امام ابن شہاب زہری ؒ اور غامدی صاحب کے اعتراضات

غامدی صاحب نے سبعہ احرف والی روایات کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ ا ن کا کہنا یہ ہے کہ ایسی تمام روایات کی سند میں ایک راوی امام ابن شہاب زہری ؒ ہے جسے وہ مدلس ا ور مدرج قرار دیتے ہیں۔
غامدی صاحب لکھتے ہیں :
’’لیکن یہ روایتیں اس کے بر خلاف ایک دوسری ہی داستان سناتی ہیں جسے نہ قرآن قبول کرتا ہے اور نہ عقل عام ہی کسی طرح ماننے کے لیے تیار ہو سکتی ہے۔ صحاح میں یہ اصلاً ابن شہاب زہری کی وساطت سے آئی ہیں۔ ائمہ رجال انھیں تدلیس اور ادراج کا مرتکب تو قرار دیتے ہی ہیں‘ اس کے ساتھ اگر وہ خصائص بھی پیش نظر رہیں جو امام لیث بن سعد نے امام مالک کے نام اپنے ایک خط میں بیان فرمائے ہیں تو ان کی کوئی روایت بھی ‘بالخصوص اس طرح کے اہم معاملات میں‘ قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ وہ (امام لیث بن سعد) لکھتے ہیں: اور ابن شہاب سے جب ہم ملتے تھے تو بہت سے مسائل میں اختلاف ہو جاتا تھا اور ہم میں سے کوئی جب ان سے لکھ کر دریافت کرتا تو علم و عقل میں فضیلت کے باوجود ایک ہی چیز کے متعلق ان کا جواب تین طرح کا ہوا کرتا تھا جن میں سے ہر ایک دوسرے کا نقیض ہوتا اور انھیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ اس سے پہلے کیا کہہ چکے ہیں۔ میں نے ایسی ہی چیزوں کی وجہ سے ان کو چھوڑا تھا‘ جسے تم نے پسند نہیں کیا ‘‘۔(۱۳)

اب ہم امام ابن شہاب زہریؒ متوفی ۱۲۵ھ کے بارے میں ائمۂ جرح و تعدیل‘ ائمہ محدثین اور ائمۂ فقہاء اور ان کے معاصر علماء کی آراء نقل کرتے ہیں۔

ابن شہاب زہریؒ کے بارے میں ائمۂ جرح و تعدیل‘ ائمہ محدثین اور ائمۂ فقہاء اور ان کے معاصر علماء کی آراء

