علماے کرام کے خلاف پرویز کا معاندانہ رویہ

ایک زمانہ تھا جب پرویز صاحب علماے سلف و خلف کی ہم نوائی میں قرآن و سنت کے سرچشمہ اسلام ہونے کے قائل تھے۔ دونوں کو (یعنی قرآن کو بھی اور سنت ِ رسول کو بھی) اَدلہ شرعیہ مانتے تھے اور ہر چیز کو کتاب و سنت ہی کی کسوٹی پر پرکھنے کے دعوے دار تھے، اور اثبات ِ دعویٰ کے لئے خود اپنے آپ پر بھی، اور دو سروں پربھی کتاب و سنت ہی سے دلیل پیش کرنے کا مطالبہ کیا کرتے تھے۔ اس قسم کے اُن کے متعدد اقتباسات میں سے چند ایک ایسے

اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں جو طلوع اسلام کے اوّلین سالِ اشاعت (1938ء)کی فائل سے ماخوذ ہیں :
(1) ”
طلوع اسلام کا نصب العین ان تمام سوالات کا حل کتاب وسنت کی روشنی میں پیش کرنا ہے۔1
(2) ”
ہمارا دعویٰ ہے اور علیٰ وجہ البصیرت یہ دعویٰ ہے کہ قرآن و سنت اور آثار و تاریخ میں کہیں ایک سند بھی اس چیز کے اثبات میں نہیں ملے گی کہ مسلمانوں نے غیر قوموں سے انفرادی طور پر دوستی اور تولی کے تعلقات قائم کئے ہوں، اگر کسی کو اس میں شک ہو تو اپنے دعویٰ کے اثبات میں کوئی ایک سند پیش کرے۔2
(3) ”
کتاب وسنت کی ان تصریحات کو سامنے رکھئے اور پھر دیکھئے کہ اگر مسٹر جناح یا کوئی اور مسلمان یہ کہہ دے کہ (i) ہندؤوں اور مسلمانوں میں اتحادِ عمل کی صرف یہی صورت ہے کہ ان دونوں کے درمیان من حیث الجماعت معاہدہ ہو اور(ii) ایک فریق کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت تسلیم کیا جائے اور دوسرے فریق کو غیر مسلموں کی نمائندہ جماعت : توکہئے کہ اس نے کون سا جرم کردیا؟3
(4) ”
ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ کتاب و سنت کی رو سے صرف یہی راستہ صراطِ مستقیم ہے۔ اس دعویٰ کے اثبات میں طلوع اسلام برابر قرآن و سنت پیش کررہا ہے۔ جو قومیت پرست مسلمان اس مسلک کو غلط سمجھتے ہیں، وہ خدارا قرآن و سنت سے اپنے دعویٰ کے اثبات میں کوئی دلیل پیش کریں۔4
(5) ”
ایک صاحب فرماتے ہیں کہ __”طلوع اسلام کا مسلک، جمہور کا مسلک ہے لیکن چونکہ یہ ضروری نہیں کہ جمہور کا مسلک ہمیشہ حق و باطل کا مسلک ہو، اس لئے طلوعِ اسلام کا مسلک غلط ہے۔” __لیکن ان کے ہم مشرب دوسرے صاحب فرماتے ہیں: __ ”طلوعِ اسلام کا مسلک جمہور کا مسلک نہیں ہے، اور چونکہ صحیح مسلک جمہور کا ہوتا ہے، اس لئے طلوعِ اسلام کا مسلک غلط ہے۔”__ حالانکہ طلوعِ اسلام کا مسلک، صرف کتاب و سنت کا مسلک ہے۔5
(6)”
آئیے ہم بتائیں کہ حصولِ آزادی کے متعلق کتاب و سنت کی رو سے مسلمانوں کا مسلک کیا ہوسکتا ہے۔ یہ وہ مسلک ہے جس کے ہم مدعی ہیں اور علیٰ وجہ البصیرت مدعی ہیں۔6
(7)
اور بعض اوقات، سنت کی بجائے ‘اُسوۂ رسول’ کی ترکیب بھی استعمال کی جاتی تھی اور اسے بعد از قرآن دوسرا ماخذ شریعت مانا جاتا تھا :
(8)”
اپنے ماحول کو مدنظر رکھ کر قرآن اور اُسوۂ حسنہ کی روشنی میںجو مسائل اُنہوں نے مستنبط کئے تھے، آج کے ماحول کے مطابق ویسے ہی دساتیر و قوانین آج بھی مرتب کئے جاسکتے ہیں، جن کا سرچشمہ وہی اُصول دین ہوں، وہی شمع ہدایت ان کے لئے تھا، وہی آج ہمارے لئے بھی ہوسکتا ہے۔ اس میں پھر ان کی تنکیر کیسی اور تنقیص کیا؟7

منافقانہ اظہار ِ حق
یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ طلوعِ اسلام کے بالکل ابتدائی دور میں، اگرچہ قرآن کے ساتھ، سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اُسوۂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیا جارہا تھا۔ مگر یہ اظہار ِ حق مبنی بر اخلاص ہونے کی بجائے منافقت پر مبنی تھا،کیونکہ 1938ء سے قبل (لیکن 1928ء کے بعد) بھی وہ قلبی اور ذہنی طور پر، سنت ِنبویہ سے اپنا تعلق کاٹ چکے تھے، اور تنہا کتاب اللہ ہی کی حجیت اور قرآن ہی کی سندیت کے قائل ہوچکے تھے، لیکن مسلمانوں کے معاشرہ میں ہردل عزیزی (Popularity) پالینے کے لئے وہ مجبور تھے کہ قرآن کے ساتھ سنت کا بھی نام لیتے رہیں(i) چنانچہ باوجودیکہ اُس دور میں وہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا اعتقادی رشتہ منقطع کرچکے تھے، لیکن وہ اپنے قلم اور زبان سے مصلحتاً اُن ہی نظریات و اعتقادات کا اظہار کرنے پر مجبور تھے جو ملت ِ اسلامیہ میں مقبول و مسلم تھے، حتیٰ کہ 1935ء ہی کا یہ واقعہ ریکارڈ پر موجود ہے کہ اعظم گڑھ (بھارت) سے سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی زیرسرپرستی شائع ہونے والے مجلہ ‘معارف’ کے مارچ اور اپریل کے شماروں میں پرویز صاحب نے منکرین حدیث کی تردید وابطال میں حدیث ِنبوی کی دینی حیثیت کا پُرزور اثبات کیا تھا۔ یہ بالکل وہی تکنیک تھی جو دعواے نبوت سے قبل، مرزا غلام احمد قادیانی نے اختیار کی تھی۔ بقول طلوعِ اسلام:
مرزا غلام احمد ایک مناظر کی حیثیت سے قوم کے سامنے آئے اور بہت مقبول ہوگئے۔ انہی موضوعات پر اُنہوں نے اپنی کتاب ‘براہین احمدیہ’ شائع کی، جسے مسلمانوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اچھے اچھے پڑھے لکھے لوگوں نے بھی اس کی تعریف کی۔8

بالکل اسی طرح جناب غلام احمد پرویز بھی، منکرین ِ حدیث کے خلاف، حامی ٔ حدیث اور مدافع ِسنت کی حیثیت سے نمودار ہوئے۔اُن دِنوں ماہنامہ ‘نگار’ اور اس کے مقالہ نگار حضرات، وہی کچھ کہہ رہے تھے، جو بعد میں خود پرویز صاحب کا تکیہ کلام بنا رہا۔ لیکن اُس دور میں وہ ‘نگار’ میں شائع ہونے والی تحریروں کے خلاف خود مقالات و مضامین لکھا کرتے تھے، جو مختلف مجلات میں اشاعت پذیر ہوتے تھے، حالانکہ اُس وقت بھی وہ ذہناً سنت ِنبویہؐ سے منحرف اور حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تھے لیکن بہرحال مسلمانوں میں اپنی مقبولیت پیدا کرنے کے لئے اور ان کی نگاہوں میں حامی ٔ حدیث اور معتقد ِسنت قرار پانے کے لئے مجبور تھے کہ منکرین حدیث کی تردید پر کمر بستہ رہیں۔ اُن کا یہ رویہ طلوعِ اسلام کے اجرا تک ہی نہیں، بلکہ خود طلوعِ اسلام میں بھی ایک مدت تک برقرار رہا ہے، اور مسلک ِ انکارِ حدیث کا دم بھرنے سے ایک عرصہ قبل تک، وہ معتقد ِ سنت اور حامی ٔ حدیث بن کر اسی طرح مسلمانوں میں اپنی مقبولیت میں اضافہ کرتے رہے جس طرح مرزا غلام احمد انکارِ ختمِ نبوت کا عقیدہ اپنانے سے قبل ختم نبوت کے عقیدہ کو پیش کرتے ہوئے مقبولِ عام بنے رہے ہیں۔


مندرجہ بالا اقتباساتِ سبعہ سے، جو مشتے نمونہ از خروارے کی حیثیت رکھتے ہیں، یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سنت کے متعلق پرویز صاحب کے دل میں خواہ کچھ بھی تھا مگر ان کا قلم اُس وقت بھی قرآن و سنت ہی کا قائل ،حامی اور مؤید تھا۔ پھر جوں جوں طلوعِ اسلام کا حلقۂ قارئین بڑھتا چلا گیا اور جوں جوں وہ قومیت پرست طبقہ کی مخالفت کے ساتھ ساتھ اس طبقہ کی پُرزور حمایت کرتے چلے گئے، جو مسلم نیشنلزم کا علمبردار تھا اور یوں ان کی ہردل عزیزی کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور پھر پرویز صاحب قرآن کے ساتھ سنت کا بالالتزام نام لیتے لیتے ‘پاپولر’ بنتے گئے تو اس کے بعد آہستہ آہستہ اُنہوں نے اپنا نقاب اُلٹنا شروع کیا اور پھر وہ وقت بھی آگیا جب وہ کھل کر مسلک ِانکارِ حدیث کا پرچار کرنے لگے، بالکل اسی طرح جس طرح ان کے پیشرو ہم نام ایک عرصہ تک اپنی خدمت ِاسلام کے ذریعہ اہل اسلام کے قلوب میں، اپنے لئے نرم گوشہ پیدا کرنے کے لئے ختم ِنبوت کے عقیدے کا راگ الاپتے رہے اور پھر یکایک اس مبنی برحق عقیدہ کو پس پشت ڈال کر خود دعواے نبوت پر اُتر آئے، مگر اس فرق کے ساتھ کہ غلام احمد قادیانی کے معاملہ میں، عقیدۂ ختم ِنبوت کے اقرار اور انکار کے درمیان کوئی ایسا ‘عبوری دور’ نہیں ہے جس میں اُنہوں نے کسی لمبے چوڑے تدریجی عمل کو اختیار کرتے ہوئے ایک عقیدہ کی جگہ دوسرے عقیدہ کو اپنایا ہو، مگر پرویز صاحب نے ایسا کرنے میں تدریج کو اختیار کیا، جس میں ایک ایسا ‘عبوری دور’ بھی گزرا ہے، جو طالب علمانہ انداز میں حدیث و سنت کے متعلق، شکوک و شبہات کے اظہار کا دور تھا اور مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ ‘ترجمان القرآن’ کے ذریعہ ایسے جملہ اوہام و شبہات کا کافی و شافی اور اطمینان بخش ازالہ کرچکے تھے، جیسا کہ مندرجہ ذیل اقتباس سے ظاہر ہے :
سب سے پہلے مسٹر پرویز نے بعض احادیث کے بارے میں اپنے شکوک و شبہات پیش کئے۔ ماہنامہ ترجمان القرآن میں ان شبہات کا پوری طرح اِزالہ کردیا گیا۔ لیکن پرویز صاحب کے یہ شبہات ایک جویاے حق اور مخلص قلب کی کھٹک نہ تھی جو افہام و تفہیم کے بعد دور ہوجاتی۔ ان کے یہ شکوک ایک برخود غلط قلب کے شکوک تھے جو رفتہ رفتہ شاخ در شاخ اور پختہ ہوتے رہے، یہاں تک کہ ان کو سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عناد پیدا ہوگیا۔9


