت زیادہ سنگین ہیں۔” 10

11۔ارشاد رسالت مآبﷺ:
میں تم میں ایک چیز چھوڑتا ہوں، اگر تم نے اس کو مضبوط پکڑ لیاتو گمراہ نہ ہوگے، وہ کیا چیز ہے؟ کتاب اللہ

ارشاد باری تعالیٰ:
ٱتَّبِعُوا مَآ أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّ‌بِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوامِن دُونِهِۦٓ أَوْلِيَآءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُ‌ونَ ﴿٣سورۃ الاعراف
اے جماعت مؤمنین، تم اسی ضابطہ قوانین (قرآن )کااتباع کرو، جسے تمہارے نشوونما دینے والے نےتمہاری طرف نازل کیاہے، اور اس کے علاوہ کسی کارساز و رفیق کار کا اتباع مت کرو۔” 11

12۔ارشاد رسالت مآبﷺ :
خدا نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ :
﴿لِّلرِّ‌جَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَ‌كَ ٱلْوَ‌ٰلِدَانِ وَٱلْأَقْرَ‌بُونَ وَلِلنِّسَآءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَ‌كَ ٱلْوَ‌ٰلِدَانِ وَٱلْأَقْرَ‌بُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ‌ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُ‌وضًا ﴿٧سورۃ النساء
مردوں کے لیے حصہ ہے اس مال میں سے ، جو ان کے والدین یا دوسرے قریب ترین رشتہ دار چھوڑ کر مریں، اسی طرح عورتوں کے لیےحصہ ہے، اس مال میں سے جو ان کے والدین یاقریب ترین رشتہ دار چھوڑ کر جائیں، خواہ وہ تھوڑا سا مال ہو یازیادہ، اس میں ہر ایک کا حصہ مقرر ہے، یہ نہیں کہ ہر چیز کا مالک مرد ہوتاہے، عورت مالک ہی نہیں ہوسکتی۔” 12

13۔ارشاد رسالت مآب ﷺ:
لڑکا اس کا ہےجس کے بستر پر پیدا ہوا، زنا کار کے لیےپتھر ہیں۔

بستر والے سے مراد نکاح کرنے والا لڑکے کا باپ ہے اور قرآن مجید نے باپ کی طرف بچے کی نسبت کےمتعلق ارشاد فرمایا:
﴿ٱدْعُوهُمْ لِءَابَآئِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ ٱللَّهِ﴿٥سورۃ الاحزاب
یعنیجنہیں تم فرط محبت سےمیٹاکہہ دیتے ہو، بہتر یہی ہے کہ تم انہیں ان کے باپ کی طرف منسوب کرکے(ابن فلاں)کہہ کر پکارو۔ یہ بات قانون خداوندی کی رُو سےزیادہ قرین عدل ہے۔” 13

رہا وہ زانی، جسکے لیے پتھر ہیں، تو اس سے شادی شدہ زانی مراد ہے اور شادی شدہ زانی کو رجم کرنا بھی قرآن مجید کی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔

حدِّ رجم :
قرآن کریم میں جابجا عدل و انصاف کی تعلیم دی گئی ہے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ ٱلنَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِٱلْعَدْلِ﴿٥٨سورۃ النساء
” 
جب تم لوگوں میں فیصلہ کرو تو فیصلہ عدل کے مطابق کرو۔” 14

نیز فرمایا:
﴿إِنَّ ٱللَّهَ يَأْمُرُ‌ بِٱلْعَدْلِ وَٱلْإِحْسَـٰنِ﴿٩٠سورۃ النحل
کہاللہ تعالیٰ عدل و احسان کا حکم دیتاہے۔

یہ او رقرآن مجید کی دیگر آیات سے بھی عدل و انصاف کا تقاضا ظاہر و باہر ہے۔ جبکہ مجرم کو اس کے جرم کے مطابق سزاملنا بھی عین عدل و انصاف ہے، اور تمام مجرموں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا قرآنی عدل و انصاف کےتقاضوں کےمنافی!

