منکرین حدیث کی تعریف

قرآن کریم بنیادی طورپرعقیدہ اوراسلام کے بنیادی اصولوں کوبیان کرنے والی کتاب ہے اسی لئے احکامات سے متعلق آیت اکثر وبیشتر مجمل ہیں جن پرعمل کرنے کیلئے کسی نہ کسی درجہ میں احادیث نبویہ کی جانب رجوع کرنااز بس ضروری ہوتاہے یہی وجہ ہے کہ جب انکار حدیث میں مبتلاافراد کو منکرین احادیث کے لقب سے پکار جائے تو وہ اکثر وبیشتر برامان جاتے ہیں کیونکہ روزمرہ کے معمولات میں بے شمار ایسے معاملات آتے ہیں جہاں وہ بھی احادیث پرعمل کرنے کے لئے اپنے آپ کومجبورپاتے ہیں چناچہ وہ چاہتے ہیں کہ انھیں منکرحدیث نہ کہا جائے بلکہ سیرت طیبہ کامحافظ یاناموس رسالت کی حفاظت کرنے والاکہاجائے۔

مثلاًمنکرین حدیث کے موجودہ درورکے سرخیل غلام احمد پرویز صاحب سے ایک ٹی وی انٹرویو میں جب یہ سوال کیاگیاکہ لوگ آپ کو منکرحدیث کیوں کہتے ہیں توانھوں نے کہاکہ مجھے خود نہیں معلوم کہ لوگ ہمیں منکر حدیث کیوں کہتے ہیں حالانکہ میں نے اپنی تصانیف میں جہاں کہیں بھی ضروری سمجھاہے احادیث سے استفادہ کیاہے اوراسکے علاوہ سیرت النبی ﷺ پرمیر ی ایک مستقل کتاب ہے موجود ہے جسمیں میں نے بہت سی احادیث نقل کیں ہیں اور کچھ اسی نوعیت کابیان جناب قرشی صاحب کی طرف سے بھی آیاہے وہ فرماتے ہیں کہ:

{ میری زندگی اہل حدیث حضرات کے بیچ گذری ہے جنکااوڑھنابچھوناہی حدیث نبوی کے مطابق تھااور میں سمجھتا ہوں کہ میں نے احادیث نبوی کے سمجھنے میں غلطی نہیں کی ہاں بشریت کے تقاضے سے کہیںبھول چوک توہوسکتی ہے مگر انکار حدیث جیسافعل میرے لئے محال ہے اسلئے براہ کرم بغیر تحقیق منکرحدیث کافتویٰ دینے سے گریز کریں}

قرشی صاحب کے اس بیان کودیکھتے ہوئے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ یہاں اہل حدیث اور منکر حدیث کے درمیان فرق کوواضح کردیں اورمنکرین حدیث کی شناختی علامات کوبیان کردیں تاکہ ہروہ شخص جو کسی بھی سبب انکار حدیث کے جراثیم سے متاثر ہواہے اپنامحاسبہ خود کرلے اوراس گمراہی سے تائب ہوجائے اورعوام الناس منکرین حدیث کوانکی شناختی علامات کے ذریعہ پہچان کران خوبصورت جال میں گرفتارہونے سے محفوظ رہ سکیں اس سلسلہ میں سب سے پہلی علامت تو وہی ہے جس کاکچھ تذکرہ سطوربالامیں بھی ہم نے کیا ہے یعنی ناموس قرآن یاناموس رسالت کی دہائی دے کرکسی صحیح حدیث کوتسلیم کرنے سے انکارکرنامعلوم ہوناچاہیے کہ اصول حدیث کے مطابق کوئی بھی حدیث جوقرآن کے خلاف یا نبی کی شان کے خلاف ہوقابل رد ہے اوریہ اصول منکرین حدیث کابنایاہوانہیں بلکہ محدثین کابنایاہواہے اورمحدثین کازہدو تقویٰ اورعلمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے یعنی آج جوصحیح احادیث منکرین حدیث کوقرآن یاشان رسالت کے منافی نظر آتی ہیں محدثین کی تحقیق میں ان حدیث کاصحیح قرار پانااس بات کی دلیل ہے کہ وہ احادیث قرآن یاشان رسالت کے منافی نہیں بلکہ منکرین حدیث کے فہم وفراست سے بعیدہونے کے باعث انہیں اس طرح نظر آتی ہیں ورنہ احادیث کی تخریج اورتشریح کاکام جو تقریباًہرصدی میں جاری رہاہے اسمیں ان احادیث کی نشاندہی ضرور کردی جاتی مثلاًصحیح بخاری کی اب تک بہت سی شرحیں لکھی جاچکی ہیں جن میں حافظ ابن حجر عسقلانی کی شرح فتح الباری ،علامہ عینی کی شرح عمدہ القاری ،شرح صحیح بخاری للقسطلانی اورشرح صحیح بخاری للکرمانی خاص طورپرقابل ذکرہیں لیکن ان شارحین میں سے کسی نے بھی کبھی نہیں کہاکہ صحیح بخاری کی فلاں حدیث قرآن کے خلاف ہے یاشان رسالت کے خلاف ہے بلکہ ایسی کوئی حدیث اگر نظربھی آئی توصرف منکرین حدیث کواس دورمیں نظر آئی جنہیںحدیث ،اصول حدیث اوررواۃ حدیث کی حروف ابجدبھی معلوم نہیںہے ہماری یہ بات کوئی مبالغہ نہیں بلکہ مبنی برحقیقت ہے جسکاثبوت منکرین حدیث کے سرخیل غلام احمد پرویزکے قلم سے نکلے ہوئے یہ الفاظ ہیں:{ترمذی ،ابوداؤد اورنسائی میں روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھائے کانوںتک پھر بار بار رفع یدین نہیں کیاجبکہ بخاری و مسلم میں ہے کہ نبی کریم ﷺ رکوع میں جاتے ہوئے اوررکوع سے سراٹھاتے ہوئے بھی رفع یدین کرتے تھے۔