طلوعِ اسلام’ اُفق ِ پاکستان پر
قیام پاکستان سے پہلے اور بعد کے طلوعِ اسلام میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ متحدہ ہندوستان میں یہ مجلہ اور پرویز صاحب اپنے ضمیر کے خلاف لڑتے ہوئے اُمت ِمسلمہ کے جن افکار و نظریات کی حمایت بلکہ مدافعت کیا کرتے تھے، اب وہی نظریات مصلحت کی دیمک کا شکار ہوگئے۔ چنانچہ اب وہ ملت ِاسلامیہ میں مقبول ہر اُصول اور مسئلے کی تردید پر اُتر آئے اور اپنے قلب و ذہن میں مکتوم و مستور افکار و تصورات ایک ایک کرکے، تدریج کے ساتھ اعلانیہ بیان کرنے لگے، اور ایسا کرتے ہوئے، پرویز صاحب کے لب و لہجہ میں بھی تبدیلی واقع ہوتی چلی گئی۔ طلوعِ اسلام کے، تب کے اور اب کے نظریات میں واضح فرق و تفاوت، بلکہ تغیر وتبدل،بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر تضاد وتناقض کی واضح مثالوں میں سے، چند ایک کا تذکرہ میری حالیہ کتاب ”جناب غلام احمد پرویز ؛اپنے الفاظ کے آئینہ میں”میں تفصیلاً پیش کیا گیاہے۔چنانچہ حجابِ نسواں، گانے اور گویے کی شرعی حیثیت، مصوری اور تمثال سازی میں اسلامی موقف، ملکیت ِزمین کی بابت شرعی حکم، ذاتی و شخصی ملکیت درنگاہ ِ اسلام، ضبط ِتولید میں اسلام کانقطہ نظر، خلیفة اللہ اور خلافت ِالٰہیہ از روے قرآن، وقت ِ موت کا تعین و تقرر، انسانی فطرت، اسلام بطورِ دین و مذہب وغیرہ ، جملہ اُمور میں پرویز صاحب نے وہ موقف اختیار کیا جو متحدہ ہندوستان میں بیان کردہ اُن کے موقف کے بالکل متضاد اور برعکس تھا۔ لیکن ان کا سب سے بڑا اختلاف بلکہ تضاد و تناقض اس اسلام کے بارے میں ظاہر ہوا جس کی خاطر لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر پاکستان حاصل کیا گیا تھا۔


پاکستان میں ابتدائی دورِ طلوع اسلام
پاکستان بنتے ہی پرویز صاحب نے اس اسلام کے بارے میں جس کے نفاذ کے لئے پاکستان حاصل کیا گیا تھا، پراگندہ خیالی اور ژولیدہ فکری پیدا کرنے کی ٹھان لی۔ متحدہ ہندوستان میں تو وہ قرآن و سنت کا نام لیا کرتے تھے، لیکن پاکستان میں آکر، اب اُنہوں نے کتاب بلاپیغمبرؐ اور قرآن بلا محمدؐ کا نرالا مسلک اپنایا۔ قرآن و حدیث یا کتاب و سنت کی بجائے صرف قرآن یا کتاب اللہ ہی کو ماخذ ِاسلام قرار دیا۔ اس سے قبل متحدہ ہندوستان میں جب وہ قرآن کا نام لیا کرتے تھے تو ان کا تصورِ قرآن، سنت سے منقطع نہ تھا۔ لیکن اب تنہا قرآن، بغیر سنت ِنبویہؐ کے، ان کا تکیہ کلام بن چکا تھا۔ چنانچہ طلوعِ اسلام نے ان تمام اُمور میں جن میں وہ مصلحت و منافقت کے تحت، اُمت ِمسلمہ کے افکار و نظریات کی ہم نوائی کیا کرتا تھا، اب قطعی متضاد اور مخالف روش اختیار کرلی، اور تنہا قرآن کی آڑ میں ایک بالکل نیا نظامِ معاشرت اور نظامِ مملکت وضع کرنے پر تل گیا۔

اس نئے ضابطہ حیات اور لائحۂ عمل کی بنیاد چونکہ قرآن وسنت کی بجائے، صرف قرآن قرار دی گئی تھی (اور وہ بھی محض نام کی حد تک، ورنہ اصلاً تو بنیاد، تہذیب ِمغرب ہی تھی) اس لئے اس کا ہر جزو اُس اسلام کے خلاف تھا جو قرآن و سنت پر مبنی تھا۔ اس طرح علماے کرام اور پرویز صاحب کے درمیان سب سے بڑا اختلاف خود تصورِ اسلام ہی میں واقع ہوگیا، جس کا اصلی اور بنیادی سبب سنت ِنبویہؐ کی حجیت و سندیت کے بارے میں فریقین کا باہمی اختلاف تھا۔ علماے سلف و خلف تو ہمیشہ ہی سے قرآن کے بعد (بلکہ قرآن کے ساتھ) حجیت ِسنت کے قائل رہے ہیں، لیکن پرویز صاحب (یا طلوعِ اسلام) قیامِ پاکستان سے قبل اگرچہ قرآن و سنت کو سرچشمہ اسلام مانتے ہوئے مسائل ِحیات کے حل کے قائل تھے، لیکن پاکستان کی حدود میں داخل ہوتے ہی، وہ مسلک ِانکار سنت کے پشتیبان بن گئے اور سنت ِنبویہؐ کے متعلق طرح طرح کے شکوک و شبہات پھیلانے میں وہ گولڈزیہر،شاخت اور دیگر مستشرقین پر بھی بازی لے گئے۔ مخالفت ِحدیث اور اثارۂ شکوک وشبہات، پاکستان میں طلوعِ اسلام اور پرویز صاحب کا مستقل شیوہ بن گیا۔ مفہومِ حدیث، متن حدیث، تدوین ِحدیث، الغرض، ہر پہلو سے اسے نشانہ بنایا جانے لگا، جملہ علماے اُمت اور پرویز صاحب کے درمیان بنیادی اختلاف دراصل یہی حجیت ِحدیث اور سندیت ِسنت ِرسولؐ ہی کا مسئلہ تھا۔ جس کے بطن سے ایک اور بڑا اختلاف یہ پیدا ہوا کہ قرآن کی تفسیر (سنت ِرسول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے) کس چیز سے کی جائے؟ اپنی خواہشات ِنفس سے؟ تہذیب ِمغرب کے افکار و اقدار سے؟ کتب ِلغات کی مدد سے؟ یا عربوں کے ادب ِجاہلی کی روشنی میں؟ اگرچہ یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ قرآن کی تفسیر قرآن ہی سے کی جائے گی، لیکن اس کی اصل حقیقت بس یہی ہے کہ ذلك قولھم بأفواھھم!


دو اسلام
انکارِ حدیث اور حجیت ِسنت کی بنا پر، پرویز صاحب اور علماے کرام کے مابین، نظامِ حیات کے تصورات میں انتہائی بعد اور مغایرت پیدا ہوئی۔ پرویز صاحب نے قرآن کے نام پر جو نظامِ حیات پیش کیا، اس کا معاشی نقشہ ہوبہو اور من و عن اشتراکیت سے ماخوذ ہے اور جو نظامِ معاشرت قرآن میں سے کشید کیا، اس کے جملہ اجزا مغربی معاشرت میں پہلے ہی سے موجود ہیں، مثلاً مخلوط سوسائٹی، مخلوط تعلیم، ترکِ حجاب و نقاب، مرد وزَن کی مطلق اور کامل مساوات، خواتین کو درونِ خانہ فرائض کی بجائے بیرونِ خانہ مردانہ مشاغل میں منہمک کرنا، تعددِ ازواج کو معیوب قرار دینا، عورتوں کو خانگی مستقر سے اُکھاڑ کر ، اُنہیں مردانہ کارگاہوں میں لاکھڑا کرنا، خانگی زندگی میں اس کے فطری وظائف سے منحرف کرکے قاضی و جج بلکہ سربراہانِ مملکت تک کے مناصب پر براجمان کرنا وغیرہ۔ یہ سب وہ اجزاے معاشرت ہیں جنہیں اگرچہ پرویز صاحب نے قرآن مجید سے کشید کرڈالنے میں بڑی زحمت اُٹھائی ہے، لیکن تہذیب ِمغرب کے علمبردار بغیر کسی قرآن کے اُنہیں پہلے ہی اپنائے ہوئے ہیں۔ دراصل یہی پرویز صاحب کی مغرب کے مقابلہ میں انتہائی ذ ہنی غلامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

اس کے برعکس جملہ علماے کرام قرآن و سنت کی بنیاد پر جو نقشۂ زندگی پیش کرتے ہیں، وہ نہ صرف یہ کہ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہے، بلکہ اُس ‘نظامِ ربوبیت’ کے بھی خلاف ہے جسے پرویز صاحب نے اشتراکیت پر قرآنی ٹھپہ لگا کر پیش کیا ہے۔ رہا معاشرتی نظام، تو اس کے جملہ اجزا قرآن و سنت کی روشنی میں، مغربی معاشرت کے تمام اجزا و عناصر کے بالکل متضاد اور مخالف ہیں۔

لیکن پرویز صاحب ، مغربی تمدن و ثقافت سے ماخوذ معاشرتی ڈھانچے کو جب اشتراکیت سے اخذ کئے ہوئے معاشی نظام کے ساتھ ملا کر پیش کرتے ہیں تو اُسے ‘قرآنی نظامِ حیات’ کا نام دیتے ہیں، اور علماے امت کے قرآن و سنت پر مبنی نظامِ حیات کی یہ کہہ کر مخالفت کرتے ہیں، کہ یہ عجمی اسلام’ ہے۔ رہا ‘خالص عربی اسلام’ تو اس کے اجزاے معاشرت اقوامِ مغرب ہی میں پائے جاتے ہیں۔ اس کا معاشی نظام بغیر کسی قرآنی یا آسمانی ہدایت کے حضرت کارل مارکس اور اس کے خلیفہ خاص حضرت اینجلز ہی سمجھ سکے ہیں اور اب اس ‘خالص عربی اسلام’ کی عملی شکل روس، چین اور دیگر ممالک میں نظر آتی ہے۔

