قرآن فہمى اور حديث نبوى ﷺ – حصہ دوم

حصہ دوم
طلوعِ اسلام’ مئى 2005ء كے شمارہ ميں خواجہ ازہر عباس صاحب __ “قرآن فہمى وحديث نبوى ” موٴقر ماہنامہ محدث سے چند گزارشات __ كے زيرعنوان فرماتے ہيں :
قرآن فہمى كے اُصولوں اور قواعد كے سلسلہ ميں محترم پرويز صاحب اور محترم جاويد غامدى صاحب كے حوالے سے مضمون ميں جو كچھ كہا گيا ہے، اس كا خلاصہ يہ ہے كہ جناب خورشيد نديم، پرويز صاحب كے قرآن فہمى كے اس طريقہ كو پسند نہيں فرماتے جس كى رو سے وہ قرآن كريم كو صرف لغت كے حوالے سے سمجهنے كى كوشش كرتے رہے ہيں ، اس كے برخلاف طلوعِ اسلام جناب غامدى صاحب كے طريقہ كو كہ وہ قرآن كوجاہلى دور كے عربى ادب اور شعر وشاعرى كے ذخيرے كى بنياد پر سمجھنا چاہتے ہيں ، درست خيال نہيں كرتا-“1

اس پر مولانا زاہد الراشدى صاحب فرماتے ہيں :
جہاں تك فہم قرآن كے بنيادى تقاضوں كا تعلق ہے، اگرچہ لغت اور ادبِ جاہلى دونوں اس كى ضروريات ميں سے ہيں ، ليكن فہم قرآن كا انحصار ان دونوں پر يا ان ميں سے كسى ايك پر نہيں ہے، يہ دونوں صرف معاون ہيں اور فہم قرآن تك رسائى كے ذرائع ميں سے ہيں ليكن اس كى بنياد جس چيز پر ہے، اسے دونوں حضرات فہم قرآن كى بنياد كے طور پر تسليم كرنے كے لئے تيار نہيں ہيں -” 2

اس پر مقالہ نگار، مولانا زاہد الراشدى كے اس نقطہ نظر پر يوں اظہارِ خيال فرماتے ہيں :
ان دنوں حضرات (یعنى پرويز صاحب اور جاويد غامدى صاحب يا طلوعِ اسلام اور اشراق) كے اختلاف سے صاحب ِمضمون فائدہ اُٹهانا چاہتے ہيں – كيونكہ صاحب ِمضمون كا يہ نظريہ ہے كہ ان دونوں ہى حضرات كا قرآن فہمى كا طریقہ غلط ہے، وہ (زاہد الراشدى صاحب) لغت اور ادبِ جاہلى اور محاوروں كو اہميت تو ديتے ہيں ، ان كى اہميت سے صرفِ نظر نہيں فرماتے، ليكن يہ خیال فرماتے ہيں كہ يہ دونوں سہارے قرآن فہمى كے لئے كافى نہيں -” 3

مولانا زاہد الراشدى كے نزديك قرآن فہمى كا صحيح اور مناسب طريقہ كيا ہے؟ اس كا خلاصہ مقالہ نگار يوں پيش فرماتے ہيں :
قرآن فہمى كے سلسلہ ميں مولانا زاہد الراشدى صاحب كے نظريہ كا خلاصہ يہ ہے كہ قرآن كريم كے سمجهنے كے لئے متكلم كى منشا تك رسائى ضرورى ہے- اس كيس ميں اللہ تعالىٰ متكلم ہے ليكن اس تك براہ راست رسائى ممكن نہيں ہے كہ اس سے دريافت كيا جاسكے كہ آپ كى اس بارے ميں كيامراد ہے؟ ليكن اللہ تعالىٰ كے نمائندے تك تو ہمارى رسائى ہے- جناب نبى اكرمﷺكى ذاتِ گرامى اللہ تعالىٰ كى نمائندہ ہے جن كا مشن ہى يہ تها كہ اللہ تعالىٰ كا پيغام ہم تك پہنچائيں اور اس كى وضاحت كركے ہميں اللہ تعالىٰ كى منشا سے آگاہ كريں -”

اسكے بعد حضرت نہايت معصومانہ انداز ميں اس حيرت و استعجاب كا اظہار فرماتے ہيں كہ
قرآن، اُمت تك جن ذرائع سے پہنچا ہے، وہى ذرائع اس كى تشريح یعنى جناب نبىﷺ كے ارشادات و فرمودات كو ہم تك منتقل كررہے ہيں – اگر وہ ذرائع قرآن كريم كو اُمت تك منتقل كرنے ميں قابل اعتماد ہيں تو حديث و سنت كو اُمت تك پہنچانے ميں كيوں قابل اعتماد نہيں ہيں – اگر وہ حديث و سنت كى روايت ميں خدانخواستہ قابل اعتماد نہيں ہيں تو قرآن كريم كى روايت ميں كس طرح قابل اعتماد ہوجاتے ہيں ۔4

مولانا زاہد الراشدى صاحب كے اس نظريہ پر ‘روايت پرستى’ كا ليبل چسپاں كرتے ہوئے مقالہ نگار فرماتے ہيں :
غرض كہ اصل نظريہ حضرت كا وہى روايت پرستى كا حامل ہے كہ قرآن كريم كو روايت كے ذريعہ سمجھا جائے اور تفسیر القرآن بالروايت كاجو طريقہ ہمارے ہاں چلا آرہا ہے، اسى كو جارى ركها جائے۔5

نفس مسئلہ سے مقالہ نگار كا گريز
اس كے بعد مقالہ نگار صاحب مولانا زاہد الراشدى صاحب كے اس موقف سے كہ “قرآن اور صاحب ِقرآنﷺكے فرمودات ہم تك ايك ہى ذرائع سے پہنچے ہيں ، لہٰذا اگر وہ قابل اعتماد ہيں تودونوں (قرآن اور رواياتِ حديث) كو ہم تك پہنچانے ميں قابل اعتماد ہيں اور اگر ناقابل اعتماد ہيں تب بهى دونوں كو ہم تك پہچانے ميں ناقابل اعتماد ہيں -” صرفِ نظر كرتے ہيں اور يہ بحث شروع كرديتے ہيں كہ قرآن اور رواياتِ حديث ميں كيا كيا فروق و امتيازات پائے جاتے ہيں -” پهر فروق و امتيازات بهى وہ بيان كئے جاتے ہيں جو نفس مسئلہ سے قطعى غير متعلق ہيں – يہ بالكل ايسى ہى بات ہے كہ جيسى (وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْ‌ضِ وَلَا طَائِرٍ‌ يَطِيرُ‌ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُم﴿٣٨سورۃ الانعام) ميں مركزى نكتہ، انسانى زندگى اور برى جانوروں اور فضائى پرندوں كى حيات ميں ‘مثليّت’ كا پہلو ہے، ليكن بحث اس نكتہ كى بجائے يہ شروع كردى جائے كہ انسانوں كى زندگى اور زمينى جانوروں اور فضائى پرندوں كى حيات ميں يہ اوريہ فرق پائے جاتے ہيں ، لہٰذا ان سب كو ايك جيسا (مثلكم) قرار دينا درست نہيں ہے- يہاں زيربحث نفس مسئلہ تو يہ ہے كہ جن ذرائع سے (مثلاً كتابت، حفظ وغيرہ سے ) قرآن ہم تك پہنچا ہے، انہى ذرائع سے احاديث ِرسول بهى ہم تك پہنچى ہيں – مقالہ نگار ان ذرائع پر بحث كرنے كى بجائے يہ كہنا شروع كرديتے ہيں كہ “قرآن اور رواياتِ حديث ميں تو يہ فرق بهى ہے اور وہ فرق بهى، لہٰذا دونوں متماثل نہيں ہيں -” مقالہ نگار نے جو فروق بيان كئے ہيں وہ اگر فى نفسہدرست بهى ہوں تب بهى وہ اصل مسئلہ سے غير متعلق ہيں ، يوں خلط ِمبحث ميں اُلجہا دينے ميں مقالہ نگار كى سادگى و پُركارى واقعى قابل داد ہے!!

چند اُمور پر غور فرمائيے!
بہرحال اصل مسئلہ زير بحث سے گريز كرتے ہوئے مقالہ نگار قرآنِ مجيد اور حديث و سنت ميں باہمى فرق كو يہ كہہ كر واضح فرماتے ہيں كہ قرآنِ كريم پر ايمان لانے كے بعد پهر يہ سوال ہى پيدا نہيں ہوتا كہ يہ قرآن جو چھ ہزار سے زيادہ آيات پر مشتمل ہے، كن ذرائع سے ہمارے پاس آيا ہے، اس كے برخلاف احاديث كا يہ مقام نہيں ہے6

حالانكہ بحث كا اصل ہدف “وہ ذرائع ہيں جن كے ذريعہ ہم تك قرآن اور روايات احاديث پہنچى ہيں -” نہ كہ يہ امر كہ “قرآن كا مقام كيا ہے اور احاديث كا مقام كيا؟

تاہم يہاں اس اقتباس ميں جو كچھ كہا گيا ہے ميں سمجھتا ہوں كہ يہى بنياد كى وہ غلطى اور كجى ہے جس پر انكارِ حديث كے مسلك كا قصر فلك بوس تعمير كيا گيا ہے- اگر كوئى سليم الفطرت شخص جو واقعى متلاشى حق ہو، مسلك ِانكارِ حديث كے لئے اپنى ضداور ہٹ دهرمى سے بالاتر ہوكر ٹھنڈے دل و دماغ سے يہاں غور كرے گا، تو اسے خود بهى اپنى غلطى كا احساس ہوجائے گا!!

(1) پہلے ايمان كس پر؟ قرآن پر يا رسول پر
مقالہ نگار كا يہ كہنا كہ __” قرآنِ كريم پر ايمان لانے كے بعد، پهر يہ سوال ہى باقى نہيں رہتا كہ يہ قرآن . . . كن ذرائع سے ہم تك پہنچا ہے-” دراصل اس مفروضہ پر قائم ہے كہ سب سے پہلے ہمارے پاس قرآن آيا- ہم فوراً ہى اس پر ايمان لے آئے- لہٰذا ايمان لا ڈالنے كے بعد اب يہ سوال ہى باقى نہيں رہتا كہ يہ كن ذرائع سے ہم تك پہنچا ہے۔

حالانكہ امر واقعہ يہ نہيں ہے كہ قرآن ہمارے پاس پہلے آيا ہو اور ہم اس پر ايمان لائے ہوں ، پهر قرآن نے ہميں محمد بن عبداللہ سے متعارف كروايا ہو، تب قرآن كے كہنے پر ہم نے اُنہيں محمد رسول اللہﷺ تسليم كيا ہو- بلكہ واقعاتى صورتِ حال يہ ہے كہ محمد رسول اللہﷺہمارے پاس پہلے آئے، ہم ان كى رسالت پر ايمان لائے، تب ان ہى كے كہنے پر (حديث رسول كى بنياد پر) ہم نے قرآن كو قرآن تسليم كيا ہےاب يہ كس قدر عجيب بات ہے كہ محمد رسول اللہﷺ كى جس زبان پر اعتماد كرتے ہوئے ہم نے قرآن كو قرآن مانا ہے، اُسى زبان كوايمان بالقرآن كے فوراً بعد ہم نظر انداز كرديں اور خداے كائنات كى طرف سے مامور من اللہ نمائندہ ہونے كى حيثيت سے جو سركارى تشريح، زبان ترجمان وحى نے فرمائى ہے وہ يكسر مہمل اور بے معنى ہوكر رہ جائے۔

(2) كتاب كے ساتھ، بشر رسول ہى كيوں ؟

دوسرى قابل غور بات يہ ہے كہ آخر كيا وجہ ہے كہ اللہ تعالىٰ نے ہميشہ اپنى كتاب كے ساتھ رسول بهيجا ہے اور كبهى ايسا نہيں ہوا كہ تنہا كتاب بغير كسى رسول كے آئى ہو،حالانكہ اس كے برعكس يہ نہ صرف يہ كہ ممكن ہى ہے (بلكہ عملى واقعہ بهى ہے) كہ كوئى رسول، اپنى پیغمبرانہ زندگى ميں ، رسول ہونے كے باوجود، ايك مدت تك محرومِ كتاب ہى رہا ہو اور منصب ِنبوت پالينے كے ايك مدت بعد اسے كتاب ملى ہو- كيا اللہ تعالىٰ اس پر قادر نہ تها كہ اپنى كتاب براہ راست قوم كے ہر فرد تك پہنچا ديتا؟ اگر وہ قادر نہ تها تو اسے اللہ مانا ہى كيوں جائے؟ ليكن اگر وہ قادر تها(اور باليقين قادر تها) تو كيوں نہ ہر فردِ قوم تك اپنى كتاب براہ راست پہنچا دى؟ اور كيوں اس نے يہ ضرورى جانا كہ كتاب كے ساتھ ايك رسول بهى بهيجا جائے؟ اور پهر رسول جب بهى بهيجا گيا تو كوئى فرشتہ نہيں ، بلكہ انسانوں ہى ميں سے بهيجا گيا- آخر يہ كيوں ؟ __ اس لئے كہ تنہا كتاب خواہ وہ كتنى ہى عظيم الشان ہوتى، بہرحال وہ الفاظ ہى پر مشتمل ہوتى جبكہ عملاً جو كچھ مطلوب ہوتا ہے، وہ الفاظِ كتاب نہيں بلكہ معانى كتاب ہوتے ہيں ، جن كے تعين ميں لامحالہ (اگر كتاب كے ساتھ رسول نہ ہو تو) لوگوں ميں سے ہر فرد دوسرے سے مختلف ہوگا اور يہ اختلافِ معانى ٴكتاب لوگوں كو نہ تو بنيانِ مرصوص ہى بنا سكے گا نہ ہى انہيں اقامت ِكتاب (يا غلبہ دين) كى منزل تك پہنچا سكے گا- مگر رسول كى موجودگى ميں كتاب كا وہى مفہوم ‘سركارى فرمانقرار پائے گا جو خود رسول كا پيش كردہ ہو،كيونكہ وہ نہ صرف يہ كہ خدا كا مامور من اللہ نمائندہ ہے بلكہ اس كتاب كا شارح مجاز بهى ہے- ليكن كتاب كى ايسى توضيح و تشريح جو صرف بيان و كلام كى حد تك ہو، وہ تو خير ايك فرشتہ بهى كرسكتا ہے ليكن جو تشريح و وضاحت عملى مظاہرہ (Practical Demonstration) كى محتاج ہو وہ كوئى فرشتہ اس لئے انجام نہيں دے سكتا كہ اس كى دنيا انسانى دنيا سے یكسر مختلف ہے اور انسان سے قطعى الگ اور جداگانہ مخلوق ہونے كى بنا پر وہ انسان كے لئے نمونہٴ پيروى نہيں بن سكتا- انسانوں كى دنيا ميں تو كوئى انسان ہى اُن كے لئے اُسوہٴ حسنہ بن سكتا ہے- اس لئے اللہ تعالىٰ نے انسانوں كى راہنمائى كے لئے كتاب كے ساتھ كسى فرشتہ كى بجائے انسان ہى كو رسول اور راہنما بنا كر بهيجا ہے- اسى بات كو جناب پرويز صاحب نے بهى بڑے اختصار كے ساتھ ان الفاظ ميں بيان كيا ہے :

