طلاق یافتہ عورت اور منکرین حدیث

صحیح بخاری
کتاب الطلاق

باب: اگر کسی نے تین طلاق دے دی تو جس نے کہا کہ تینوں طلاق پڑ جائیں گی اس کی دلیل اور اللہ پاک نے سورۃ البقرہ میں فرمایا طلاق دوبار ہے۔
حدیث نمبر : 5260

حدثنا سعيد بن عفير، قال حدثني الليث، قال حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال أخبرني عروة بن الزبير، أن عائشة، أخبرته أن امرأة رفاعة القرظي جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت يا رسول الله إن رفاعة طلقني فبت طلاقي، وإني نكحت بعده عبد الرحمن بن الزبير القرظي، وإنما معه مثل الهدبة. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ” لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة، لا، حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته “.

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ! رفاعہ نے مجھے طلاق دے دی تھی اور طلاق بھی بائن، پھر میں نے اس کے بعد عبدالرحمٰن بن زبیر قرظی رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لیا لیکن ان کے پاس تو کپڑے کے پلو جیسا ہے (یعنی وہ نامرد ہیں) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، غالباً تم رفاعہ کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہو لیکن ایسا اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک تم اپنے موجودہ شوہر کا مزا نہ چکھ لو اور وہ تمہارا مزہ نہ چکھ لے۔

کچھ دن پہلے ہماری نظروں سے ایک پوسٹ گزری جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر طعن کرنے کی کوشش کی گئی پوسٹ پر موصوف نے کوئی اعتراض تو نقل نہیں کیا شائد اسلام میں جو چیز حیا دار اور شرم کے دائرے میں آتی ہے یہ لوگ ان چیزوں کو غلط انداز میں پیش کر کے اسلام کو بدنام کرنا چاھتے ہے۔۔لیکن ان کی پھونکوں سے یہ چراغ نہیں بھجے گا انشاءاللہ

يريدون ليطفوا نور الله بافواههم و الله متم نوره و لو کره الکفرون(سورہ الصف:8)
یہ چاہتے ہیں کہ خدا (کے چراغ) کی روشنی کو منہ سے (پھونک مار کر) بجھا دیں حالانکہ خدا اپنی روشنی کو پورا کر کے رہے گا خواہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔

اس ادھورے قصہ پر خائن پوسٹ نگار کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے آخری الفاظ پر اعتراض ہے۔ کہ جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

“رفاعہ کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہو لیکن ایسا اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک تم اپنے موجودہ شوہر کا مزا نہ چکھ لو اور وہ تمہارا مزہ نہ چکھ لے”۔

قارئین کرام ان الفاظ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مراد صرف یہ ہے کہ جب تک تم اپنے دوسرے شوہر سے جماع نہیں کر لیتی تب تک تم اپنے پہلے شوہر کے لئے حلال نہیں ہو سکتی۔۔

اگر ظاہری اور حیا دار الفاط پر اعتراض کرنا ہے تو قرآن میں بیان پوا،۔۔۔

وَكَوَاعِبَ أَتْرَابًا ( 33 ) نبا – الآية 33
اور ابھری چھاتیوں والی ہم عمر لڑکیاں

یعنی نو ساختہ عورتیں جن کی جوانی پورے ابھار پر ہوگی، اور سب ایک ہی سن و سال کی ہوں گی اہل ایمان کے لئے جنت میں ہوگی۔۔۔

پوسٹ نگار نے حدیث کے آخری الفاظ پر بےحیا قسم عورت کی فوٹو لگائی ۔۔ جس سے پوسٹ نگار کے گندے ذہن کی تصویر جھلتکی ہےکیا منکرین حدیث کے نام نہاد مفکر قرآن انہیں ایسی ہی تعلیم دیتے ہیں؟
قرآن میں بھی اسی سے ملتےجلتے الفاظ آئیں ہیں تو کیا یہ نام نہاد مفکر قرآن قرآن کی اس آیت پہ بھی ایسی ہی بے ہودگی دکھائے گا؟ عموماً اس ایت پر کچھ عیسائی اس طرح کے اعتراض کرتے ہے جیسے صحیح حدیث پر کئے گئے جب کہ قرآن یا صحیح حدیث اعتراض سے پاک ہے۔

