غامدی صاحب اور انکارِ حدیث – سنت کیسے ثابت ہوتی ہے؟

سنت کیسے ثابت ہوتی ہے؟
سنتکا شرعی واصطلاحی مفہوم چھوڑکر غامدی صاحب پہلے تو گھر سے اس کا ایک نرالا مفہوم مراد لیتے ہیں اور پھر اس کے ثبوت کے لئے انوکھی شرطیں عائد کردیتے ہیں ۔ ان کے نزدیک :
سنت کا ثبوت خبر واحد سے نہیں ہوتا بلکہ اس کا ثبوت کبھی صحابہ کرامؓ کے اجماع سے ہوتاہے کبھی صحابہ کرام کے اجماع اور ان کے عمل تواتر سے، کبھی اُمت کے اجماع سے، کبھی اُمت کے اِجماع سے اَخذ کرکے اور کبھی اُمت کے اِجماع سے قرار پاکر اور کبھی قرآن کے ذریعۂ ثبوت کے برابر ذریعۂ ثبوت سے۔


چنانچہ وہ اپنے اس موقف کو بیان کرتے ہوئے پہلے سنت کی تعریف لکھتے ہیں :
سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلمنے اس کی تجدید واصلاح کے بعد اوراس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایاہے۔1
لیکن سنت کی یہ تعریف دین کی کسی معتبر کتاب میں موجود نہیں ہے اور اُمت ِمسلمہ کے اہل علم سے کوئی بھی اس کاقائل نہیں ہے۔آگے چل کر ہم سنت کی وہ تعریف درج کریں گے جو اہل علم کے ہاں مسلم ہے۔
پھر آگے اس سنت کے ثبوت کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ
سنت یہی ہے اور اس کے بارے میں یہ بالکل قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبارسے اس میں اور قرآنِ مجید میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ جس طرح صحابہ کے اِجماع اورقولی تواتر سے ملاہے، یہ اسی طرح ان کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے اور قرآن ہی کی طرح ہر دور میں اُمت کے اجماع سے ثابت قرار پائی ہے۔2


اسی بات کو وہ دوسری جگہ یوں لکھتے ہیں کہ
قرآن ہی کی طرح سنت کا ماخذ بھی اُمت کا اجماع ہے اور جس طرح وہ صحابہؓ کے اجماع اور قولی تواتر سے اُمت کوملاہے، اسی طرح یہ ان کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے۔3
وہ مزید لکھتے ہیں کہ
جس طرح قرآن خبر واحد سے ثابت نہیں ہوتا، اسی طرح سنت بھی اس سے ثابت نہیں ہوتی۔4
ایک اور جگہ اسی مضمون کو اس طرح لکھتے ہیں کہ
ثبوت کے اعتبار سے اس (سنت) میں اور قرآن میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ جس طرح اُمت کے اجماع سے ثابت ہے، یہ بھی اسی طرح اُمت کے اجماع ہی سے اخذ کی جاتی ہے۔5
اس سے معلوم ہوا کہ غامدی صاحب کے نزدیک :
سنت خبر واحد سے ثابت نہیں ہوتی۔
ثبوت کے اعتبار سے سنت اور قرآن میں کوئی فرق نہیں ۔
سنت صحابہ کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے اور یہ ہر دو ر میں اُمت کے اجماع سے ثابت قرار پائی ہے۔
اب ہم ان نکات کا عملی جائزہ لیں گے :