اگر غوروفكر اور ہدايت و نجات كے لئے كتاب كى آيات ہى كافى ہوتيں تو كتاب كسى پہاڑ كى چوٹى پر ركھ دى جاتى، عوام كے دلوں ميں اِلقا كردى جاتى (جيسا كہ وہ اكثر اعتراض بهى كرتے تهے كہ ہم پر وحى كيوں نہيں بهیجى جاتى) ليكن اس علیم و حكیم كو خوب معلوم تها كہ تعليم بلا عمل اور كتاب بلا رسول ناقص رہ جاتى ہے- يہى ضرورت تهى جس كو پورا كرنے كيلئے فرمايا كہ
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَ‌سُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴿٢١سورۃ الاحزاب
تمہارے لئے رسول اللہ (كى زندگى) ميں عمدہ نمونہ ہے-” 7

(3) اُسوہ … الفاظِ كتاب يا ذاتِ رسول؟
تيسرى بات جو يہاں ذہن نشين رہنى چاہئے وہ ‘اُسوئہ حسنہ’كا محل و مہبط ہے- قرآنِ كريم نے صرف دو ہى رسولوں كو اہل ايمان كے لئے بالصراحت اُسوہ حسنہ قرار ديا ہے: ايك حضرت محمد ﷺ اور دوسرے حضرت ابراہیم عليہ السلام (اور ان كے اصحاب) حضرت ابراہیم علیہ السلام كو جو كتاب (جسے قرآن نے ‘صحف ِابراہیمكہا ہے) دى گئى تهى، وہ آج مسلمان تو كيا كسى بهى قوم كے پاس نہيں ہے- سو اگراُسوہ كا مقصد (يا منكرين حديث كى زبان ميں اطاعت رسول كا مقصد) كتاب ہى كى پيروى ہوتا تو پهر آج اُسوہٴ ابراہیمى كہاں سے ليا جاتا- خود قرآن مجید نے بهى صحف ِابراہیم كے الفاظ و متن كو اپنے دامن ميں محفوظ نہيں ركها، بلكہ اس كى بجائے حضرت ابراہیم عليہ السلام كے اعمالِ حيات كا تفصيلاً ذكركيا ہے اور انہى اعمال كى بنياد پر وہ آج بهى اُمت ِمسلمہ كے امام اور ملت ِابراہیمى كے بلند پايہ قائد قرار ديئے گئے ہيں – اس سے يہ ظاہر ہے كہ كسى كتاب كے نقوش و الفاظ اُسوہ نہيں بن سكتے- بلكہ نبى كے اعمالِ حيات اور رسول كے نقوشِ قدم ہى اُسوہ بن سكتے ہيں اور پیغمبر كے افعال و اعمال كا نمونہ ہى لائق پيروى ہوسكتا ہے- یقینا قرآن ميں بهى حضور اكرمﷺكے اعمال و افعال بهى موجود ہيں ليكن قرآن سے كہيں زيادہ يہ ريكارڈ احاديث ميں پايا جاتا ہے

(4) رسول ؛ مامور من اللہ شارحِ قرآن
چوتهى بات يہاں يہ قابل غور ہے كہ كتاب كے ساتھ الله تعالىٰ نے اپنے نبى كو بهيجا ہے تو اس كا مقصد كيا ہے؟ قرآن يہ بيان كرتا ہے كہ (وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ﴿٤٤سورۃ النحل)”اور ہم نے (اے رسول!) تيرى طرف يہ ذكر نازل كيا، تاكہ تُو لوگوں كے لئے اُس چيز كى وضاحت كر دے جو ان كى طرف اُتارى گئى-”

اس آيت پر سيد ابوالاعلىٰ مودودىنے جو قيمتى، ايمان افروز اور مزيل شبہات حاشيہ لكها ہے اس كا ايك حصہ ملاحظہ فرمائيے:
يہ آيت جس طرح ان منكرين نبوت كى حجت كے لئے قاطع تهى جوخدا كا ‘ذكر’ بشر كے ذريعہ سے آنے كو نہيں مانتے تهے، اسى طرح آج يہ ان منكرين حديث كى حجت كے لئے بهى قاطع ہے جو نبى كى توضيح و تشريح كے بغير صرف ‘ذكر’ كولے لينا چاہتے ہيں – وہ خواہ اس بات كے قائل ہوں كہ نبى نے تشريح و توضيح كچھ بهى نہيں كى، صرف ‘ذِكر’ پيش كرديا تها يا اس كے قائل ہوں كہ ماننے كے لائق صرف ذكر’ ہے نہ كہ نبى كى تشريح يا اس كے قائل ہوں كہ اب ہمارے لئے صرف ذِكر’ كافى ہے، نبى كى تشريح كى كوئى ضرورت نہيں يا اس بات كے قائل ہوں كہ اب صرف ‘ذِكر’ ہى قابل اعتماد حالت ميں باقى رہ گيا ہے، نبى كى تشريح يا تو باقى ہى نہيں رہى يا باقى ہے بهى تو بهروسے كے لائق نہيں ہے- غرض ان چاروں باتوں ميں سے وہ جس بات كے بهى قائل ہوں ، ان كا مسلك بہرحال قرآن كى اس آيت سے ٹكراتا ہے

اگر وہ پہلى بات كے قائل ہيں تو اس كے معنى يہ ہيں كہ نبى نے اس منشا ہى كو فوت كرديا جس كى خاطر ذكر كو فرشتوں كے ہاتھ بهيجنے يا براہ راست لوگوں تك پہنچا دينے كى بجائے اسے واسطہ تبليغ بتايا گيا تها

اگر وه دوسرى اور تيسرى بات كے قائل ہيں تو اس كا مطلب يہ ہے كہ اللہ مياں نے (معاذ الله) يہ فضول حركت كى كہ اپنا ‘ذكر’ ايك نبى كے ذريعہ بهيجا كيونكہ نبى كى آمد كا حاصل بهى وہى ہے جو نبى كے بغير صرف ذكر كے مطبوعہ شكل ميں نازل ہوجانے كا ہوسكتا تها۔

اگر وہ چوتهى بات كے قائل ہيں تودراصل يہ قرآن اور نبوتِ محمدى دونوں كے نسخ كا اعلان ہے جس كے بعد اگر كوئى مسلك معقول باقى رہ جاتا ہے تو وہ ان لوگوں كا مسلك ہے جو ايك نئى نبوت اور نئى وحى كے قائل ہيں – اس لئے كہ اس آيت ميں اللہ تعالىٰ خود قرآنِ مجيد كے مقصد ِنزول كى تكميل كے لئے نبى كى تشريح كو ناگزير ٹھہرا رہا ہے اور نبى كى ضرورت ہى اس طرح ثابت كررہا ہے كہ وہ ذكر كے منشا كى توضيح كرے- اب اگر منكرين حديث كا يہ قول صحيح ہے كہ نبى كى توضيح و تشريح دنيا ميں باقى نہيں رہى ہے تو اس كے دو نتيجے كهلے ہوئے ہيں : پہلا يہ كہ نمونہٴ اتباع كى حيثيت سے، نبوتِ محمدى ختم ہوگئى اور ہمارا تعلق محمدﷺكے ساتھ صرف اس طرح كا رہ گيا جيسا ہود، صالح اور شعيب علیہم السلام كے ساتھ ہے كہ ہم ان كى تصديق كرتے ہيں ، ان پر ايمان لاتے ہيں ، مگر ان كا كوئى اسوہ ہمارے پاس نہيں ہے جس كا ہم اتباع كريں – يہ چيز ايك نئى نبوت كى ضرورت ، آپ سے آپ ثابت كرديتى ہے- صرف ايك بے وقوف آدمى ہى اس كے بعد ختم نبوت پراصرار كرسكتا ہے- دوسرا نتيجہ يہ ہے كہ اكيلا قرآن نبى كى تشريح و تبیین كے بغير خود اپنے بهيجنے والے كے قول كے مطابق ہدايت كے لئے ناكافى ہے، اسلئے قرآن كے ماننے والے خواہ كتنے ہى زور سے چيخ چيخ كر اسے بجائے خود كافى قرار ديں ، مدعى سست كى حمايت ميں گواہانِ چست كى بات ہرگز نہيں چل سكتى اور ايك نئى كتاب كے نزول كى ضرورت آپ سے آپ، خود قرآن كى رُو سے ثابت ہوجاتى ہے- قاتلهم الله اس طرح يہ لوگ حقيقت ميں انكارِ حديث كے ذريعے دين كى جڑ كهود رہے ہيں -” 8

الغرض، يہ آيت ذِكر بلا تبيين رسول، تعليم بلاعمل،كتاب بلا رسول اور قرآن بلا محمد (ﷺ) كے نظريہ كى سخت مخالفت كرتى ہے-اب اس كے بعد ايك نظر ان فروق و امتيازات پرڈال لیجئے جنہيں مقالہ نگار نے قرآن اور احاديث كے حوالہ سے بيان كيا ہے:
روايات ِ حديث اور منكرين حديث

رہا مقالہ نگار كا يہ فرمان كہ “ہم احاديث پرايمان لانے كے مكلف نہيں ہيں -” تو اس كى وضاحت قدرے آگے چل كر وہ ان الفاظ ميں فرماتے ہيں :
قرآنِ كريم پر ہمارا ايمان ہے اور اس پر ايمان لانے كا ہم كو حكم ديا گيا ہے … ليكن اس كے برخلاف نہ حديث پر ہمارا ايمان ہے، نہ اس پر ايمان لانے كا حكم ديا گيا ہے، نہ حديث كے رواة پر ہمارا ايمان ہے، نہ ان پر ايمان لانے كا ہم كو حكم ديا گيا ہے، نہ حديث كى سند ميں جو رجال ہيں ، ان پر ہمارا ايمان ہے، نہ ان پر ايمان لانے كا ہم كو حكم ديا گيا ہے-” 9

سبحان اللہ! كيا بلند مرتبہ ہے آپ لوگوں كا اور كيا اونچى شان ہے آپ حضرات كى! گويا قرآن براہ راست اللہ مياں كے ہاتهوں سے آپ كو ملا ہے ورنہ اگر سينكڑوں ، ہزاروں اور كروڑوں افراد كے تواتر سے آپ تك قرآن پہنچا ہے تو ان كروڑوں راويوں كے توسط سے آپ تك قرآن پہنچنے كا مطلب يہ ہے كہ ان كروڑوں افراد پر آپ كا ايمان ہوجائے اور ان سب پر ايمان لانے كا آپ كو حكم ديا گيا ہو۔ اور جب ايسا نہيں ہے تو يقينا اللہ تعالىٰ نے بلاواسطہ آپ كى آغوشِ مبارك ميں قرآن ٹپكا ديا ہے اور پهر آج سے آپ ہر گز كسى خبر دينے والے كى خبر اور كسى شاہد كى شہادت كى طرف كان بهى نہ دهرئيے گا، ورنہ اس كامطلب يہ ہوگا كہ آپ اس خبررساں اور اس شاہد پر ايمان لارہے ہيں جس كا اللہ نے آپ كو حكم نہيں دياہے اور يہ جو ہميشہ سے دنيا بهر كى عدالتوں ميں شاہدوں كے بيانات اور ان كى شہادتيں سنى اور قبول كى جاتى رہى ہيں ، آپ جيسے نكتہ سنج حضرات كے نزديك سارے قضاة كرام اور جج صاحبان ان شاہدوں پر ايمان ہى لايا كرتے ہيں حالانكہ ايسى ‘غير يقينى اور غير ايمانى چيزوں ‘ پر ايمان لانے كا اُنہيں حكم ہى نہيں ديا گيا- مزيد آگے بڑهئے اور ديكهئے كہ حضورِ اكرمﷺاور خلفاے راشدين نے كسى مخبر كى خبر پر اگر اعتبار و اعتماد كيا تها ياكسى گواہ كى گواہى كو قبول كيا تها تو مقالہ نگار كى اس عجيب منطق كى رو سے رسولِ اللہ بهى اور خلفاے راشدين بهى مخبر و شاہد پر ايمان لانے والے ٹھہرتے ہيں اور يہ جو 29/ دسمبر 1955ء كو كسى نے ٹيليفون پر پرويز صاحب كو يہ اطلاع دى كہ اسلم جيراجپورى فوت ہوگئے اور پرويز صاحب نے اس اطلاع كو قبول كيا اور بعد ميں طلوعِ اسلام كا ايك پورا شمارہ ‘اسلم جيراجپورى نمبر’ كے طور پر شائع كيا تو اس خبر كو قبول كرنا اطلاع دهنده پر ايمان لانا تها- سمجھ ميں نہيں آتا مقالہ نگار اور ان كے ہم نوا منكرين حديث نے سارى دنيا كو جاہل اور احمق سمجھ ليا ہے يا يہ ان كے مبلغ علم كا كرشمہ ہے جو ايسے مضحكہ خيز نوادرات’ ان كے قلم سے صادر ہورہے ہيں ۔

ايسى بات جيسى منكرين حديث پيش كررہے ہيں ، اگر كسى كے لئے كہنا سزاوار ہوتا تو يقينا وہ صحابہ كرامہى ہوسكتے تهے كيونكہ وہى قرآن كے اوّلين مخاطب تهے ليكن اُنہوں نے يہ بات صرف اور صرف اس لئے نہيں كہى كہ آپ كو نبى و رسول تسليم كرلينے كے بعد وہ زبانِ رسول سے برآمد ہونے والے ہر لفظ كو كلمہ حق سمجهتے تهے اور يہ اعتقاد كہ آپ كى زبانِ مبارك سے نكلنے والى ہر بات امر حق اور مطابق مرضات ِالٰہى ہے- قرآنِ كريم اور فرمانِ رسول ہى كا پيداكردہ ہے- رہا آپ كا فرمان تو آپ نے خود اپنے ايك صحابى حضرت عبداللہ بن عمروكو جو كچھ لوگوں كى طرف سے غلط فہمى كى بنا پر فرموداتِ رسول كو لكهنا چهوڑ بیٹھے تهے، يہ فرمايا تها كہ(اكتب فوالذي نفسي بيده لا يخرج منه إلا حق) “تم لكھتے رہو، اُس ذات كى قسم جس كے قبضہ قدرت ميں ميرى جان ہے، اس (منہ) سے حق كے سوا كچھ نہيں نكلتا-” رہا قرآن تو وہ يہ اعلان كرتا ہے كہ﴿وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴿٤سورۃ النجموہ (رسول) اپنى نفسانى خواہشات كے تابع ہوكر نہيں بولتا بلكہ وہ تو سراسر وحى ہے جو اس پر كى جاتى ہے-” اس آيت كى تفسیر ميں سيد ابوالاعلىٰ مودودىنے جو كچھ قلم بند فرمايا ہے، وہ فى الواقع بيمار كى شفايابى اور پياسے كى سيرابى كا نہايت موٴثر ذريعہ ہے اور منكرين حديث كے شكوك و شبہات كا بہترين ازالہ ہے- ليكن يہ اقتباس چونكہ بہت ہى طويل ہے، اس لئے ميں اس مقالہ ميں اسے پيش كرنے كى گنجائش نہيں پاتا- طالبين ذوقِ تحقيق، تفہیم القرآن، جلد پنجم، سورة النجم صفحہ 193 تا 195 كا مطالعہ خود فرما سكتے ہيں

