مسئلہ قربانی

مسئلہ قربانی قرآن کریم کی روشنی میں
دورِ نزول قرآن سے لے کر اب تک عیدالاضحیٰ پر جانوروں کی قربانی، اُمت مسلمہ میں ایک مجمع علیہ اور متفق علیہ عبادت کی حیثیت سے تواتر کے ساتھ قائم رہی ہے۔ معتزلہ، جو ابتدائی زمانہ میں حدیث اور سنت نبوی سے گریزاں رہے ہیں، بھی قربانی کاانکار نہ کرپائے۔ لیکن ہمارے زمانے میں غلام احمد پرویز نے عیدالاضحیٰ کے مواقع پر کی جانے والی قربانی کی شدید مخالفت کی او راسے خلاف قرآن عمل قرار دیاہے، البتہ حج کے موقع پر وہ قربانی کے قائل تھے۔ اپنی تفسیر مطالب الفرقان میں وہ لکھتے ہیں کہ:
عیدالاضحٰے کی تقریب پر جس طرح قربانیاں دی جاتی ہیں۔ ان کا دین سے کیا تعلق ہے؟ مروجہ مذہب میں ان قربانیوں کی سند میں کچھ روایات پیش کی جاتی ہیں۔ چونکہ میرے پیش نظر صرف قرآن مجید کی تشریح و تفسیر ہے اس لیے ان روایات کے متعلق بحث کرنا میرے مقصد سے خارج ہے۔ ویسے بھی روایات کے متعلق میرا مسلک یہ ہے کہ ان کے صحیح اور غلط ہونے کا معیار قرآن کریم ہے۔1

علماء اُمت ، حج کے علاوہ، دیگر مقامات پر (عیدالاضحیٰ) کی قربانیوں کا ثبوت درج ذیل آیت سے فراہم کرتے ہیں:
قُلْ إِنَّ صَلَاتِى وَنُسُكِى وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِى لِلَّهِ رَ‌بِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ ﴿١٦٢سورۃ الانعام
”(
اے پیغمبرؐ) آپ فرما دیجئے کہ میری نماز او رمیری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے۔

پرویز صاحب ، اس آیت کے متعلق فرماتے ہیں:
اس آیت میں لفظ نسک کے معنی قربانی کئے جاتے ہیں۔ لغت میں اس مادہ (ن ۔ س ۔ ک) کے معنی پاک اور صاف کرنا ہیں۔ نسک الثوب۔ اس نے کپڑے کو دھو کر پاک او رصاف کیا۔ ارض ناسکۃ سرسبز و شاداب زمین، جس پر حال ہی میں بارش ہوئی۔ ان بنیادی معانی کی رو سے، اس کامفہوم کسی معاملے کو درست اور ٹھیک کرلینا ہوتا ہے نسک السبخۃ کے معنی ہیں۔ اس نے زمین شور کو درست کیا، اسے جھاڑ جھنکاڑ سے صاف کیا۔ نسک الیٰ طریقۃ جمیلۃ اس نے اچھا طریقہ اختیار کیا او رپھر اس پر مداومت کی۔ راستہ اختیار کرلینے کی جہت سے کلام عرب میں نسک ہر اس مقام کو کہتے ہیں جس پر عام طور پر آمدورفت جاری ہو۔ یہیں سے اس کے معنی روشن او ررسم کےہوگئے او رامور و مراسم حج کوبھی مناسک حج کہتے ہیں۔2

پرویز صاحب نے لغات کی ورق گردانی کرتے ہوئے اس بات کی پوری کوشش فرمائی ہے کہ نسک” بمعنی ”ذبیحہ” قربانی ” اور ”راہ خدا میں بہائے جانے والے خون” کے معانی کو مکمل طور پر نظر انداز کردیں اور ان معانی کے علاوہ باقی دیگر معانی کو بیان کرکے یہ تاثر اچھال دیا جائے کہ کتب لغت میں”نسکبمعنی ”قربانی” موجود ہی نہیں ہے۔ یہ ہے وہ مطلب جو یا نہ ذہنیت، جسے اگر قربانی کے حق میں پہاڑ کے سے دلائل بھی مل جائیں، تو اس سے نظری چرالی جائیں۔ لیکن اگر قربانی کے علاوہ دیگر معانی مل جائیں تو ان پر عبارت آرائی او رسخن سازی کرتے ہوئے یہ تاثر دیا جائے کہ ان کے علاوہ لغت میں کوئی اور مفہوم پایا ہی نہیں جاتا۔ إنا للہ وإنا إلیه راجعون۔