کیا سنت خبر واحد سے ثابت نہیں ہوتی؟
غامد ی صاحب کا دعویٰ ہے کہ سنت خبر واحد(اخبارِ احاد)سے ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس کے ثبوت کے لئے اجماع اور تواتر شرط ہے۔
ہمار ا جواب یہ ہے کہ سنت خبر واحد سے ثابت ہوتی ہے اور اس کے لئے اجماع اور تواتر کی شرط بے بنیاد اور بے اصل ہے۔ آج تک اُمت کے معتمد اور ثقہ اہل علم میں سے کسی نے سنت کے ثبوت کے لئے تواتر کی شرط عائد نہیں کی۔ ہم کہتے ہیں کہ سنت ہی کیا، پورا دین خبر واحد سے ثابت ہوتا ہے جیساکہ صحیحین کی حدیث ِجبرائیل ؑ خبرواحد ہے اور اس میں پورا دین بیان کیاگیا ہے جس کی تصدیق خو د نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمائی ہے کہ وہ (جبرائیل ؑ) تھے جو تمہیں دین سکھانے کے لئے آئے تھے۔


یہ حدیث ِجبر ائیل ؑ صحیح بخاری میں اس طرح روایت ہوئی ہے کہ
عن أبي هریرة قال: کان النبي ﷺ بارزًا یومًا للناس فأتاہ رجل فقال: ما الإیمان؟ قال : (الإیمان أن تؤمن باﷲ وملائکته وبلقائه ورسله وتؤمن بالبعث)۔قال: ما الإسلام؟ قال: (الإسلام أن تعبد اﷲ ولاتشرك به وتقیم الصلاة وتؤدّي الزکوٰة المفروضة وتصوم رمضان)۔ قال : ما الإحسان ؟ قال: (أن تعبد اﷲ کأنك تراہ فإن لم تکن تراہ فإنه یراك)۔ قال: متٰی الساعة؟ قال:(ما المسئول عنها بأعلم من السائل وسأخبرك عن أشراطها: إذا ولدت الأمة ربتها وإذا تطاول رعاة الإبل البهم في البنیان، في خمس لایعلمهن إلا اﷲ) ثم تلا النبي ﷺ {اِنَّ اﷲَ عِنْدَه عِلْمُ السَّاعَةِ} الآیة ۔ ثمّ أدبر فقال: (ردّوہ) ،فلم یرَوا شیئًا فقال:( هذا جبرائیل جاء یعلّم الناس دینهم)۔6
حضرت ابوہر یرہؓ روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سامنے تشریف فرما تھے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے پوچھا: ایمان کیاہے ؟ آپؐ نے فرمایا : ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، فرشتوں پر، قیامت کے دن اللہ کے حضور پیش ہونے پر، اللہ کے رسولوں پر ایمان لائو اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کا یقین رکھو۔ اس نے مزید سوال کیا: یار سول اللہؐ ! اسلام کیاہے؟ فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور کسی کو اللہ کاشریک نہ بناؤ، نماز قائم کرو ،زکوٰة دو اور رمضان کے روزے رکھو۔ پھر اس نے عرض کیا : یار سول اللہؐ ! احسان کیا ہے؟ فرمایا: احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو ، اگر تم اُسے نہیں دیکھ سکتے (یعنی یہ کیفیت پیدا نہیں کرسکتے) تو وہ یقینا تم کو دیکھ رہاہے۔ پھر اس نے سوال کیا : یارسول اللہؐ! قیامت کب آئے گی ؟فرمایا : جس سے سوال کیا گیا ہے، وہ بھی سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ البتہ میں تم کو قیامت کی کچھ نشانیاں بتاتا ہوں ۔ جب لونڈی اپنی مالکہ جنے گی اور جب اونٹوں کے سیاہ فام چرواہے بڑی بڑی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے پربازی لے جائیں گے۔ قیامت کا علم ان پانچ غیب کی باتوں میں سے ہے جن کو اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔پھر آپؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: {اِنَّ اﷲَ عِنْدَه عِلْمُ السَّاعَةِ} قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے۔ وہی بارش برساتاہے، وہی جانتا ہے کہ مائوں کے پیٹوں میں کیاہے، کوئی نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرے گا اور نہ کسی کو یہ خبر ہے کہ کس جگہ ا س کو موت آنی ہے۔
پھر وہ شخص پیٹھ پھیر کر چلا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اسے واپس بلاؤ ” مگر وہ نہ ملا۔ آپؐنے فرمایا: ”یہ جبرائیل تھے جو لوگوں کو اُن کا دین سکھانے آئے تھے۔