قرآن يقينى، مگر روايات ‘ظنى
مقالہ نگار بهى ان منكرين حديث كے ہم نوا ہيں جو قرآن كے يقينى اور روايات كے ظنى ہونے كى دهائى ديا كرتے ہيں – چنانچہ وہ فرماتے ہيں كہ
قرآنِ كريم از اوّل تا آخر سورة البقرة سے لے كر سورة الناس كے آخر تك يقينى ہے، اس كى جملہ آيات يقينى و حتمى ہيں جبكہ شانِ نزول اور روايات بالكل ظنى اور غير يقينى ہيں – اس صورت ميں آيات كى تفسیر كا مدار و انحصار روايات اور شانِ نزول پرركهنا بالكل غير مناسب اور عقل كے خلاف ہے اور آيات كے مفہوم كو بهى غير يقينى اور ظنى بنانا ہے-” 10

اس اقتباس ميں پہلى بات تو يہ كھٹكتى ہے كہ مقالہ نگار نے سورة الفاتحہ كو قرآن سے خارج كرديا ہے اور آغازِ قرآن، سورة البقرہ كو اور اختتامِ قرآن سورة الناس كو قرار ديا ہے، نہ معلوم يہ كيوں ؟ اب رہا قرآن كے يقينى اور روايات كے ظنى ہونے كا معاملہ تو يہاں اصل اور بنيادى چيز جو دريافت طلب ہے وہ يہ ہے كہ
صرف الفاظِ قرآن ہى يقينى اور حتمى ہيں ؟ يا ان الفاظ كا معنى ومفہوم بهى؟

اگر آپ الفاظِ قرآن ہى كے حتمى اور يقينى ہونے كے قائل ہيں تو يہ امر تمام مسلمانوں ميں (بلكہ غير مسلموں ميں بهى) متفق علیہ ہے، اس ميں كسى كو بهى اختلاف نہيں ہے ليكن اگر آپ الفاظِ قرآن كے معنى و مفہوم كو بهى حتمى اور يقينى سمجهتے ہيں تو آپ كا يہ نظريہ وہم و گمان سے زيادہ كوئى حيثيت نہيں ركهتا- كوئى بڑے سے بڑامنكر ِحديث حتىٰ كہ خود پرويز صاحب بهى اس كے مدعى نہيں ہوسكتے- اگر متن قرآن كا مفہوم و مدلول بهى حتمى اور يقينى ہوتا تو تفسير قرآن كا قطعاً اختلاف نہ ہوتا- منكرين حديث كے جملہ گروہوں ميں خو اہ وہ ماضى كے احزاب ہوں يا دورِ حاضر كے ٹولے ہوں ، يہ اختلاف موجود رہے ہيں (باوجوديكہ ہر ٹولہ تمسك بالقرآن ہى كو رافع اختلاف قرار ديتا رہا ہے) حتىٰ كہ عبادات و عقائد تك ميں اور فروعى نہيں بلكہ اُصولى امور تك ميں يہ افتراقات و تنازعات اب تك برقرار ہيں اور اِنہى كى بنياد پر خود پرويز صاحب منكرين حديث كے دوسرے گروہوں كو گمراہ،دشمن دين اور مُخْزيالقرآن قرار ديتے رہے ہيں – پهر يہ تفسيرى اختلافات مسلك ِانكارِ حديث كے علمبردار مختلف دهڑوں ہى ميں نہيں پائے جاتے، بلكہ ان كے كسى ايك ہى گروہ ميں بهى وقتاً فوقتاً موجود رہے ہيں اور پرويز صاحب كا تو خير سے پورا لٹريچر ہى ماشاء الله ان ہى اختلافات كى بنياد پر تضادات و تناقضات سے اٹا پڑا ہے جو اس بات كا واضح ثبوت ہے كہ قرآن كريم كے الفاظ ہى حتمى و يقينى ہيں ، مگر ان كا معنى و مفہوم ہرگز ہرگز حتمى اور يقينى نہيں ہے، پرويز صاحب خود ايك مقام پر يہ لکھتے ہيں كہ

“قرآن تو وحى الٰہى ہے جس ميں غلطى كا كوئى امكان نہيں ، ليكن ميں اپنى قرآنى بصيرت كو كبهى وحى الٰہى قرار نہيں ديتا، اس لئے اس ميں سہواور خطا دونوں كا امكان ہوتا ہے- بنابريں ميں اس پر اصرار نہيں كرتا كہ جو كچھ ميں نے سمجھا ہے وہ اس باب ميں حرفِ آخر ہے اور وحى الٰہى كى طرح منزہ عن الخطاء11

جب پرويز صاحب كے نزديك بهى انسانى تعبير قرآن سہو و خطا كا امكان ركھتى ہے اور وہ تعبير و تفسير وحى الٰہى كى طرح منزہ عن الخطا نہيں ہے تو پهر اس كے ظنى اور غير يقينى ہونے ميں كيا شك رہ جاتا ہے؟

الغرض، قرآن كے الفاظ تو بلا شبہ قطعى،حتمى اور يقينى ہيں ليكن ان كا مفہوم و مراد ہرگز ايسا نہيں ہے بلكہ وہ ظنى اور غير يقينى ہے اور عملى حيثيت سے اگر ديكها جائے تو اتباعِ قرآن اور پيروى كتاب اللہ كے لئے ہم الفاظِ قرآن سے كہيں زيادہ مفہومِ قرآن كے محتاج ہيں جو بہرحال ظنى ہى ہے- لہٰذا يہاں عملاً دين ميں حجت اور سند وہ چيز (مفہوم آياتِ قرآن) بن رہى ہے جو غير يقينى اور ظنى ہى ہے- جب عملاً صورتِ حال يہ ہے تو پهر حديث و سنت نے كيا قصور كيا ہے كہ وہ بقول آپ كے ظنى اور غير يقينى ہونے كى بنا پر حجت اور سند سے محروم ہوجائے؟ كيا منكرين حديث يہ كہنا چاہتے ہيں كہ رواياتِ رسول اور احاديث ِنبى تو ظنى ہونے كى بنا پر مرد و د و مسترد ہيں ليكن پرويز صاحب كى قرآنى تعبيرات ظنى ہونے كے باوجود مقبول ومحمود ہيں ؟

اختلافِ سنت كا پراپيگنڈہ
منكرين حديث سنت كو ساقط الاعتبار قرار دينے كے لئے يہ غوغا آرائى بهى كياكرتے ہيں كہ
ان حضرات (علما) كے نزديك قدرِ مشترك صرف لفظ ‘سنت’ ہے، اس كا مفہوم ہر ايك كے نزديك الگ الگ ہے-” 12

اور اسے خوب نمك مرچ لگا كر پراپيگنڈہ كيا جاتا ہے “سنت كى تعريف و تعبير ميں علما كرام كے درميان شديد اختلافات ہيں ، ہر فرقہ كى سنت الگ الگ ہے اور پهر اس كى تعبير بهى جدا جدا ہے، ايك فرقہ سنت كى جو تعبير پيش كرتا ہے، دوسرا اسے تسليم نہيں كرتا- ليكن اس كے برعكس قرآن كے متن ميں كوئى اختلاف نہيں ہے، ہر مخالف و موافق كے نزديك وہى متن قرآن متفق عليہ ہے جو مابين الدفتين موجود ہے،وغيرہ وغيرہ

ليكن اگر قرآن كوئى جنتر منتر كى چيز نہيں ہے اور وہ كوئى ايسى كتاب بهى نہيں جس كا متفق عليہ مفہوم تعويذ بن كر پلائى جانے والى چيز ہو، بلكہ عمل كرنے كے لئے ايك دستور العمل ہے تو پهر منكرين حديث كے اس مكروہ پراپيگنڈہ ميں كيا وزن رہ جاتا ہے جبكہ متن قرآن كے متفق علیہ ہونے كے باوجود اس كے مفہوم ميں اختلافات سے انكار نہيں كيا جاسكتا- پهر جب عمل كى طرف آمادہ ہوں گے تو يہ عمل اس معنى و مفہوم اور مراد و مدلول پرقائم ہوگا جو قرآنى متن سے كسى نے اخذ كيا ہوگا- غلام احمد پرويز كا عمل اس معنى و مفہوم پر ايستادہ ہوگا جو ان كى ‘قرآنى بصيرت’ نے قرآن سے نچوڑا ہوگا-مرزا غلام احمد قاديانى كے عمل كى بنياد اس مدلول و مراد پر ہوگى جو اُنہوں نے متن قرآن سے كشيد كيا ہوگا، ان دونوں ميں سے ہر ايك كے لئے حجت و سند وہى معنى ومفہوم ہوگا جو اس كے نزديك ماخوذ من القرآن ہوگا- ہر كوئى ايك دوسرے كى حجت اور سند كا منكر ہوگا- پرويز صاحب كا مفہوم خود اس كے لئے دليل و حجت ہوگا اور وہ مرزاے قاديانى كى حجت و برہان اور جس معنى و مراد پر يہ حجت و برہان قائم ہوگى، اس كا انكار كريں گے- اور يہى طرزِ عمل موٴخر الذكر فرد كا پرويز صاحب كے بارے ميں ہوگا- اب صورتِ حال يہ ہے كہ ہر ايك كا قرآن سے اخذ كردہ مفہوم و مراد اور اس پر تعمير ہونے والى دليل و حجت خود اسى كے لئے ہى سند ہوگى اور ہر كوئى دوسرے كے مراد و مفہوم اور اس كى دليل و برہان كا منكر ہوگا اور پهر ہر ايك كا قرآن سے نچوڑا ہوا مدلول و مفہوم ظنى اور غير يقينى ہى ہوگا اور جو سند و حجت ہوگى، وہ بهى ظنى ہى ہوگى تو پهر سنت كے خلاف يہ واويلا اور يہ غوغا آرائى كیسى؟ لہٰذا اب اگر سنت كے معاملہ ميں مبينہ اختلاف فى نفسہحديث و سنت كو قابل رد بنا دينے پر محكم دليل بن سكتا ہے اور سرے سے سنت ہى كا كوئى مقام باقى نہيں رہنے ديتا تو پهر عملى دنيا ميں ‘قرآنى بصائر ومعارف’ كے درميان، متضاد اختلافات كا وجود بهى قرآن كو ناقابل سند و حجت بنانے كے لئے ايك محكم دليل بن سكتا ہے اور عمل كے باب ميں ‘قرآنى معارف و حقائق’ كا آپس ميں تصادم قرآن كے لئے بهى دينى مقام باقى نہيں رہنے دے گا۔

يہاں منكرين حديث كى ذہنيت كا يہ پہلو بهى لائق ديد اور قابل داد ہے كہ وہ سنت كى بابت اختلافاتِ علما كا تو خوب ڈهنڈورا پیٹتے ہيں ليكن خود ان كى صفوں ميں (مختلف گروہوں كے درميان) قرآن كى تعبير و تفسير ميں جو اختلافات پائے جاتے ہيں ، ان كا نہ صر ف يہ كہ ذكر نہيں كرتے بلكہ اس عدمِ ذكر كے ساتھ ساتھ اُلٹا يہ اعلان بهى كرتے ہيں كہ قرآن ہى رافع اختلاف اور مزيل تنازعات ہے- سوال يہ ہے كہ كيا واقعى قرآن ان سب كے درميان اختلافات ختم كرچكا ہے؟ اور يہ مختلف گروہ كسى ايك تعبير قرآن پر متحد و متفق ہوچكے ہيں ؟ كيا واقعى طلوعِ اسلام اور بلاغ القرآن والے ٹولے ، براساس قرآن، شيروشكر ہوچكے ہيں ؟

مقالہ نگار اور مسئلہ شانِ نزول
مقالہ نگار صاحب منكرين حديث كى ہم نوائى ميں شان نزول كى بنا پر تفسير كرنے كے خلاف ہيں ، چنانچہ وہ تحرير فرماتے ہيں كہ
قرآن فہمى كى راہ ميں شانِ نزول كو اس قدر اہميت دينا ہى ہمارے نزديك قرآن فہمى ميں سب سے بڑى ركاوٹ ہے-” 13

شان نزول كا مسئلہ منكرين حديث كے لئے ہميشہ سوہانِ روح بنا رہا ہے، وہ بڑى بلند آہنگى سے اس كا انكار بهى يہ كہتے ہوئے كرتے ہيں كہ شانِ نزول كى روايات بالكل ظنى اور غير يقينى ہيں ، ليكن اس كے باوجود جہاں ضرورت پڑتى ہے وہ خود اپنى طرف سے شانِ نزول گهڑ لينے ميں بهى كوئى دريغ نہيں كرتے- اس كى بہت سى مثاليں اگرچہ موجود ہيں مگر مقالے كى تنگ دامنى كے باعث صرف ايك مثال پر اكتفا كيا جاتا ہے جس ميں ‘مفكر قرآن’ صاحب نے خود شانِ نزول گهڑا ہے، اس كے باوجود كہ وہ يہ اعلان بهى كيا كرتے تهے كہ
خدا كى يہ عظيم كتاب اپنے مطالب كو واضح كرنے كے لئے نہ تو شانِ نزول كى محتاج ہے اور نہ كسى اور ترتيب كى ، يہ خود مُكتفی ہے اور اپنى وضاحت آپ كرتى چلى جاتى ہے-” 14

سوال يہ ہے كہ اگر يہ كتاب ايسى ہى خود مكتفى ہے كہ “اپنى وضاحت، آپ كرتى چلى جاتى ہے” تو پهر پرويز صاحب كى يہ’ تفسير مطالب الفرقان’ يہ’مفہوم القرآنيہ ‘تبویب القرآن’ يہ’قرآنى قوانین’ يہ’قرآنى فيصلے’ اور يہ ‘سلسلہ ہائے معارف القرآن’ كيا محض قتل اوقات(Time Killing)كے پيش نظر ہى منظر عام پر آئے ہيں ؟ كہيں ايسا تو نہيں كہ زبان پر تو ‘كتاب عظيم كے خود مكتفى’ ہونے كے اعلانات ہوں ليكن دل ميں يہ اعتقاد جما بیٹھا ہو كہ يہ كتاب كسى ‘مفكر ِقرآن’ كى تشريحات و توضیحات كى محتاج ہے

