روايت بالمعنی پر اعتراض کا جواب

اعتراض : ایک شبہ روایت بالمعنی کی بنیادپر پیش کیا جاتا ہے۔ یعنی استاذ اپنے شاگرد کی طرف ان الفاظ کو منتقل نہیں کرتا جو اس نے اپنے استاذ سے سنے ہیں بلکہ ان کے مفہوم کو اپنے الفاظ میں پیش کرتا ہے۔ اس طرح بہت سے معانی کے اداء مطالب میں تبدیلی واقع ہوسکتی ہے۔

جواب:

اچھا صاحب یہ بتائیے کہ اگر کوئی اردو دان جس کو عربی نہ آتی ہو، یہ کہے کہ ” اللہ فرماتا ہے نماز قائم کرو، کعبہ کی طرف منہ کرو، تو یہ صحیح ہوگا یا غلط؟ یقینا صحیح ہوگا، وہ اللہ کے الفاظ ادا نہیں کر رہا، بلکہ اس کا مفہوم ادا کر رہا ہے، اس کے باوجود اگر وہ یہ کہے کہ ” اللہ فرماتا ہے” اور یہ طریقہ صحیح ہو، تو پھر حدیث کی ادائیگی کے لیے یہ طریقہ صحیح کیوں نہیں۔
اگر کسی قرآنی حکم کو عمل کرنے کا طریقہ مختلف الفاظ میں بتایا جائے اور معنی ان تمام الفاظ کے ایک ہی ہوں تو بتائیے قرآن پر عمل کرنے کا طریقہ متعین ہوگیا، یا نہیں، اب یہی وہ طریقہ ہے جس کے متعلق ہم کہیں گے کہ وحی خفی نے اس کو متعین کیا تھا، یعنی یہی وہ طریقہ ہے، جو من جانب اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کیا گیا تھا، اگر کسی کام کا طریقہ متعین ہو جائے تو اس سلسلہ میں الفاظ کے تعین کا اصرار خود آپ کے بھی لغو ہوگا، ذرا علم کیمیا کی کتابیں اٹھا کر دیکھیے کہ ایک ہی گیس کی تیاری کے لیے ہر کتاب والا ایک ہی طریقہ بیان کرتا ہے، لیکن ہر ایک اپنے الفاظ میں تو کیا اس صورت میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ ہر کتاب والے کے الفاظ علیحدہ علیحدہ ہیں، لہٰذا یہ طریقہ قابل اعتماد نہیں، ہرگز نہیں، بلکہ وہ طریقہ قابل عمل اور قابل اعتماد ہوگا، اور اس کو کسی بھی کتاب سے اخذ کیا جاسکے گا اور اس کے متعلق یقین سے کہا جاسکے گا، کہ یہی وہ طریقہ ہے، جو اس سلسلہ میں بانی اول سے بتواتر منقول ہے اور یہاں یہی مطلوب ہے، نہ کہ الفاظ اور طریق بیان۔

۱۔ روایت ِبالمعنی فی نفسہ ناجائز یا قابل نفرت نہیں ہے، خود قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ایک ہی قصہ کو اور ایک ہی شخص یا گروہ کی گفتگو کو مختلف پیرایوں میں بیان کیا گیا ہے۔ مثلا ً موسیٰ علیہ السلام کی سرگزشت بیان کرتے ہوئے ایک جگہ ارشاد ہوا