امام ابن حجرؒ متوفی ۸۵۲ھ کی رائے :
علامہ ابن حجر ؒلکھتے ہیں:
الفقیہ الحافظ متفق علی جلالتہ و اتقانہ(۱۴)
’’فقیہ اورالحافظ‘ ہیں‘ ان کی بزرگی اور حافظے کی پختگی پر محدثین کا اتفاق ہے‘‘۔
امام ذہبی ؒ (توفی ۷۴۸ھ کی رائے :
امام ذہبیؒ لکھتے ہیں:
محمد بن مسلم الحافظ الحجة(۱۵)
’’محمد بن مسلم ’الحافظ‘اور ’الحجۃ‘ہیں ‘‘۔
امام ابن حبانؒ متوفی ۲۵۴ھ کی رائے :
امام ابن حبانؒ لکھتے ہیں:
رأی عشرة من أصحاب رسول اللّٰہﷺ و کان أحفظ أھل زمانہ و أحسنھم سیاقا لمتون الأخبار و کان فقیھا فاضلا(۱۶)
’’انھوں نے دس صحابہ کی زیارت کی ہے اور اپنے زمانے کے سب سے بڑے حدیث کے حافظ تھے اور احادیث کے متون کو بیان کرنے میں سب سے اچھے تھے اور فقیہ اور فاضل تھے ‘‘۔
امام احمد العجلیؒ متوفی ۲۵۷ھ کی رائے :
امام احمد العجلیؒ فرماتے ہیں:
تابعی ثقة (۱۷)
’’تابعی اور ثقہ تھے‘‘ ۔
حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ کی رائے :
ابن ابی حاتم الرازیؒ لکھتے ہیں:
قال عمر بن عبد العزیز علیکم بابن شھاب ھذا فانکم لا تتبعون أحدا أعلم بالسنة الماضیة منہ(۱۸)
’’حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے کہا ہے تم ابن شہابؒ‘ کو لازمی پکڑو (ان سے استفادہ کرو)‘ کیونکہ گزری ہوئی سنن کے بارے میں ان سے بڑھ کر کوئی جاننے والا نہیں ہے‘‘۔
امام مالکؒ متوفی ۱۷۹ ھ کی رائے :
امام ذہبیؒ لکھتے ہیں:
قال ابن القاسم سمعت مالکا یقول بقی ابن شھاب و مالہ فی الدنیانظیر (۱۹)
’’ابن القاسمؒ نے کہا ہے کہ میں نے امام مالکؒ سے سنا‘ وہ کہہ رہے تھے: ابن شہابؒ باقی رہ گئے اور ان کی کوئی مثال اس دنیا میں نہیں ہے‘‘۔
امام احمدؒ متوفی ۲۴۲ھ کی رائے :
أحسن الناس حدیثا و أجود الناس اسنادا(۲۰)
’’لوگوں میں حدیث کے اعتبار سے سب سے بہتر اور سند کے اعتبار سے سب سے عمدہ ہیں‘‘۔
امام ابو حاتم الرازی ؒ متوفی ۲۷۷ھ کی رائے :
أثبت أصحاب أنس الزھری(۲۱)
’’حضرت انس کے اصحاب میں سب سے زیادہ ’ثابت‘ امام زہریؒ ہیں ‘‘۔
قتادہ ؒ متوفی ۱۰۹ھ کی رائے :
مابقی أحد أعلم بسنة ماضیة من ابن شھاب(۲۲)
’’گزشتہ سنن کے بارے میں ابن شہابؒ سے زیادہ علم رکھنے والا کوئی بھی باقی نہیں رہا‘‘۔
یحییٰ بن سعیدؒ کی رائے :
مابقی عند أحد من العلم ما بقی عند ابن شہاب (۲۳)
’’کسی ایک کے پاس بھی وہ علم نہیں رہا جو ابن شہاب ؒ کے پاس ہے ‘‘۔
سعید بن عبد العزیزؒ کی رائے :
ما کان الا بحرا(۲۴)
’’وہ تو علم کا ایک سمندر ہے ‘‘۔
سفیان ثوری ؒ متوفی ۱۶۱ھ کی رائے :
کان الزھری أعلم أھل المدینة(۲۵)
’’امام زہری ؒ اہل مدینہ میں سب سے بڑے عالم ہیں‘‘ ۔
عمروبن دینار ؒ متوفی ۱۲۶ھ‘ کی رائے :
ما رأیت أحدا أنص للحدیث من الزھری(۲۶)
’’ حدیث کی سند بیان کرنے میں زہریؒ سے بڑھ کر میں نے کوئی عالم نہیں دیکھا‘‘۔
ابو ایوب سختیانی ؒمتوفی ۱۳۱ھ کی رائے :
اما م ذہبیؒ لکھتے ہیں:
قال أبو أیوب ما رأیت أعلم منہ(۲۷)
’’ابو ایوب ؒنے کہا: میں نے ان سے بڑا عالم کوئی نہیں دیکھا‘‘۔
امام لیث بن سعدؒ متوفی ۱۷۵ھ کی رائے :
کان من أسخی الناس(۲۸)
’’وہ لوگوں میں سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے تھے‘‘۔
روی أبو صالح عن اللیث بن سعد ما رأیت عالما قط أجمع من الزھری(۲۹)
’’ابو صالح امام لیث بن سعدؒ سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے ابن شہاب زہریؒ سے زیادہ جامع العلوم کسی عالم کو نہیں دیکھا ‘‘۔