بہرحال’قرآن كے خود مكتفى’ ہونے كے بلند بانگ دعاوى كے باوجود پرويز صاحب جن آيات كى تفسير و توضيح كے لئے تسويل نفس كے بل بوتے پر ‘شانِ نزول’ گهڑنے كے لئے مجبور ہوئے ہيں ، ان ميں آيت ِنسخ بهى شامل ہے- وہ فرماتے ہيں :
ان اہل كتاب كا ايك اعتراض يہ بهى ہے كہ جب خدا كى كتابيں پہلے سے موجود تهيں تو پهر ايك نئى كتاب (قرآن) كى ضرورت كيوں پڑ گئى ہو، نيز يہ بهى كہ اگر يہ كتاب خدا كى طرف سے ہے تو اس ميں ايسے احكام كيوں ہيں جو خدا كى پہلى وحى (تورات) كے خلاف ہيں15

آيت كا يہ ‘شانِ نزول’ خواہ كتب ِاحاديث ميں سے ماخوذ ہو يا خود ساختہ ہو، بہرحال اس بات كى دلیل ہے كہ سبب ِنزول كے بغير قرآن فہمى اور توجيہ آيات ممكن نہيں تو مشكل ضرور ہے- يہ ‘شانِ نزول’ نہ تو قرآن ہى ميں مذكور ہے اور نہ ہى كتب ِاحاديث ميں – آيت نسخ كو اپنے مزعومہ تصور ميں ڈهالنے كے لئے اسے ‘مفكر ِقرآن’ صاحب نے خود گهڑا ہے- اس سے يہ بات بخوبى واضح ہوجاتى ہے كہ قولاً يہ بات خواہ كتنى ہى چيخ و پكار كے ساتھ كہى جائے كہ “قرآن خود مكتفى ہے” ليكن عملى زندگى ميں يہ ‘نظريہٴ ضرورت’ كا كبهى شديد تقاضا بهى بن جاتا ہے اور اسى لئے اسے اپنى طرف سے تراش بهى ليا جاتا ہے جس كا صاف مطلب يہ ہے كہ ‘مفكر ِقرآن’ صاحب اور منكرين حديث كو نفس ‘شانِ نزول’ سے انكار نہيں ہے- انہيں انكار اور ضد وعناد دراصل اس شانِ نزول سے ہے جو رواياتِ حديث ميں مذكور ہو، رہا وہ شانِ نزول جوان كا خود ساختہ ہو تو وہ نہ صرف يہ كہ مبغوض نہيں ہے بلكہ وہ مرغوب و محبوب بهى ہے!!

مسئلہ نسخ آيات اور مقالہ نگار
مقالہ نگار صاحب، مولانا زاہد الراشدى صاحب كى ترديد و مخالفت كے دوران تفاسير ميں عيوب و اسقام كى نشاندہى كرتے ہوئے فرماتے ہيں :
تفسير بالروايات كے طريقہ ميں كہ جس كى تائيد و توصيف حضرت مولانا زاہد الراشدى فرما رہے ہيں ، ان عيوب و اسقام كے علاوہ ايك بہت بڑا نقص يہ بهى ہے كہ يہ تفاسير نسخ كے عقيدہ كى حامل ہيں …” 16

اس ‘بہت بڑے نقص’كى نشاندہى كے بعد نسخ كا مفہوم كسى عالم دين كے قلم سے پيش كرنے كى بجائے اپنى طرف سے بايں الفاظ پيش كرتے ہيں :
“…
جس كا مطلب يہ بيان كيا جاتا ہے كہ خدا نے قرآنِ كريم ميں كسى بات كا حكم كرديا، اس كے كچھ عرصہ بعد اس نے سوچا كہ اس حكم كو منسوخ كردينا چاہئے چنانچہ اس نے ايك اور آيت نازل فرما دى جس سے وہ پہلا حكم منسوخ ہوگيا-” 17

نسخ كايہ مفہوم كس عالم دين نے بيان كيا؟ كہاں بيان كيا؟ كس كتاب ميں مذكور ہے؟ كس مجلہ ميں تحرير ہوا ہے؟ كس اخبار ميں بيان ہوا؟ كس دور كے كس مفسر، محدث يامتكلم نے بيان كيا؟اس كا كہيں سے بهى كوئى حوالہ؟ __حرام ہے جو كہيں بيان كيا گيا ہو، بس اپنى طرف سے ايك مفہوم گهڑا اور اسے نہايت ديدہ دليرى كے ساتھ علما كى طرف منسوب كرڈالا- منكرين حديث ايسى حركتيں اكثر كرتے رہتے ہيں ، ليكن ان پرپردہ ڈالے ركهنے، اُلٹا چور كوتوال كو ڈانٹے ، كے مصداق ڈهنڈورا يہ پيٹنا شروع كرديتے ہيں كہ
ہمارے خلاف پراپيگنڈہ كرنے والوں كى كيفيت جدا ہے- وہ يہ نہيں كرتے كہ جو كچھ ‘طلوعِ اسلام’ كہتا ہے، اسے اس كے الفاظ میں اپنے قارئين يا سامعين كے سامنے پيش كركے اس پر قرآن كى روشنى ميں تنقيد كريں – وہ كرتے يہ ہيں كہ اپنى طرف سے ايك غلط بات وضع كرتے ہيں اور اسے طلوعِ اسلام كى طرف منسوب كركے گالياں دينا شروع كرديتے ہيں -” 18

حالانكہ يہاں خود ان حضرات كا يہ’قرآنى اخلاق’ كهل كر سامنے آرہا ہے كہ نسخ كے مفہوم كو كسى عالم دين كے اپنے الفاظ ميں بيان كرنے سے تو گريز كيا جارہا ہے اور تسویل نفس كے ذريعہ ايك غلط مفہوم وضع كركے اسے علما كرام كے گلے مڑها جارہا ہے اور وہ بهى اس صورت ميں كہ اس سے اللہ تعالىٰ كے (معاذ الله) ناقص العلم ہونے كا تاثر اُبهر آئے

علماءِ تفسير جس قسم كے نسخ كے قائل ہيں ، وہ مندرجہ ذيل اقتباس سے واضح ہے :
نسخ كى گنجائش جو كچھ بهى ہے، لے دے كے باب احكام ميں ہے اور احكام كى مثال طبیب كے نسخے كى ہے- طبیب كى تشخیص اپنى جگہ بدستور رہتى ہے ليكن مريض كى حالت بدلتى رہتى ہے اور پهر موسم اور آب و ہوا ميں بهى فرق ہوتے رہتے ہيں ان حالات ميں كوئى حاذق سے حاذق طبيب بهى اپنے نسخہ كے اجزا ميں ان بدلے ہوئے حالات كے مطابق ترميم كرنے ميں تامل نہ كرے گا- قرآن كے بعض احكامِ قانون كے نسخ كے معنى اس قدر ہيں كہ خود قانون ساز وقانون آفرين كے قلم سے عين وضع قانون كے دوران ميں بعض قانون جو عارضى اور ہنگامى حيثيت ركهتے ہيں ، بدل ديے گئے اور ان كى جگہ مستقل اور دوامى قوانين نے لے لى۔19

ليكن منكرين حديث، اللہ تعالىٰ كے نقص علم كے حوالہ سے خود اپنى طرف سے مفہومِ نسخ گهڑتے ہيں اور اسے علما كے كهاتے ميں ڈالتے ہيں – قارئين كرام يہ نہ سمجھ ليں كہ يہ حركت اتفاقى اور لاشعورى طور پر صرف يہاں ہى واقع ہوگئى ہے، نہيں بلكہ يہ ان حضرات كى مستقل، دائمى، ديدہ دانستہ، ايك مستمر عادت ہے، جس كى كئى مثاليں پيش كى جاسكتى ہيں :

بہرحال، اس كے بعد مقالہ نگار صاحب فرماتے ہيں كہ
“…
ليكن حيرت كى بات يہ ہے كہ اس نئى آيت ميں يہ نہيں بتايا جاتا تها كہ اس سے فلاں آيت كو منسوخ كيا جاتا ہے، اس لئے اب قرآن ميں منسوخ آيات بهى ہيں اور ناسخ آيات بهى- ليكن اللہ تعالىٰ نے ان كے متعلق يہ نہيں بتايا كہ كون سى آيت كس آيت سے منسوخ ہے اور كون سى آيت كس آيت كى ناسخ ہے، يہ ناسخ و منسوخ كى نشاندہى، روايات كے ذريعہ ہمارے مفسرين كرام نے كى ہے۔20

مقالہ نگار نے يہاں جو كچھ فرمايا ہے وہ اصل حقيقت پر غور كئے بغير ‘مفكر ِقرآنصاحب كى اندهى تقلید ميں مكھى پر مكھى مارنے كے مصداق ہے- اگر وہ الفاظ كے پيچوں ميں اُلجھنے كى بجائے مسئلہ نسخ ميں فنى اصطلاحات كے پردوں كو اٹها كر عروسِ حقيقت كا چہرہ ديكهنے كى كوشش كرتے تو اُنہيں معلوم ہوتا كہ علماء اُمت ہوں يا پرويز صاحب، قرآنى آيات ميں موجود بظاہر تعارض كے دونوں قائل ہيں – دونوں فريقوں كے نزديك قرآن كريم كى بعض آيات، متروك العمل ہيں – ايك فريق ايسى آيات كو يہ كہہ كر متروك العمل قرار ديتا ہے كہ “يہ آيات منسوخ ہيں ” اور دوسرا فريق يہ كہہ كر كہ “يہ احكام عبورى دور سے تعلق ركهتے ہيں جس ميں سے معاشرہ گزر كر اگلى منزل پرپہنچ چكا ہے-” انفرادى ملكيت كے مسئلہ پر پرويز صاحب كے نقطہ نظر سے (نہ كہ علما كے نقطہ نظر سے) قرآنى آيات ميں اختلاف و تعارض پايا جاتا ہے، وہ اگر ايك طرف قرآنِ كريم سے (آيت 2/219 كى روشنى ميں )ذاتى اور نجى مال كى ملكيت كى نفى’ثابت’ كرتے ہيں تو دوسرى طرف (آيت 4/32 كى روشنى ميں ) مردوزن ہر دو كے حق ميں شخصى ملكيت ِمال كا جواز بهى پيش كرتے ہيں – اس صورتِ حال ميں قرآنى آيات كے باہم متعارض ہونے كى توجيہ كى جائے تو علماء كرام كے نقطہ نظر سے (بشرطيكہ دونوں آيات سے ان كا استدلال بهى ،1ستدلالِ پرويز كے موافق ہو، تو) ناسخ و منسوخ كے اُصول پر ہوگى اور پرويز صاحب كے نقطہ نظر سے “عبورى دور كے احكام” كے اُصول پر ہوگى۔

اس صورتِ حال ميں كيا يہ بات قابل تعجب اور موجب ِحيرت نہيں كہ ايك ہى حقيقت كو اگر علماے كرام، ناسخ و منسوخ كے حوالہ سے بيان كريں تو مفكر ِقرآن’ صاحب اسے مضحكہ خيز قرار ديں ، ليكن اگر اسى حقيقت كو وہ خود عبورى دور كے احكام’ كے حوالہ سے بيان كريں ، تو وہ مفسر قرآن كہلائيں ، حالانكہ ناسخ و منسوخ كا لفظ نہ سہى، اس لفظ كے مادہ سے چند مشتقات، قرآن ميں موجود ہيں ، جبكہ ‘عبورى دور كے احكام’كا كسى درجہ ميں بهى، قرآن ميں كہيں ذكر نہيں ہے- پهر پرويز صاحب خود تو عمر بهر ناسخ و منسوخ كے مسئلے پر زبانِ طعن دراز كرتے رہے ليكن ناسخ ومنسوخ كى حقيقت كو ‘عبورى دور كے احكام’ كے لیبل كے تحت خود تسلیم كرتے رہے ہيں ۔ آخر يہ واضح تو كيا جائے كہ علماے كرام كے تصورِ ناسخ و منسوخ ميں اور خود ‘مفكر ِقرآن’ صاحب كے عبورى دور كے احكام’ كے تصور ميں كيا جوہرى فرق ہے كہ اگر اس كو ايك نام سے موسوم كيا جائے تو ناقابل قبول قرارپائے اور دوسرے نام سے پيش كيا جائے تو قابل قبول؟ كيا يہ محض ايك لفظى نزاع نہيں ہے؟ جس كى آڑ ميں ‘مفكر ِقرآن’ صاحب نے، صرف اور صرف علماے امت كى تحقیر و توہين اور ان كى تضلیل و تذلیل كے لئے عقلى كشتى اور ذہنى دنگل كا اكهاڑا عمر بهر جمائے ركها۔

اور پهر مقالہ نگار نے اپنى جذباتى ترنگ ميں جس ميں قدرے طنز كى تلخى بهى موجود ہے، فرمايا كہ __ “ليكن اللہ تعالىٰ نے ان آيات كے متعلق يہ نہيں فرمايا كہ كون سى آيت، كس آيت سے منسوخ اور كون سى آيت، كس آيت كى ناسخ ہےيہ ناسخ و منسوخ آيات كى نشاندہى روايات كے ذريعہ، ہمارے مفسرين كرام نے كى ہيں -” اب كوئى شخص پلٹ كر يہى سوال خود آپ سے يا جن كے آپ مقلد ہيں اُن سے پوچھ بیٹھے تو نہ معلوم آپ كا جواب كيا ہوگا، كہ حضرت گرامى قدر! اللہ تعالىٰ نے تو ان آيات كے متعلق يہ نہيں بتايا كہ كون سى آيات ‘عبورى دور كے احكام’ سے متعلق ہيں اور كون سى آيات’نظامِ ربوبيت كے تكمیلى دور’ سے وابستہ ہيں ؟ كيا بيچارى يہ آيات ايسى ہى قسمت كى مارى ہوئى تهيں كہ چودہ صديوں تك گوشہٴ خمول ميں پڑى رہيں يہاں تك كہ بٹالہ كے ايك ‘خالص عربعلاقے ميں ايك ‘خالص عربى مفكر قرآن’ پيدا ہوا، جس نے ‘عجمى سازش’ كے تحت قرآن كريم پر ‘ملاوٴں ‘ كے ڈالے ہوئے پردے چاك كئے تو ‘عبورى دور كے احكامسے متعلقہ آيات اُبهر كر سامنے آگئيں ، تو ‘مفكر قرآن’ نے ‘ انكشافِ حقيقت’ كرتے ہوئے فرمايا:
وراثت، قرضہ، لين دين، صدقہ و خيرات وغيرہ سے متعلق احكام اس عبورى دور سے متعلق ہيں جس ميں سے معاشرہ گزر كر، انتہائى منزل تك پہنچتا ہے-” 21