اگر نہیں تو یہ دشمنی صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک سے کیوں ؟

ایک اور ایت ملاحظہ کی جئے۔۔۔

هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا ۖ فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفًا فَمَرَّتْ بِهِ ۖ فَلَمَّا أَثْقَلَت دَّعَوَا اللَّهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ آتَيْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ ( 189 ) سوررہ اعراف – الآية 189

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے ۔ پھر جب مرد نے عورت کو ڈھانک لیا تو اسے ایک خفیف سا حمل رہ گیا جسے لے کر وہ چلتی پھرتی رہی ۔ پھر جب وہ بوجھل ہو گئی تو دونوں نے مل کر اللہ، اپنے ربّ سے دعا کی کہ اگر تو نے ہمیں اچھا سا بچہ دیا تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے ۔(سورہ العراف:189)

اس ایت میں لفظ استعمال ہوا “لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا” تاکہ مرد عورت سے سکون حاصل کرے یہ الفاظ عورت سے جماع کے لئے استعمال ہوئے اور اسی طرح حدیث “جب تک کہ وہ تیرا اورتو اس سے ذائقہ چکھ نہ لے” کے آخری الفاظ ہے۔۔ ان الفاظ سے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد جماع ہے۔

کیا ایسی آیات پڑھ کر شرم نہیں آئی گی۔۔ اور اگر شرم ائی گی تو کیا یہ سمجھ لیا جائے گا کہ یہ آیات بھی اسلام دشمن سازش کا نتیجہ ہے جب کہ ان آیات میں کوئی بھی عریانیت نہیں بلکہ یہ آیات تو انسانوں کے لئے تعلیم یا نعمت کا ذکر کرتی ہے۔۔۔ اور اس حدیث میں بھی مسئلہ سمجھایا گیا ہے جو کہ قرآن نے بیان کیا جیسا کہ ان شاءاللہ آگے کہ چند سطور میں ہم بیان کرے گے۔

خائن پوسٹ نگار نے مختظر حدیث جو صحیح بخاری میں بیان ہوئی اسے اٹھا کر اعتراض کر دیا اس کی نظر دوسری احادیث پر کیو نہیں پڑھی جو کہ صحیح بخاری میں ہی موجود ہے؟

اس ادھورے قصے کو نقل کرنے سے جو اعتراض وارد ہوتے ہے وہ پورا قصہ پڑھنے سے ختم پو جاتے ہے لیکن ھم منکرین حدیث کو بے بس مجبور اور لاچار سمجھتے ہے جن کے پاس مسلمانوں کے خلاف کوئی بھی دلائل نہیں اور اس کی سب سے بڑی دلیل اس پوسٹ نگار نے دی حدیث پر تو کوئی اعتراض ثابت نہیں کر سکتا تھا اس لئے اس نے ایک بے حیا مغربی عورت کی فوٹو لگائی فوٹو لگانی کہ وجہ معلومات ہوتی ہے شائد پوسٹ نگار کو صرف حدیث نقل کرنے سے ڈر تھا کہ اس طرح تو کوئی بھی اعتراض ثابت نہیں ہوتا۔۔۔۔ اس طرح کے ہت کھنڈے وہی لوگ کرتے ہے جو کہ دلائل سے خالی ہوتے ہے اب ہم ان شاء اللہ پورا قصہ اور اس حدیث کی شرح بیان کر دیتے جس سے حدیث پر سارے اعتراض ختم ہو جائے گے انشاءاللہ۔۔