امام نسائی ؒ متوفی ۳۰۳ ھ کی رائے :
امام مزی ؒ لکھتے ہیں:
قال النسائی أحسن أسانید تروی عن رسول اللہ أربعة منھا: الزھری عن علی بن الحسین عن الحسین بن علی عن علی ابن أبی طالب عن رسول اللہ ﷺ والزھری عن عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبۃ بن مسعودعن ابن عباس عن عمر عن رسول اللہ ﷺ(۳۰)
’’امام نسائی ؒنے کہاکہ سب سے بہتر اسناد جو کہ اللہ کے رسولﷺسے مروی ہیں وہ چار ہیں: زہریؒ حضرت علی بن حسینؓ سے‘ وہ حسین بن علی ؓسے‘ وہ حضرت علیؓ بن ابی طالب سے اوروہ اللہ کے رسول ﷺسے روایت کرتے ہیں۔ اور زہریؒ عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعودؓ سے‘ وہ ابن عباسؓ سے‘ وہ حضرت عمرؓسے اور وہ اللہ کے رسول ﷺسے روایت کرتے ہیں ‘‘۔
عمروبن دینار ؒ متوفی ۱۲۶ھ کی رائے :
قال سفیان بن عیینہ عن عمرو بن دینار ما رأیت أنص للحدیث من الزھری(۳۱)
’’سفیان بن عیینہ‘عمرو بن دینار ؒسے نقل کرتے ہیں کہ میں نے حدیث کی سند بیان کرنے میں زہری ؒسے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا‘‘۔
محمد بن سعدؒ اور محدثین کی رائے :
وقال محمد بن سعد قالوا : و کان الزھری ثقۃ کثیر الحدیث و العلم و الروایة فقیھا جامعا(۳۲)
’’محمد بن سعد ؒنے کہا : محدثین کا کہنا ہے کہ زہری ثقہ راوی ہے اور کثرت سے علم رکھنے والا‘ احادیث کو جاننے والا اور احادیث کو نقل کرنے والا ہے‘‘۔
مکحو لؒ متوفی ۱۰۹ھ کی رائے :
قال عمرو بن أبی سلمة سمعت سعید بن عبد العزیز یحدث عن مکحول قال : ما بقی عن ظھرھا احد اعلم بسنة ماضیة من الزھری (۳۳)
’’عمرو بن ابی سلمہؒ کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن عبد العزیز ؒسے سنا‘ وہ مکحولؒ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: زمین کی پشت پر گزری ہوئی سنت کے بارے میں زہری ؒسے بڑھ کر کوئی عالم باقی نہیں رہا ہے‘‘ ۔
ابو بکر الھذلی ؒ متوفی ۱۶۷ھ کی رائے :
وقال سفیان بن عیینہ قال ابو بکر الھذلی : قد جالست الحسن و ابن سیرین فما رأیت أحدا أعلم منہ یعنی الزھری(۳۴)
’’سفیان بن عیینہ ؒ کہتے ہیں کہ ابو بکر ؒ کہتے ہیں : میں حسن بصریؒ اور ابن سیرینؒ کے ساتھ بیٹھا‘ لیکن میں نے زہری ؒسے بڑھ کر کوئی عالم نہیں دیکھا‘‘۔
یحییٰ بن معینؒ متوفی ۲۳۲ھ کی رائے:
قال الدارمی قلت لہ (یعنی یحیی بن معین ) الزھری أحب الیک فی سعید بن المسیب أو قتادة فقال کلاھما فقلت فھما أحب الیک أو یحیٰی بن سعید فقال کل ثقة (۳۵)
’’امام دارمیؒ کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن معینؒ سے کہا کہ زہری ؒ آپ کوسعید بن مسیبؒ سے زیادہ محبوب ہے یا قتادہؓ ؟ تو انھوں نے کہا دونوں‘ تو میں نے پھر کہا کہ وہ دونوں آپ کو زیادہ محبوب ہیں یا یحییٰ بن سعید ؒ‘ تو یحییٰ بن معین ؒنے کہا :یہ سب ثقہ راوی ہیں ‘‘۔
علی بن مدینی ؒ متوفی ۲۳۴ھ کی رائے :
قال علی بن المدینی حفظ العلم علی أمۃ محمد ستة فلأھل مکۃ عمرو بن دینار و لأھل مدینة ابن شہاب الزھری …(۳۶)
’’علی بن مدینیؒ نے کہا ہے کہ حدیث کا علم اُمت محمد میں چھ افراد نے محفوظ کیا: اہل مکہ میں سے عمرو بن دینار ؒنے اور اہل مدینہ میں ابن شہاب الزہریؒ نے۔۔۔۔ ‘‘
امام ابن شہاب زہریؒ کی تعدیل و توصیف سے اسماء الرجال کی کتب بھری پڑی ہیں۔ غامدی صاحب کو امام زہری ؒ کے بارے میں جلیل القدر معاصرو متأخرفقہاء‘ تابعین اور محدثین کے یہ اقوال تو نظر نہ آئے‘ اور اگرکچھ نظر آیا تو وہ امام لیث بن سعدؒ کا وہ قول جسے ابن قیم ؒنے اپنی کتاب ’اعلام الموقعین‘ میں نقل کیا ہے۔