سنن امام شافعی ؒاورمسنداحمدبن حنبل ؒمیںروایت ہے کہ رسول ا ﷲﷺ نماز میںبحالت قیام سینہ پر ہاتھ باندھے تھے جبکہ موطاامام مالکؒمیںروایت ہے کہ رسول اﷲﷺ ہاتھ چھوڑ کرنماز پڑھتے تھے٭ قرانی فیصلے حصہ اول صفحہ۳۰}

پرویز صاحب کایہ بیان ظاہر کررہاہے کہ یہ صاحب علم حدیث میں قطعی طورپریتیم ہیں اورجن احادیث کی کتابوںکا نام لے کرحوالے دے رہے ہیں ان میں سے اکثر ان کے پاس موجود بھی نہیں ہیں مثلاًموطا امام مالک کانام لے کریہ حوالہ دیناکہ وہاں ہاتھ چھوڑ کرنماز پڑھنے کی حدیث موجود ہے حالانکہ موطا میں ایسی کوئی حدیث سرے سے موجودہی نہیں ہے اسی طرح جامع ا لترمذی ،سنن نسائی اورابوداؤد کاحوالہ دیکریہ کہناکہ وہاںتکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین نہ کرنے کی حدیث ہے سفیدجھوٹ ہے بلکہ وہاں جوحدیث ہے اسمیں تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کاذکرہے مگراس بات کاکوئی تذکرہ نہیں کہ اسکے بعدرفع یدین کیاگیایانہیں جبکہ بعض دوسری احادیث میں رکوع سے قبل اوربعدمیں رفع یدین کاذکرموجود ہے اسطرح رفع یدین کرنے کے تمام مواقعوں کی تفصیل مل جاتی ہے اوراحادیث میں کوئی ٹکراؤ کاامکان بھی باقی نہیں رہتا۔
****************************************
منکرین حدیث کی دوسری شناختی علامت
****************************************
پس منکرین حدیث کی دوسری شناختی علامت یہ ہے کہ قرآن کے مفسربننے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ انھیں احادیث کے درجات ،رواۃ حدیث کی اقسام اورمحدثین کی اصطلاحات کاقطعی کوئی علم نہیں ہوتامثلاًایک مقام پرجناب پرویز صاحب نے تبصرہ کرتے ہوئے ایک راوی کی تدلیس کوکذب پر محمول فرمایاہے یعنی یہ لوگ محض اپنی عقل کواحادیث کے قبول و ردکامعیار بناتے ہیں اوریہ سمجھتے ہیں کہ محدثین نے بھی اسی طرح محض اپنی عقل کی بنیاد پراحادیث کوصحیح اورضعیف قراردیاہے حالانکہ یہ خیال قطعی غلط اوربے بنیاداورلغوہے ۔