فریقین میں اصل اختلاف دونوں کے نظام ہائے حیات کا تھا، لیکن پرویز صاحب نے تہذیب ِجدید سے اخذ کردہ معاشی نظام اور اس کے معاشرتی اجزا کو ملا کر’قرآنی نظام’ قرار دیا اور جملہ علماے کرام پر الزام عائد کیا کہ وہ ‘قرآنی نظام’ کے مخالف ہیں اور اس کے ساتھ ہی بڑی بلند آہنگی کے ساتھ یہ ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا کہ علما کا قرآن و سنت پر مبنی نظامِ زندگی، خلافِ قرآن’ اور ‘عجمی اسلام’ ہے، اور یوں پرویز صاحب اس کے نفاذ کی راہ میں روڑے اٹکانے پر کمر بستہ ہوگئے۔

زعماے مسلم لیگ کی جان کو دو گونہ عذاب
زعماے مسلم لیگ نے متحدہ ہندوستان میں علیحدہ وطن کے لئے اسلام کا نعرہ لگایا تھا۔ یہ نعرہ محض ایک سیاسی حربہ تھا یا فی الواقعہ مبنی براخلاص مقصد تھا؟ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد پاکستانی عوام اور علماے کرام نے حکمرانوں پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا کہ اسلام کو نافذ کریں۔ حکمرانوں کا حال یہ تھا کہ وہ مغربی افکار و نظریات کا دودھ پی پی کر پلے تھے، ان کے گھروں میں دنیا جہاں کے سامان عیش و عشرت موجود تھے لیکن جاے نماز تک نہ ملتا تھا۔ رہن سہن، بودوباش، طرزِ زندگی، لباس اور چال ڈھال سب مغربی رنگ میں مصبوغ تھے۔ نہ وہ اسلام کا مطالعہ رکھتے تھے اور نہ ہی عملی زندگی میں اسلام کے اثرات دکھائی دیتے تھے، اس لئے نہ وہ اسلام کو جانتے تھے اور نہ وہ اسے نافذ کرنے کی کوئی مخلصانہ نیت رکھتے تھے، لیکن عوام الناس، علماے کرام اور دینی جماعتوںکی طرف سے مطالبہ نفاذِ اسلام کے لئے عائد کئے جانے والے دباؤ پر حکمران زِچ ہوکر پیچ و تاب کھا رہے تھے اور اربابِ اقتدار کے لئے اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ سانپ کے منہ میں چھچھوندر والا معاملہ بن چکا تھا کہ نہ ہی اُگلے بنے اور نہ ہی نگلے بنے؛ نہ جائے ماندن، نہ پائے رفتن! وہ قولاً یہ اعلان کر نہیں سکتے تھے کہ ”ہم اسلام کو نافذ نہیں کریں گے۔” اور عملاً ایسا کرنے میں وہ مخلص ہوتے بھی تو اسلام سے ناواقفیت کے باعث ایسا کر بھی نہیںسکتے تھے!!

غلام احمد پرویز کی خدمت ِ سرکار  ایسے کٹھن وقت میں جناب غلام احمد پرویز صاحب حکمرانوں کے کام آئے اور اُنہوں نے اسلامی نظام میں، جس کے نفاذ کے لئے علما اور عوام دباؤ ڈال رہے تھے، کیڑے نکالنا شروع کردیے، اور سرے سے اسلامی نظام اور اس کے تصور ہی کو ناقابل عمل قرار دینا شروع کردیا اور اس قسم کا پراپیگنڈہ کرتے ہوئے آسمان سر پر اُٹھا لیا کہ__”بھلا اس تہذیب و تمدن کے روشن دور میں چور کو قطع ِید کی سزا دی جائے گی؟ زانی محصن کو رجم اور کنوارے زناکاروں کو ضربِ تازیانہ کا نشانہ بنایا جائے گا؟ جنگی قیدیوں کو بعد از تقسیم، غلام اور ان کی عورتوں کو کنیزیں بنا کر رکھا جائے گا؟ پھر یہاں کئی فرقے موجود ہیں، کس فرقے کی فقہ (بلکہ اسلام) کو نافذ کیا جائے گا؟ کیا باقی فرقے، کسی ایک فرقے کی فقہ کے نفاذ کو گوارا کرلیں گے؟ جو علما، نماز کی اختلافی جزئیات کو ختم کرکے، کوئی متفق علیہ شکل ِنماز طے نہیں کرسکے، وہ بھلا متفقہ دستور وآئین کی تشکیل میں کامیاب ہوجائیں گے؟ تب بھلا اسلامی نظام میں فیصلے کا آخری اختیار کیا علما کے ہاتھ میں نہیں آجائے گا؟ اگر ایسا ہوا تو کیا یہ مذہبی پیشوائیت (Priesthood) نہیں ہوگی؟ پھر بھلا یہ اسلامی نظام، کیا آج کے ‘ترقی یافتہ’ اور ‘روشن دور’ میں چل بھی سکے گا؟ کیا علما کا یہ اسلام، آج کے انتہائی ‘ارتقا یافتہ دور’ میں عقل و فکر کے تقاضوں کو پورا کرسکتا ہے؟ __ یہ اور اس طرح کے گونا گوں سوالات چھیڑ چھیڑ کر، اُنہیں مختلف اسالیب و پیرائیوں میں، دُہرا دُہرا کر پرویز صاحب (اور طلوعِ اسلام) نے ایک طرف لوگوں کے ذہنوں کو مسموم کرنا شروع کردیا اور دوسری طرف حکمرانوں میں سے ہر ایک اونگھتے ہوئے کو ٹھیلنے کا بہانہ مل گیا اور چونکہ یہ اسلامی نظام قرآن و سنت پر مبنی تھا، اس لئے سنت کے بارے میں بھی، ژولیدہ فکری پیدا کرنے کے لئے ‘مفکر ِقرآن’ مصروفِ جہاد ہوگئے۔ سنت ِنبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساقط الاعتبار قرار دینے کے لئے طلوعِ اسلام میں ایک ارتیابی مہم اور تشکیکی تحریک چلائی گئی۔ جس طرح اسلامی نظام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لئے مختلف اسالیب اور متنوع انداز اختیار کئے گئے، بالکل اسی طرح سنت ِرسول کے بارے میں بھی، اُسلوب و انداز کو بدل بدل کر اور طرح طرح کے سوالات کو چھیڑ چھیڑ کر، دماغوں کو پراگندہ کرنے کی کوشش کی گئی اور ایسا کرتے ہوئے ایک طرف تو علماے کرام کا اِستخفاف اُڑایا جاتا کہ یہ لوگ علم سے کورے، بصیرت سے عاری، قرآن سے نابلد، دلائل سے محروم اور تقاضاے وقت سے بے خبر ہیں جو طلوعِ اسلام کے سوالات اوردلائل کا جواب تک نہیں دے سکتے اور دوسری طرف خود مظلوم بن کر اپنے قارئین کو خود پرویز صاحب (اور طلوعِ اسلام) یہ تاثر دیتے رہے کہ علماے کرام اور دینی جماعتوں کے زعما ان کے خلاف جھوٹے پراپیگنڈے، باطل الزامات اور افترا پردازیوں کے ذریعہ اُن پر ظلم ڈھا رہے ہیں اور پھر عوام الناس سے یہ اخلاقی اپیلیں کی جاتیں کہ وہ علماے کرام اور دینی جماعتوں کو اس غیر اخلاقی طرزِ عمل سے باز رکھنے کی کوشش کریں حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ یہ اور اس قسم کی تھیں وہ دلچسپیاں اور سرگرمیاں، جن میں طلوع اسلام پاکستان کے ابتدائی دور میں مگن اور منہمک تھا۔

طلوعِ اسلام کی چہار گونہ سرگرمیاں
طلوعِ اسلام، ہفتہ وار ہو یا ماہانہ، پرویز صاحب کے دروسِ قرآن ہوں یا کنونشن کے خطابات، ان سب میں جن اُمور کو سب سے بڑھ کر اہمیت دی جاتی تھی اور جن پر لسان و قلم اور دل و دماغ کی ساری قوتیں اور قابلیّتیں صرف کی جاتی تھیں وہ مندرجہ ذیل چار اُمور ہیں:

علماے اُمت کے خلاف نفرت کی مہم کو بھرپور انداز میں جاری رکھنا۔

جماعت ِاسلامی اور مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف خاص طور پر یلغاری مہم کو برقرار رکھنا۔

انکار ِ سنت کے لئے ارتیابی مہم اور تشکیکی تحریک کو پوری قوت سے چلائے رکھنا۔

اصحابِ اقتدار سے استمتاعی تعلقات قائم رکھنا، مگر اُنہیںچھپائے رکھنا۔


یہ طلوعِ اسلام کی پالیسی کے چار مستقل اجزا ہیں، اور پرویز صاحب کی ساری سرگرمیاں انہی چار پہلوؤں پر محیط رہی ہیں۔ یہاں ہم صرف اس پالیسی کے جزو اوّل تک ہی اپنی گذارشات کو محدود رکھیں گے۔ باقی نکات پر طلوع اسلام کی دلچسپیوں کی تفصیل کسی اور فرصت پر اُٹھا رکھتے ہیں۔