اس سے معلوم ہواکہ پورا دین تو خبر واحد ( اخبارِ احاد ) سے ثابت ہوسکتا ہے مگر اس سے غامدی صاحب کی ‘سنت’ ثابت نہیں ہوسکتی۔
پھر اس خبر واحد( اخبارِ احاد) سے ہمیں وہ کلمۂ طیبہ نصیب ہوتا ہے جس کے پڑھنے کے بعد ہم مسلمان کہلاتے ہیں اور جسے چھوڑ دینے سے ہم غیر مسلم قرار پاتے ہیں ۔


اس کے علاوہ تمام علماے اسلام کے نزدیک سینکڑوں سنن ( سنتیں ) اور ان کے احکام ایسے ہیں جو خبر واحد (اخبارِ آحاد ) سے ثابت ہوتے ہیں ۔ مثال کے طورپر چند ایک یہ ہیں :

  1. وضو میں موزوں پر مسح کرنا ( مسح علی الخفین)
  2. شہید کی میت کو نہ توغسل دینا اور نہ اسے کفن پہنانا
  3. اذان کا طریقہ
  4. عورت پر جمعہ کی نماز کا فرض نہ ہونا
  5. مسلمان کی میت پر نمازِ جنازہ پڑھنا
  6. ماں کی عدم موجودگی میں میت کی دادی کو وراثت میں سے چھٹا حصہ 6؍1 دینا
  7. وارث کے حق میں وصیت کا ناجائز ہونا
  8. مرتد کے لئے قتل کی سزا(حد ) ہونا
  9. شادی شدہ زانی کے لئے رجم یعنی سنگساری کی سزا (حد)ہونا
  10. مفتوح پارسیوں (مجوسیوں )سے جزیہ لینا
  11. نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدقریش کی حکمرانی کا حق ہونا
  12. نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جس جگہ وفات ہوئی، آپؐ کا وہیں مدفون ہونا۔
  13. مردوں کے لئے ریشم اورسونے کا استعمال ممنوع ہونا
  14. مدینہ منورہ کا حرم ہونا
  15. قرآنِ مجید کی تلاوت کے وقت مقاماتِ سجود پرسجدہ کرنا

اس طرح کے بے شمار احکام اورسنن ہیں جو خبرواحد سے ثابت ہوتے ہیں ۔


کیا قرآن اورسنت کے ثبوت میں کوئی فرق نہیں ؟
غامدی صاحب کا دعوٰی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے قرآن اور سنت میں کوئی فرق نہیں ؟ ہم کہتے ہیں کہ دونوں کے ثبوت میں فرق ہے اور اس کے دلائل یہ ہیں :
۱۔ قرآن کریم اُمت کے تواتر سے ثابت ہے جب کہ سنت کے لئے صحیح حدیث کاہونا ہی کافی ہے اور صحیح حدیث ایک یادو ثقہ اورعادل راویوں سے بھی ثابت ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر:
موطأ امام مالک میں ہے کہ ایک شخص کی وفات کے بعد اس کی دادی (نانی) حضرت ابوبکر ؓ کی خدمت میں اپنی میراث طلب کرنے کے لئے آئی تو آپؓ نے فرمایا:
مالك في کتاب اﷲ شيء، وما علمت لك في سنة رسول اﷲ شیئًا، فارجعي حتّٰی أسأل النّاس7
تیرے لئے اللہ کی کتاب میں کوئی حق موجود نہیں ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں بھی تیرا کوئی حق موجود نہیں ہے، لہٰذا تم ابھی واپس چلی جائو تاکہ میں دوسرے لوگوں سے دریافت کرلوں ۔