بنابریں زنا کے مرتکبین کے جرم میں اگر بہ نظر انصاف دیکھا جائے تو شادی شدہ زانی کا جرم، غیرشادی شدہ زانی کے جرم کی نسبت اغلظ، افحش اور بہت بڑا ہے کیونکہ شادی شدہمرد و عورت کے لیے شادی کے بعد جنسی خواہشات کی تکمیل کا سامان ہوچکاہوتا ہے۔ اب اگر وہ حلال سے تجاوز کرکے حرام کاری کا ارتکاب کرتے ہیں توقرآنی عدل و انصاف کے پیش نظر انہیں ایسی سزا ملنی چاہیے جو کنوارے زانی کی سزا سے بڑھ کر ہو، جسے جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے ابھی تک حلال ذرائع میسر نہیں آسکے۔ لیکن اگر محصن زانی کوبھی وہی سو کوڑوں کی سزا دی جائے جو کنوارے زانی کو دی جاتی ہے تو ظاہر ہے کہ عدل و انصاف کے تقاضے اس سے پورے نہیں ہوسکیں گے بلکہ یہ اس قرآنی حکم سےسراسر انحراف ہوگا اور جس کا لازمی نتیجہ یاتو کنوارے زانی پر ظلم، او ریامحصن زانی کوبے جا رعایت کی صورت میں نکلے گا۔او راندریں صورت یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ محصن زانی او رکنوارے زانی کا جرم برابر ہے، اس طرح شادی شدہ اور غیرشادی شدہ میں بھی کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ حالانکہ یہ عقل کامنہ چڑانے والی بات ہے۔ الغرض قرآنی حکموَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ ٱلنَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِٱلْعَدْلِکا لازمی تقاضا یہ ہے کہ محصن زانی اور کنوارے زانی کی سزا میں فرق ہونا چاہیے۔ چنانچہ غیر شادی شدہ زانی کی سزا سو کوڑے اور شادی شدہ زانی کی سزا اس سے زیادہ سخت ”رجم” یعنی سنگسار کرنا ہے۔

رجم کو غیر قرآنی سزا کہنے والے جہالت کا شکار ہیں۔ قرآن مجید میں سنگساری کی سزا کا ذکر موجود ہے۔ چنانچہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم لواطت کے جرم میں مبتلا تھی اور اس جرم کی پاداش میں ان پر آسمانوں سے پتھر برسا کر انہیں تباہ و برباد کردیا گیا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَقَدْ أَتَوْاعَلَى ٱلْقَرْ‌يَةِ ٱلَّتِىٓ أُمْطِرَ‌تْ مَطَرَ‌ ٱلسَّوْءِ ۚ أَفَلَمْ يَكُونُوايَرَ‌وْنَهَا﴿٤٠سورۃ الفرقان
اور یہ لوگ اس بستی پرگزر چکے ہین جس پر بُری طرح کا مینہ برسایا گیا تھا، وہ اس کو دیکھتے نہ ہوں گے؟

امام رازیاس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔ یعني أن قریشا مروا مرارا کثیرة في متاجرھم إلی الشام علیٰ تلك القریة التي أھلکت بالحجارة من السمآء ” 15
یعنی ”قریش شام کی طرف تجارت کےسلسلے میں بارہا اس بستی پر گزر چکے ہیں، جس کو آسمان سے پتھر برسا کر تباہ و برباد کردیا گیا تھا۔

درج ذیل آیت قرآنی میں اس سزا کا اس سے بھی زیادہ ہولناک منظر دکھایا گیا ہے:
﴿فَلَمَّا جَآءَ أَمْرُ‌نَا جَعَلْنَا عَـٰلِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْ‌نَا عَلَيْهَا حِجَارَ‌ةً مِّن سِجِّيلٍ مَّنضُودٍ ﴿٨٢سورۃ ھود
تو جب ہمارا حکم آیا، ہم نے اس (بستی) کو (اُلٹ کر)نیچے اوپر کردیا اور ان پر پتھر کی تہ بہ تہ (یعنی پے در پے)کنکریاں برسائیں۔

یاد رہے کہ منکرین حدیث کےہاں لواطت یاسحاقت قابل معافی جرم ہے۔ چنانچہ قرآنی قوانین(پرویز) صفحہ 101 پر ہے:
اگر دو مرد یا دو عورتیں فحش کی مرتکب ہوں تو انہیں مناسب سزا دو (اس کی سزا قرآن کریم نےمقرر نہیں کی) لیکن اگر ان میں اصلاح کا امکان ہو تو (عدالت کی صوابدید کے مطابق) انہیں معاف بھی کیا جاسکتا ہے۔