قرآنی تحقیق کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہےکہ اگر کسی لفظ کے ایک سے زیادہ معانی ہوں تو ان میں اپنے مزعومہ مطلب کے خلاف معانی کو نظر انداز کردیا جائے اور مفید مطلب معانی کو بیان کرکے یہ تاثر ابھارا جائے کہ عربی لغات ، ہمارے بیان کردہ معانی کے علاوہ دیگر معانی سے خالی ہیں۔ بلکہ قرآنی تحقیق کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جملہ لغوی معانی کو دیکھتے ہوئے ، جو مفہوم و مراد قرآن کے کسی مقام پر فٹ بیٹھتا ہے، اسے دلائل کے ساتھ دیگر مفاہیم پر ترجیح دی جائے گی۔ لیکن ”مفکر قرآن” صاحب نے ”نسک” کی لغوی تحقیق کے دوران نسک” بمعنی ”قربانی و ذبیحہ” کا ذکر تک نہیں کیا۔ حالانکہ کوئی عربی لغت اس معنی سے خالی نہیں ہے۔ چند لغات کے اقتباسات ملاحظہ فرمائیے۔
1
۔النسك والنسیکة: الذبیحة و قیل النسك الدم و النسیکة الذبیحة۔ تقول من فعل کذا وکذا فعلیه نسك۔ أي دم یھریقه بمکة شرفھا اللہ تعالیٰ واسم تلك الذبیحة النسیکة والجمع نسك و نسائك
النسك اور النسیکةذبیحہ ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”نسک” خون کو کہتے ہیں۔ مثلاً آپ کہتے ہیں کہ ”جس نے یہ کام کیا اس پر”نسک” لازم ہے” یعنی مکہ میں خون بہانا لازم ہے اور اس ذبیحہ کا نامنسیکةہے، اس کی جمعنسکبھی ہے اورنسائکبھی۔3

آگے چل کر یہ الفاظ بھی موجود ہیں:
وقال أبوإسحاق قرئ لکل أمة جعلنا منسکا و منسکا” قال : والنسك في ھٰذا الموضع یدل علیٰ معنی النحر کأنه قال جعلنا لکل أمة أن تتقرب بأن تذبح الذبائح للہ فمن قال منسك فمعناہ مکان نسك مثل مجلس مکان جلوس ومن قال منسك فمعناہ المصدر نحوا لنسك و النسوك وغیرہ و المنسك والمنسك الموضع الذي تذبح فیه النسك و قرئ بھما قوله تعالیٰ جعلنا منسکاھم ناسکوہ………….. والمنسك المذبح وقد نسك ینسك نسکا إذا ذبح…………!” 4
ابواسحاق نے کہا کہ آیت کو یوں بھی پڑھا گیا: ”لکل أمة جعلنا منسکا و منسکا” (یعنی منسک میں سین کی زبر اور زیر کے ساتھ) اُس نے کہا کہنسکیہاں ”نحر” (قربانی کرنا) کے معنی میں ہے۔ گویا یوں کہا کہ ”ہم نے ہر اُمت کے لیے طے کردیا ہے کہ وہ اللہ کے لیے ذبیحوں کو ذبح کرے۔” پس جس نے منسک” (سین کے کسرہ کے ساتھ) کہا تو معنی یہ ہوا کہ قربانی کی جگہ جیسے مجلس ، ”جلوس (بیٹھنے) کی جگہ” اور جس نےمنسک” (سین پر فتحہ کے ساتھ)کہا تو اس کا معنی مصدر کا معنی ہوا (یعنی قربانی کرنا) جیسےنسكاورنسوكاورمنسكاورمنسك” (سین کی زبر اور زیر دونوں کے ساتھ) اس مقام کو بھی کہتے ہیں کہ جس میں قربانی ذبح کی جائے۔ یعنی اللہ کا یہ فرمان یوں پڑھا گیا کہجعلنا منسکا ھم ناسکوہ”………….. اورمنسكاورمنسك ” (سین کی زبر او رزیر دونوں کے ساتھ ) ”مذبح” (ذبح کرنے کی جگہ) کو کہتے ہیں۔قد نسك ینسك نسکاکا معنی یہ ہے کہ ”اس نے ذبح کیا5