**********************************
منکرین حدیث کی تیسری شناختی علامت
**********************************
منکرین حدیث کی تیسری شناختی علامت یہ ہے کہ یہ لوگ احادیث کے ذخیروںاور تاریخ کی کتابوں میں کوئی فرق نہیں سمجھتے بلکہ اکثر اوقات اگر اپنے مطلب کی کوئی بات تاریخ کی کسی کتاب میں مل جائے جوکسی صحیح حدیث کے خلاف ہو تویہ حضرات صحیح حدیث کوچھوڑ کربے سند تاریخی روایت کواختیارکرلینے میںکوئی مضائقہ اورکوئی حرج نہیں سمجھتے احادیث کی کتابوں کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے پرویز صاحب فرماتے ہیں کہ:
{ تاریخ دین کی کتابوں میں کتب احادیث کوخاص اہمیت حاصل ہے ان کی صحت کو عقیدہ میں شامل کیاجاتاہے ،چناچہ بخاری شریف کواصح الکتاب بعدکتاب اﷲ یعنی قرآن کے بعددنیامیں سب سے زیادہ صحیح کتاب ماناجاتاہے اورمنوایاجاتاہے لیکن کتب احادیث جس زمانے میں اورجس اندازسے مرتب ہوئی ہیں وہ اس پر شاہد ہے کہ انہیں کس حد تک حتمی اوریقینی کہاجاسکتاہے ،بخاری شریف عہد رسالت مآب سے تقریباًسوا دوسوسال بعد مرتب ہوئی ہے اوراسکامدار تمام تران روایات پر مشتمل ہے جنہیں امام بخاریؒ نے لوگوں کی زبانی سناانہوں نے تقریباًچھ لاکھ روایت جمع کیں اورانہیں اپنے قیاس سے چھانٹااور قریب چھ ہزار اپنے مجموعہ میں داخل کیں اب آپ خود اندازہ فرمالیجئے کہ جہاں تک حتم اوریقین کاتعلق ہے قرآن کے مقابلے میں تاریخ کی ان صحیح کتابوں کی کیاحیثیت باقی رہ جاتی ہے ٭ قرانی فیصلے جلداول صفحہ۳۰۷ }

پرویز صاحب کے اس اقبالی بیان سے ان کااورانکی جماعت کامنکرحدیث ہونا صاف ظاہرہے کیونکہ کسی بھی چیزکواس کی اصل حیثیت میں تسلیم نہ کرناہی درحقیقت اس چیز کاانکارہوتاہے مثلاًایک شخص اپنی اولاد کواپنی اولاد ماننے کوتیار نہ ہوبلکہ بھانجا ،بھتیجایا اورکوئی بھی رشتہ جو آپ منواناچاہیں ماننے کوتیارہوتو کیا اس شخص کواپنی اولادکا منکرنہیں کہاجائے گااسی طرح جب منکرین حدیث ان احادیث کی کتابوںکوحدیث رسولﷺ کی حیثیت سے ماننے کوتیار نہیں ہیں توانہیں منکرحدیث نہیں تواورکیاکہاجائے گا۔