اس کے بعد حضرت ابوبکر ؓ نے لوگوں سے دریافت فرمایا تو حضرت مغیرہ ؓ نے بتایا کہ ان کی موجودگی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میت کی دادی کو چھٹا حصہ دلایا تھا۔اس پر حضرت ابوبکر ؓ نے ان سے پوچھا کیا اس وقت تمہارے ساتھ کوئی اوربھی تھا۔ اس کے بعد جب حضرت محمد بن مسلمہ انصاریؓ نے بھی اس حدیث کی تائید کردی تو حضرت ابوبکر ؓ نے اس عور ت کو میراث کا چھٹا حصہ دلادیا۔
مذکورہ حدیث خبر واحد بھی ہے کہ اس کے صرف دو راوی ہیں ، لیکن اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ثابت ہوتی ہے جس پر خلیفہ اوّل حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے اسے سنت سمجھ کر اس پر عمل فرمایا ۔اور آج تک اہل علم اس پر متفق ہیں کہ میت کے ترکے میں سے والدہ کی عدم موجودگی میں دادی کو چھٹا حصہ دیا جائے گا اور یہ سنت ِثابتہ ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ سنت کا ثبوت خبر واحد( اخبارِ آحاد) سے ہوجاتا ہے اور اس کے لئے اجماع یا تواتر کی کوئی شرط نہیں ہے۔ البتہ قرآن کا ثبوت خبر واحد (اخبارِ آحاد) سے نہیں ہوتا، اس کے لئے علمائے اُمت کے ہاں ‘تواتر’ ضروری ہے۔


سنت کے بارے میں ذہنی قلابازیاں اور فکری تضاد بیانیاں
سنت کے ثبوت کے حوالے سے غامدی صاحب کی مذکورہ چاروں تحریروں میں ان کی ذہنی قلابازیاں اور فکر ی تضاد بیانیاں ملاحظہ ہوں کہ
1
۔ سنت کاثبوت صحابہ کرام کے اِجماع سے ہوتاہے۔
پھر دوسرے لمحے یہ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ
2
۔ سنت صحابہ کرامؓ کے اجماع سے اوران کے عملی تواتر سے ثابت ہوتی ہے۔
پھر تیسرے لمحے یہ فرمانے لگتے ہیں کہ
3
۔ سنت اُمت کے اجماع سے ثابت ہوتی ہے۔
اور چوتھے لمحے یہ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ
4
۔ سنت اُمت کے اجماع سے اخذ کی جاتی ہے۔


اب ان چاروں میں سے ان کے کسی موقف کو صحیح سمجھاجائے ؟ جبکہ ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے جسے وہ ایک چیز قرار دے رہے ہیں ۔اگر سنت کے ثبوت کے لئے تواتر کی شرط عائد کر دی جائے تو پھر اُمت کو نوے فیصد دین اسلام کے احکام وتعلیمات سے محروم ہونا پڑتا ہے، کیونکہ وہ صرف اور صرف خبر واحد(ـ اخبارِ آحاد) سے ثابت ہیں ۔ اب نوے فیصد دین چھوڑ کر اس کے صرف دس فیصد کو لے کر غامدی صاحب کا گزارہ تو ہوسکتا ہے مگر اُمت مسلمہ اپنے دین کے نوے فیصد حصے سے نہ تو دست بردرا ہوسکتی ہے اورنہ اس کے صرف دس فیصد پر قناعت کر سکتی ہے۔ ع


جو تمہاری مان لیں ناصحا
تو رہے گا دامن دل میں کیا


دینی اصطلاحات کے ساتھ مذاق کا رویہ
غامدی صاحب اپنی لفاظی کے ذریعے دوسروں کو مغالطہ اورفریب دینے کے عادی ہیں ، ہم ان کے اس طریق واردات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ وہ معروف دینی اصطلاحیں تو اُمت سے لیتے ہیں مگر ان کے مطالب ومفاہیم اپنے جی سے گھڑتے ہیں اس طرح وہ ضلوا فأضلوا کے مصداق ‘خود گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو گمراہ کرتے’ ہیں ۔