علما کے خلاف نفرت کی مہم
چونکہ علما کرام پرویز صاحب کے پیش کردہ اُس قرآنی نظامِ حیات کے منکر ہیں۔ جس کے معاشرتی اجزا، مغرب کے فاسد تمدن سے اور معاشی نظام،پورے کا پورا اشتراکیت سے ماخوذ ہے، اس لئے وہ علما کے خلاف انتہائی تحقیر آمیز اور معاندانہ رویہ اختیار کرتے ہیں، تمام دنیا وجہان کی سمیٹی ہوئی برائیوں کو لفظ ‘ملاَّ’ یا ‘مولوی’ میں سمو کر اسے علما سے منسوب کرتے رہنا ‘مفکر ِقرآن’ کا مستقل شیوہ رہا ہے۔ پھر ‘ملاًّ’ یا ‘مولوی’ کا یہ لفظ کسی خاص عالم ِدین کے لئے مخصوص نہ تھا، بلکہ ہر وہ عالم مُلاًّ یا ‘مولوی’ تھا جو قرآن و سنت پر مبنی نظامِ حیات کا قائل تھا اور اس نظامِ زندگی کا منکر تھا جسے ‘مفکر قرآن’ صاحب نے مغربی معاشرت کے اجزا کو اشتراکی نظامِ معیشت کے ساتھ پیوندکاری کرتے ہوئے پیش کیا ہے۔ ان کے نزدیک مغربی معاشرت کے اجزا اور اشتراکیت کا یہ ملغوبہ تو ‘قرآنی نظامِ حیات’ تھا، مگر علماے کرام کا قرآن و سنت پر مبنی نظام محض ایک ‘عجمی اسلام’ تھا جو ‘عجمی سازش’ کا نتیجہ تھا۔ الغرض پرویز صاحب نے علماے کرام کے خلاف جو نفرت انگیز مہم اپنے انتہائی معاندانہ جوش و خروش کے ساتھ جاری و ساری رکھی، اس کا ہلکا سا اندازہ مندرجہ ذیل اقتباسات سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ میرا ارادہ یہی تھا کہ علما کے خلاف اقتباسات کو پیش کرنے پر ہی اکتفا کیا جاتا لیکن جب اقتباسات نقل کئے جارہے تھے تو اس وقت ارتجالاً ہلکا پھلکا اور مختصر سا تنقیدی تبصرہ بھی نوکِ قلم پر آگیا۔
(1) ”
حقیقت یہ ہے کہ ‘مولوی’ نہ کسی شخص کا خطاب ہے اور نہ کسی زمانہ سے مختص۔ یہ ایک ذہنیت ہے۔ پرانا مولوی جو کہے گا اور کرے گا، ماڈرن مولوی اس سے بہتر مظاہرہ نہیں کرسکتا اور وہی کچھ کہے گا، البتہ اس کے ہاں انگریزی کے بعض الفاظ کا استعمال ہوگا۔10
اس عبارت میں ‘ماڈرن مولوی’سے مراد سید مودودی رحمۃ اللہ علیہ ہیں، اس ضمن میں تفصیلی بحث ان شاء اللہ کبھی آئندہ ہوگی۔
(2) ”
اہل مذہب کا دوسرا طبقہ وہ ہے جس کے نمائندے ہمارے ‘علماء کرام’ یا مولوی صاحبان ہیں۔ مقصد زیر نظر کے لئے ان کی حیثیت وہی ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب اہل کتاب کی تھی۔ ان کا مذہب اسی قسم کا ہے جس قسم کا مذہب عہد ِنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا آج کل کے اہل کتاب کا ہے۔11
ذرا اس ڈاکہ زنی اور ‘چوری’ کو ملاحظہ فرمائیے کہ پرویز صاحب خود تو اہل کتاب میں سے ایک فرزند یہودیت کارل مارکس سے پورا اشتراکی نظامِ معیشت لیتے ہیں اور بقیہ اہل کتاب سے خواہ وہ یہودی ہوں یا عیسائی فاسد تمدن اور فاجر معاشرت کے اقدار و اطوار کو قبول کرتے ہیں اور دورِ حاضر کے اس ‘دین الٰہیکو ‘قرآنی نظام’ قرار دیتے ہیں اور اس پر مزید ‘سینہ زوری’ یہ کہ اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ ”ان (علما) کا مذہب اسی قسم کا ہے، جس قسم کا مذہب عہد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا آج کل کے اہل کتاب کا ہے۔
(3) ”
اربابِ مذہب کے علاوہ اربابِ اقتدار کی بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ یہاں ‘قرآنی معاشرہ’ نہ بننے پائے۔ اس لئے کہ ان کی تمام مفاد پرستیاں خوابِ پریشاں بن کر رہ جاتی ہیں، قرآن جس طرح مذہبی پیشوائیت کا منکر ہے اسی طرح انسانی استبداد اور سرمایہ پرستی کو بھی جڑ سے اُکھاڑتا ہے۔ یہ ہے وہ چومکھیا لڑائی، جو طلوعِ اسلام کو یہاں لڑنی پڑ رہی ہے۔ مُلاّ کے پاس نہ علم ہے نہ بصیرت، نہ دلائل ہوتے ہیں نہ براہین۔12
پرویز صاحب کے چونکہ جملہ اربابِ اقتدار سے زندگی بھر اچھے تعلقات رہے ہیں، اس لئے اُن سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ ان لوگوں کی واقعی یہی خواہش ہوتی ہے کہ یہاں قرآنی معاشرہ نہ بننے پائے، لیکن ‘مفکر ِقرآن’ ہیں کہ ان کے لسان و قلم کا پورا زور اور دل و دماغ کی ساری قابلیتیں صرف ‘مُـلَّا’ ہی کے خلاف استعمال ہوتی ہیں۔ اربابِ اقتدار اُن کی چشم پوشی کے صدقے صاف بچ نکلتے ہیں، بلکہ احیاناً ،وہ قابل تعریف بھی قرار پاتے ہیں، بالخصوص جبکہ وہ علما کی مخالفت پراتر آئیں، اس وقت یہ فاسق و فاجر حکمران بھی پرویز صاحب کی حمدو ستائش کے مستحق بن جاتے ہیں ۔
(4)  ”
مولوی صاحبان کی طرف سے ہر اس تحریک کی مخالفت ہوگی جو مسلمانوں کو قرآن کی طرف دعوت دے، اس بنا پر ان کی طرف سے طلوعِ اسلام کی مخالفت بھی ضروری تھی۔ یہ حضرات طلوعِ اسلام کے پیش کردہ قرآنی دلائل کا جواب تو دے نہیں سکتے، اس لئے اُنہوں نے اس کے خلاف وہی حربہ پیش کیا ہے جسے یہ اپنے مخالفین کے لئے شروع سے استعمال کرتے چلے آرہے ہیں۔ اُنہوں نے مشہور کردیا کہ طلوعِ اسلام منکر ِحدیث ہے۔13
یہاں مفکر ِقرآن ‘ کی ذ ہنی خیانت اور خوے الزام بازی کو ملاحظہ فرمائیے کہ علماء کرام اُن کے قرآن کی مخالفت کرتے ہیں۔”حالانکہ وہ قرآن کے نہیں بلکہ قرآن کے نام کی آڑ میں پیش کئے جانے والے اُس نظام کے مخالف ہیں جسے پرویز صاحب نے مغربی معاشرت کے طور طریقوں کو، اس اشتراکی نظامِ معیشت کے ساتھ ملا کر پیش کیاہے جس پر اُنہوں نے قرآنی ٹھپہ لگا دیا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ‘مخالفت ِقرآن’ اور چیز ہے اور ‘منسوب الیٰ القرآن تصور کی مخالفت’ شے دیگر ہے۔ لیکن ‘مفکر ِقرآن’ صاحب ہمیشہ خلط ِمبحث سے کام لے کر قرآن کے نام پر گھڑے ہوئے اپنے ہرتصور کو بجائے خود’قرآنی تصور’ قرار دیا کرتے تھے۔ اور جن علماے کرام کی طرف سے ان کے اس خود ساختہ تصور کی مخالفت ہوا کرتی تھی، اُنہیں وہ براہِ راست’قرآن کا مخالف’ کہا کرتے تھے۔