*********************************
منکرین حدیث کی چوتھی شناختی علامت
*********************************

منکرین حدیث کی چوتھی شناختی علامت یہ ہے کہ یہ لوگ احادیث نبویﷺ کووحی کی ایک قسم تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں اورحصول علم کایک یقینی ذریعہ تسلیم کرنے کے بجائے احادیث کی کتابوںکومحض ظن اورگمان پرمشتمل موادتصورکرتے ہیں اوراسکی دلیل قرآن سے یہ پیش کرتے ہیں کہ’’ ان الظن لایغنی من الحق شیأ‘‘یعنی’’ گمان کبھی حق کی جگہ نہیں لے سکتا‘‘حالانکہ قرآن کی آیت کایہ ٹکڑا دووجوہات کی بناپراس ضمن میں قابل استدلال نہیں ہے اسکے لئے اس آیت اوراسکی ماقبل آیت کوپورا دیکھناضروری ہے ،ان آیات کے الفاظ یہ ہیں:
{ ان الذین لایؤمنون بالآخرۃ لیسمون الملائکۃ تسمیۃ الانثی ٭ ومالھم بہ من علم ان یتبعون الا الظن وان الظن لایغنی من الحق شیأ ٭ سورۃ النجم آیت ۲۷،۲۸ }
یعنی ’’بے شک جو لوگ آخرت پرایمان نہیں رکھتے وہ فرشتوں کومونث ناموں سے پکارتے ہیں اور ان کے پاس کچھ علم نہیں وہ صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں اورگمان کبھی حق کی جگہ نہیں لے سکتا‘‘پہلی بات یہاں اس آیت میں لفظ ظن کوعلم کے مقابلے میں لایاگیاہے اورعلم حاصل ہونے کے تین ذریعہ ہوتے ہیں یعنی سننا، دیکھنا اورمحسوس کرنامثلاً ایک شخص نے لوگوں سے سنا کہ شکرسفیدرنگ کی اورمیٹھی ہوتی ہے لیکن خود اس شخص نے کبھی شکردیکھی ہے اور نہ چکھی ہے تومحض سننے سے اسے جو یقین حاصل ہوگااسے علم الیقین کہاجائے گا پھر وہ شکرکودیکھ لیتاہے اوراسے سفید ہی پاتاہے تواب اسے شکر کے بارے میں عین الیقین حاصل ہوجائے گا اسکے بعداسے چکھ بھی لیتاہے تومیٹھاہی پاتاہے تواب اسے شکر کے بارے میں حق الیقین حاصل ہوجائیگاپس معلو م ہواکہ اس آیت میں ظن سے مرادمحض وہم وخیال ہے کیونکہ جن لوگوں کااس آیت کریمہ میں تذکرہ ہے کیاان میں سے کسی نے کبھی یہ دعویٰ کیاتھاکہ اس نے فرشتوں کو دیکھاہے اورمونث حالت میں دیکھاہے ؟صاف ظاہر ہے اہل مکہ جو فرشتوں کومونث مانتے تھے ان میں سے کسی نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیاکہ اس نے فرشتوں کودیکھاہے یعنی اس ضمن میں انہیں علم کے حصو ل کے تینوں ذرائع میں سے کوئی بھی ذریعہ حاصل نہیں تھاجس کاذکر قرآن یہاں کررہاہے اسلئے اس ظن کو احادیث نبوی پر محمول کرنابڑی بھاری غلطی ہے کیونکہ محدثین نے جن اہل علم سے یہ احادیث سنیں انھوں نے اس دعویٰ کے ساتھ ان احادیث کوپیش کیایہ احادیث انھوں نے خود اپنے کانوںتابعین سے ،تابعین نے اپنے کانوں سے صحابہ کرام سے اور صحابہ کرام نے اپنے کانوں سے نبی کریم ﷺ سے سنی ہیں اور محدثین کرام نے احادیث بھی صرف ان لوگوں کی قبول کیں جن کازہد و تقویٰ اورعلمیت مسلمہ تھی مزیدبرآںجن لوگوں نے احادیث کوظنی کہاہے ان لوگوں کی مراداس سے وہ ظن نہیں جومنکرین حدیث باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اس سے مراد حق الیقین سے کم تر درجہ کایقین ہے کیونکہ ظن کا لفظ بعض اوقات یقین کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے جس کی مثال قرآن میں بھی موجود ہے مثلاًسورۃ بقرۃ میں اﷲ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ :
{ واستعینوا بالصبر والصلاۃ وانھا لکبیرۃ الا علی الخاشعین٭ الذین یظنون انھم ملاقوا ربھم وانھم الیہ راجعون ٭ سورۃ البقرۃ ۴۵،۴۶ }
یعنی ’’اﷲ سے مدد طلب کرو صبراورنماز کے ذریعہ اوربے شک (نماز ) بڑی بھاری چیز ہے مگران لوگوں پرنہیں جو اﷲسے ڈرتے ہیں ،(اﷲسے ڈرنے والے لوگ ) وہ ہیں جو اﷲسے ملاقات اوراسکی طرف لوٹ جانے کاظن رکھتے ہیں‘‘صاف ظاہرہے کہ یہاں ’’ظن ‘‘سے مراد ایمان و یقین ہے کیونکہ آخرت اور اﷲسے ملاقات پر یقین رکھنااسلام کاایک لازمی جزو ہے پس سورۃ نجم کی آیت میں مذکورظن کواحادیث نبوی ﷺ پرلاگوکرنامحض دجل وفریب کے سوا کچھ نہیں ہے۔

دوسری بات یہ کہ دین اسلام میں بہت سے امورہیں جن کافیصلہ محض ظن کی بنیاد پرہی کیاجاتاہے مثلاًچوری ،زنااورقتل وغیرہ کے مقدمہ میں اکثراوقات فیصلہ اشخاص کی گواہی پرہی کیاجاتاہے اورگواہی کاظنی ہونااظہرمن الشمس ہے پھران مقدمات میں گواہ کے جھوٹے ہونے کاامکان بھی ہمیشہ موجودرہتاہے اسکے باوجود جو فیصلہ کیاجاتاہے وہ سب کیلئے قابل قبول ہوتاہے اورنافذالعمل سمجھاجاتاہے جبکہ رواۃ حدیث کاجھوٹے ہونے امکان نہ ہونے کے برابراہے کیونکہ محدثین نے اس سلسلہ میں جو محکم اصول بنائے ہیں اور رواۃ حدیث کے حالات و کردار کی جس اندازمیں چھان پھٹک کی ہے اس سے سب واقف ہیںپس معلوم ہواکہ اصولی طورپراحکامات اورمعاملات کے ضمن میںظن حق کوثابت اورغالب کرنے کیلئے قابل قبول اورمفیدہے یعنی احادیث کواگر ظنی کہابھی جائے تب بھی احادیث اموردین میں دلیل و حجت ہیں.