زیر بحث موضوع کے حوالے سے بھی اُنہوں نے اپنی مذکورہ عبارات کے ذریعے دینی اصطلاحات کے بارے میں دوسروں کوکئی مغالطے اورفریب دینے کی سعی فرمائی ہے۔ اُنہوں نے سنت، حدیث، اجماع اورتواتر جیسی دینی اصطلاحات کے مفاہیم بدل کر خلط ِمبحث پیدا کردیا ہے ۔سنت کی اصطلاح ہی کولیجئے ۔ اہل علم جانتے ہیں کہ سنت سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال، تقریرات (خاموشی؍ تائیدات) اورصفات ہیں :
أما السنة: فهي أقوال النبي ﷺ وأفعاله وتقریراته وصفاته.8


لیکن غامدی صاحب سنت کی من مانی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید واصطلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔9
اسی طرح وہ ‘حدیث’ کی معروف دینی اصطلاح کو محض اخبارِ آحاد میں محدود کرکے ان کو دین سے خارج کر دیتے ہیں ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اورتقریر و تصویب کے اخبارِ آحاد جنہیں بالعموم ‘حدیث’ کہاجاتا ہے، ان کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ان سے دین میں کسی عقیدہ وعمل کا ہرگز کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔10


اسی طرح وہ ایک اورمقام پر ‘حدیث’کے بارے میں لکھتے ہیں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اورتقریر وتصویب کے اخبارِ آحاد جنہیں بالعموم ‘حدیث’ کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ کبھی درجۂ یقین کو نہیں پہنچتا ، اس لیے دین میں ان سے کسی عقیدہ وعمل کااضافہ بھی نہیں ہوتا۔11
سوال یہ ہے کہ غامدی صاحب کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ اُمت کی معروف شرعی اصطلاحات کے معنی اپنے جی سے گھڑکر خلق خدا کوگمراہ کر یں ۔


دینی اصطلاحات کے معنی بدلنے کے بارے میں خود غامدی صاحب کے استاذ امام مولانا امین احسن اصلاحی اپنی تفسیر تدبر قرآن کے مقدمے میں لکھتے ہیں کہ
منکر ین حدیث کی یہ جسارت کہ وہ صوم وصلوٰة ، حج وزکوٰة اور عمرہ وقربانی کا مفہوم بھی اپنے جی سے بیان کرتے ہیں اور اُمت کے تواتر نے ان کی جو شکل ہم تک منتقل کی ہے، اس میں اپنی ہواے نفس کے مطابق ترمیم و تغیر کرنا چاہتے ہیں ، صریحاً خود قرآنِ مجید کے انکار کے مترادف ہے اس لیے کہ جس تواتر نے ہم تک قرآن منتقل کیا ہے، اسی تواتر نے ا ن کی اصطلاحات کی عملی صورتوں کو بھی ہم تک منتقل کیا ہے۔اگر وہ ان کو نہیں مانتے تو پھر خود قرآن کو ماننے کے لئے بھی کو ئی وجہ باقی نہیں رہ جاتی ۔12