(5) ”سانپ اور مولوی : ٹائمز آف انڈیا میں ایک خبر چھپی ہے کہ جب گاندھی جی کے آشرم میں بہت سے چوہے پیدا ہوگئے، جو ان کے کاغذوں کو خراب کرتے تھے تو اُنہوں نے پونہ کے ایک ڈاکٹر سے ایسے سانپ منگائے جو چوہوں کو کھا جاتے ہیں لیکن انسانوں کے لئے بالکل بے ضرر تھے کیونکہ ان میں زہر نہیں تھا (چنانچہ اس ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اس کے پاس اب بھی اس قسم کے کئی سانپ موجود ہیں)۔ اس سے ہمیں نیاز فتح پوری کا ایک لطیفہ یاد آگیا۔ اُنہوں نے ایک دفعہ لکھا کہ جس طرح سانپوں کی کئی قسمیں ہیں، اسی طرح مولویوں کی بھی بہت سی قسمیں ہیں، لیکن اس فرق کے ساتھ کہ سانپوں میں بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو زہریلے نہیں ہوتے لیکن مولویوں میں ایسی کوئی قسم نہیں پائی جاتی۔
فطرت کی یہ ستم ظریفی ہے کہ اس قسم کے بے ضرر (بلکہ مفید) سانپ تو ہندوستان میںرہ گئے اور مولوی صاحبان پاکستان میں آگئے تاکہ یہاں کسی کو چین سے بیٹھنا نصیب نہ ہوسکے۔ کیا یہ تقسیم بھی کہیں ‘ریڈ کلف’ صاحب ہی کی نظر عنایت کا نتیجہ نہیں۔14
جی نہیں! صرف مولوی صاحبان ہی نہیں بلکہ وہ مسٹر بھی یہاں آگئے جو متحدہ ہندوستان میں ایک طرف انگریزوں کے قائم کردہ طاغوتی نظام کی مشینری کا کل پرزہ بن کر ماہانہ راتب وصول کیا کرتے تھے اور کانگرس کے رکن رکین مسٹر پٹیل کی ماتحتی میں کلرکی کا منصب پاکر اس کی تابعداری میں کتے کی ضرب المثل وفاداری سے بھی بڑھ کر وفاداری کا نذرانہ پیش کیا کرتے تھے اور دوسری طرف عین اُسی وقت جبکہ ہندو اور انگریز کے مشترکہ نظامِ طاغوت میں محض ماہانہ مشاہرہ کے عوض یہ وفادارانہ خدمات انجام دی جارہی تھیں، اُس مسٹر نے جعلی ‘مسلمان’ بنتے ہوئے قلمی ناموں کی نقاب اوڑھ کر ‘معارف ہائے قرآن’ کے دریا بہانے کی مشق بہم پہنچائی۔ ع در کفے جام شریعت، درکفے سندانِ عشق
ایسے مسٹر آخر کیوں یہاں آئے؟ صرف اور صرف اس لئے کہ جس طاغوتی نظام کی نمک خواری کے عوض متحدہ ہندوستان میں وہ تنخواہ پایا کرتے تھے، قرآن کا نام لے کر اُسی طاغوتی نظام کو پیش کریں اور جن علماے کرام سے، اس دجل و فریب کی پردہ دری عمل میں آئے، اُنہیں ‘مخالف ِقرآن’ قرار دیا جائے۔ اور یوں اس حکومت کے ہاتھ مضبوط کئے جائیں جس کے فساق و فجار کارپردازوں کی نشوونما اور پرورش و تربیت مغربی نظریات کا دودھ پی پی کر ہوئی ہے۔ لیکن پھر اپنی اس حرکت پر پردہ ڈالتے ہوئے اُلٹا پراپیگنڈہ یہ کیا جائے کہ ”مذہبی پیشوائیت کا اربابِ اقتدار کے ساتھ ہمیشہ سانجھا پن اور گٹھ جوڑ رہا ہے۔
اس طرزِ عمل سے ایک طرف ارباب اقتدار بھی پرویز صاحب سے خوش رہتے ہیں اوردوسری طرف علما کی مخالفت کے باعث عالم کفر بھی اُن سے شاداں و فرحاں رہتا ہے اور اُنہیں اس قسم کی تعریفی اسناد سے نوازتا ہے کہ__ ” پرویز صاحب اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے فعال اسلامی ریفارمر ہیں۔” (ii)
(6) ”
ہم اتنا عرض کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ قرآن کو مروّ جہ ترجموں (بلکہ تفسیروں) کے ساتھ پڑھ لینے سے قرآن سمجھ میں نہیں آسکتا، اگر اس طرح قرآن سمجھ میں آسکتا ہوتا تو ہمارے ‘علماے کرام’ سے بڑھ کر قرآن سمجھنے والا اور کون ہوسکتا تھا، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ حضرات قرآن سے قطعاً نابلد ہوتے ہیں۔ اور جس چیز کو وہ قرآن کہہ کر پیش کرتے ہیں، اس میں قرآن کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔15
جی ہاں! قرآن بھلا ترجموں اور تفسیروں سے کب سمجھ میں آسکتا ہے؟ پھر بھلا قرآن کو سمجھنے کے لئے ‘قرآن’ کی ضرورت بھی کیا ہوسکتی ہے؟ قرآن کو صحیح معنوں میں، اُن لوگوں نے سمجھا ہے جو قرآن کو ماننا تورہا ایک طرف، جانتے تک نہیں ہیں۔ اگر آپ بھی قرآن سمجھنا چاہتے ہیں تو ‘ترجموں اور تفسیروں’ کو گلدستہ طاقِ نسیان بنا کر__ بلکہ خود قرآن کو بھی بالاے طاق رکھ کر__ دانشورانِ مغرب کی قدم بوسی کیجئے۔ آخر چارلس ڈارون نے جونظریۂ ارتقا پیش کیا ہے، وہ ‘قرآنی نظریہ’ ہی تو ہے، جسے اُس نے بغیر کسی قرآن کے پیش کیا ہے اور پھر ہمارے ‘مفکر ِقرآن’ صاحب کو بڑی جانگسل مشقتوں اور عرق ریزیوں کے ساتھ نظریۂ ارتقا کے اس چوہے کو جبل قرآن سے کھود کر نکالنا پڑا اور پھر اشتراکیت کا یہ معاشی نظام جسے کارل مارکس جیسے سکہ بند یہودی نے بغیر کسی قرآن کے پیش کیا ہے، ”قرآن ہی کا تو معاشی نظام” ہے جسے پرویز صاحب نے اپنے ”دل کی پوشیدہ بیتابیوں” اور اپنے ”دیدۂ تر کی بے خوابیوں” کے ساتھ’نظامِ ربوبیت’ کا نقاب اوڑھا کر پیش کیا ہے اور پھر مغربی معاشرت کا پورا نقشہ (جس کے اہم اجزا : مخلوط سوسائٹی، مخلوط تعلیم، ترکِ حجاب و نقاب، مرد و زن کی مطلق اور کامل مساوات بلکہ اب اس سے بھی آگے بڑھ کر نظریۂ افضلیت ِاُناث، تعددِ ازواج کی مخالفت وغیرہ ہیں۔یہ سب کچھ)اہل مغرب نے بغیر کسی قرآن ہی کے تو پایا ہے۔جسے بعد میں ہمارے ‘مفکر ِقرآن’ صاحب کو اپنی ”خلو ت و انجمن کے گداز” اور اپنے ”نالہ نیم شب کے نیاز” کے ساتھ قرآنی اسناد فراہم کرنے کی زحمت گوارا کرنی پڑی۔
بس! اب آنکھیں بند کرتے ہوئے مغرب کی تقلید کرتے جائیے، یہی ‘اتباع قرآن’ ہے۔ یہی ‘تمسک بالکتاب’ ہے، یہی ‘روشن خیالی’ ہے، اور یہی ‘عقل و فکر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ‘ روش ہے۔ مولوی حضرات کا پیچھا چھوڑیے ورنہ تمہیں اُن ‘اَغلال و اِصر’ کا بھاری بوجھ اُٹھانا پڑے گا جو قرآن و سنت پر مبنی ‘عجمی اسلام’ کا لازمہ ہیں۔
(7) ”
مُلاّ کا نظریہ یہ ہے کہ اسلام ایک جامد (Static) اور متصلب(Rigid) مذہب ہے جس میں ارتقا (Revolution) کی قطعاً گنجائش نہیں۔ جو کچھ اس وقت شریعت کے نام پر رائج ہے اور جس کا علمبردار خود مُلاّ کا طبقہ ہے، اس میں کسی قسم کی تبدیلی کی گنجائش نہیں دی جاسکتی۔16
علماے کرام کا یہ نظریہ ہے یا نہیں؟ فی الحال اسے نظر انداز کیجئے اور یہ دیکھئے کہ مغرب کے ان غلام فطرت ‘دانشوروں’ کا نظریہ کیا ہے؟ یہ لوگ جب اسلام کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں،تو ارتقا کا لفظ بکثرت استعمال کرتے ہیں لیکن عملاً ان کا رویہ ارتقا (Revolution) کا نہیں، بلکہ اختراع (Innovation) کا رویہ ہوتا ہے۔ نام ‘تصریف آیات’ کا لیا جاتا ہے، لیکن عمل ‘تحریف ِآیاتکا ہوتا ہے۔ زبانی جمع و خرچ کی حد تک ذکر ‘تفسیر قرآن’ کا کیا جاتا ہے لیکن عمل کی دنیا میں ‘تغییر قرآن’ کا دم بھرا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک اسلام اور قرآن کسی ٹھوس حقیقت کا نام نہیں ہے، بلکہ کسی شئ سیال کا نام ہے، جسے اگر جگ میں ڈالا جائے تو جگ کا روپ دھار لے، گلاس میں ڈالا جائے تو گلاس کی شکل اختیار کرلے، لوٹے میں ڈالا جائے تو لوٹا بن جائے۔ ظاہر ہے کہ یہاں ہر بدلتی ہوئی شکل، پہلی شکل کا ارتقا نہیںہے، بلکہ از سر نو شکل ِغیر کا اختراع ہے۔ لیکن لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے، ہر بدلتی ہوئی شکل پر’ارتقا’ کا لفظ چسپاں کردیا جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ پرویز صاحب، آدم کے خلیفة اللہ ہونے کے قائل، اور اُن کی خلافت و نیابت ِالٰہی پراٰمنا وصدقنا کہا کرتے تھے، لیکن بعد میں اس حقیقت کے انکار پراُتر آئے، ظاہر ہے کہ ‘خلافت و نیابت ِالٰہیہ’ کے اقرار کے بعد انکار کی روش ارتقا‘(Revolution) نہیں، بلکہ متضاد اختراع (Contradictory Innovation) ہے لیکن طلوع اسلام اسے پرویز صاحب کی فکر کا ایک ‘ارتقائی مرحلہ’ قرار دیتا ہے اور لکھتا ہے:
اس مقالہ کی اشاعت سے ہمارے پیش نظر یہ دکھانا بھی مطلوب ہے کہ ایک مفکر کی فکر کن ارتقائی منازل میں سے گزرتی ہے۔” (iii)
جس طرح پرویز صاحب کی متضاد اور متناقض تعبیرات قرآن کو یہ لوگ ‘ارتقا’ کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں، بالکل اسی طرح یہ لوگ قرآن کریم سے نچوڑی گئی متضاد تعبیرات کو ‘ارتقا’ کا خوشنما نام دیتے ہیں حالانکہ ان کی بعد والی تعبیر، پہلی تعبیر کی ‘ارتقا یافتہ شکل ‘ نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک نئی تعبیر کی ‘اختراع شدہ صورت’ ہوتی ہے۔
ہمارے ‘مفکر قرآن’ صاحب اپنی ‘اختراعی تعبیراتِ قرآن’ کو ‘ارتقائی تعبیرات’ قرار دیتے ہیں، خواہ جہالت کا مظاہرہ کریں یا علمی خیانت کا، بہرحال یہ ایک معیوب حرکت ہے۔ علماے کرام’ارتقااور ‘اختراع’ کے مفہوم سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ جاہل نہیں ہیں کہ ان دونوں الفاظ کو مترادف المفہوم اور متماثل المعنی قرار دیں، اور نہ وہ بددیانت ہی ہیں کہ عملاً ‘اختراع’ کا رویہ اپنائیں لیکن قولاً اسے ‘ارتقا’ باور کروائیں۔ وہ اسلام کو جامد اور متصلب نہیں سمجھتے (جیسا کہ پرویز صاحب نے ان پر الزام تراشی کی ہے) بلکہ اُصولِ اجتہاد کی روشنی میں اسلام کے ہر دور میں قابل عمل ہونے کو تسلیم کرتے ہیں۔ البتہ وہ لوگ اسلام کو ضرور جامد اور متصلب سمجھتے ہیں جو قرآن کریم کو (‘ارتقا’ کے نام پر) اپنی اختراعات کا نشانہ بناتے ہیں، اور اُلٹا ”چور، کوتوال کو ڈانٹے” کے مصداق علما پر یہ بہتان باندھتے ہیں کہ
مُلاّ کا نظریہ یہ ہے کہ اسلام، ایک جامد اور متصلب مذہب ہے۔


(8) ”
اصل یہ ہے کہ ہمارا قدامت پسند طبقہ، جو کچھ مذہب کے نام سے پیش کرتا ہے، اس میں اس کی صلاحیت ہی نہیں کہ وہ علم و بصیرت کی کسوٹی پر پورا اُترے اور عقل و فکر کے تقاضوں کو پورا کرسکے۔17
سوال یہ ہے کہ وہ کون سا ‘علم’ اور کون سی ‘بصیرت’ ہے جس کی ‘کسوٹی’ پر علماے کرام کے پیش کردہ اسلام کو پرکھا جارہا ہے؟ اور جس ‘عقل و فکر’ کے تقاضوں کو پورا کرنے کی دُھن، دل ودماغ اور حواس و مشاعر پر چھائی ہوئی ہے، وہ کن سانچوں میں ڈھلی ہوئی ہے۔
ایک ‘علم و بصیرت’ وہ ہے جو ایمان باللہ، اعتقاد بالرسالت اور یقین بالآخرت کا نتیجہ ہے اور جس کے رسوخ کا ذریعہ قال اﷲ وقال الرسول کا گہرا مطالعہ ہے۔ یہ ایمان اور یہ مطالعۂ حیات و کائنات کے متعلق منفرد تصور پیدا کرتا ہے اور انسان کے قلب و ذہن کو ایک مخصوص سانچے میں ڈھالتا ہے، جس کے نتیجہ میں بندۂ مومن کے ردّو قبول کا جداگانہ معیار قائم ہوتا ہے اور وہ ہر چیز کو ایک مخصوص زاویۂ نگاہ سے دیکھنے کا عادی ہوجاتا ہے۔
دو سرا ‘علم و بصیرت’ وہ ہے، جو اغیار کی ذہنی غلامی اور فکری اسیری کا نتیجہ ہے۔ انسان کی ‘عقل وفکر’ جحود باﷲ، انکارِ ر سالت اور کفر بالآخرت کے سانچوں میں ڈھلی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کا معیارِ اَخذ و ترک وہ ہوتا ہے جو کفر نے پیش کیا ہے۔ اس کے جانچ پرکھ کے پیمانے، ان پیمانوں سے مختلف ہوتے ہیں جو اسلامی معتقدات کے پیدا کردہ ہیں۔
پرویز صاحب کا ا لمیہ یہ ہے کہ وہ نام تو قرآن کا لیتے ہیں لیکن کام غیر قرآن کا کرتے ہیں۔ الفاظ تو قرآن ہی کے بولتے ہیں لیکن مفاہیم مستشرقین سے لیتے ہیں۔ آنکھیں تو اپنی ہی استعمال کرتے ہیں، لیکن زاویۂ نگاہ دشمنان اسلا م سے لیتے ہیں۔ کان تو سننے کے لئے وہ اپنے ہی برتتے ہیں لیکن جو کچھ سنتے ہیں وہ اللہ و رسول کی نہیں بلکہ کارل مارکس، چارلس ڈارون اور برگسان وغیرہ کی سنتے ہیں،’عقل و فکر’ سے کام تو لیتے ہیں، مگر اُس عقل و فکر سے نہیں جو قرآن و سنت کے سانچہ میں ڈھلی ہوئی ہے، بلکہ اُس سے جو اغیار کی ذہنی غلامی اور فکری اسیری کے نتیجہ میں تشکیل پاچکی ہے۔ زبان تو وہ اپنی ہی استعمال کرتے ہیں، لیکن بولی،غیروں کی بولتے ہیں، بقول شاعر ؎

ان ہی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں،                     زبان میری ہے، بات انکی
ان کی محفل سنوارتا ہوں،                              چراغ میرا ہے، رات اُن کی!