وحى خفى اور مقالہ نگار
مقالہ نگار صاحب نے وحى خفى كے اہم مسئلہ پر اظہار خيال فرماتے ہوئے ايك مقام پر يہ لكها ہے كہ
وحى خفى كا عقيدہ ہمارے علماء كرام كا ايك بنيادى عقيدہ ہے، صدرِ اول ميں اس عقيدہ كا كوئى نام و نشان نہيں تها- تقريباً دو سو سال كے بعد يہ عقيدہ وضع كيا گيا-” 22

إنا لله وإنا إليه راجعون بہرحال، اس سے اگلے صفحہ پر مقالہ نگار، مزيد فرماتے ہيں كہ
ليكن جو اصل موضوع ہے اور جو سب ‘منكرين حديث’ كا اصل الاصول اور عروة الوثقىٰ ہے كہ حديث وحى نہيں ہے اور “وحى صرف قرآن ميں ہے” اس موضوع پر كچھ تحرير كرنے سے ہمارے علماء كرام ہميشہ بچتے رہے اور اجتناب كرتے رہے ہيں ۔23

“ہمارے علماے كرام، حديث كو وحى ثابت كرنے كے لئے مضمون تحرير كرنے سے كيوں گريز كرتے ہيں ، تاحال كسى رسالہ يا كتاب يا ‘محدث’ ميں ايسا مضمون تحرير نہيں كيا گيا جس ميں حديث كو وحى خفى ثابت كيا گيا ہو، اس مضمون ميں پهر اسى درخواست كا اعاده كيا جاتا ہے كہ ہمارے علماے كرام ، حديث كے وحى ہونے پر كوئى ايسا جامع و مبسوط مضمون تحرير فرمائيں كہ نام نہاد ‘منكرين حديث’ كو اپنے موقف پر دوبارہ غور كرنے كا موقع فراہم ہو-” 24

منكرين حديث كے ‘قرآنى فضائل اخلاق’ ميں سے ايك بينظير وصف يہ ہے كہ اگر آپ ايك مسئلہ كو بیسیوں مرتبہ بهى وضاحت سے بيان كرديں تو بهى وہ يہى رٹ لگائے جائيں گے كہ” اب تك كسى نے اس مسئلہ پر روشنى نہيں ڈالى- نہ معلوم، علماے كرام اس مسئلہ كو واضح كرنے سے كيوں گريزاں ہيں -” اور پهر جو ياے حق بن كر بڑے ہى معصوم انداز ميں درخواست كريں گے كہ “كوئى جامع و مبسوط مضمون تحرير فرمايا جائے۔

حيرت ہوتى ہے كہ كس قدر تجاہل عارفانہ سے كام لے كر يہ كہا گيا ہے كہ “كسى رسالہ يا كتاب ميں وحى خفى كے متعلق دلائل نہيں ديے گئے-” حقيقت يہ ہے كہ خدا پرستى كا مسلك چهوڑ كر، ہوا پرستى اختيار كرنے والے خود غرض لوگوں كو كہيں بهى كوئى ايسى چيزنہيں ملا كرتى جو ان كے فكرو مزاج كے خلاف ہو- مقالہ نگار، اگر واقعى اس مسئلہ كى كهوج كريد ميں مخلص ہوتے تو ان كى رسائى اس قلمى مناظرے تك ضرور ہوجاتى جو طلوعِ اسلام كى فكر سے وابستہ ايك نماياں فرد ڈاكٹر عبدالودود صاحب اور مولانا مودودى كے درميان واقع ہوا تها اور جس كى پورى روداد ترجمان القرآن ستمبر 1961ء ميں اور پهر بعد ازاں ‘سنت كى آئينى حيثيت’ كے نام سے كتابى شكل ميں شائع ہوئى تهى- اس قلمى مناظرہ ميں منكرين حديث كے جملہ دلائل كا (بالخصوص وحى خفى پر اعتراضات كا) ايسا مسكت اور اطمينان بخش اور ايمان افروز جواب ديا گيا تها (اور ہے) جو بہت سى بھٹكتی ہوئى شخصیتوں كے لئے باعث ِہدايت ثابت ہوا تها (اور ہے) يہى وجہ ہے كہ مولانا مودودىكے پرزور استدلال كى اثر آفرينى سے اپنے قارئين كو بچائے ركهنے كى غرض سے طلوعِ اسلام اس دو طرفہ قلمى مراسلت كو اپنے صفحات ميں شائع كرنے كى جرأت نہ كرسكا، حالانكہ اس سے قبل ڈاكٹر عبد الودود صاحب وعدہ كرچكے تهے كہ ا س پورى دو طرفہ خط و كتابت كو شائع كيا جائے گا- نيز اس كے مطالعہ سے يہ بات بهى واضح ہوجائے گى كہ “جواب نہيں ملا” كى رٹ لگانا جملہ منكرين حديث كى عام روش ہے!!

جہاں تك ماہنامہ ‘محدث’ يا ديگر دينى جرائد كا تعلق ہے تو ان ميں بهى حديث كے وحى ہونے كے بارے ميں بيسيوں مضامين شائع كئے جاتے رہے ہيں جس پر محدث كے فتنہ انكارِ حديث ميں اس موضوع پر شائع ہونے والے 700 كے لگ بھگ مقالات كى فہرست شاہد ہے- بطورِ خاص اس عنوان پر كہ ‘حديث وحى ہے اور اس كا منكر كافر ہے’ محدث ميں اكتوبر 1995ء (ج27/ عدد1)ميں دو طويل مقالات جناب غازى عزير مباركپورى كے قلم سے شائع ہو چكے ہيں ۔

معيارِ صحت حديث اور مقالہ نگار
مقالہ نگار صاحب ديگر منكرين حديث كى ہم نوائى ميں حديث ِرسول كى صحت كا واحد معيار بايں الفاظ پيش كرتے ہيں :
جو حديث قرآن كے مطابق ہو، اس كو سرآنكهوں پر جگہ ديتے ہيں ۔25

ہم پوچھتے ہيں كہ كسى حديث ، كسى قول، كسى بات يا كسى بهى معاملے كى صحت اور قبوليت كا واحد معيار اگراس كا ‘مطابق قرآن’ ہونا ہى ہے تو اس ميں آخر حديث ِرسول ہى كى كيا تخصیص ہے- زيد كا خيال ہو يا بكر كا، جان مائيكل كا قول ہو يا رام داس كا، نتها سنگھ كى بات ہو يا پرويز كى، الغرض كسى كا بهى كوئى خيال ، فكر يا قول ہو اگر وہ ‘مطابق قرآن’ ہے تو صحيح، درست اور قابل قبول ہے- اس ميں پهر فرمانِ نبى ہى كى تخصيص كيوں ؟ اور كس لئے؟ كيا اگر ابوجہل يا ابولہب كى كوئى بات ‘مطابق قرآن’ ہو تو آپ اسے يہ كہہ كر رد كرديں گے كہ يہ كافروں كى بات ہے؟ ابوجہل اور ابولہب تو خير انسان ہى تهے اگر كوئى (بندر جيسا) جانور(i) بهى ايسى گفتگو كرے جو ‘مطابق قرآن’ ہو تو كيا آپ صرف اس لئے ردّ كرديں گے كہ يہ الفاظ ايك جانور كے منہ سے نكلے ہيں ؟ ظاہر ہے كہ جب آپ كے نزديك صحت كى كسوٹى اور قبوليت كا معيار صرف اور صرف ‘مطابق قرآن’ ہونا ہى ہے تو پهر ہر وہ بات جو اس معيار اور اس كسوٹى پر پورا اُترتى ہے، وہ صحيح بهى ہوگى اور قابل قبول بهى- اور جو چيز اس پيمانے پر پورى نہيں اُترتى وہ غلط بهى ہوگى اور مردود بهى، خواہ كسى پيغمبر نے پيش كى ہو يا غيرنبى نے،مسلمان نے پيش كى ہو يا كافر نے، فرد بشر نے پيش كى ہو يا كسى بندر نما جانور نےاس اعتبار سے خدا كا رسول اور عام آدمى، فرد كافر اور بندہٴ مومن، يہودى اور عيسائى، مجوسى اور ہندو، سكھ اور پارسى، سب كے سب ايك ہى سطح پر آجاتے ہيں – اس بظاہر خوش آئند معيار كا منطقى اور لازمى نتيجہ اس كے سوا كچھ نہيں كہ نبى اكرمﷺ كو ان كے بلند مقام و منصب سے گرا كر عام فرد بشر كى سطح تك ہى نہيں ، بلكہ مقامِ انسانيت سے بهى نيچے پهينك جائے۔
ع چہ بے خبرز مقام محمد عربى ست

اگر ميرى صاف گوئى ناگوارِ خاطر نہ ہو تو ميں عرض كروں گا كہ “قرآن اور صرف قرآن كے ساتھ مطابقت” كا يہ بظاہر خوش آئند اُصول گهڑا ہى اس لئے گيا ہے كہ مغرب كى فكرى غلامى ميں مبتلا ہوكر جو بات بهى من كو بہا جائے، اسے يہ كہہ كر قبول كرليا جائے كہ يہ ‘مطابق قرآن’ ہے۔ چنانچہ اس اُصول (مطابقت ِقرآن) سے دوہرا كام ليا گيا، اوّلاً يہ كہ احاديث رسول سے جان چهڑانے كے لئے ‘ردّ و ترك’ كى راہ يہ كہہ كر ہموار كى گئى كہ
ہمارے نزديك، دين كا معيار، فقط كتاب اللہ ہے- جو عقيدہ يا تصور اس كے مطابق ہے، وہ صحيح ہے اور جو اس كے مطابق نہيں وہ بلا تامل و تذبذب، غلط اور باطل ہے۔خواہ اس كى تائيد ميں ہزاروں حديثيں بهى ايسى كيوں نہ پيش كردى جائيں جس كے راويوں ميں جبرائيل وميكائيكل تك كا نام بهى شامل كرديا گيا ہو-” 26

ليكن مطابقت ِقرآن’ كے اُصول كى آڑ ميں تو يہاں صرف ‘ردّ و ترك’ كى راہ ہى ہموار كى گئى ہے- مزيد رد و ترك سے خواہ وہ فرموداتِ نبى ہى كا رد و ترك كيوں نہ ہو، بات نہيں بن سكتى- اس كے لئے تو ‘اخذوقبول’ كى راہ اختيار كرنا بهى ضرورى ہے۔ چنانچہ اس كے لئے يہ راہ يوں ہموار كى گئى :
ہرمعقول بات خواہ وہ امام ابوحنيفہكى ہو يا كارل ماركس كى، اگر قرآن كى كسوٹى پر سچى ثابت ہوتى ہے، تو اُسے قبول كرنے ميں عار نہ ہونى چاہئے۔27

يہاں ، ابوحنیفہ كا نام تو محض وزن برائے بيت كے لئے ہے- اصل ميں تو كارل ماركس اور ديگر يہودى دانشوروں ، عيسائى سكالروں ، ملحد فلاسفروں ، بے دين علماے مغرب سے استفادہ كرنا مقصود ہے- اور يہ استفادہ يہ كہہ كر كيا بهى گيا كہ جو فكر، جو خيال، جو قدر، جو اطوار ہم اپنا رہے ہيں وہ ‘مطابق قرآن’ ہے اور مغرب كى جس چيز كو ‘مطابق قرآن’ قرار دے كر قبول كرنے كى گنجائش نہ نكل سكى، اسے يہ كہہ كر اپنا ليا كہ “يہ خلافِ قرآن نہيں ہے-”

تہذيب ِجديد اور تمدنِ مغرب كى فكرى اسيرى اور ذہنى غلامى كى اس كیفیت كے ساتھ جب يہ لوگ قرآن كا مطالعہ كرتے ہيں تو يورپ كى عينك لگا كر- ان كا اصل مقصد يہ ہوتا ہے كہ يورپ كے فلسفہ و فكر كو، سائنسى تحقیقات اور ايجادات كو اور معاشرتى طور طريقوں كو قرآن كى آيات سے ثابت كيا جائے اور اس طرح قرآن كا ايك ‘نياز اعجاز’ دنيا كو دكها ديا جائے كہ ديكهو! سائنس كے ميدان ميں آج يورپ جو كشف ِحقائق كررہا ہے اور ا س كى بنياد پر جو ايجادات وہ سامنے لا رہا ہے، آج سے چودہ سو سال قبل قرآن مجید ان كى طرف اشارے كرچكا ہے اور فلاں آيت سے تو فلاں تحقیق ِجديد صاف طور پر نكل رہى ہے اور ان ان آيات سے تو آج كے معاشى نظاموں ميں سے فلاں معاشى نظام تو بالكل قرآن كے اقتصادى نظام سے متماثل ہے اور ان آيات سے تو واضح طور پر ان بہت سى معاشرتى عادات واطوار كى تائيد ہورہى ہے، جو آج كى ترقى يافتہ اقوام ميں موجود ہيں اور معمولى سے چند اُمور كى اگر قرآن تائيد نہيں كرتا تو اُنہيں يہ كہہ كر قبول كرليا جاتا ہے كہ يہ خلافِ قرآن نہيں ہيں ۔

قرآن كے نام ليوا يہ غلام فطرت حضرات اگرچہ اپنے آقايانِ مغرب سے سياسى آزادى پاچكے ہيں ليكن ان كى فكرى غلامى اور ذہنى اسيرى سے چھٹكارا نہيں پاسكے
وطن تو آزاد ہوچكا ہے، دماغ و دل ہے غلام اب بهى
پئے ہوئے ہيں شرابِ غفلت، يہاں كے خواص و عوام اب بهى

چنانچہ ان لوگوں نے ڈارون كا پورا نظريہٴ ارتقا قرآن كے مختلف مقامات كى متفرق آيات كے ٹكڑوں كو جوڑ جاڑ كر معنوى تحريف كے حربوں كے ساتھ قرآن ہى سے برآمد كرليا ہے، دورِ حاضر كے چلتے ہوئے دو بڑے معاشى نظاموں ميں سے كارل ماركس اور لينن كى اشتراكيت كو قرآن كے جعلى پرمٹ پر دَر آمد كرليا ہےتہذيب ِمغرب كى فاسد معاشرت كے جملہ اطوار واقدار كو بهى يہ كہہ كر اپنايا جارہا ہے كہ يہ سب كچھ ‘مطابق قرآن’ ہے- مخلوط سوسائٹى، مخلوط تعليم، تركِ حجاب، مردوزَن كى مطلق مساوات (بلكہ اس سے بهى آگے بڑھ كر نظريہٴ افضليت اُناث)، درونِ خانہ فرائض نسواں كى بجائے انہيں بيرونِ خانہ مشاغل ميں منہمك كرنا، تعددِ ازواج كو معيوب قرار دينا، عورت كوخانگى مستقر سے اُكهاڑ كر اسے مردانہ كارگاہوں كى طرف دهكيل دينا، خانگى زندگى ميں عورت كے فطرى وظائف سے اسے منحرف كركے قاضى و جج بلكہ سربراہ مملكت تك كے مناصب پر براجمان كرنا وغيرہ وغيرہ، يہ سب كچھ قرآن ميں سے نچوڑ ڈالنے كى دانشورانہ سرگرمياں مغرب كى اندهى تقلید كے منہ بولتے كرشمے ہيں اور يہ سب كچھ كرتے ہى يہ لوگ مطمئن ہوجاتے ہيں كہ قرآنِ كريم دورِ حاضر كى ضروريات كا ساتھ دے رہا ہے، لہٰذا اب اسے ‘تاريك دور’ كى كتاب قرار نہيں ديا جاسكتا