اس حدیث میں جس قصہ کی طرف اشارہ ہے اس کا پورا پس منظر ملاحظہ کی جئے۔۔۔

صحیح بخاری
کتاب اللباس
باب: سبز رنگ کے کپڑے پہننا
حدیث نمبر : 5825

رفاعہ رضی اللہ عنہ نے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی۔ پھر ان سے عبدالرحمٰن بن زبیر قرظی رضی اللہ عنہ نے نکاح کر لیا تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ وہ خاتون سبز اوڑھنی اورڑھے ہوئے تھیں، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے (اپنے شوہر کی) شکایت کی اور اپنے جسم پر سبز نشانات (چوٹ کے) دکھائے پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو (جیسا کہ عادت ہے) عکرمہ نے بیان کیا کہ عورتیں آپس میں ایک دوسرے کی مددکرتی ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے) کہا کہ کسی ایمان والی عورت کا میں نے اس سے زیادہ برا حال نہیں دیکھا ان کا جسم ان کے کپڑے سے بھی زیادہ برا ہو گیا ہے۔ بیان کیا کہ ان کے شوہر نے بھی سن لیا تھا کہ بیوی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی ہیں چنانچہ وہ بھی آ گئے اور ان کے ساتھ ان کے دو بچے ان سے پہلی بیوی کے تھے ان کی بیوی نے کہا اللہ کی قسم مجھے ان سے کوئی اورشکایت نہیں البتہ ان کے ساتھ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں جس سے میرا کچھ نہیں ہوتا۔ انہوں نے اپنے کپڑے کا پلو پکڑ کر اشارہ کیا (یعنی ان کے شوہر کمزور ہیں) اس پر ان کے شوہر نے کہا یا رسول اللہ! واللہ یہ جھوٹ بولتی ہے میں تو اس کو (جماع کے وقت) چمڑے کی طرح ادھیڑ کر رکھ دیتا ہوں مگر یہ شریر ہے یہ مجھے پسند نہیں کرتی اور رفاعہ کے یہاں دوبارہ جانا چاہتی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اگر یہ بات ہے تو تمہارے لیے وہ (رفاعہ) اس وقت تک حلال نہیں ہوں گے جب تک یہ (عبدالرحمٰن دوسرے شوہر) تمہارا ذائقہ نہ چکھ لیں۔ بیان کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن کے ساتھ دو بچے بھی دیکھے تو دریافت فرمایا کیا یہ تمہارے بچے ہیں؟ انہوں نے عرض کیاجی ہاں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا، اس وجہ سے تم یہ باتیں سوچتی ہو۔ اللہ کی قسم یہ بچے ان سے اتنے ہی مشابہ ہیں جتنا کہ کوا کوے سے مشابہ ہوتا ہے۔

یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک کہ تیرا شوہر تیرا ذائقہ نا چھک لے۔۔ جس سے مراد جمع ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم اللہ کے فرمان کے مطابق ہے۔

فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ( 230 ) بقرہ – الآية 230

پھر اگر اس کو (تیسری بار) طلاق دے دے تو اب اس کے لئے حلال نہیں جب تک کہ وہ عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح نہ کرے، پھر اگر وہ بھی طلاق دے دے تو ان دونوں کو میل جول کر لینے میں کوئی گناہ نہیں، بشرطیکہ جان لیں کہ اللہ کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے، یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں جنہیں وہ جاننے والوں کے لئے بیان فرما رہا ہے۔

یعنی وہ عورت جو طلاق یافتہ تھی اور یہ جاننا چاھتی تھی کہ اب میرا دوسرے مرد سے نکاح ہوگیا ہے کیا اب میں اپنے پہلے شوہر کے لئے حلال ہو گئ اور اس نے عزر بھی پیش کیا۔۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک جماع نہیں پوگا تب تک پہلا شوہر آپ کے لئے حلال نہیں ہوسکتا۔۔لیکن یہاں یہ مراد نہیں کہ کوئی عورت پہلے سے ہی سوچ لے کہ دوسرے مرد سے نکاح صرف اس لئے کر رھی ہے کہ پہلے شوہر کے لئے حلال ہو جائے جیسا کہ سورہ بقرہ میں موجود ہے۔۔ ایسی پلیننگ کرنا اسلام میں حرام ہے۔۔ اور یہی مراد ہے اس ایت میں{ اللہ کی حدود کو قائم} رکھنے سے ہے۔۔۔لیکن اگر دوسرے مرد سے نکاح ہو جائے اور کوئی عزر ثامنا ہو تو پھر ایک الگ بات ہے۔۔۔جب کہ اسلام میں ایسا کرنے والے کو سخت وعید سنائی گئی ہے۔۔

سنن ابن ماجہ ميں عقبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” كيا ميں تمہيں كرائے يا عاريتا ليے گئے سانڈھ كے متعلق نہ بتاؤں ؟

صحابہ كرام نے عرض كيا: كيوں نہيں اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ ضرور بتائيں.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” وہ حلالہ كرنے والا ہے، اللہ تعالى حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كرے ”