حالانکہ قوم لوط کو اسی”قابل معافی جرم” کی وجہ سے رجم کردیا گیا۔ تو شادی شدہ زانی کا جرم تو اس سے کہیں بڑھ کر ہے اور ناقابل معافی بھی۔ واضح رہے کہ ہم نے حضرت لوط علیہ السلام کی گزشتہ قوم کی سزا سے متعلق قرآن مجید سے جو استدلال کیا ہے، کسی دوسرے کے لیے یہ استدلال قابل قبول ہو نہ ہو، کم از کم ”پرویز اینڈ کو” کے لیے اس سے انکار ممکن نہیں۔کیونکہ یہ استدلال ان کی اپنی قرآن فہمی کے مسلّمہ طریقےکے مطابق ہے۔ چنانچہ مستشرق پرویز سے جب تصویر (فوٹو) کے جواز یاعدم جواز کا فتویٰ طلب کیا گیا تو ارشاد ہوا:
قرآن میں تصویرکی ممانعت کہیں نہیں، بلکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے تذکار جلیلہ کے سلسلہ میں مذکور ہے کہ ان کے پاس دور دراز ملکوں کے اجنبی صناع جمع تھے۔یعلمون16من محاریب و تماثیل 17 جو اُن کےمنشاء کے مطابق بڑی بڑی محراب دار عمارتیں اور تماثیل تیار کرتے تھے۔ تماثیل تمثال کی جمع ہے او رتمثال میں تصاویر او رمجسمے دونوں شامل ہیں، اب ظاہر ہے کہ جبخدا کا ایک اولوالعزم رسول، تصاویر او رمجسموں کو تیار کراتا ہو اور قرآن اس کاذکر کررہا ہو او راس کی مخالفت کہیں نہ آئی ہو، تو پھر از روئے قرآن تصویر کی ممانعت کیسے ثابت ہوسکتی ہے۔” 18

لہٰذا ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب خود خدا نےقوم لوط کو لواطت کے جرم کی سزا رجم کی صورت میں دی تھی، قرآن اس کاذکر بھی کررہا ہے تو اوّلاً مسٹر پرویز نے قرآنی ”نظام ربوبیت” کے برپا کرنے کے دعووں کے باوجود اسی جرم کو قابل معافی کیسےقرار دے دیا؟ اور ثانیاً رجم غیرقرآنی سزا کیونکر ہوئی؟ پھر اس جرم سے زیادہ بڑھ کر جرم کامرتکب ہونے والا (کم از کم) اس سزا کا مستحق کیوں نہیں ہے؟ علاوہ ازیں اس”مفکر قرآن” کے ناکارہ وارثوں سے ہم یہ شکوہ کرنےمیں بھی حق بجانب ہیں کہ ان کے مذکورہ طرز استدلال کے مطابق داڑھی رکھنا بھی قرآن کریم سے ثابت ہے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب طُور سے واپسی پر اپنی قوم کو بچھڑا پوجنے کے جرم میں مبتلا دیکھا ، تو اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کی داڑھی اور سر کے بالوں کو پکڑ کر ، ان سےشکوہ کیا کہ انہوں نےاس فعل شنیع سےقوم کو باز کیوں نہ رکھا؟ اس پر حضرت ہارون علیہ السلام نےعذر کرتے ہوئے فرمایا:
يَاابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِى وَلَا بِرَ‌أْسِىٓ﴿٩٤سورۃ طہ
کہمیری ماں کے بیٹے، میری داڑھی اور سر کے بال نہ پکڑیں……..”

اس آیت کریمہ کی روشنی میں ”طلوع اسلام” کے ”بابا جی پرویز مرحوم” کا قرآن کو اپنے ہاتھوں میں لے کر داڑھی منڈوا کر فوٹو اتروانا، پھر حصول شہرت کے لیےطلوع اسلام میں اسے چھپوانا، انکار قرآن نہیں تو اور کیا ہے؟ کیونکہ خدا کے ایک اولوالعزم رسولؐ نے جب داڑھی رکھی ہو، قرآن اس کاذکر بھی کررہا ہوں، او راس کی ممانعت کہیں نہ آئی ہو، تو پھر از روئے قرآن داڑھی منڈوانا کیسے ثابت ہوسکتا ہے؟فافھم و تدبر۔
(
جاری ہے)


حوالہ جات
1.طلوع اسلام فروری 77ء جلد 30 شمارہ 2
2.تفسیر کبیر :3؍227
3.لغات القرآن، پرویز 4؍1610
4.مفہوم القرآن ۔ پرویز :1؍230
5.مفہوم القرآن:1؍87
6.مفہوم القرآن:1؍415
7.تفسیر کبیر:15؍221
8.تفسیر الکبیر:16؍152
9.مفہوم القرآن:1؍274
10.مفہوم القرآن:1؍82
11.مفہوم القرآن:1؍339
12.مفہوم القرآن:1؍177
13.مفہوم القرآن:3؍364
14.قرآنی قوانین۔پرویز صفحہ 27
15.تفسیر کبیر:24؍84
16.مسلمانوں کے قرآن میں ”یعملون” ہے۔
13 17.؍34
18.طلوع اسلام دسمبر 85ء جلد 38 شمارہ12


 i. لغات القرآن:1؍290

ii.احکام القرآن:1؍110

iii.مفہوم القرآن:2؍635

iv.مفہوم القرآن:1؍70

About thefinalrevelation
Leave a reply