*********************************
منکرین حدیث کی پانچویں شناختی علامت
*********************************

منکرین حدیث کی پانچویں شناختی علامت یہ ہے کہ یہ لوگ دین کے معاملات میں عقل کواستعمال کرنے پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں اورعلمائے دین کوعقل نہ استعمال کرنے کاطعنہ دیتے ہیں بلکہ یہاں تک کہتے ہیں کہ یہ علماء چونکہ عقل استعمال نہیں کرتے اس لئے اہل علم میں شمار کرنے کے لائق بھی نہیں ہیں ثبوت کے طورپر پرویز صاحب کایہ فتویٰ ملاحظہ فرمایئے وہ لکھتے ہیں کہ:
{ کسی چیز کے حفظ کرنے میں عقل و فکر کوکچھ واسطہ نہیں ہوتااس لئے حفظ کرنے کوعلم نہیں کہاجاسکتا،ہمارے علماء کرام کی بعینہ یہی حالت ہے کہ انھوں نے قدیم زمانے کی کتابوں کواسطرح حفظ کیاہوتاہے کہ انہیں معلوم ہوتاہے کہ فلاں مسئلہ کے متعلق فلاں کتاب میں کیالکھاہے، فلاں امام نے کیاکہاہے ،فلاں مفسر کاکیاقول ہے ،فلاں محدث کاکیا ارشاد ہے اورجوکچھ انہیں ان کتابوں میں لکھاملتاہے وہ اسے حرفاًحرفاً نقل کردیتے ہیں اس میں اپنی عقل و فکر کوقطعاً دخل نہیں دینے دیتے اسلئے ہم انہیں علمائے دین کہنے کے بجائے ((Catalogurیعنی حوالہ جات کی فہرست کہتے ہیں اورعلامہ اقبال کے بقول :
’’فقیہ شہر قارون ہے لغت ہائے حجازی کا‘‘
قرآن نے اسکو’’حمل اسفار‘‘ کتابیں اٹھائے پھرنے سے تعبیر کیاہے یہ اپنے محددود دائرے میں معلومات کے حافظ ہوتے ہیں عالم نہیں ہوتے٭قرآنی فیصلے ص۵۰۶ }
منکرین حدیث دینی معاملات میں عقل کے استعمال کیلئے دلیل کے طورپر قرآن کی متعدد آیات کوپیش کرتے ہیں جس کے باعث ہر وہ شخص جواپنے آپ کوعقلمند کہلوائے جانے کا خواہشمند ہوتاہے منکرین حدیث کے پھیلائے ہوئے اس جال میں با آسانی پھنس جاتاہے اس لئے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اس مقام پر منکرین حدیث کی اس فریب کاری کاپردہ بھی چاک کردیاجائے تاکہ معلوم ہوجائے کہ قرآن نے عقل کااستعمال کس ضمن میں کرنے کا حکم دیاہے اورکہاں ہرمسلمان عقل کے بجائے اﷲ اوراسکے رسول کے حکم کاپابندہے ۔

اولاًعقل کا استعمال کرنے کی دعوت قرآن میں سب سے زیادہ ان مقامات پر ہے جہاں اﷲ تبارک و تعالیٰ کائنات میں پھیلی ہوئی بے شمار نشانیوں کے ذریعہ انسان کی توجہ توحید باری تعالیٰ کی جانب مبذول کراناچاہتاہے مثلاًسورۃ شعراء میں ارشاد ربانی ہے کہ:
{ قال رب المشرق والمغرب ومابینھما ان کنتم تعقلون٭ سورۃ الشعراء ۲۸}
یعنی ’’اﷲ مشرق ومغرب اورجو کچھ انکے درمیان ہے ان سب کارب ہے ،کیاتم عقل نہیں رکھتے ‘‘

یہاں اﷲ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کواپنی وحدانیت پردلیل بنایاکہ جب ساری کائنات کاپالنے والا اﷲ ہے توپھر جولوگ عبادت میں اﷲ کے ساتھ کسی دوسرے کوشریک کرتے ہیں وہ سراسر عقل کے خلاف کام کرتے ہیں اور سورۃ بقرۃ میں اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاکہ :
{ ان فی خلق السماوات والارض وختلاف اللیل و النھار والفلک التی تجری فی البحر بما ینفع الناس وما انزل اﷲ من السماء من ماء فأحیا بہ الارض بعد موتھا وبث فیھا من کل دآبۃ و تصریف الریح والسحاب المسخر بین السماء والارض لآیات لقوم یعقلون٭ البقرۃ ۱۶۴ }

یعنی ’’بے شک آسمانوں اورزمین کی تخلیق میں،رات اوردن کے فرق میں،کشتی جو سمندرمیں لوگوں کے نفع کے واسطے چلتی ہے،اﷲ تعالیٰ کاآسمان سے پانی نازل کرناجو مردہ زمین کوزندہ کردیتاہے ،ہرقسم کے جانوروں کازمین میں پھیلادینا،ہواؤں کاچلانااوربادلوں کاآسمان و زمین کے درمیان معلق کردینا ،یہ سب نشانیان ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں‘‘یہاں کائنات کے نظام کامحکم ہونااﷲ تعالیٰ کی ربوبیت و وحدانیت پر بطور دلیل لایاگیاہے تاکہ معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد بھی ایک اوراکیلارب اور معبود صرف اﷲتعالیٰ کوتسلیم کرسکیں،اسی طرح اوربھی بہت سی آیات ہیں اسکے علاوہ عقل استعمال کرنے کاحکم گذشتہ اقوام کے حالات و واقعات سے سبق حاصل کرنے کے لئے بھی دیاگیاہے۔