نسكالنون والسین والکاف أصل صحیح یدل علیٰ عبادة و تقرب إلی اللہ تعالیٰ و رجل ناسك ۔ والذبیحة التي تتقرب بھا إلی اللہ نسیکة و ا لمنسك الموضح یذبح فیه النسائك ولا یکون ذٰلك إلا في القربان
نسک نون، سین او رکاف اس کے حروف اصلیہ ہیں۔ یہ عبادت او ر تقرب الی اللہ پر دلالت کرتا ہے۔ (اسی سے ہے: ) ”رجل ناسک” (عبادت گزار مرد) اور وہ ذبیحہ جوتقربا إلی اللہذبح کیا جائے۔نسیکة” (کہلاتا ہے) اورمنسکوہ جگہ ہے جس میںنسائك” (قربانیاں) ذبح کی جائیں۔ او ریہ سب کچھ قربانی ہی میں ہوتا ہے۔6

النسك بالضم و بضمتین الذبیحة أو ا لنسك الدم والنسیکة الذبح
النسک” ( ایک ضمہ کے ساتھ) اورالنسک” (دو ضموں کے ساتھ) ذبیحہ کو کہتے ہیں اورنسکخون کو اورنسیکۃذبح کیے جانے والے جانور کوکہا جاتا ہے۔7

نسک۔ نسکا و نسکا و نسکا و نسوکا نسکة و منسکا …………..(نسک) للہ : تطوع بقربة و ذبح لوجھه تعالیٰ ………. النسک: ما یقدم للہ تعبداأو زھدا۔ الذبیحة سبائك الفضة۔ الدمر، یقال من فعل کذا و کذا فعلیه نسك أي دم یھریقه ………. النسیکة ………… الذبیحة ۔ المنسک ج مناسک : المکان المألوف …….. والمنسک ج مناسک: شرعة النسك: موضع تذبح فیه النسیکة…………..”
نسک ( ینسک کے مصادر ہیں) نسکا، نسکا، نسکا، نسوکا، نسکۃ اور منسکا (ہیں) ………. ”نسک للہ۔ اس نے اللہ کے قرب کی رغبت کی اور اس کی رضا کے لیے جانور ذبح کیا” …….. ”النسک۔ ”جو کچھ عبادت او رزہد اختیار کرتے ہوئے اللہ کے حضور پیش کیا گیا ” ۔ ”قربان کیا جانے والا جانور۔
چاندی کے ٹکڑے ” ”خون” (مثلاً)کہا جاتا ہے کہ ”جس نے یہ کام کیا اس پر نسک واجب ہے ۔( یعنی خون (واجب ہے) جسے وہ بہائے گا۔

”النسیکة” ”ذبیحہ” ( کو کہتے ہیں) ”المنسك” اس کی جمع ”مناسک” ہے۔ (یعنی) ”مانوس جگہ” ”المنسكاس کی جمع ”مناسک” ہے۔( یعنی ) ”رسم قربانی” ”وہ جگہ جہاں قربانیاں ذبح کی جائیں۔8

5۔ امام راغب اصفہانی رقم طراز ہیں:
النسیکة مختصة بالذبیحة : قال مفدیة من صیام أو صدقة أونسك
النسیکة” ”ذبیحہ” کے لیے خا ص ہے (اور دلیل اس کی یہ قرآنی آیت ہے) فرمایا: ”پھر فدیہ ہے روزوں میں سے یا صدقہ میں سے یا قربانیوں میں سے۔9