امام لیث بن سعدؒ کا امام زہری ؒ کے بارے قول
اس قول کے بارے میں ہماری رائے درج ذیل نکات پر مشتمل ہے :
پہلا نکتہ
پہلی بات تو یہ ہے کہ’اعلام الموقعین‘اسماء الرجال کی کتاب نہیں ہے۔ ہم غامدی صاحب کو یہ مشورہ دیں گے کہ امام زہری ؒ کی شخصیت پر اگر بحث کرنی ہے تو اسماء الرجال کی کتب میں موجود ائمۂ جرح و تعدیل کے اقوا ل کی روشنی میں کریں۔
دوسرا نکتہ
دوسری بات یہ کہ امام لیث بن سعد ؒ کا وہ خط جس کا غامدی صاحب نے حوالہ دیا ہے‘ وہ تقریباً تین صفحات پر مشتمل ہے‘ جبکہ غامدی صاحب نے اس خط میں اپنے کام کی تین چار سطریں اخذ کر لیں‘ حالانکہ اگر اس خط کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امام لیث بن سعدؒ نے اتنا لمبا چوڑا جوخط امام مالک ؒ‘ کو لکھا ہے اس کا موضوع امام زہریؒ کی شخصیت نہیں ہے بلکہ اس کا موضوع امام لیث بن سعدؒ اور امام مالکؒ کے درمیان ایک مسئلے میں علمی اختلاف ہے‘ اور وہ یہ کہ امام لیث بن سعدؒ کے نزدیک ’عمل اہل مدینہ‘ کے خلاف فتویٰ دینا جائز ہے‘ جبکہ امام مالکؒ اس کو ناجائز قرار دیتے تھے۔
اس پر امام لیث بن سعدؒ نے امام مالکؒ کو خط لکھا جس میں مدینہ کے علماء کے باہمی اختلاف اور ان کی آراء کے کمزور پہلوؤں کو اجاگر کیا‘ ان علمائے مدینہ میں ایک ابن شہاب زہریؒ بھی تھے ۔ یہ تو ایک فقہی اختلاف ہے جس کی کچھ عبارت کوجناب غامدی صاحب نے درمیان سے اٹھا لیا اور اسے امام لیث بن سعدؒ کی ابن شہاب زہریؒ پر تنقید کے عنوان سے پیش کر دیا‘ جبکہ امام لیث بن سعدؒ نے امام زہریؒ کے علم حدیث میں مقام و مرتبہ کو بیان کرتے وقت اسی مبالغے کاا ظہار کیا ہے جو کہ تمام علمائے جرح و تعدیل سے منقول ہے۔
امام لیث ؒ فرماتے ہیں :
وقال أبو صالح عن اللیث بن سعد ما رأیت عالما قط أجمع من ابن شھاب ولا أکثر علما منہ… (۳۷)
’’ابو صالح‘ امام لیث بن سعد ؒسے نقل کرتے ہیں کہ میں نے ابن شہاب زہری ؒ سے زیادہ جامع العلوم کسی عالم کو نہیں دیکھا اور نہ ہی ان سے بڑے کسی عالم کو دیکھاہے…‘‘
کتبت من علم محمد بن شہاب الزہری علما کثیرا(۳۸)
’’میں نے امام ابن شہاب الزہریؒ کے علم میں سے بہت سے کو لکھا ہے‘‘ ۔