مثلاًسورۃ یوسف میں ارشاد ربانی ہے کہ:
{ وما أرسلنا من قبلک الا رجالا نوحی الیھم من اہل القری افلم یسیروا فی الارض فینظروا کیف کان عاقبۃ الذین من قبلھم ولدار الآخرۃ خیر للذین اتقوا افلا تعقلون ٭سورۃ یوسف ۱۰۹}
یعنی ’’(اے نبی ﷺ )ہم نے آپ سے پہلے بھی جونبی بھیجے وہ سب مرد تھے جن پرہم نے ان کی بستی والوں کے درمیان میں ہی وحی کی تھی،کیایہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں کہ ان پچھلوں کاانجام اپنی آنکھوں سے دیکھیں اورآخرت کاگھربہترہے ان لوگوں کیلئے جو تقویٰ اختیارکرتے ہیں،کیاتم لوگ عقل نہیں رکھتے ‘‘

یہاں ان لوگوں کوعقل کااستعمال کرنے کاحکم دیاگیاجو گذشتہ انبیاء کرام کی امتوںکاحشر دیکھ کربھی انجان بنے ہوئے تھے،اسی طرح عقل کااستعمال کرنے کامشورہ قرآن نے ان لوگوں کو بھی دیاہے ہے جواﷲ تعالیٰ کے احکامات اور بنیادی اخلاقیات کی پامالی پرکمربستہ ہیں اورسمجھتے ہیں کہ برائی کاانجام برا نہیں ہوتامثلاًسورۃ الانعام میں اﷲ تعالیٰ نے ارشادفرمایا کہ :
{ قل تعالوا أتل ماحرم ربکم علیکم ألا تشرکوا بہ شیأ وبالوالدین احسانا ولا تقتلوا اولادکم من املاق نحن نرزقکم وایاھم ولا تقربوا الفواحش ماظہر منھا وما بطن ولاتقتلوا النفس التی حرم اﷲ الا بالحق ذلکم وصاکم بہ لعلکم تعقلون ٭ سورۃ الانعام ۱۵۱ }
یعنی ’’(اے نبی ﷺ ) کہہ دیجئے آؤمیںبتاؤں کہ تمہارے رب نے تم پر کیاحرام کیاہے ،یہ کہ اﷲ کے ساتھ کسی کوبھی شریک کرنا،والدین کے ساتھ احسان کرتے رہو،اولاد کومفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اورتمہیں بھی،فحش کے قریب بھی مت جاؤخواہ وہ کھلاہو یا چھپاہواورکسی ایسی جان کو ناحق قتل نہ کرو جسے اﷲنے حرام کیاہویہ اﷲ تعالیٰ کی جانب سے تمہیںوصیت ہے شاید کہ تم عقل سے کام لو‘‘ یہاں تمام ایسی بنیادی اخلاقیات کاحکم دیاجارہاہے جو اس قبل دیگر تمام شریعتوں او ر مذاہب میں بھی موجود رہیں تھیں اوران احکامات سے اعراض اورخلاف ورزی ہمیشہ سے فساد فی الارض کاباعث رہی تھی اس لئے ان احکامات کی اہمیت و افادیت کوسمجھنے کی غرض سے یہاںعقل و فہم انسانی کودعوت دی جارہی ہے تاکہ مسلمان ان احکامات کی پابندی کواپنے اوپرکوئی بوجھ نہ سمجھیں،اسی طرح بنیادی اخلاقیات کے خلاف ایک چیزقول و فعل کاتضاد بھی ہے ۔

اسکے متعلق قرآن کریم میں اﷲتعالیٰ نے فرمایاکہ:
{ أتامرون الناس بالبر وتنسون انفسکم وانتم تتلون الکتاب افلا تعقلون ٭ سورۃ البقرۃ ۴۴}
یعنی ’’کیاتم دوسروں کانیکی کاحکم دیتے ہواورخو د اپنے آپ کوبھول جاتے ہوحالانکہ تم تو کتاب بھی پڑھتے ہوپس کیاتم عقل نہیں رکھتے‘‘