مفکر ِقرآن’ صاحب علما کے پیش کردہ اسلام کو قرآن و سنت کے فراہم کردہ علم وبصیرت’ کی روشنی میں دیکھنے کی بجائے (قرآن کا نام لے کر) اُس ‘علم و بصیرت’ کی روشنی میں دیکھتے ہیں جو اغیار کی ذہنی غلامی اورفکری اسیری کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں علما کا پیش کردہ اسلام تو ”عقل و فکر کے تقاضوں کو پورا کرنے والا” دکھائی نہیں دیتا، لیکن خود ان کا اپنا اسلام، جسے اُنہوں نے مغربی معاشرت کے اقدار و اطوار کو اشتراکی معیشت کے ساتھ نتھی کرکے پیش کیا ہے، اُنہیں عین ”عقل و فکر کے تقاضوں کو پورا کرنے والا نظر” آتا ہے  ؎

بیاں میں نکتہ توحید آ تو سکتا ہے
ترے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہئے

(9)”جب خلفاے راشدین کے جانشینوں نے سیاسی معاملات تو اپنی ملوکیت کی گرفت میں لئے اور مذہبی اُمور کو پیشوائیت کے سپرد کردیا، بظاہر یہ دو الگ الگ کیمپ دکھائی دیتے تھے لیکن ان کے مابین ایک ملی بھگت اور ‘شریفانہ معاہدہ’ کم و بیش ہر دور میں قائم رہا۔ مسلمان حکمران ان مذہبی پیشواؤں کے لئے مالی وظائف کا انتظام کرتے اور اس کے بدلے میں مذہبی پیشوائیت ان حکمرانوں کو ‘امام المسلمین’ اور ‘ظل اللہ’ کے مقدس خطابات سے یاد کرتی۔18

حقیقت یہ ہے کہ سچ کی تو کوئی نہ کوئی حد ہوتی ہے جس سے آگے سچا آدمی تجاوز نہیں کرسکتا، لیکن جھوٹ کی کوئی حد ہی نہیں جہاں کوئی کاذب جاکر رک جائے۔ وہ جس قدر چاہے اپنی داستانِ زُور کو پھیلاتا چلا جائے، کوئی پوچھنے والانہیں!

( ا لف)’مفکر ِقرآن’ نے یہاں جو کچھ فرمایا ہے، وہ سرتاپا جھوٹ ہے۔ خلافت ِراشدہ کے بعد ملوکیت نے اپنے سیاسی اقتدار کی مضبوطی اور استحکام کے لئے جب قرآن و سنت کی راہ سے گریز کیا اور ان کی سیاسی مصلحتیں دینی نصب العین پر حاوی ہوگئیں تو اربابِ اقتدار دین کی خدمت کیا کرتے بلکہ الٹا وہ خدامِ دین علما وائمہ کی مساعی ٔ دین میں روڑے اَٹکانے لگے اور علماے کرام اور ائمہ عظام نے جو کچھ بھی اشاعت ِاسلام اور خدمت ِدین کے لئے کیا، وہ نہ صرف یہ کہ حکومتی وظائف سے بے نیاز ہوکر کیا، بلکہ اہل اقتدار کی سفاکیوں، ستم شعاریوں، جفاکاریوں اور خوں آشامیوں کے علیٰ الرغم کیا۔ میں اگر تاریخ اسلام سے ایسے واقعات کو پیش کروں تو پرویز صاحب کے اندھے مقلدین’مفکر ِقرآن’ کا یہ رٹا رٹایا جملہ بول کر ان واقعات کو رد کردیں گے کہ __ ”دین میں سند، نہ تاریخ کے مشمولات ہیں اور نہ مسلمانوں کے متواتر ومتوارث عقائد و مسالک، سند ہے خدا کی کتاب”__ اور خدا کی کتاب کے سند ہونے کا معنی، منکرین حدیث کے نزدیک وہ خیال ہے جسے ‘مفکر ِقرآن’ صاحب قرآن کے گلے مڑھ دیں۔ اس لئے میں مجبور ہوں کہ کتب ِتاریخ سے مواد پیش کرنے کی بجائے طلوعِ اسلام کے لٹریچر ہی سے، چند واقعات پیش کردوں جن سے ‘مفکر ِقرآن’ کے جھوٹ کا پول کھل جاتا ہے :

پہلا اقتباس:سب سے پہلے مندرجہ ذیل عبارت ملاحظہ فرمائیے اور خود سوچئے کہ محدثین ومتکلمین اور علما و فقہا اربابِ اقتدار سے مالی وظائف قبول کرتے ہوئے، ملوکیت کے پشتیبان بنتے رہے ہیں؟ یا خالص اور صحیح اسلام پیش کرنے کے لئے تحریکیں چلاتے رہے ہیں، اور یہ کسی ایک عصر و مصر تک محدود معاملہ نہیں بلکہ مسلمانوں کی تاریخ کا دائمی اور مستقل معاملہ ہے :
مسلمانوں کی تاریخ میں افراط و تفریط کے خلاف خالص اور صحیح اسلام پیش کرنے کے لئے ہر دور میں قلندرانہ تحریکات چلتی رہی ہیں۔ محدثین و متکلمین کی آویزش، اور ازاں بعد، متکلمین کی باہمی سرپھٹول، مامون الرشید عباسی کے دور میں فتنۂ خلق ِقرآن اوراس طوفان میں امام احمد بن حنبل کا محیرالعقول عزم و ثبات، اس کے بعد منطق و علم کلام کے غیر اسلامی اثرات کو کالعدم ٹھہرانے کے لئے علامہ ابن تیمیہ کی مبارک تحریک، نجد میں وہابی تحریک کا آغاز، افریقہ میں مہدئ سوڈانی اور شیخ سنوسی کی سرگرمیاں، ہندوستان میں حضرت مجدد الف ِثانی کا غیر اسلامی تصورات کے خلاف مسلسل و پیہم جہاد، اور حضرت علامہ سید جمال الدین افغانی کی تحریک ِاتحادِ عالم اسلام (Pan-Islamism) وغیرہ اس دعویٰ کا زندہ ثبوت ہیں کہ ہر آڑے وقت میںمسلمانوں کے اندر ایک ذہنی انقلاب کی رو تیز گام رہی ہے۔19

دوسرا اقتباس: اب دوسرے اقتباس میں یہ بھی ملاحظہ فرما لیجئے کہ ائمہ و علما (جنہیں پرویز صاحب بڑی حقارت و نفرت کے ساتھ ملاّ ازم، مذہبی پیشوائیت اور تھیا کریسی کے لیبل کے تحت مرتے دم تک مطعون کرتے رہے ہیں، اُنہوں نے )حکومتی استبداد کے سامنے سرجھکا کر ان سے وظائف حاصل کرتے ہوئے انہیں ‘امام المسلمین’ اور ‘ظل اللہ’ کہا تھا یا ان کے زیر عتاب رہ کر فریضہ حق گوئی ادا کیا تھا۔ ان دینی پیشواؤں میں سے امام احمد بن حنبل کا کردار ان الفاظ میں پیش کیا گیا ہے :
مامون الرشید کے عہد میں حالات نے پلٹا کھایا، اور وہ خود اور اس کے درباری، قرآن کے مخلوق ہونے کے قائل ہوگئے، اب محدثین پر کفر کے فتوے لگنے شروع ہوگئے اور وہ جرمِ ارتداد کی سزا میں قتل ہونے لگے، اکثر علماء نے مجبوراً قرآن کو مخلوق کہہ کر اپنی جانیں بچائیں۔ لیکن بہت سے اپنے عقیدے پر قائم رہ کر سخت ترین اذیتیں جھیلتے اور موت کے گھاٹ اُترتے رہے۔ انہی میں امام احمد بن حنبل جیسی شخصیت بھی تھی۔ امام صاحب کو جس طرح قیدوبند کے عذاب میں مبتلا رکھا گیا، اس کے تصور سے روح کانپ اُٹھتی ہے، اُنہیں دربار میں بلا کر کوڑوں سے پٹوایا جاتا تھا اور جب وہ بے ہوش ہوجاتے تو پھر قید خانے میں بھجوا دیا جاتاتھا۔ یہ سلسلہ ایک دن، دو دن نہیں بلکہ پورے اڑھائی سال تک جاری رہا۔ معتصم ان سب لوگوں کو قتل کردیا کرتا تھا جو قرآن کو غیر مخلوق کہتے تھے لیکن امام صاحب کے قتل کی جرأت اس نے نہیں کی کیونکہ ان کے ساتھ عوام کی عقیدت بہت گہری تھی۔20

تیسرا اقتباس:تیسرے اقتباس میں قاضی عزالدین بن عبدالسلام کا ایک ایسا واقعہ مذکور ہے جس میں انہوں نے ایک ایسے کام کا عزم کیا جو اَعیانِ سلطنت کے لئے باعث ِغضب اور موجب ِانتقام تھا اور قاضی صاحب تن تنہا اور نہتے ہاتھوں، ننگی تلواروں کے مقابلہ کیلئے نکل آئے :
نائب السلطنت نے غضب ناک ہوکر کہا کہ ہم روے زمین کے ملوک ہیں۔ قاضی کی کیا مجال کہ وہ ہمارے سامنے دم مارسکے۔ قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اپنے ہاتھ سے اس کی گردن مار دوں گا۔ یہ کہہ کر اپنے اعوان و انصار کی ایک جماعت لے کر چلا، سب کے سب غصے میں بھرے ہوئے اور ننگی تلواریں ہاتھوں میںلئے ہوئے تھے۔ جب ان کے گھر کے پاس پہنچے تو شور سن کر ان کا لڑکا باہر نکل آیا۔ کیفیت دیکھ کر سہما ہوا اندر بھاگا اور باپ کو مطلع کیا۔ نہایت بے پروائی سے بولے۔”تیرے باپ کا یہ رتبہ کہاں کہ راہِ حق میں اس کا خون بہایا جائے۔” یہ کہتے ہوئے باہر نکل آئے۔

نائب السلطنت کی نگاہ جب ان کے اوپر پڑی تو جلالِ حق سے کانپنے لگا۔ تلوار ہاتھ سے گر گئی اور رو کر بولا ”یا مولانا! آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟” فرمایا: ”تم لوگوں کو فروخت کروں گا۔” بولا کہ ”قیمت کون لے گا؟” جواب دیا کہ میں، اور اس کو بیت المال میں داخل کروں گا۔” چنانچہ یہی کیا اور سربازار ان سب کو فروخت کرا دیا۔ قاضی عزالدین اربابِ حال میں سے تھے اور ان کا لقب سلطان العلماء تھا۔21