تیسرا نکتہ
تیسری بات یہ کہ غامدی صاحب کے بقول امام زہریؒ کے بارے میں امام لیث بن سعد ؒنے یہ اعتراض کیا کہ ایک ہی مسئلے میں بعض اوقات ان کے فتاویٰ جات مختلف ہوتے ہیں ۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ ایک ہی مسئلے میں امام مالکؒ‘ امام ابو حنیفہؒ‘ امام شافعیؒ اور امام احمدؒ جیسے جلیل القدر فقہاء کی بھی ایک سے زائد آراء منقول ہوتی ہیں‘ کیونکہ فتویٰ حالات کے مطابق ہوتا ہے۔ بعض اوقات ایک شخص کو دیکھ کر مفتی ایک مسئلے میں ایک فتویٰ دیتا ہے اور بعض اوقات دوسرے شخص کو اس کے حالات کے مطابق بالکل اس کے برعکس فتویٰ دیتا ہے‘ جیسے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک نوجوان کو روزے کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لینے سے روک دیا جبکہ ایک بوڑھے شخص کو اس کی اجازت دے دی ۔بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک عالم ایک مسئلے میں ایک فتویٰ دیتا ہے‘ بعد میں اس کی رائے تبدیل ہو جاتی ہے اور وہ اس کے بالکل برعکس فتویٰ دیتا ہے‘ جیسا کہ امام شافعیؒ کے بارے میں معروف ہے کہ ان کی ایک قدیم رائے ہے اور ایک جدید رائے ہے۔
چوتھا نکتہ
چوتھی بات یہ ہے کہ امام لیث بن سعد ؒنے امام زہریؒ پر جو جرح کی ہے وہ ان کے فتاویٰ جات کے اعتبار سے ہے نہ کہ ان کی حدیث بیان کرنے کے اعتبار سے۔ اگر وہ حدیث کے معاملے میں بھی ایسا ہی کرتے کہ کبھی ایک روایت کو کچھ الفاظ کے ساتھ اور کبھی اس کے بالکل برعکس الفاظ کے ساتھ نقل کرتے تو امام لیثؒ اس کا ضرور تذکرہ فرماتے۔ جتنی جرح نقل کر کے غامدی صاحب امام زہری ؒکی شخصیت کو متنازعہ بنانا چاہتے ہیں اتنی جرح تو ائمۂ رجال کے ہاں حدیث کے مسئلے میں امام ابو حنیفہ ؒ پر بھی موجود ہے‘ لیکن اس جرح کے باوجود امام ابوحنیفہؒ کی ایک فقیہ کی حیثیت سب کے نزدیک متفق علیہ اور مسلّم ہے۔ اس لیے امام زہریؒ کے فتاویٰ پر جرح سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ وہ حدیث میں بھی مجروح ہوں۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ’’فلاں شخص محدث نہیں ہے‘‘ اور اس دعوے کے ثبوت کے لیے اگر اس کے پاس کوئی دلیل بھی ہو تو وہ یہ کہ’’فلاں شخص فقیہ نہیں ہے ‘‘۔
پانچواں نکتہ
پانچویں بات یہ ہے کہ غامدی صاحب نے امام زہری ؒ کے بارے میں امام لیث بن سعدؒ کی جو ایک رائے نقل کی ہے اگر کسی ایک شخص کی رائے پر ہی کسی کے علمی مقام و مرتبہ کے تعین کا انحصار ہے تو ایسی آراء تو ہر فقیہ اور محدث کی ذات یا اس کی کتب کے بارے میں موجود ہیں‘ تو کیا ایسی ایک شاذ رائے کی وجہ سے ان کے تمام علمی کام اور مرتبے کا انکار کر دیا جائے گا؟