یعنی کسی غلط عمل کی کوئی تاویل یاتوجیح کرکے انسان اپنے آپ کودھوکانہ دے بلکہ عقل کے تقاضے کوسامنے رکھتے ہوئے جس نیکی کاحکم دوسروں کودے رہاہے خود بھی اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے،اسی طرح ہروہ بات جو خلاف واقعہ اور زمان ومکان کے اعتبار سے محال ہواس پر اصرار کرنے والوں کوبھی قرآن نے عقل کے استعمال کامشورہ دیاہے مثلاًسورۃ آل عمرآن میں ارشاد ہواکہ:
{ یا اھل الکتاب لم تحآجون فی ابراھیم وما أنزلت التوراۃ والانجیل الامن بعدہ أفلا تعقلون ٭ سورۃ آل عمران ۶۵}
یعنی ’’اے اہل کتاب ابراھیم علیہ السلام کے(مذہب کے)بارے میںتم کیوں جھگڑتے ہوحالانکہ توریت اورانجیل توان کے بعد نازل ہوئیں ہیں کیاتم عقل نہیں رکھتے‘‘یہاں اﷲ تعالیٰ یہود و نصاریٰ کے اس تنازع کے تذکرہ کررہاہے جس میں دونوں فریق یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ابراھیم علیہ السلام ان کے مذہب پر تھے حالانکہ یہودیت اورعیسائیت جن آسمانی کتابوں کے بعد قائم ہوئی وہ ابراھیم علیہ السلام کے بعد ہیںاسلئے ایسی بات محض بے عقلی کے سوا کچھ نہیںاس لئے قرآن اسکی مذمت کررہاہے یعنی عقل کو استعمال کرنے کی دعوت قرآن کی تشریح یااحکامات و حدود اﷲسے متعلق آیات کے ضمن میں پورے قرآن میں کہیں بھی نہیں ہے بلکہ اسکی تشریح اﷲتعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کے اقوال ، افعال واعمال کے ذریعہ خود فرمائی ہے جسکی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے فرمایا:
{ فاذا قرأناہ فاتبع قرآنہ ٭ ثم ان علینا بیانہ ٭سورۃ القیامۃ ۱۸،۱۹}
یعنی ’’جب ہم پڑھائیں تو ہمارے پڑھانیکے بعدپڑھو ،پھراسکی تشریح بھی ہمارے ذمہ ہے‘‘ اس لئے وہ لوگ جو قرآن کی تشریح عقل ،فلسفہ اورمنطق کے ذریعہ کرناچاہتے ہیں وہ بلامبالغہ ایک بڑی گمراہی پر ہیں البتہ سورۃ بقرۃ کی ایک آیت ہے جہاں کسی کواس قسم کااشکال ہوسکتاہے اس آیت کے الفاظ یہ ہیں:
{ یسألونک عن الخمر والمیسر قل فیھما اثم کبیر و منافع للناس واثمھما أکبر من نفعھما ویسألونک ماذا ینفقون قل العفو کذالک یبین اﷲ لکم الآیات لعلکم تتفکرون ٭ سورۃ البقرۃ ۲۱۹}
یعنی ’’یہ لو گ جوئے اورشراب کے بارے میں سوال کرتے ہیں ،کہہ دیجئے یہ بڑے گناہ ہیں اوراس میں لوگوں کوکچھ منفعت بھی ہے لیکن ان کاگناہ انکے نفع سے کہیں بڑھ کرہے اوروہ لوگ پوچھتے ہیں کہ وہ (اﷲ کی راہ میں ) کیاخرچ کریں،کہہ دیجئے کہ وہ سب جوتمہاری ضرورت سے زائد ہے ،اس طرح ہم اپنی آیات کوکھول کربیان کردیتے ہیں تاکہ یہ لوگ غور وفکر کریں‘‘یہاں اس آیت میں اﷲتبارک وتعالیٰ نے شراب اور جوئے کے ممانعت کی حکمت بیان کی ہے اوراسکے بالمقابل صدقہ کاحکم دیاہے تاکہ لوگ ان معاملات میں تھوڑے اورظاہر ی فائدے کونہ دیکھیں بلکہ اسکے گناہ اور نقصان کومدنظر رکھیں جو نفع کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اوراس کے بعد غور فکر کی دعوت اس لئے دی گئی ہے تاکہ لوگ دین کے باقی احکامات پربھی یہ یقین رکھتے ہوئے عمل کریں کہ ان سب احکامات کی کوئی نہ کوئی وجہ اورحکمت ضرور ہے اگرچہ ہم جانتے نہ ہوںاور اس جانب اشارہ بھی ہے کہ جولوگ ان احکامات پرغور فکرکریں گے ان کواس میں سے بعض احکامات کی حکمت معلوم بھی ہوجائے گی لیکن اصل بات یہ ہے کہ ان احکامات پرعمل کرناسب کے لئے فرض ہے مگر انکی حکمت کو جاننا ہر ایک پر فرض نہیں کیونکہ یہاں لفظ ’’لعلکم ‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں شاید کہ تم ،امیدہے کہ تم یا توقع ہے کہ تم غوروفکرکرو گے۔