چوتھا اقتباس:اور اب یہ بھی دیکھئے کہ راگ رنگ اور گیت سنگیت کے رسیا حکمرانوں کے سامنے قاضی شرف الدین بن عین الدولہ پرستارِ ملوکیت کا کردار ادا کرتے ہیں یا پرستارِ حق کا ؟
اسی طرح کا ایک واقعہ قاضی شرف الدین بن عین الدولہ کا ہے جو مصر میں قاضی تھے۔ ان کی عدالت میں ملک کامل، سلطان مصر کسی مقدمہ میں شہادت میں طلب ہوا۔ وہ چونکہ روزانہ ایک مغنیہ کا گانا سنا کر تا تھا، اس وجہ سے قاضی موصوف نے اس کی شہادت لینے سے انکار کردیا۔ اس پر اس نے قاضی کی شان میں سخت کلمہ استعمال کیا، قاضی نے کہا کہ یہ عدالت کی توہین ہے اور اسی وقت اپنی برطرفی کا اعلان کرکے مسند سے اُٹھ کر چلے آئے۔ سلطان نے مجبوراً جاکر معافی چاہی اور ان کو راضی کیا، کیونکہ اس کو اپنی بدنامی اور نامقبولیت کا خطرہ ہوا۔22
طلوعِ اسلام کے لٹریچر میں ایسے بیسیوں واقعات مذکور ہیں، خوفِ طوالت کی بنا پر ان چار اقتباسات پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔ ان کی روشنی میں خود دیکھ لیجئے کہ ‘مفکر ِقرآن’ کے اس بیان میں کس قدر صداقت پائی جاتی ہے کہ ”دینی پیشواؤں اور حکمرانوں ‘ کے مابین ایک ملی بھگت اور ‘شریفانہ معاہدہ’ کم و بیش ہر دور میں قائم رہا ہے۔ مسلمان حکمران، ان مذہبی پیشواؤں کے لئے مالی وظائف کا انتظام کرتے اور اس کے بدلے میں مذہبی پیشوائیت ان حکمرانوں کو امام المسلمین’ اور ‘ظل اللہ’ کے القاب سے یاد کرتی۔
(ب)لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ علماے حق اور ائمہ ہدایت نے نہ صرف یہ کہ اربابِ اقتدار سے ایسا کوئی ‘شریفانہ معاہدہاور ‘ملی بھگت’ نہیں کی، بلکہ ان کے مالی وظائف سے بے نیاز ہوکر، ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کلمۂ حق بلند کرتے رہے۔ اور ان کے زیرعتاب اور زیر زنجیر و سلاسل رہ کر خدمت ِدین بجا لاتے رہے، کجا یہ کہ وہ انہیں ظل اللہ وغیرہ خطابات سے نوازتے۔ یہ ‘مفکر ِقرآن’ کے جھوٹ کا بھی ایک رخ ہے۔ اب اس تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ فرمائیے جو ‘مفکر قرآن’ کے کذب و زُور کا بھی رخِ ثانی ہے۔

معتزلہ اور منکرین حدیث
ہماری تاریخ میں معتزلہ نامی ایک ایسا گروہ گزرا ہے جس کے قارورے کے ساتھ موجودہ منکرین حدیث کا قارورہ ملتا ہے۔ نظریہ و فکر کے اعتبار سے، ماضی کے معتزلہ اور حال کے منکرین حدیث باہمد گر تشابہت قلوبھم کے رشتہ میں منسلک ہیں۔

éجس طرح یہ لوگ وحی اور کتاب اللہ کا نام لے کر عقل کو بالاتر حیثیت دیتے ہوئے، فکر ِاغیار کی ذہنی غلامی میں مبتلا ہوکر قرآن کا تیا پانچہ کر ڈالتے ہیں، اسی طرح معتزلہ کے ‘قرآنی دانشور’ بھی غیروں کی فکری اسیری میں مبتلا ہوکر غلبۂ عقل کے نعرہ کے ساتھ قرآن کو نشانہ بنایا کرتے تھے، جیسا کہ عقل کا غلبہ’ کے زیرعنوان خود طلوع اسلام یہ کہتا ہے :
وہ عقل کے تسلط کے قائل تھے اور کہتے تھے کہ عقل خود حسن و قبح کی معرفت حاصل کرسکتی ہے، خواہ شریعت نے کسی بات کے حسن و قبح کو بیان کیا یا بیان نہ کیا ہو۔23

جس طرح یہ لوگ انکارِ حجیت ِحدیث کے باوجود خود کو منکرین حدیث کہنا یا کہلوانا پسند نہیں کرتے اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں، اُسی طرح وہ لوگ بھی اعتقاداً مسلمانوں سے الگ راہ اختیا رکرنے کے باوجود بھی خود کو معتزلہ کہنا یا کہلوانا پسند نہیں کرتے تھے :
یاد رہے کہ یہ لوگ خود اپنے آپ کو خوارج یا معتزلہ نہیں کہتے تھے، اپنے آپ کو خالص مسلمان سمجھتے تھے۔24

جس طرح آج کے منکرین حدیث صرف قرآن ہی کی سندیت کے قائل ہیں، اسی طرح وہ لوگ بھی تنہا قرآن ہی کی حجیت کے قائل تھے۔
وہ ہر دینی معاملے میں قرآن مجید کو سند قرار دیتے تھے۔25

جس طرح آج کے منکرین حدیث، مغربی معاشرت کے اجزا و عناصر کو اور اشتراکیت کے نظامِ معیشت کو قرآن میں زبردستی گھسیڑنے پر جُتے ہوئے ہیں، اسی طرح کل کے معتزلہ بھی یونانی فلسفہ کا پھانہ اسلامی عقائد میںٹھونکنے پر تُلے ہوئے ہیں :
یونانی فلسفہ کو اپناکر اُنہوں نے اسلامی عقائد میں اسے جس خوبی سے سمویا، اور علم کلام کے نام سے ایک مستقل علم کی بنیاد رکھی، وہ اس کی زندہ شہادت ہے۔26


ان وجوہِ مشابہت کی بنا پر آج کے منکرین ِحدیث معتزلہ کی انتہائی تعریف و تحسین کرتے ہیں اور ان کے زوال پر یوں نوحہ کناں ہیں :
ہمارے متقدمین میں معتزلہ اہل علم کا وہ گروہ تھا جن کی نگاہ صحیح اسلام پر تھی اور وہ قرآنِ مجید پر عقل و بصیرت کی رو سے غور کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کو ہماری مذہبی پیشوائیت کس طرح جینے دیتی۔ نتیجہ یہ کہ نہ صرف ان اربابِ فکرونظر کا خاتمہ کردیا گیا، بلکہ ان کے علمی کارناموں کو بھی جلا کر راکھ کردیا۔27


جملہ معترضہ:قبل اس کے کہ اس بحث میں پیش قدمی ہو، قارئین کرام سے یہ درخواست ہے کہ ‘مفکر ِقرآن’، ‘مدرسِ فرقان’ اور ‘مفسر ِکتاب’ جناب چوہدری غلام احمد پرویز صاحب کے اس جھوٹ کو خاص طور پر نگاہ میں رکھیں کہ __”مذہبی پیشوائیت نے معتزلہ کو جینے نہیں دیا، اور خود ان کا اور ان کے علمی کارناموں کا خاتمہ کرڈالا۔” آگے چل کر طلوعِ اسلام ہی کی عبارت سے، اس جھوٹ کا جھوٹ ہونا واضح ہورہا ہے، نیز یہ بھی کہ معتزلہ کو کسی ‘مذہبی پیشوائیت ‘ نے نہیں، بلکہ خود ان کی اپنی کرتوتوں نے صفحۂ ہستی سے مٹادیا تھا۔


اس جملہ معترضہ کے بعد، اب یہ دیکھئے کہ فتنۂ اعتزال کو ماضی میں عروج کیسے ہوا؟ اس طرح کہ فتنۂ اعتزالی کے علمبرداروں میں سے دو دانشوروں’ احمد بن ابی داؤد اور ثمامہ نے کسی نہ کسی طرح اربابِ اقتدار تک رسائی پالی اور اُنہیں اپنا ہم خیال بنا لیا، جس کے نتیجہ میں اس فتنہ کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوگئی۔ حکومتی اثرورسوخ اور ذرائع و وسائل سے اس کا حلقۂ اثر پھیلتا چلا گیا، انتظامیہ اور عدلیہ کے اعلیٰ مناصب کے دروازے معتزلہ پر چوپٹ کھول دیے گئے اور جو لوگ اس مسلک کے خلاف تھے، ان سے حکومت ِوقت بڑے جابرانہ اور ظالمانہ انداز سے نپٹتی اور اُنہیں قید و بند سے لے کر، دار و رسن کی صعوبتوں میں سے گزرنا پڑتا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار طلوعِ اسلام بھی نہیں کرسکا :
احمد بن ابی داؤد اور ثمامہ کی کوششوں سے مامون الرشید نے باقاعدہ طور پر اس مسلک کو قبول کرلیا اور مسلک ِاعتزال کو سرکاری سرپرستی میں لے لیا۔ اس سے وقتی طور پرمسلک اعتزال کو بہت مقبولیت حاصل ہوگئی۔ الناس علیٰ دین ملوکھم کے مطابق، ہر طرف مسلک ِاعتزال کا چرچا ہونے لگا۔ ان کا مسلک چونکہ عقل و بصیرت پر مبنی تھا، اس لئے وہ خود بھی لوگوں کو اپیل کرتا تھا، اس کے ساتھ ہی سرکاری مشینری بھی اس کی تائید میں حرکت کرنے لگی تو وہ پورے عالم اسلام پر چھا گیا۔ عدالتوں میں فیصلے اسی مسلک کے مطابق ہونے لگے، جو لوگ اس مسلک کے خلاف زبان ہلاتے تھے، ان سے حکومت ِوقت کی طرف سے باقاعدہ باز پرس کی جاتی تھی اور سزائیں دی جاتی تھیں۔28

کم ظرف لوگوں کو اقتدار کا سہارا مل جائے تو وہ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں، چنانچہ معتزلہ کو جو اقتدار کی پشت پناہی حاصل ہوئی، تو اُنہوں نے ٹھیک وہی حرکت کی جسے ‘مفکر قرآن’ صاحب بہتاناً ‘مذہبی پیشوائیت’ اور ‘ملاازم’ کی خود ساختہ اصطلاحات کے تحت علماے کرام کی طرف منسوب کرنے کے عادی رہے ہیں، یعنی فتویٰ بازی :
خلق قرآن کا مسئلہ معتزلہ کو جعد بن درہم ہی سے وراثت ملا، پہلے معتزلہ اس نظریہ کے قائل نہیں تھے، لیکن کچھ دنوں کے بعد وہ قرآن کے مخلوق ہونے پر متفق ہوگئے اور جو شخص قرآن کو غیر مخلوق کہتا تھا اس پر کفر اور فسق کے فتوے لگاتے تھے۔ معتزلہ میں احمد بن ابی داؤد پہلا معتزلی ہے جس نے قرآن کو غیر مخلوق کہنے والوں پر کفر کا فتویٰ لگایا۔29