﴿وَهَل أَتىٰكَ حَديثُ موسىٰ ٩ إِذ رَ‌ءا نارً‌ا فَقالَ لِأَهلِهِ امكُثوا إِنّى ءانَستُ نارً‌ا لَعَلّى ءاتيكُم مِنها بِقَبَسٍ أَو أَجِدُ عَلَى النّارِ‌ هُدًى١٠﴾… سورة طه
دوسری جگہ فرمایا:
﴿قالَ لِأَهلِهِ امكُثوا إِنّى ءانَستُ نارً‌ا لَعَلّى ءاتيكُم مِنها بِخَبَرٍ‌ أَو جَذوَةٍ مِنَ النّارِ‌ لَعَلَّكُم تَصطَلونَ٢٩ ﴾… سورة القصص
تیسرے مقام پرارشاد ہوا
﴿ إِذ قالَ موسىٰ لِأَهلِهِ إِنّى ءانَستُ نارً‌ا سَـٔاتيكُم مِنها بِخَبَرٍ‌ أَو ءاتيكُم بِشِهابٍ قَبَسٍ لَعَلَّكُم تَصطَلونَ٧ ﴾… سورة النمل

اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کی سرگزشت میں ایمان لانے والے جادوگروں کی گفتگو متعدد مقامات پر مختلف اَلفاظ میں بیان ہوئی ہے، اصل مفہوم سب جگہ ایک ہے لیکن الفاظ میں تفاوت پایا جاتاہے۔

۲۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اِرشادات کا بہت بڑا حصہ بعینہ الفاظِ نبوی کے ساتھ منقول ہے۔ مثلا ً اذان و اقامت کے کلمات، اذکار و ادعیہ کے الفاظ اور احادیث ِقدسیہ۔ان کے علاوہ اَحکام و اخلاق کے متعلق احادیث کا وہ تہائی حصہ فعلی اور تقریری روایات پرمشتمل ہے(تقریر کے معنی ہیں کہ آپ کے سامنے کوئی کام کیا گیا ہو اور اس پر آپ نے انکار نہ فرمایا ہو)۔فعلی اور تقریری احادیث کے لئے اصل الفاظ تو موجود ہی نہیں ہوتے جن کی پابندی کی شرط لگائی جائے۔
روایت بالمعنی کا اگر سوال پیدا ہوسکتا ہے تو وہ صرف قولی اَحادیث کے بارے میں۔اسی طرح پورے ذخیرہٴ روایات پر غورکرنے سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ جن احادیث میں روایت بالمعنی کا احتمال ممکن ہے، وہ ایک ثلث سے زیادہ نہیں ہیں۔روایت بالمعنی کو جائز قرار دیا گیاہے تو اس کے لئے محدثین نے بڑی شرطیں لگائی ہیں، یعنی یہ طریق کار وہی لوگ اختیار کرسکتے ہیں جو زبان کے ماہر اور لغت کی وسعتوں پرپوری طرح قابو پاسکتے ہوں۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
«ولايجوز تعمد تغيير المتن مطلقا ولا الاختصار منه بالنقص، ولا إبدال اللفظ المرادف للفظ المرادف له إلا لعالم بمدلولات الألفاظ وبما يحيل المعنی»
یعنی “متن حدیث کے اَلفاظ میں عمدا ً تبدیلی کرنا یا اختصار کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ایک ہم معنی لفظ کو دوسرے ہم معنی لفظ سے بدلنا جائز ہے۔ ہاں یہ کام اسی کے لئے جائز ہوسکتا ہے جو الفاظ کے معانی و مطالب سے بخوبی واقف اور باخبر ہو۔” (شرح نخبة الفکر)
تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو شرح مسلم مقدمہ امام نووی / فتح المغیث شرح الحدیث العراقی، صفحہ ۵۷۶

۳۔ اگر اہل علم اورماہرین لغت کے لئے بھی روایت بالمعنی کی اجازت نہ ہو تو ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ بھی حرام قرار پاتاہے اور ترجمانی بھی ناجائز ٹھہرتی ہے۔ حالانکہ اس بار ے میں اہل علم کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ صحابہ کرام نے متعدد مواقع پر غیر عربی لوگوں سے ترجمانی کے واسطے سے گفتگو کی ہے اوراسلام کا پیغام پہنچایا ہے۔

   

Source : Link

About thefinalrevelation
Leave a reply