نسك فلان ……نسکا و نسکة و منسکا : تزھد و تعبد و ذبح ذبیحة تقرب بھا إلی اللہ…………. لکل أمة جعلنا منسکا و ……….. موضع تذبح فیه النسیکة………….. النسك کل حق للہ تعالیٰ و ………… الذبیحة………….. النسیکة: سبیکة الفضة الخالصة و ……….. الذبیحةج نسك و نسائك وفي التنزیل العزیز: ففدیة من صیام أو صدقة أو نسك
نسك فلان ینسك” (جملہ مصادر) کے دو معنی ہیں:
(1)
وہ زاہد اور عبادت گزار بنا (2) اس نے تقرب ایزدی کے لیے جانور ذبح کیا………. ہم نے ہر امت کے لیے ینسک مقرر کیا یعنی ایسی جگہ مقرر کی جہاں قربانیاں ذبح کی جاتی ہیں………. النسک (کے دو معنی ہیں) (1) اللہ کے جملہ حقوق اور (2) ذبیحہ……….النسیکة: آلائش سے پاک خالص چاندی کی ٹکیہ اور ذبح کیا جانے والا جانور ۔اس کی جمعنسکاورنسائکہے۔ اس معنی میں قرآن مجید کی یہ آیت ہے: ”فدیہ ہے روزوں میں سے ، صدقہ میں سے یا قربانیوں میں سے۔10

7۔ مولانا عبدالرشید نعمانی صاحب لکھتے ہیں:
نسک: رسم قربانی” آپ دیکھو مناسک ۔ 11

پھرمناسکنا کے تحت فرماتے ہیں:
مناسکنااسم ظرف جمع مضاف، منسک واحد۔ فاضمیر جمع متکلم مضاف الیہ ۔ ”ہمارے حج اور عبادات کے طریقے۔” نسک : عبادت پرستش۔ نسک :مانوس جگہ، نیز نسک اور نسک :قربانی۔ نسیک: سونا چاندی، نسیکة: قربانی۔” (i)

8۔ صرف یہی نہیں بلکہ عام عربی اُردو لغات بھینسک، بمعنی ”قربانی” کی وضاحت سے خالی نہیں ہیں:
نسک للہ: نفلی عبادت کرنا، خدا کے نام پر ذبح کرنا۔
النسک والنسک : نذر جو اللہ کے لیے پیش کی جائے، ذبیحہ۔
النسیکة: ذبیحہ ، سونے چاندی وغیرہ کا ٹکڑا۔
المنسک : قربانی کی رسم، قربانی کی جگہ ، قربانی۔12

نسک : قربانی کے جانور ، قربانی، خون۔
منسک : قربانی کی جگہ، دین کا راستہ، عبادت کا طریقہ اور جگہ۔
جمع: مناسک13

”نسکبمعنی ”قربانی” کے ان اقتباسات کو دیکھئے او رپھر داد دیجئے ”مفکر قرآن” صاحب کو ، جنہوں نے تفسیر مطالب الفرقان (جلد سوم) میں اس لفظ کی لغوی تحقیق پیش کرتے ہوئے کس قدر شدید التزام برتا ہے کہ”قربانی” کے معنوں میں یہ لفظ ان کی عبادت میں نہ آنے پائے۔ حالانکہ اس معنی و مفہوم سے کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ کتاب لغت بھی خالی نہیں۔ لفظنسککے لغوی مفہوم سے ”قربانی” اور ذبیحہ” کونکال باہر کرنے کے لیے ”مفکر قرآن” صاحب نے جو پاپڑ بیلے ہیں اسے بھی ایک نظر ملاحظہ فرما لیجئے:
قرآن کریم میں احکام حج کے ضمن میں آیا ہےفَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَـٰسِكَكُمْ (200؍2)

جب تم حج کے واجبات سے فارغ ہوچکو…….. اس سے ذرا پہلے ہے ۔فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ (196؍2) ابن قتیبہ نے کہا ہےکہ یہاں نسک سے مراد ذبیحے کے لکھے ہیں۔ لیکن ہم نہیں سمجھتے کہ اس کے معنی ذبیحہ کے کیوں مختص کرلیے جائیں اس سے مراد کوئی عمل خیر ہوسکتا ہے، جسے وہ اپنے اوپر واجب قرار دے لے۔14

ان مفکر قرآن” صاحب کو یہ کون سمجھاتا کہ ……….’جس عمل کو کوئی شخص خود اپنے اوپر واجب قرار دے لے، لغت میں اسے ”نسک” نہیں بلکہ ”نذرکہتے ہیں۔