ليكن قرآنِ مجيد كے يہ نادان دوست ہرگز يہ نہيں سمجهتے كہ ان كى يہ دماغ سوزى نہ قرآن كے لئے مفيد ہے اور نہ ہى اسلام كے لئے- يہ سب كچھ عوامى سطح كے مسلمانوں كے لئے محض دل خوش كن ہو تو ہو، مگر قرآن اور اسلام كى تبليغى روح كے لئے سخت مضر ہے، اہل نظر اور دانايانِ اسلام كے لئے يہ روش سخت شرمندگى كا باعث ہے،اس لئے كہ ان لوگوں كى ان مقفّٰى اور مسجع لفاظيوں كو ديكھ كر اہل يورپ يہ كہہ سكتے ہيں بلكہ شايد اپنے دلوں ميں كہتے بهى ہوں (كيونكہ ايسى باتوں كا برملا اظہار ان كى سياسى مصلحتوں كے منافى ہوتا ہے) كہ “اب فلسفہ وسائنس كے يہ حقائق اور دورِ حاضر كا يہ معاشى نظام، نيز ترقى يافتہ اقوام كے يہ معاشرتى اطوار واقدار يہ سب كچھ تمہارى كتاب ميں پہلے سے موجود ہے، اور بقول تمہارے اس كتاب ميں واضح اشارات موجود ہيں اور تمہارے ہر طبقہ كے لوگ اس كتاب كو پڑهتے پڑهاتے رہے ہيں – دن رات اس كتاب كو سينوں ميں محفوظ كرنے اور تلاوت كرنے ميں منہمك رہے ہيں ، مگر يہ حقائق تمہارے كسى عالم كو نظر نہ آئے اور ہم لوگ بغير تمہارى اس كتاب كو پڑهے ان حقائق كو پاگئے ہيں اور ان ميں مہارت ميں اضافہ كے ساتھ ساتھ ہم نے دن دگنى رات چوگنى ترقى بهى كى ہے- اس لئے آپ لوگوں كو اس كتاب كى ضرورت ہو تو ہو، ہميں تو اس كى مطلق ضرورت نہيں – بلكہ آپ لوگوں كے لئے بهى يہ كتاب بيكار ہى ہے، اس لئے كہ آپ كو بهى جو ہمارے سائنسى حقائق، فلسفيانہ نظريات، اشتراكى نظامِ معيشت اور معاشرتى اصول و اقدار اب اس كتاب ميں دكهائى دينے لگے ہيں تو وہ بالفعل ہمارے ان چيزوں كو اپنا لينے كے بعد ہى نظر آنے لگے ہيں -”

يقينا ً ہمارے ‘مفكر ِقرآن’ صاحب نے بڑى ہى زحمت كشى اور محنت ِشاقہ كے ساتھ پچاس سالہ ‘قرآنى خدمات’كى گولڈن جوبلى پائى مگر اس كا ماحصل اس كے سوا اور كيا ہے كہ جو كچھ وہ قرآن سے نچوڑ كر پيش كرتے رہے ہيں وہ بغير كسى ‘قرآنكے اہل مغرب كے ہاں پہلے ہى سے اپنايا جاچكا ہے- كبهى مجهے اس بات كى سمجھ نہيں آيا كرتى تهى كہ ماضى ميں كچھ لوگ اسلامى تعلیمات كى موجودگى ميں كس طرح بيرونى افكار و نظريات كا شكار ہوئے تهے- منكرين حديث اور خصوصاً پرويز صاحب كا لٹريچر پڑھ كر اب يہ بات بخوبى سمجھ چكا ہوں كہ بيرونى فكر و فلسفہ سے مرعوبانہ حد تك مسخر دل و دماغ كن حيلوں اور حربوں سے كام لے كر اپنے من پسند اصول واقداراور عادات و اطوار كو ‘مطابق قرآن’ قرار دے كر قبول كيا كرتے ہيں ۔

كسى چيز كے ‘مطابق قرآن’ قرا رپانے يا نہ پانے كا فيصلہ ہمارے ‘مفكر ِقرآن’ كى وہ ‘قرآنى بصيرت’ كيا كرتى تهى جو سوچ و بچار كے ہر جهونكے كے ساتھ مرغ بادنما كى طرح بدلتى رہتى تهى اور يوں ہر بدلتے ہوئے ‘قرآنى مفہوم’ كے ساتھ، ‘مطابق قرآن’ ہونے كا معيار بهى بدل جايا كرتا تها جس كے نتيجہ ميں ايك وقت كے ‘قرآنى افكار’ دوسرے وقت ميں غير قرآنى’ قرار پاجاتے تهے، اور بعض اوقات تو يہ فرق كفر و اسلام كا فرق بن جاتا ہے يوں ‘مطابقت قرآن’ كے گرگٹ كى طرح بدلتے ہوئے معيار نے ‘مفكر ِقرآن’ كے لٹريچر ميں تضادات وتناقضات كا وسيع و عريض خار زار پيدا كرديا۔

كو ‘مطابق قرآن’ بنانے كا نعرہ
يہ لاتعداد تناقضات و تضادات جنہيں شايد ضبط ِتحرير ميں لانا، اس لئے مشكل ہے كہ ع “سفينہ چاہئے، اس بحربيكراں كے لئے” اُن كى پريشاں خيالى اور ذہنى ابترى پر دلالت كرتے ہيں ليكن وہ ژوليدہ فكرى كى اس حد تك پہنچ كر رك نہيں گئے تهے، بلكہ انہوں نے ايك ايسا نعرہ لگايا جسے اگر اُمت ِمسلمہ قبول كرلے تو پورے كا پورا اسلامى سرمايہ (قرآنِ مجيد سميت) اس ژوليدہ فكرى كا شكار ہوئے بغير نہيں رہ سكتا اور يہ دراصل ان كا مقصود و مطلوب بهى تها- چنانچہ وہ اپنے اس نصب ُالعين كى طرف پيش قدمى كرتے ہوئے سب سے پہلے تاريخ كو ہدف بناتے ہيں اور فرماتے ہيں :
قرآن كو صحيح طور پر سمجهنے كے راستہ ميں سب سے بڑى ركاوٹ ہمارى غلط تاريخ ہے28

لہٰذا اس غلط تاريخ كو صحيح كرنا بہت ضرورى ہے اور اس كى صورت اس كے سوا اور كچھ نہيں كہ اسے ‘مطابق قرآن’ بنايا جائے- اس كے بعد دوسرے مرحلے ميں تاريخ كے علاوہ احاديث، فقہ، تصوف اور لغت الغرض ہر چيز ہى ‘مطابق قرآن’ كرڈالنے كا اعلان كيا جاتا ہے :

“سچ پوچھئے تو پورى اسلامى تاريخ نيز فقہ، احاديث، تصوف اور لغت سب پرنظرثانى كى ضرورت ہے-” 29

آخر يہ تبديلى كس ‘مفہوم قرآن’ كے مطابق؟
اب يہاں سوال پيدا ہوتا ہے كہ پرويز صاحب نے اس قدر متضاد اور متناقض ‘قرآنى مفاہيم’ پيش كئے ہيں كہ اگر انہيں جمع كياجائے تو اچها خاصا ضخیم موسوعہ تيار ہوجائے- جس ‘مفكر قرآن’ كى ‘قرآنى بصيرت’ دو ٹكے كى جنترى كى طرح ہر سال بدل جايا كرتى ہو، اور ہر مقام پر، ايك نيا ‘قرآنى مفہوم’ پيش كر ڈالتى ہو، تو اُن كے ان متخالف و متضاد ‘مفاہیم قرآن’ ميں سے كس مفہوم كو معيار قرار دے كر كتب ِاحاديث اور كتب تواريخ كا ازسرنو جائزہ ليا جائے؟ ايك منكر حديث سے جب ميرى اس موضوع پر بحث ہوئى تو ميں نے پرويز صاحب كى ابتدائى كتب اور بعد كى كتب سے جب درجن بهر متضاد ‘مفاہیم قرآن’ اس كے سامنے ركهے اور پهر اس سے پوچها كہ__ “آپ كس وقت كے اور كون سے ‘مفہومِ قرآن’ كو معيار قرار دے كر تاريخ، حديث وغيرہ كو پركہنا چاہتے ہيں ؟ ايك ‘مفہوم قرآن’ كى رو سے جسے آپ صحيح قرار ديں گے، وہ پرويز صاحب ہى كے دوسرے مفہوم كے اعتبار سے غلط اور غير قرآنى ہوگا” ميرے اس سوال كا اس كے پاس كوئى جواب نہ تها-“ہے كوئى جو اس سوال كا جواب دے“!!

پهر تضادات و تناقضات كے اس ذخيرہ ميں __ ايك ايسا وقت بهى آيا كہ__ مزيد كوئى اضافہ نہ ہوسكا- اس لئے نہيں كہ متفرق قرآنى مفاہيم ميں سے كسى ايك مفہوم پر وہ مطمئن ہوگئے ہوں اور انتشارِ فكر كى بجائے، اتحادِ فكر كى منزل پر پہنچ گئے ہوں ، بلكہ اس لئے كہ موت نے اُنہيں سطح زمين سے بطن ارض ميں منتقل كرديا ، ورنہ ہميں يقين ہے كہ وہ ع
اگر اور جيتے ہوتے تويہى ‘انتشار’ ہوتا

مقالہ نگار كا ايك اور سوال
مقالہ نگار، آخر ميں ايك سوال اٹهاتے ہيں ليكن اس سے پہلے اس كى تمہيد ميں فرماتے ہيں كہ قرآن تبيانالكل شيىٴ ہے- بيان للناس ہے اور خود اللہ تعالىٰ نے يہ كہہ كر اس كى وضاحت كردى ہے كہ كذلك يبين الله آيته للناس اور اس طرح كى چند اور آيات پيش كركے سوال كرتے ہيں كہ
اللہ نے فرما ديا كہ اپنى كتاب كى تبيين خود ہم نے كتاب كے اندر كردى ہے تو پهر كتاب سے باہر مزيد كسى تبيين كى كيا ضرورت باقى رہ جاتى ہے اور اللہ تعالىٰ كى تبيين كے بعد مزيد تبيين كے كيا معنى؟30

اس سوال كا ايك جواب تو يہ ہے كہ سب سے پہلے منكرين حديث كا اپنا طرزِ عمل اس كے منافى ہے یعنى جس كتاب كو وہ مفصّل، مُبِين، مُبَيّن اور تبيان كہتے ہيں ، ‘اللہ تعالىٰ كى تبيين كے بعد’ خود تفسيريں لكھ رہے ہيں ، كہا جاسكتا ہے كہ __ “ہم تو قرآن كے ايك مقام كى تفسير” تصريف آيات كے ذريعہ دوسرے مقام سے كرتے ہيں ، ليكن اگر ان كى تفاسير كو غور سے ديكها جائے تو معلوم ہوجاتا ہے كہ ايك مقام اور دوسرے مقام كے درميان جو خلیج رہ جاتى ہے، اسے پُر كرنے كے لئے وہ اپنے ذہن و اجتہاد سے كام ليتے ہيں یعنى ربط ِمضامين اور استنباط ِنتائج ميں قرآنى آيات كو اپنے فہم اور سمجھ كے مطابق چلاتے ہيں – يہى وجہ ہے كہ باوجوديكھ برصغير ميں فتنہٴ انكار حديث نے صديوں بعد جب سے سرسيد كے ہاتهوں دوسرا جنم ليا ، تب سے اب تك فہم قرآن يا تفسير قرآن كے حوالہ سے جو كچھ بهى لكها گيا وہ اس قدرباہم متضاد اور متخالف ہے كہ اس سے منكرين حديث كے كئى فرقے بن گئے ہيں ، حالانكہ سرسيد نے ابتدا ، اس دعوىٰ سے كى تهى كہ مسلمانوں ميں ‘قرآن سے باہر’كى تعليم سے جواختلافات پيدا ہوگئے ہيں ، اُنہيں مٹانے كے لئے رجعت الى القرآن ضرورى ہے، ليكن ہوا يہ ہے كہ جلد ہى يہ لوگ خود اختلاف سے بالاتر ہوتے ہوئے متحدو متفق ہوكر ايك جماعت بننے كى بجائے، متفرق فرقوں ميں بٹ گئے “جن ميں قدرِ مشترك، صرف لفظ ‘قرآن’ ہے-” رہا مفہوم قرآن، تو وہ سب كا مختلف ہے- ہر فرقہ، بين، مفصل اور مبين قرآن كو كھینچ تان كركے اپنے ذہنى تصورات پرمنطبق كرنے كى كوشش كرتا رہا ہے- كيا آج لاہور ہى ميں بلاغ القرآن والوں اور طلوعِ اسلام والوں كى يہى كيفيت نہيں ہے؟

يہ تو رہى منكرين حديث كے مختلف فرقوں كى كيفيت، خود پرويز صاحب كى كيفيت يہ ہے كہ وہ اس ميں مفصل ، مبين، مبين قرآن كى آيات كو فضاے دماغى ميں اُٹھنے والى ہر لہر كے ساتھ اپنے تازہ ترين ذ ہنى مزعومات پر كھینچ تان كے ذريعہ منطبق كرتے رہے ہيں – ان كے وسيع خار زار تضادات كى آخر اس كے سوا كيا وجہ ہوسكتى ہے؟

اگر مقالہ نگار كے نزديك “اللہ كى تبيين كے بعد، مزيد كسى تبيين كے كوئى معنى نہيں ہيں تو پهر مفكر ِقرآن’ صاحب كى يہ ‘تفسير مطالب الفرقان’، يہ ‘قرآنى فيصلے’، يہ قرآنى قوانين’، يہ ‘تبويب القرآن’، يہ ‘لغات القرآن’، يہ’مفہوم القرآن’ يہ سلسلہ ہائے ‘معارف القرآن’ وغيرہ كتب ، اگر قتل اوقات (Time Killing) كى خاطر بهى نہيں تهى، تو پهر پيٹ كے جہنم كو ايندهن فراہم كرنے كى پيشہ وارانہ ضرورتوں ہى كا تقاضا تها؟ كہ ع
روٹى تو كسى طور كما كهائے ہے مچهندر