اب غامدی صاحب ذرا اپنے امام کے اس آئینے میں دیکھ کر بتائیں کہ کیا وہ وہی حرکت نہیں کر رہے جو منکر ینِ حدیث کیاکرتے ہیں ؟اگر ان کے امام کے فتویٰ کے مطابق منکرین حدیث اس قصور پر کہ وہ قرآنی اصطلاحات کے مفہوم میں ترمیم وتغیر کرتے ہیں ، منکرین قرآن ٹھہرتے ہیں تو کیاغامدی صاحب ‘سنتاور ‘حدیث’ کی اصطلاحات کے مفہوم میں تغیر وتبدل کرنے کے بعد ‘منکر ِسنتاور ‘منکر ِحدیث’ نہیں ٹھہرتے؟
ہم کہتے ہیں کہ اُمت کی معروف دینی اور شرعی اصطلاحات کے مفاہیم ومطالب کو بدلنا مغالطہ انگیزی بھی ہے، فتنہ انگیزی بھی؛ فریب دہی بھی ہے، خیانت کاری بھی؛ ڈھٹائی بھی ہے اوربے شرمی بھی۔
اہل علم جانتے ہیں کہ تاریخ اسلام میں حضرت ابو بکرصدیقؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ کے لئے ‘شیخین’ کی اصطلاح موجود ہے اور علم حدیث میں امام بخاری اور امام مسلم کو ‘ شیخین’ کہاجاتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص تاریخ اسلام کے شیخین کو علم حدیث کے شیخین قرار دے لے اور علم حدیث کے شیخین کو تاریخ اسلام کے شیخین ٹھہرائے تو ایسے آدمی کا کیا علاج ؟اسے ٹی وی پر لوگوں کو دین سکھانے کے کام پر لگایا جائے یا اسے کسی شفاخانۂ امراضِ دماغی میں داخل کرایا جائے؟ پھر جب وہ اس کے ساتھ یہ دعویٰ بھی کردے کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور حضرت عمر ؓ نے ‘صحیحین ‘ مرتب کی تھی اور امام بخار ی اور امام مسلم ؒ مسلمانوں کے بالتر تیب پہلے اور دوسرے خلیفہ ہو گزرے ہیں ، توخدارا بتائیے اس کا کیا نتیجہ نکلے گا اور ایسے شخص کے بارے میں کیا کہا جائے گا ؟ بسوخت زحیرت ایں چہ بو العجبی ست (جاری ہے)

داعیانِ حق وصداقت کیلئے خوشخبری
امام الانبیاء ﷺ کا طریقہ نماز
آمنہ عبد اللہ ہسپتال فاخر شاہ روڈ، دیپال پور، ضلع اوکاڑہ کا دیدہ زیب فور کلر اشتہار
برصغیر کی مشہور شخصیت بابا فرید الدین گنج شکر آف پاکپتن کی سوانح حیات میں امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقۂ نماز کو اُردو ترجمہ کے ساتھ یوں پیش کیا گیا ہے کہ پڑھتے ہوئے انسان یوں محسوس کرتا ہے گویا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جمع بین الصلوٰتین في السفر، قومہ، جلسہ استراحت، رفع الیدین، عیدین کی بارہ تکبیریں اور آمین بالجہر وغیرہ پر عمل کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ یہ اشتہار عاملین بالحدیث الشریف کے طریقۂ نماز کی درستگی پر شاہد ِعدل ہے۔ ہسپتال مذکور کے علاوہ اس پتہ سے بھی دستی یہ اشتہار حاصل کیا جاسکتا ہے :
ابو مسعود عبدالجبار سلفی : جامع مسجد سعد بن ابی وقاص، چوک حجرہ شاہ مقیم، ضلع اوکاڑہ


حوالہ جات

1.میزان:ص10، طبع دوم، اپریل 2006ء، لاہور؛ اُصول ومبادی: ص10، فروری 2005ء ، لاہور

2.میزان:ص10، طبع دوم اپریل 2006ء، لاہور

3.میزان:ص 68، طبع دوم اپریل 2006ء، لاہور

4.میزان : ص67،طبع دوم اپریل2006ء، لاہور

5.میزان: ص70، طبع دوم اپریل 2006ء، لاہور

6.صحیح بخاری:50، صحیح مسلم:9

7.موطا امام مالک : کتاب الفرائض، باب میراث الجدة

8.اصول الفقہ الاسلامی از ڈاکٹر وہبہ ز حیلی: ۱؍ 449، طبع دمشق

9.میزان:ص10، طبع دوم اپریل 2002، لاہور ؛ اُصول ومبادی، ص 10، طبع فروری 2005ء، لاہور

10.میزان : ص10، طبع اپریل 2002ء، لاہور

11.  اُصول ومبادی: ص11، طبع فروری 2005ء، لاہور

12.تدبر قرآن: 1؍29، طبع 1983ء ، لاہور

About thefinalrevelation
Leave a reply