اس کے بعد معتزلہ کی ‘مذہبی پیشوائیت’ اور ‘تھیاکریسی’ نے اگلا قدم اُٹھایا۔ وہ کیا تھا؟ ملاحظہ فرمائیے :
اُنہوں نے کہا کہ خلیفہ اسلام کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسے عقیدہ کو جو توحید کے خلاف ہے، قوت سے مٹائے۔30


پھر کیا ہوا؟ … طلوع اسلالم ہی کی زبانی ملاحظہ فرمائیے:
اس عقیدہ کی پُشت پر چونکہ حکومت ِوقت بھی تھی، اس لئے لوگوں کو صرف کفروشرک کے فتوؤں ہی سے مرعوب نہیں کیا جاتا تھا بلکہ ان فتوؤں کے بعد لوگوں کو طرح طرح کی سزائیں بھی دی جاتی تھیں اور قتل بھی کردیا جاتا تھا۔31

وہ علما جو اپنے عقائد پر ثابت قدم رہے، اور جن میں امام احمد بن حنبل سب سے زیادہ مشہور ہیں۔ اُنہیں ﷲ في اﷲیہ صعوبتیں برداشت کرنے کے نتیجہ میں، اللہ تعالیٰ نے ایسی قدرو منزلت سے نوازا کہ معتزلہ، سرکاری سرپرستی کے باوجود اپنے انتہائی عروج کے زمانہ میں بھی اس اعزاز و اکرام سے محروم رہے۔


یہ ہے تصویر کا دوسرا رُخ کہ اربابِ اقتدار سے ملی بھگت اور ‘شریفانہ معاہدہکرنے اور سرکاری مناصب پانے والے، دراصل وہ ‘اربابِ فکرونظر’ اور ‘صاحبانِ عقل و بصیرت’ تھے جو ‘یونانی فلسفہ کو اسلامی عقائد میں سمو ڈالنے’ کی کوششوں میں جُتے رہے تھے۔ اور جو آج کے منکرین حدیث کے فکری آباء و اجداد تھے نہ کہ وہ علما و فقہا اور محدثین و مجتہدین جو پابند سلاسل رہ کر، قید و بند کی اذیتیں جھیلتے ہوئے اور ضربِ تازیانہ کا نشانہ بنتے ہوئے، حکومتی مناصب اور سرکاری وظائف سے بے نیاز ہوکر، خدمت ِدین اور اشاعت ِاسلام پر کمربستہ رہے اور یہی کذب ِپرویز کی تصویر کا دوسرا رخ ہے جس سے اس بات کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ‘مفکر قرآن’ تنکیس واقعات، تقلیب ِاُمور اور مسخ حقائق میں کس قدر جھوٹ اور دیدہ دلیری سے کام لیا کرتے تھے۔ وہ ائمہ اور علما جو سیاسی فرمانرواؤں سے الگ رہے، ان پر یہ الزام عائد کیا کہ ان کی ہمیشہ اربابِ اقتدار سے ملی بھگت رہی ہے اور جو فی الواقعہ اقتدار کی چھتری تلے بیٹھ کر، علما و ائمہ پر کفر و شرک سے فتوے لگا کر اربابِ اقتدار کو ان کے خاتمہ پر اکساتے رہے وہ ‘اہل عقل و بصیرت ‘اور ‘اصحابِ فکر و نظر’قرار پائے۔ ع جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے!


سبب زوال معتزلہ:سرکاری سرپرستی میں شجر اسلام پر پھیلنے والی اس اکاس بیل کا خاتمہ کیسے ہوا؟ پرویز صاحب حقائق کو پس پشت ڈالتے ہوئے یہ بے پَرکی اڑاتے ہیں کہ__ ”ان اصحابِ فکرونظر کا خاتمہ مذہبی پیشوائیت نے کیا۔”حالانکہ ان کے زوال بلکہ خاتمہ کا سبب، خود ان کی یہ حرکت تھی کہ وہ آفتابِ اقتدار کے پجاری بنے، اربابِ اقتدار کی کاسہ لیسی کی، سرکاری مناصب پر براجمان ہوکر اپنے کفرو شرک کے فتوؤں کے ذریعہ خون کی ندیاں بہائیں، مخالفین کو قیدوبند کی صعوبتوں میںپھانسا اور اہل علم اور ائمہ عظام کو کو ڑوں سے پٹوایا جس کے نتیجہ میں عوام ان سے متنفر ہوئے اور ان علما و ائمہ کی عقیدت و محبت أضعافًا مضاعفة ہوکر لوگوں کے دلوں میں راسخ ہوگئی۔ ایک طرف معتزلہ کی دنیاے دنی کی ہوس تھی، اور دوسری طرف اہل علم کی مسلک ِحق پر اذیتوں اور صعوبتوں کے باوجود ثابت قدمی اور اخلاص کی دولت تھی۔ معتزلہ کی ان حرکات سے نفرتِ عامہ اور مسلم فقہا و علما کا مصائب پر اعلیٰ درجے کا صبروثبات، یہ تھا معتزلہ کے زوال و انحطاط کااصل سبب جس کا آخری نتیجہ یہ تھا کہ وہ صفحۂ ہستی سے مٹ گئے۔ یہ سبب ِاصلی بھی کسی تاریخی کتاب سے پیش کرنے کی بجائے طلوعِ اسلام ہی سے پیش کرنا مناسب ہے :


احمد بن ابی داؤد اور ثمامہ نے یہ بڑی سیاسی غلطی کی کہ مسلک ِاعتزال کو سرکاری سرپرستی میں دے دیا۔ مامون الرشید، معتصم باﷲ اور واثق باﷲ نے مسلک ِاعتزال کو قبول کرکے جبرواکراہ سے اس مسلک کو عوام میں پھیلانے کی کوششیں شروع کردیں، اس کے لئے تشدد اور سختیاں شروع ہوئیں تو جس نے بھی اس تشدد کے مقابلہ میں ثابت قدمی کا ثبوت دیا وہ عوام میں ہیرو بن گیا۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر عباسی خلفا مسلک ِاعتزال کو قبول نہ کرتے تو اعتزال کے مسلک پر ان کا یہ بڑا ہی احسان ہوتا یا اگر اُنہوں نے اس مسلک کو قبول کرلیا تھا تو اسے بنوکِ شمشیر عوام سے منوانے کی کوشش نہ کرتے تو معتزلہ اس تباہی سے یقینا محفوظ رہتے جس سے اُنہیں آگے چل کر دوچار ہونا پڑا۔ معتزلہ نے اپنی اس سیاسی غلطی کو بروقت محسوس نہ کیا۔ یہ محدثین و فقہا کے خلاف کفروشرک کا فتویٰ دیتے تھے اور برسراقتدار طبقہ ان علماو مشائخ کو دارو رَسن کی مشقتوں میں مبتلا کرکے عوام میں ان کو ہیرو بنا دینے پر اپنی تمام کوششیں صرف کررہا تھا۔32


لیکن کیا آج کے معتزلہ اور تحریک ِطلوع اسلام نے اپنے پیشرو معتزلہ سے کوئی سبق سیکھا؟ ہرگز نہیں،کیونکہ جہاں اخلاص نہ ہو، دنیاے دنی کی محبت ہو اور کسی تحریک کا بانی اور لیڈر خود نظامِ طاغوت کی سرکاری مشینری کے کل پرزہ کی حیثیت سے روٹی کا غلام بن رہا ہو اور اپنے مخالفین پر منکرین ِقرآن اور منافق ہونے کا فتویٰ لگا رہا ہو اور ہر صاحب ِاقتدار سے اچھے مراسم ہر دور میں قائم رکھتا ہو اور اپنے مخالفین کے خلاف حکومت کو مشورے دے رہا ہو، اور ماضی کے معتزلہ کے نقش قدم پر چل کر غیر اسلامی تصورات کو قرآن میں سمو ڈالنے کی کوشش میں جتا ہو اور اپنے کنونشنوں میں وزرا کو اور اربابِ اقتدار کو کرسئ صدارت پر بٹھاتا ہو، اور اشتراکی ممالک کے سفیروں سے ملاقات کا حریص ہو، وہ ‘مفکر ِقرآن’ اگر یہ کچھ نہ کرے تو آخر اور کیا کرے ؟


حوالہ جات

1.طلوع اسلام، جون 1938ء، ص 11
2.
طلوع اسلام، جولائی 1938ء، ص59
3.
طلوع اسلام، جولائی 1938ء، ص62
4.
طلوع اسلام، اکتوبر 1938ء، ص29
5.
طلوع اسلام، اکتوبر 1938ء، ص34
6.
طلوع اسلام، نومبر1938ء، ص37
7.
طلوع اسلام، جنوری 1940ء، ص24
8.
طلوع اسلام، دسمبر 1974ء، ص344
9.
قرآن کی معنوی تحریف، ص82
10.
طلوع اسلام، مئی 1950ء، ص29
11.
طلوع اسلام، مارچ 1952ء، ص7
12.
طلوع اسلام، 5 فروری 1955ء، ص4
13.
طلوع اسلام، 12 فروری 1955ء، ص3
14.
طلوع اسلام، 19 فروری 1955ء، ص18
15.
طلوع اسلام، جون 1956ء، ص6
16.
طلوع اسلام، دسمبر1957ء، ص9
17.
طلوع اسلام، اگست 1960ء، ص3
18.
طلوع اسلام، مارچ 1966ء، ص49
19.
طلوع اسلام، نومبر 1940ء، ص19۔20
20.
طلوع اسلام، مارچ 1952ء، ص52
21.
طلوع اسلام، جون 1938ء، ص66
22.
طلوع اسلام، جون 1938ء، ص67
23.
طلوع اسلام، فروری 1960ء، ص70
24.
طلوع اسلام، مارچ 1973ء، ص55
25.
طلوع اسلام، جون 1978ء، ص48
26.
طلوع اسلام، 23 جولائی 1955ء، ص11
27.
طلوع اسلام، فروری 1967ء، ص57
28.
طلوع اسلام، 23 جولائی 1955ء، ص11
29.
طلوع اسلام، 23 جولائی 1955، ص13
30.
طلوع اسلام، 23 جولائی 1955، ص13
31.
طلوع اسلام، 23 جولائی 1955، ص13
32.
طلوع اسلام، 23 جولائی 1955، ص13


i.اس امر کے ثبوت کے لئے کہ ان دِنوں پرویز صاحب اعتقاداً نہیں، بلکہ مصلحتاً منافقت کا لبادہ اوڑھ کر سنت کا نام لیا کرتے تھے، دیکھئے میری کتاب : ‘جناب غلام احمد پرویز، اپنے الفاظ کے آئینہ میں

 ii. دیکھئے طلوعِ اسلام: نومبر 1976ء، ص 58

iii.ملاحظہ فرمائیے، طلوع اسلام: مئی 1977ء، ص

About thefinalrevelation
Leave a reply