رہا مقالہ نگار كے سوال كا دوسرا جواب تو اسے ہم جناب پرويز صاحب ہى كے قلم سے پيش كئے ديتے ہيں :
اُصول و قانون كى كوئى كتاب خواہ كس قد رمفصل و مبين كيوں نہ ہو، اس كے اوامر و نواہى پر عمل پيرا ہونے اور اس كے حقائق و رموز كى علت و غايت معلوم كرنے كے لئے اس كى تفصیل و تبیین كى ضرورت لابد ہوتى ہے- اسى ضرورت كو مدنظر ركهتے ہوئے قرآن كريم ميں ارشاد ہے🙁وَمَا أَرْ‌سَلْنَا مِن رَّ‌سُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْۖ﴿٤سورۃ ابراہیم)اور ہم نے كوئى پیغمبر نہيں بهيجا مگر اُوس كى قوم كى زبان ميں ،تاكہ وہ ان سے(احكام الٰہيہ) بيان كريں ۔

رسول كو اس كى قوم كا ہم زبان بھیجنا، اس پر دلالت كرتا ہے(اورخود قرآن نے اس كى وضاحت كردى ہے) كہ رسول كا فريضہ تبيين احكام بهى ہے، ورنہ اگر مقصودِ محض پيغام پہنچانا ہى ہوتا تو اللہ تعالىٰ كے لئے كيا مشكل تها كہ ايك عجمى شخص پر عربى ميں قرآن نازل كرديتا اور اس طرح قرآن كو عربوں تك پہنچا ديتا- اس شكل ميں مصرحہ صدر آيت ميں رسول كى جگہ، رسالت ياكتاب كا لفظ ہونا چاہئے تها یعنى “جس قوم پر كوئى كتاب يا پيغام بهيجتے ہيں وہ اسى كى زبان ميں بهيجتے ہيں ۔31

خلاصہٴ بحث اور اس كا منطقى نتيجہ__’اطاعت ِ رسول
(1)
اب تك كى اس طويل بحث سے يہ واضح ہے كہ
ا) اللہ تعالىٰ نے بنى نوع انسان كى ہدايت كے لئے باوجوديكھ وه اس پر قادر مطلق تها ،اپنى كتاب براہ راست لوگوں تك نہيں پہنچائى
ب) خالق كائنات نے اپنے بندوں تك اپنى كتابِ ہدايت پہنچانے كے لئے كسى فرشتے كوبهى ذريعہ نہيں بنايا
ج) جس انسانى آبادى كو دعوتِ خداوندى كااوّلين مخاطب بننا تها اسى ميں سے ايك بشر رسول كے ذريعہ كتاب پہنچائى
د)پهر رسول اور كتاب كى زبان بهى وہى تهى جو دعوت ِ خداوندى كے اوّلين مخاطبین كى تهى۔
ه)كتاب، خود اپنے بهيجنے والے كى نگاہ ميں تبیین رسول كى محتاج رہى ہے اور رسول، كتاب كا مامور من اللہ شارح اور ترجمان رہا ہے۔

ان پانچوں باتوں كا لازمى اور منطقى نتيجہ يہ ہے كہ اللہ نے اپنى حكمت ِبالغہ كے تحت انسانوں كى راہنمائى كے لئے كسى فرشتے كى بجائے انسان ہى كو رسول بنايا اور اسے كتاب دے كر اس قوم كى طرف بهيجا جو رسول كى ہم زبان تهى تاكہ وہ رسول، خالق كائنات كا نمائندہ مجاز ہونے كى حيثيت سے، اس كتاب كى جو توضيح و تشريح ان كے سامنے پيش كرے وہ ہم زبان ہونے كى بنا پر خوب سمجھ جائيں – اس سے يہ بات بهى واضح ہے كہ تنہا زبان كى واقفيت، فہم كتاب اللہ كے لئے كافى نہيں ہے، جب تك كہ رسول كى وضاحت اس كے ساتھ نہ ہو۔

كتاب لے كر، تشریح پیغمبر كو نہ لينا، نہ صرف يہ كہ تعليم بلا عمل، كتاب بلاپيغمبر اور قرآن بلا محمد كے نرالے مسلك كو اختيار كرنا، بلكہ اسى منصب ِرسالت كى تكذيب كرنا بهى ہے جس كا تقاضا ہى يہ ہے كہ رسول كتاب كى تشريح و تفسیر اورتبیین و توضيح كرے- اس كا انكار نفس رسالت ہى كا انكار ہے!!

(2) كتاب اللہ كے ساتھ، حضرت محمدﷺكا تعلق دو طرح كا ہى ممكن ہے:
اوّلاً _ يہ كہ كتاب آپ پر اللہ كى طرف سے نازل ہوئى ہو اور آپ بحیثیت ِرسول اس كتاب كى تبیین كے ذمہ دار ہوں – ہمارے نزديك كتاب اللہ كے ساتھ رسول اللهﷺكے تعلق كى يہى نوعيت ہے۔
ثانياً_ يہ كہ كتاب آپ كى تصنيف ہو اور آپ خود اس كتاب كے مصنف ہوں – كتاب اللہ كے ساتھ آپ كے اس تعلق كے قائل كفارِ عرب تهے- تاہم اگر كتاب اللہ كے ساتھ حضور اكرم ﷺ كا تعلق، تصنیف اور مصنف كا تعلق ہى مانا جائے تب بهى اس تبیین و تفسیر كو قبول كئے بغير چارہ نہيں جو خود مصنف نے پيش كى ہے- خود مصنف كى اپنى تشريح كو چهوڑ كر كسى كا اپنى توضيح كرنا يا كسى تيسرے فرد كى تبیین كو تبیین مصنف كے مقابلے ميں قبول كرنا انتہائى نامعقول طرزِعمل ہے

(3) قرآن كريم كى رو سے حضورِ اكرمﷺ اُسوئہ حسنہ بهى ہيں ، مگر ہرطرح كے تمام انسانوں كے لئے نہيں بلكہ صرف ان افراد كے لئے ،”جو اللہ اور يومِ آخرت كى اميد ركهتے ہيں اور يادِخداوندى كو بكثرت مستحضر ركهتے ہيں -” ﴿لِّمَن كَانَ يَرْ‌جُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ‌ وَذَكَرَ‌ اللَّـهَ كَثِيرً‌ا ﴿٢١سورۃ الاحزاب﴾ اس آيت كى وضاحت ميں خود پرويز صاحب لكھتے ہيں :
يہ آيت آپ اپنى تفسير ہے يعنى ايك شخص جو خدا سے بہت ڈرتا ہے اور اسے يقين ہے كہ جو كچھ اس دنيا ميں كيا جاتا ہے، ايك دن خدا كے حضور پہنچ كر اس كى جوابدہى ضرور ہوگى- اب جس شخص كا يہ ايمان و يقين ہو لامحالہ وہ يہى چاہتا ہے كہ اسے معلوم ہوجائے كہ وہ كون سى شاہراہ حقيقت ہے جس پرگامزن ہوكر وہ اس منزل مقصود كو پالے گا اور ادہر ادهر ضال ومغضوب (ذليل و خوار) نہيں ہوتا پهرے گا- اس لئے فرمايا كہ تردّد كى كيا ضرورت ہے، رسول كى زندگى كا نمونہ سامنے ہے، اس ہادئ صراط مستقیم كے نقوش قدم موجود ہيں – بلا خوف و خطر ان نشانوں پر چلتے جاوٴ، كسى قسم كا بهى خوف وخطر نہ ہوگا-” 32

(4) قرآن نے جگہ جگہ اطاعت ِ رسول كا حكم ديا ہے- منكرين حديث، رسول كى حيثيت ايك ڈاكئے سے زيادہ نہيں سمجهتے- وہ حیثیت ِرسالت كو صرف ‘پيغام پہنچا دينے’ كى حد تك محدود جانتے ہيں ، حالانكہ تبليغ رسالت ايك الگ فريضہ ہے اور اطاعت رسول ايك الگ چيز ہے- تبليغ رسالت (اور تبليغ قرآن ميں ) اطاعت ِرسول كا حكم بهى شامل ہے- يہ اطاعت رسول، منكرين حديث كے لئے بہت بڑى وجہ پريشانى ہے- چنانچہ وہ اس كى تاويل يہ كرتے ہيں كہ اطاعت ِرسول كا معنى، اطاعت ِخداوندى ہى ہے جس كى عملى شكل كتاب اللہ كى پيروى ہے- ليكن يہ بات پهر ان كے لئے دردِ سر بن جاتى ہے كہ قرآنِ كريم ميں اتباعِ قرآن كا الگ ذكر ہے اور اطاعت ِرسول كا الگ حكم ہے اور اس پر مستزاد يہ كہ قرآنِ مجيد كو كہيں بهى اُسوئہ حسنہ نہيں كہا گيا، جبكہ رسول اللہ (كى زندگى) ميں اہل مسلمان كے لئے بہترين اُسوہ كا ذكر كيا گيا ہے ليكن منكرين حديث يہاں دليل كى بجائے، ضد اورہٹ دهرمى سے كام ليتے ہوئے باصرار يہ كهے چلے جاتے ہيں كہ رسول كى اطاعت، اصلاً اللہ ہى كى اطاعت ہے اور اللہ كى اطاعت كى عملى صورت صرف يہ ہے كہ كتاب اللہ كى پيروى كى جائے- يوں يہ لوگ اللہ كى اطاعت كى عملى صورت ميں ، اطاعت ِرسول كى اس كڑى كو خارج كرديتے ہيں جس كى وساطت سے كتاب اللہ ، اہل ايمان كوملى ہے- چنانچہ پرويز صاحب فرماتے ہيں :
اطاعت اور حكومت صرف خدا كى ہوسكتى ہے، كسى انسان كى نہيں – ليكن خدا تو ہمارے سامنے (محسوس شكل ميں ) نہيں ہوتا، ہم اس كے احكام كو براہ راست سن نہيں سكتے، اس لئے اس كى اطاعت كس طرح كى جائے؟ اس كے لئے اس نے خود ہى بتا ديا كہ يہ اطاعت اس كى كتاب كى مدد سے كى جائے، جسے اس نے نازل كيا ہے-” 33

يہى منكرين حديث كى وہ اصل گمراہى ہے جس پر وہ ضد اور ہٹ دهرمى سے ڈٹے ہوئے ہيں – سوال يہ ہے كہ اللہ تعالىٰ نے قرآن ميں يہ بات كہاں فرمائى ہے كہ : “اس كى اطاعت، اس كتاب كى مدد سے كى جائے جسے اس نے نازل كيا ہے-” كيا قرآن نے كہيں بهى يہ كہا ہے كہ من يتبع القرآن فقد أطاع الله “جس نے كتاب اللہ كى پيروى كى ، اس نے اللہ كى اطاعت كى-” آخر خود سوچئے كہ يہ خداوند قدوس اور اس كى كتاب پربہتان تراشى ہے يا مزاج شناسى اُلوہيت؟ اس كے برعكس قرآن ميں يہ مذكور ہے كہ ﴿مَّن يُطِعِ الرَّ‌سُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ﴿٨٠سورۃ النساء﴾ جس نے رسول كى اطاعت كى، اس نے اللہ كى اطاعت كىاور يہ بهى قرآن ميں مذكور ہے كہ ايمان كا تقاضا بهى اور نتيجہ بهى ، الله سے گہرى محبت كا ہونا ہے﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّـهِ﴿١٦٥سورۃ البقرۃ﴾ ايمان والوں كى محبت، سب سے زيادہ اللہ سے ہوتى ہےاور پهر يہ بهى قرآن ميں مذكور ہے كہ محبت ِالٰہيہ كا تقاضا اتباع رسول ہے
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ وَيَغْفِرْ‌ لَكُمْ﴿٣١سورہ آل عمران
(
اے نبى!) فرما دو كہ اگر تم اللہ سے محبت ركهتے ہو تو ميرى اتباع كرو اللہ تم سے محبت كرنے لگ جائے گا اور تمہارے گناہ معاف كرڈالے گا-”

اور يہ قاعدہ كليہ بهى ، قرآن ميں بيان كيا گيا ہے كہ
وَمَا أَرْ‌سَلْنَا مِن رَّ‌سُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّـهِ﴿٦٤سورۃ النساء
اور ہم نے جو رسول بهى بهيجا ہے، وہ اس لئے بهيجا ہے كہ باذن اللہ اس (رسول) كى اطاعت كى جائے-”

حقيقت يہ ہے كہ اطاعتوں كے اس سلسلہ ميں اللہ تعالىٰ اور كتاب اللہ كے درميان، اطاعت ِرسول كى كڑى كو خارج كرڈالنا اور يہ سمجھنا كہ اطاعت ِرسول كے بغير بهى كتاب اللہ كى پيروى ممكن ہے، قطعى محال ہے، ايسے لوگوں كو پاداش عمل سے ڈرنا چاہئے!!
فَلْيَحْذَرِ‌ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِ‌هِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٦٣سورۃ النور
پس ڈرنا چاہئے ان لوگوں كو جو اس (رسول) كے حكم كى مخالفت كرتے ہيں ، اس بات سے كہ ان پر كوئى فتنہ يا دردناك عذاب ٹوٹ پڑے-”

اور اس لئے كہ اطاعت ِرسول سے دست كش ہونا اپنے اعمال كو برباد كردينا ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ ﴿٣٣سورۃ محمد
اے اہل ايمان! اللہ كى اطاعت كرو اور رسول كى اطاعت كرو اور اپنے اعمال كو باطل نہ بناوٴ

اس بحث كو مختصر كرتے ہوئے، آخر ميں ، جناب پرويز صاحب ہى كا ايك اقتباس نذرِ قارئين كررہا ہوں :
اس ميں شبہ نہيں كہ دنيا ميں كتب ِسماوى اور حضرات انبيا كرام كى تشريف آورى كا سلسلہ اس غرض و غايت كے لئے ہے كہ دنيا ميں انسان خدا كا فرماں بردار بن كر جئے- گويا انسانى زندگى كا مقصود بالذات’ اطاعت ِخداوندى ‘ہى ہے، ليكن چونكہ خدا ہر ايك كے سامنے نہيں آتا، نہ ہرايك سے كلام كرتا ہے- اس لئے انسانوں كو پتہ كيسے چلے كہ كس كام ميں اس كى اطاعت ہے اور كس ميں معصيتاس كے لئے اس نے اپنے پيغامات علىٰ التواتر دنيا ميں بهيجے اور ان پر كاربند ہونے كا حكم فرمايا، تو گويا كتابوں پرعمل پيرا ہونا درحقيقت اطاعت ِخدا ہى تها ليكن جيسا كہ اوپر ذكر آچكا ہے، كتاب بلاتعميل يہ واضح نہيں كرسكتى كہ اس كے احكام پر كس شكل اور كس نوعيت سے عمل پيرا ہونا چاہئے- اس لئے انسانوں ميں رسول منتخب كئے گئے تاكہ وہ ان احكام پر خود عمل پيرا ہوكر دوسروں كے لئے ايك اُسوہ قائم كريں ، لہٰذا حكم ديا گيا كہ رسول كى اطاعت كرو- مقصودِ آخرى يا منتہىٰ اگرچہ اطاعت ِخدا ہى تها، ليكن بجائے اس كے كہ اس اطاعت كى شكل ہر ايك كى اپنى مرضى يا زيادہ سے زيادہ فہم و ادراك پر چهوڑا جاتا، حكم دے ديا كہ اپنى رائے كو دخل نہ دو، بلكہ جس طرح سے يہ رسول كركے دكهاتا ہے يا كرنے كا حكم ديتا ہے اس كے مطابق كرتے جاوٴ، يہى اطاعت خدا ہوجائے گى﴿مَّن يُطِعِ الرَّ‌سُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ﴿٨٠سورۃ النساء﴾ جس نے رسول كا حكم مانا اس نے گويا خدا كى اطاعت كى-”