امام زہری ؒ اور تدلیس
جناب غامدی صاحب نے امام زہریؒ کی روایات قبول نہ کرنے کی جوتین وجوہات بیان کی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ تدلیس کرتے ہیں۔
غامدی صاحب لکھتے ہیں :
’’صحاح میں یہ اصلاً ابن شہاب زہری کی وساطت سے آئی ہیں ۔ائمۂ رجال انھیں تدلیس اور ادراج کا مرتکب تو قرار دیتے ہی ہیں‘ اس کے ساتھ اگر وہ خصائص بھی پیش نظر رہیں جو امام لیث بن سعد نے امام مالک کے نام اپنے ایک خط میں بیان فرمائے ہیں تو ان کی کوئی روایت بھی‘ بالخصوص اس طرح کے اہم معاملات میں‘ قابل قبول نہیں ہو سکتی‘‘۔(۳۹)
غامدی صاحب جن ائمہ رجال پر اعتماد کرتے ہوئے امام زہری ؒ کو تدلیس اور ادراج کامرتکب قرار دے رہے ہیں وہی ائمہ رجال امام زہریؒ کی روایات کو قبول کرتے ہیں۔ صحاحِ ستہ کے مؤلفین نے امام زہری ؒ سے روایات لی ہیں اور ائمہ جرح وتعدیل نے ان پر صحیح کا حکم بھی لگایا ہے جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ ائمہ محدثین ورجال کے نزدیک امام زہریؒ کی روایات مردود نہیں بلکہ مقبول ہیں۔ امام زہریؒ کی ’سبعة أحرف‘ کی جس روایت پر جاوید احمد غامدی صاحب تنقید کررہے ہیں اور اس کو مردود قرار دے رہے ہیں‘ وہ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ جس کی صحت پر محدثین کا اتفاق ہے ۔
قابل غور بات یہ ہے کہ علم حدیث میں غامدی صاحب کا مقام و مرتبہ کیا ہے یا ان کی خدمات کیا ہیں جس کی بنیاد پر وہ صحیح بخاری کی روایات کو مردود کہہ رہے ہیں؟ امام بخاری ؒ کہہ رہے ہیں کہ یہ روایت صحیح ہے اور ان کی رائے کو قبول کیا جائے تو بات سمجھ میں بھی آتی ہے‘ کیونکہ وہ حدیث کے امام ہیں۔ اسی طرح اگر امام دار قطنیؒ صحیح بخاری کی روایات پر تنقید کریں تو بات سمجھ میں بھی آتی ہے‘ کیونکہ وہ اس کے اہل بھی ہیں اور فنِ حدیث اور اس کی اصطلاحات کی روشنی میں ہی روایات پر بحث کرتے ہیں‘ لیکن غامدی صاحب جیسے محقق اگرصحیح بخاری کی روایات کو مردود کہنے لگ جائیں توعلم دین کا اللہ ہی حافظ ہے‘ کیونکہ نہ تو وہ فنِ حدیث اور اس کی اصطلاحات سے کماحقہ واقف ہیں اور نہ ہی وہ اس کے طے شدہ اصولوں کی روشنی میں احادیث کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں۔