چنانچہ ”نذر” کا مفہوم خود انہوں نے یوں بیان کیا :
نذر ۔ (نقصان سے بچنے کے لیے) جو کچھ اپنے اوپر واجب قرار دے لیا جائے، نیز کسی شرط پر کوئی وعدہ کرنا بھی نذر کے معنوں میں داخل ہے۔ مثلاً کوئی شخص اپنے اوپر واجب کرلیتا ہے کہ میرا بچہ تندرست ہوگیا تو میں یوں کروں گا، تو یہ نذر کہلاتی ہے۔ راغب نے لکھا ہے کہ کسی معاملہ کے پیش آنے پر کسی ایسی چیز کو اپنے اوپر واجب کرلینا جو واجب نہ ہو (نذر کہلاتا ہے….. قاسمی ) ” 15

لیکن زیر بحث آیت (البقرہ :196) میں ، جس فدیہ کا ذکر ہے، اسے انسان نے اپنے اوپر خود واجب نہیں کیا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس پر واجب کیا ہے۔ اس لیے نسک” کے معنی کوئی سا عمل خیر” کو ڈالنے کے بعد بھی (جو لغۃً عرفاً، شرعاً ہر لحاظ سے غلط ہے) پرویز صاحب کی بات بنتی نظر نہیں آتی۔

رہا پرویز صاحب کا یہ فرمان کہ ”نسک” کے معنی کو کیوں ذبیحہ کے لیے مخصوص کرلیا جائے او رکیوں نہ اس سے مراد ”کوئی سا عمل خیر ” لیا جائے۔ تو یہ بوجوہ غلط ہے:
اوّلاً ……….. اس لیے کہ قرآن یہاں فدیہ کے طور پر نسک” کے ساتھ دو مخصوص اعمال ……صیام اور صدقہ……… کا ذکر کررہا ہے۔ مطلق اعمال خیر میں سے صیام اور صدقہ کو خاص کرلینے کے بعد ”نسک” کو اگر ”کوئی سے عمل خیر ” کے معنوں میں لیا جائے، تو یہ پہلے دونوں اعمال کی خصوصیت کو باطل کردینے کے مترادف ہوگا۔ اب اگر ”صیام” سے مراد ”مطلق کار خیر” اور ”صدقہ” سے مراد ”مطلق نیک عمل” نہیں ہے تو ”نسک” سے بھی ہرگز ”کوئی سا عمل خیر” مراد نہیں لیا جاسکتا۔

ثانیاً…….اسی لیے کہ ”صیام” یہاں ”صام، یصوم” کا مصدر نہیں ہے، بلکہ ”صوم” کی جمع ہے۔ بالکل اسی طرح ”نسک” یہاں مصدر نہیں ہے بلکہ ”نسیکۃ” کی جمع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرویز صاحب نے بھی اس آیت کا ترجمہ یوں کیا ہے:
فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ” (196؍2) اس کا فدیہ روزے یا صدقہ یا ذبیحے ہوں گے۔16

اور اب جبکہ یہ بات طے ہوگئی کہ ”نسک” جمع ہے، تو اس کی واحد ”نسیکۃ” کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتی اور ”نسیکۃ” کے متعلق علماء لغت کا متفقہ فیصلہ ہے کہ یہ خاص طور پر ”ذبیحہ” یا ”خون” ہی کو کہا جاتا ہے۔ لہٰذا عبادت کے دیگر طور طریقے اس کے مفہوم سے خارج ہیں۔

خود پرویز صاحب کی تحقیق بھی یہی ہے:
راستہ اختیار کرلینے کی جہت سے کلام عرب میں منسک ہر اس مقام کو کہتے ہیں جس کی طرف آنے جانے کے لوگ عادی ہوں خواہ یہ خیر میں ہو یا شر میں، اس کے بعد امور و مراسم حج کو مناسک کہنے لگے اور نسک اور نسیکۃ ذبیحہ کو یا خون کو۔17