چنانچہ انبياءِ سابقہ كے حالات سے پتہ چلتا ہے كہ انہوں نے بهى اپنى اپنى قوم كو خدا كى اطاعت كا جو سبق ديا تو انہى الفاظ ميں كہ ہمارى يعنى رسولوں كى اطاعت كرو- سورة الشعراء ميں سب سے پہلے حضرت نوحسے يہ الفاظ مذكور ہيں : ﴿فَاتَّقُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُونِاللہ سے ڈرو اور ميرى تابعدارى كرو-”

بعينہيہى الفاظ حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت لوطاور حضرت شعيبكى زبان سے، اسى جگہ مذكور ہيں ، چنانچہ اسى حقيقت ِعظمىٰ كو قرآن نے اجتماعى طور پر بطورِ حصر، ان الفاظ ميں بيان فرمايا ہے:﴿وَماَ أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ إلَّا لِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللهِ﴾ “ہم نے ہر رسول كو اس لئے بهيجا كہ خدا كے حكم سے اس كى اطاعت كى جائے-”

گويا رسول كى اطاعت ، خدا كے حكم سے ہے، ليكن اطاعت اس كى ضرور ہے، يہى وجہ ہے كہ اللہ تعالىٰ نے كہيں يہ حكم ديا ہے كہ﴿اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّ‌بِّكُمْ...﴿٣سورۃ الاعراف﴾  “اُس كى پيروى كرو جو تمہارے رب كى طرف سے اتارا گيا ہے-”

اور كہيں نجات و سعادت كو اتباع رسول عربى كے ساتھ مشروط كيا گياہے، چنانچہ حضرت موسىٰكى دعا كے جواب ميں فرمايا كہ تمہارى قوم ميں سے ہمارى رحمت ان كے ساتھ ہوگى: ﴿الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّ‌سُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَ‌اةِ وَالْإِنجِيلِ﴿١٥٧سورۃ الاعراف﴾ جو اتباع كريں گے اس رسول و نبى اُمى كا جس كا ذكر يہ لوگ اپنے ہاں تورات اور انجيل ميں لكها ہوا پاتے ہيں -”

تو اس كا مطلب يہ نہيں كہ (نعوذ باللہ) ان احكام ميں تضاد ہے كہ كہيں قرآن كے حكم كا اتباع ہے اور كہيں رسول كے اتباع كا- بلكہ اصل يہ ہے كہ رسول كا اتباع ہى قرآن كا اتباع ہے كيونكہ رسول كو خود حكم ديا گيا ہے كہ﴿وَاتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ مِن رَّ‌بِّكَ﴿٢سورۃ الاحزاب﴾ اور جو تمہارے ربّ كى طرف سے تم پروحى كى جاتى ہے، اس كا اتباع كرو-”

لہٰذا ان احكام كى موجودگى ميں اب يہ كسى كى اپنى مرضى و منشا كے ماتحت نہ رہا كہ جس طرح جى چاہے قرآن كا اتباع كرلے بلكہ قرآن كا اتباع ہو ہى اس شكل ميں سكتا ہے جس شكل ميں رسول نے كيا يا كرنے كا حكم ديا-” 34

قدرے اور آگے چل كر پرويز صاحب لكهتے ہيں – اور نبى اكرمﷺكے مجسمہ تعميل قرآن اور اُسوہٴ حسنہ كى حيثيت سے يوں استدلال كرتے ہيں :
چونكہ اس تعميل اور نمونہ كے بغير خدا كى اطاعت ممكن نہ تهى، اس لئے جہاں قرآنِ كريم ميں ﴿أَطِيعُوا اللَّـهَ﴾ آيا ہے، اس كے ساتھ ہى ﴿وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ﴾ بهى آيا ہے- كہيں ايك جگہ بهى اكيلا ﴿أَطِيعُوا اللَّـهَ﴾ نہيں آيا اور چونكہ ﴿وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ﴾ ميں اطاعت خداوندى خود بخود آجاتى ہے، اس لئے خالى ﴿أَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ﴾ قرآن ميں بعض جگہ آيا ہے، مثلاً ﴿وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْ‌حَمُونَ ﴿٥٦سورۃ النوررسول كى اطاعت كرو تاكہ تم پر رحم كيا جائے-” اور جہاں جہاں ﴿أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ﴾ آيا ہے ، وہاں درحقيقت ﴿أَطِيعُوا اللَّـهَ﴾ سے مراد اطاعت ِرسول ہى ہے-” 35

منكرين حديث اور ان كے ‘بابا جى’ اطاعت ِرسول كے ضمن ميں جس طرح مختلف مواقع پر متضاد موقف اختيار كرتے رہے ہيں – اسى ضمن ميں ايك مثال يہ بهى ہے كہ دورِ ماضى ميں جن آيات ميں ‘اللہ و رسول’ كے بعد واحد كى ضمیريں آئى ہيں ان سے مراد وہ ‘مركز ِملت’ نہيں ليا كرتے تهے، بلكہ ان واحد كى ضميروں كا مرجع، ذاتِ رسول ہى كو قرار ديا جاتا تها-مثلاً

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ ﴿٢٠سورۃ الانفال
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّـهِ وَلِلرَّ‌سُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْ‌ءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُ‌ونَ ﴿٢٤سورۃ الانفال

اور سورة النور كى يہ آيت قُلْ (أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُم مَّا حُمِّلْتُمْۖ وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُواۚ وَمَا عَلَى الرَّ‌سُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ ﴿٥٤سورة النور)وغيرہ
ملاحظہ فرمائيے، ان آيات ميں مذكور انہى واحد كى ضميروں كے بارے ميں پرويز صاحب كيا فرمايا كرتے تهے :
آيت نمبر1 ميں عنہ كى ضمير واحد غائب، نمبر2 ميں دعاكم اور نمبر 3 ميں تطيعوہ كے اضمارِ واحد سے، جن كا مرجع رسول ہے، عياں ہے كہ رسول كى اتباع كا حكم ہے اور اس كى آواز پر حاضر ہونے كى تائيد ہے اور اُس سے روگردانى سے منع كيا گيا ہے، پس اطاعت ِرسول عين اطاعت ِخدا ہے: ﴿مَّن يُطِعِ الرَّ‌سُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ﴿٨٠سورۃ النساء﴾ 36

يہ اقتباسات، منكرين حديث كے خلاف لكهے جانے والے اس مقالے سے مقتبس ہيں جو اس دور ميں پرويز صاحب نے لكها، جب وہ ذہنا ً اور قلبا ً حديث ِنبوى اور سنت ِرسول سے منحرف ہوچكے تهے ليكن مسلم عوام اور علماے كرام ميں مقبوليت(Popularity) پالينے كے لئے وہ اپنے قلم سے ان ہى خيالات كو پيش كرنے پر مجبور تهے جو عامة الناس ميں اور علماء كرام ميں سلفا ً و خلفا ً مقبول تهے- ان خيالات كے اظہار كى غرض و غايت خواہ كچھ بهى ہو ليكن يہ خيالات بہرحال درست، صحيح، مطابق قرآن اور موافق اسلام تهے، ليكن جب بعد ميں اُنہوں نے اُلٹى زقند لگاتے ہوئے اپنے ان افكار ونظريات كو برملا بيان كرنا شروع كرديا جنہيں وہ مصلحةً اپنے دل ودماغ ميں مخفى ركهے ہوئے تهے تو خود اپنے بقول پرويز صاحب كى پوزيشن بالكل وہى ہوگئى جو الہلال والے مولانا ابوالكلام آزادكى پوزيشن، كانگريس ميں شموليت كے بعد ہوگئى تهى

مندرجہ بالااقتباسات ميں اطاعت ِرسول كے حوالہ سے مندرجہ ذيل جملوں پر دوبارہ غور فرما ئيے
(1)
جس طرح سے يہ رسول كركے دكهاتا ہے يا كرنے كا حكم ديتا ہے، اس كے مطابق كرتے جاوٴ- يہى اطاعت خدا ہوجائے گى!!
(2)
اصل يہ ہے كہ رسول كا اتباع ہى قرآن كا اتباع ہے
(3)
قرآن كا اتباع ہو ہى اس شكل ميں سكتا ہے كہ جس شكل ميں رسول نے كيا يا كرنے كا حكم ديا
(4)
چونكہ ﴿أَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ﴾ ميں اطاعت ِخداوندى خود بخود آجاتى ہے، اس لئے ﴿وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ﴾ قرآن ميں بعض جگہ آيا ہے
(5)
پس اطاعت ِرسول، عين اطاعت خدا ہے

ليكن بعد ميں اس بنيادى مسئلہ ميں پرويز صاحب نے قلا بازى لگائى تو پهر ان كا تكيہ كلام ہى يہ بن گياكہ__ “رسول كى اطاعت بهى كتاب كى پيروى كے ذريعہ ہوگى” الفاظ كے تفاوت كے ساتھ اس بدلے ہوئے موقف كو بار بار دہرايا گياقبل از تقسيم برصغير قرآن اور سنت رسول، دونوں ہى اسلام كے ستون تهے اور اُسوہٴ رسول، قرآن سے باہر (احاديث ميں بهى موجود تها اور كتاب و سنت يا قرآن واُسوہٴ رسول دونوں ہى اساس اسلام اور ماخذ احكام ومسائل تهے اور قرآن كى طرح اُسوہٴ رسول كے احكام بهى ناقابل تغير و تبدل تهے
يہ تو ايك كھلى ہوئى حقيقت ہے كہ اسلامى شريعت كے احكام دو قسم پر مبنى ہيں ايك تو وہ جن ميں كسى قسم كا تغير و تبدل نہيں ہوسكتا، ان كے لئے قرآن كريم كى نصوص صريحہ اور رسول اللہ كا اسوہٴ حسنہ موجود ہے-…” 37

ليكن پاكستان بنتے ہى آفتابِ آزادى كے ساتھ جو طلوعِ اسلام ہوا تو اس ميں سنت ِرسول اور اُسوہٴ نبى ماخذ مسائل نہ رہے- ان كى دينى حيثيت ختم ہوگئى اور اُسوہ قرآن سے الگ كوئى چيز نہ رہا بلكہ محصور فى القرآن قرار پايا اور اسى طرح سنت بهى صرف قرآن ہى ميں محدود ٹھہرى يوں كتاب و سنت سے مراد صرف كتاب ہى ہوگئى :
(1) “
سنت بهى كتاب كے اندر ہے ، باہر نہيں ہے-” 38
(2) “
كتاب و سنت سے مراد، اللہ كى كتاب ہے جس كى اتباع رسول اللہ نے فرمائى-” 39

اُسوہٴ رسول اور سنت ِرسول سے يوں يہ كہہ كرجان چهڑالى گئى كہ “اُسوہ اور سنت سب كچھ قرآن ہى ہيں ” اور مغربى معاشرت كے جملہ عادات و اطوار اور اشتراكيت كا پورا نظام اور فرنگى تہذيب كا ہر فكر اور فلسفہ جو من پسند ٹھہرا، اسے يہ كہہ كر قبول كرليا كہ “يہ مطابق قرآن ہے-” اور يوں اللہ تعالىٰ كے دين كى تكميل ہوئىفطوبٰى لكم على ما أكمل پرويزدينكم!


حوالہ جات

1.طلوع اسلام، مئی 2005ء ، ص22 تا 24
2.
طلوع اسلام، مئی 2005ء ، ص28 تا 29
3.
طلوع اسلام، مئی 2005ء ، ص24
4.
طلوع اسلام، مئی 2005ء، ص24
5.
طلوع اسلام، مئی 2005ء، ص24 تا 25
6.
طلوع اسلام ، مئی 2005ء ، ص25
7.
معارف، اپریل 1935ء ، ص279
8.
تفہیم القرآن، ج2، ص543 تا 545
9.
طلوع اسلام، مئی 2005ء ، ص25تا 26
10.
طلوع اسلام، مئی 2005ء، ص27
11.
نظام ربوبیت، ص 23
12.
طلوع اسلام، جولائی 1960ء ، ص63
13.
طلوع اسلام، مئی 2005ء، ص26
14.
تفسیر مطالب الفرقان ، ج1 ص316
15.
تفسیر مطالب الفرقان ج2 ،ص450
16.
طلوع اسلام، مئی 2005ء، ص28
17.
طلوع اسلام، مئی 2005ء، ص28
18.
طلو ع اسلام ،اپریل 1979ء، ص61
19.
تفسیر ماجدی، ص42، حاشیہ ص381
20.
طلوع اسلام ، مئی 2005ء، ص28
21.
نظام ربوبیت، ص27
22.
طلو ع اسلام ، مئی 2005ء، ص29
23.
طلوع اسلام ، مئی 2005ء، ص30
24.
طلوع اسلام، مئی 2005ء، ص30
25.
طلوع اسلام ،مئی 2005ء، ص29
26.
طلوع اسلام، نومبر 1953ء ص37
27.
طلوع اسلام، دسمبر 1963ء ، ص75
28.
طلوع اسلام، جولائی 1959ء، ص10
29.
طلوع اسلام، 29۔اکتوبر 1955ء، ص16
30.
طلوع اسلام، مئی 2005ء ، ص35
31.
معارف ، اپریل 1935ء ، ص276
32.
معارف ، اپریل 1935ء ، ص279 تا 280
33.
طلوع اسلام ، اکتوبر 1956ء ،ص51
34.
معارف، اپریل 1935ء ، ص280 تا 282
35.
معارف ، اپریل 1935ء ، ص 282 تا 283
36.
معارف ، اپریل 1935ء ، ص283 تا 284
37.
طلوع اسلام، جنوری 1940ء، ص25
38.
طلوع اسلام، مارچ 1951ء، ص21،16
39.
طلوع اسلام، مارچ 1951ء، ص21،16


i.  جی ہاں! طلوع اسلام نے ایک امریکی پروفیسر کی یہ تحقیق پیش کی ہے کہ وہاں (امریکہ میں) بندرنما جانوروں کا ایک ایسا گروہ بھی پایا گیا ہے، جو بڑی فصیح عربی میںقرآن و حدیث کے الفاظ پر مشتمل گفتگو کرتا ہے۔ (طلوعِ اسلام، مارچ 1989ء، ص58)

About thefinalrevelation
Leave a reply