اس سلسلے میں چند مزید پہلوؤں کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے :
پہلا نکتہ
پہلی بات تو یہ ہے کہ صرف تدلیس کوئی ایسا عیب نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے کسی راوی کی روایات کومردود قرار دیا جائے۔
امام ابن صلاحؒ فرماتے ہیں :
أن التدلیس لیس کذبا وانما ھو ضرب من الایھام بلفظ محتمل(۴۰)
’’ تدلیس جھوٹ نہیں ہے‘ یہ تو محتمل الفاظ کے ساتھ ابہام کی ایک قسم ہے‘‘۔
دوسرا نکتہ
دوسری بات یہ ہے کہ امام زہریؒ کی تدلیس وہ تدلیس نہیں ہے جس معنی میں متأخرین اس کو تدلیس کہتے ہیں‘ بلکہ وہ ارسال کی ہی ایک قسم ہے جس کو بعض متقدمین نے تدلیس کہہ دیا۔
شیخ ناصر بن احمدالفہد لکھتے ہیں :
لم أجد أحدا من المتقدمین وصفہ بالتدلیس غیر أن ابن حجر ذکر أن الشافعی والدارقطنی وصفاہ بذلک والذی یظھر أنھما أرادا الارسال لا التدلیس بمعناہ الخاص عند المتأخرین أو أنھم أرادوا مطلق الوصف بالتدلیس غیر القادح … و ھو من أھل المدینة و التدلیس لا یعرف فی المدینة(۴۱)
’’میں نے متقدمین میں سے کسی ایک کو بھی نہیں پایا جس نے امام زہریؒ‘ کو تدلیس سے متصف کیا ہو‘ صرف ابن حجر ؒنے لکھاہے کہ امام شافعی ؒاور امام دارقطنی ؒنے ان کو تدلیس سے متصف کیا ہے۔ اور صحیح بات یہ ہے کہ ان دونوں حضرات کے کلام کا مفہوم یہ ہے کہ امام زہریؒ ارسال کے مرتکب تھے نہ کہ اس معنی میں تدلیس کے کہ جس معنی میں یہ متأخرین میں معروف ہے یا ان کا مقصد امام زہری ؒکو مطلقاً ایسی تدلیس سے متصف کرنا تھا جو کہ عیب دار نہ ہو۔۔۔امام زہریؒ اہل مدینہ میں سے ہیں اور اہل مدینہ میں تدلیس معروف نہ تھی ‘‘۔
تیسرا نکتہ
تیسری بات یہ کہ امام زہری ؒسے تدلیس شاذو نادر ہی ثابت ہے۔
امام ذہبی ؒ لکھتے ہیں :
کان یدلس فی النادر(۴۲)
’’وہ شاذ و نادر ہی تدلیس کرتے تھے ‘‘۔
باقی ابن حجرؒ کا یہ کہنا کہ امام زہریؒ تدلیس میں مشہور تھے‘صحیح نہیں ہے‘ کیونکہ متقدمین میں سے کسی نے بھی یہ بات نہیں کی۔
شیخ ناصر بن حمدالفہد لکھتے ہیں :
و یعسر اثبات تدلیس الزھری (التدلیس الخاص) فضلا عن أن یشتھر بہ(۴۳)
’’امام زہریؒ کے بارے میں تدلیس (تدلیس خاص ) کو ثابت کرنا ہی مشکل ہے چہ جائیکہ یہ دعویٰ کیاجائے کہ وہ تدلیس میں مشہور تھے‘‘
امام صنعانی ؒ نے بھی ابن حجر ؒ پر یہ اعتراض وارد کیا ہے کہ انھوں نے امام زہری ؒ کا شمارمدلسین کے تیسرے طبقے میں کیوں کیا ہے!
امام صنعانی ؒ لکھتے ہیں :
فما کان یحسن أن یعدہ الحافظ ابن حجر فی ھذہ الطبقة بعد قولہ أنہ اتفق علی جلالتہ و اتقانہ(۴۴)
’’یہ بات اچھی نہیں ہے کہ ابن حجر ؒنے اما م زہریؒ‘ کو تیسرے طبقے میں شمار کیا‘ جبکہ خود ابن حجر کا امام زہری ؒ کے بارے میں یہ قول موجود ہے کہ ان کے علمی مقام اور حافظے کی پختگی پر محدثین کا اتفاق ہے ‘‘۔

کتاب کا نام
فکرِغامدی ایک تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ

مصنف
حافظ محمد زبیر

(شعبہ تحقیق اسلامی‘ قرآن اکیڈمی، لاہور)
ناشر
مکتبہ خدام القرآن لاہور،36۔کے‘ ماڈل ٹاون، لاہور

About thefinalrevelation
Leave a reply