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1936 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابن ماجہ ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اور جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری الفاظ ( حتی تذوقی عسیلتہ و یذوق عسیلتک ) یہ الفاظ جماع سے کنایہ ہیں کہ جب تک وہ تجھ سے جماع نہيں کرلیتا ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

اس حدیث میں یہ بیان ہے کہ جس عورت کوتین طلاق ہوچکی ہوں وہ اپنے اس خاوند کے لیے حلال نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ کسی اورشخص سے نکاح نہ کرلے اورپھر وہ شخص اس سےجماع کرے اورطلاق دے اوریہ عورت ( اس دوسرے نکاح ) کی عدت سے فارغ ہو جاۓ ( تو پھر وہ اپنے پہلے خاوند سے شادی کرسکتی ہے )

لیکن صرف عقد نکاح کرلینا ہی کافی نہیں اورنہ ہی اس کی وجہ وہ اپنے پہلے خاوند کےلیے حلال ہوجاتی ہے ۔

صحابہ کرام اورتابعین عظام اوران کے بعد آنے والے اکثر علماء کرام کا بھی یہی مسلک ہے ۔ دیکھیں شرح مسلم للنووی ( 10 / 3 ) ۔

امام المحدثین محمد بن اسمائیل بخاری رحمہ اللہ نے اس پورے قصہ کو مختلف روایات میں بیان کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین پر منکرین حدیث جیسے لوگوں کو ھمیشہ کے لئے زبان درزای سے محروم کیا ہے۔۔۔ کوئی خیانت کر کے ادھوری بات نقل کر دے تو وہ اس کی خیانت کی نشانی ہے نا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے اجتھات کی۔۔۔
اگر اس حدیث کا پس منظر اور جو حقائق دوسری آحادیث میں اس حدیث کے حوالے سے بیان ہوئے ان کو چھوڑ دیا جائے تو کیا یہ خیانت نہیں ہوگی؟؟؟ زرا ایمان سے سوچئے۔۔ایک اور حدیث ملاحظہ کی جئے جس سے ہر طرح کا اعتراض ختم ہو جائے گا۔۔۔

صحیح بخاری
کتاب الادب
باب: مسکرانا اور ہنسنا
حدیث نمبر : 6084

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہرفاعہ قرظی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور طلاق رجعی نہیں دی۔ اس کے بعد ان سے عبدالرحمٰن بن زبیر رضی اللہ عنہما نے نکاح کر لیا، لیکن وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا، یا رسول اللہ! میں رفاعہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھی لیکن انہوں نے مجھے تین طلاقیں دے دیں۔ پھر مجھ سے عبدالرحمٰن بن زبیر رضی اللہ عنہما نے نکاح کر لیا، لیکن اللہ کی قسم ان کے پاس تو پلو کی طرح کے سوا اور کچھ نہیں۔ (مراد یہ کہ وہ نامرد ہیں) اور انہوں نے اپنے چادر کا پلو پکڑ کر بتایا (راوی نے بیان کیا کہ) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور سعید بن العاص کے لڑکے خالد حجرہ کے دروازے پر تھے اور اندر داخل ہونے کی اجازت کے منتظر تھے۔ خالد بن سعید اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آواز دے کر کہنے لگے کہ آپ اس عورت کو ڈانتے نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کس طرح کی بات کہتی ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم کے سوا اور کچھ نہیں فرمایا۔ پھر فرمایا غالباً تم رفاعہ کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہو لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک تم ان کا (عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کا) مزا نہ چکھ لو اور وہ تمہارا مزہ نہ چکھ لیں۔

الحمداللہ یہ سب حقائق حدیث کو ہر طرح کے اعتراض سے پاک کر دیتے ہے۔۔۔

محترم قارئین ، اِن شاء اللہ اِن مذکورہ بالا وضاحتی معلومات کے ذریعے حدیث شریف پر کیے گئے اعتراضات اور اعتراض کرنے والوں کے علم اور مذھب کی حقیقت واضح ہوگئی ہو گی ، اللہ نہ کرے اگر پھر بھی کوئی شک برقرار ہو تو بلا تردد اسے سامنے لایے ،اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ خیر عطاء فرمائے گا ، والسلام علیکم ورحمۃُ اللہ و برکاتہ

About thefinalrevelation
Leave a reply