اب جبکہ لغوی تحقیق سے یہ واضح ہوچکا ہے کہ ”نسک” کا معنی ”قربانی” ہے، تو سورۃ الانعام کی اس آیت کا ترجمہ قطعی واضح ہوجاتا ہے۔
قُلْ إِنَّ صَلَاتِى وَنُسُكِى وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِى لِلَّهِ رَ‌بِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ ﴿١٦٢سورۃ الانعام
آپ فرما دیجئے ، میری نماز اور میری قربانیاں ، میرا جینا او رمیرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔

لیکن پرویز صاحب ، ”قربانی” کی شدید مخالفت میں مبتلا ہوکر لفظ ”نسک” سے اس معنی کو خارج کرنے پر تل گئے او راس آیت کا مفہوم یہ بیان کیا کہ:
اے رسولؐ! ان سے کہہ دو کہ میرے فرائض زندگی او ران کے ادا کرنے کے طور طریقے مختصراً یہ کہ میری ساری زندگی حتیٰ کہ میری موت بھی خدا کے تجویز کردہ پروگرام کے لیے وقف ہے۔18

تاہم یہ بات قارئین کرام کے لیے سخت موجب حیرت ہوگی کہ آیت کے جس ترجمے کی مخالفت میں پرویز صاحب بعد میں اس قدر سرگرم ہوئے، اس سے پہلے وہی ترجمہ وہ خود بھی پیش کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ ایک مقام پر وہ یہی آیت درج کرکے یوں رقم طراز ہیں:
”(
اے پیغمبر اسلام!) تم کہہ دو، میری نماز، میری قربانیاں، میرا جینا، میرا مرنا، سب کچھ اللہ ہی کے لیے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔19

لفظ نسک” سے ”قربانی” کا مفہوم خارج کرڈالنے کا جنون پرویز صاحب پر اس قدر سوار ہوا کہ سورۃ الحج کی اس آیت ، جس میں ”منسکا” کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یعنی:
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُ‌وا ٱسْمَ ٱللَّهِ عَلَىٰ مَا رَ‌زَقَهُم مِّنۢ بَهِيمَةِ ٱلْأَنْعَـٰمِ﴿٣٤سورۃ الحج
کا مفہوم یہ بیان فرمانے لگے کہ : ”ہم نے ہر قوم کے لیے یہ طریق مقرر کردیا تھا کہ وہ جانور کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا کریں۔20

حالانکہ پہلے وہ اسی آیت کا ترجمہ یوں لکھا کرتے تھے:
ہم نے ہر قوم کے لیے قربانی (یا طریق عبادت و قربانی) کا ایک طور طریقہ ٹھہرایا تاکہ وہ ان چوپایوں پر ، اللہ کا نام لے کر ذبح کریں، جو اس نے ان کو عطا فرمائیے ہیں۔21

الغرض سورۃ الانعام کی آیت 163 کا وہ ترجمہ شک و شبہ سے بالاتر ہے جو نہ صرف علماء امت ہمیشہ سے بیان کرتے چلے آرہے ہیں، بلکہ خود پرویز صاحب نے بھی اس کا یہی ترجمہ پیش کیا۔ پھر نہ جانے وہ اس کی تردید و مخالفت پر کیوں تل گئے۔ حتیٰ کہ اپنی تردید بھی خود ہی کر ڈالی۔ فیاللعجب!
(
جاری ہے)


حوالہ جات
1.
تفسیر مطالب الفرقان، ج3 ص247
2.
تفسیر مطالب الفرقان ، ج3 ص348
3.
لسان العربی ، ج10 ص498۔ 499
4.
لسان العرب، ص499
5.
لسان العرب، ج10 ص498
6.
معجم مقابیس اللغۃ
7.
القاموس المحیط :ص332
8.
المنجد ص 806
9.
المفردات امام راغب
10.
المعجم الوسیط
11.
لغات القرآن ج6 ص50
12.
مصباح اللغات ص 872
13.
بیان اللسان
14.
لغات القرآن ص1615
15.
لغات القرآن ص1598
16.
لغات القرآن ص 1615
17.
لغات القرآن ص1614
18.
تفسیر مطالب الفرقان ج3 ص248
19.
معارف القرآن ج2 ص430
20.
مفہوم القرآن 34؍22
21.
معارف القرآن ج1 ص 16

About thefinalrevelation
Leave a reply