لیکن منکرین حدیث کے سرخیل جناب پرویز صاحب نے صرف اسی کوعلم قرار دیتے ہوئے ان تمام علماء کرام کو جاہل اورکتابیں ڈھونے والا گدھا قرار دیاہے جوتمام کتابوں کوبالائے طاق رکھ کر صرف عقل کی مدد سے قرآن کی تشریح نہیں کرتے حالانکہ لفظ ’’علم ‘‘ کے معنی ہی’’ جاننا ‘‘ ہیں اورعلامہ کامطلب ہے بہت زیادہ جاننے والایعنی عالم دین اسی شخص کوکہاجائیگاجوقرآن کی کسی آیت یاکسی حدیث کے بارے میں گذشتہ اہل علم کے اقوال کوجانتاہوکیونکہ صراط مستقیم مشروط ہے ان لوگوںاقوال ،افعال و اعمال کے استفادہ سے جن پراﷲ تعالیٰ کاانعام ہوااور جن پراﷲ تعالیٰ کاانعام ہواوہ قرآن کریم کے حوالے سے انبیاء ، صدیقین ،شہداء اورصالحین ہیں اگر بقول پرویز صاحب ہدایت اورعلمیت مشروط ہے عقل سے توپھر قرآن میں فلسفی ، مفکر ،مدبراورعلم منطق کے ماہرافراد کے راستے کوصراط مستقیم ہوناچاہیے تھاجبکہ ایسانہیں ہے اس سے معلوم ہواکہ منکرین حدیث حضرات صرف حدیث کے منکر نہیں بلکہ علوم اورحصول علم کے طریقوں کے بھی منکرہیں ورنہ پرویز صاحب علماء کرام کے متعلق حوالہ جات کی فہرست ورمحض حافظ جیسے الفاظ استعمال کرکے اہل علم سے بدظن نہ کرتے اوراب اسکانتیجہ یہ ہے کہ منکرین حدیث کے پیروکارحضرات اپنے گھر میں کبھی کوئی قرآن کی تفسیریا حدیث کی کتاب یااسکی شرح نہیں رکھتے انجام کار جو پرویز صاحب نے کہایا پرویز صاحب کی روحانی اولاد آج کہہ رہی ہے اسکی تصدیق یاتردید کاکوئی بھی ذریعہ ان کے متبعین کے پاس نہیں ہے اس طرح بے علمی کے ساتھ یہ لوگ خود بھی گمراہ ہورہے ہیں اوردوسروں کوبھی گمراہ کررہے ہیں۔

*********************************
منکرین حدیث کی چھٹی شناختی علامت
*********************************
منکرین حدیث کی ایک چھٹی شناختی علامت بھی ہے جو صرف ان لوگوں میں پائی جاتی ہے جوانکار حدیث کے ضمن میں انتہاء درجہ پرنہیں بلکہ انکار و اقرار کی درمیانی کیفیت پرہیں ایسے لوگ محدثین کے وضع کردہ اصولوں سے ناواقفیت کے باعث بعض احادیث یابعض احادیث کی اقسام کومانتے ہیں اوربعض کونہیں ماننے مثلاًقرشی صاحب اپنے آپ کومنکرحدیث تسلیم نہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
{ اطیعواﷲ سے مراد اﷲ کے احکام کی پابندی کرنااوراطیعوا لرسول سے مراد رسول اﷲ ﷺ کے اسوۃ حسنہ اوراحادیث پرعمل ہے ،لہذا جہاںقال اﷲ تعالیٰ کالفظ آئے وہ قرآنی آیت ہوگی اور جہاں قال الرسولﷺ آئے وہ حدیث نبوی ہوگی }

یہاں قرشی صاحب نے قرآنی آیت اورحدیث رسول ﷺ کی جو تعریف کی ہے وہ قطعی طورپر نامکمل اورغلط ہے کیونکہ تمام اہل علم کے نزدیک حدیث صرف قول رسول ﷺ کانام نہیں بلکہ حدیث اقوال کے علاوہ اعمال و افعال اورتقریر رسول ﷺ کوبھی کہاجاتاہے یہاں تقریر سے مراد وہ افعال واعمال ہیں جو نبی کریم ﷺ کے سامنے صحابہ کرام سے سرزد ہوئے اوراﷲ کے رسول ﷺ نے ان پرتنبیہ نہیں کی بلکہ ان کوبرقرار رکھا مذید برآں صحابہ کرام کے اقول و اعمال کوبھی حدیث کہاجاتاہے اوراسکے لئے حدیث موقوف کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اسی طرح ہروہ بات جو قال اﷲ تعالیٰ سے شروع ہوتی ہے ہمیشہ قرآنی آیت نہیں ہوتی بلکہ احادیث میں بھی قال اﷲ تعالیٰ کے الفاظ اکثر آتے ہیں اورمحدثین کی اصطلاح میں ایسی حدیث کوحدیث قدسی کہاجاتا ہے ،پس معلو م ہواکہ منکرین حدیث کی ایک اہم شناختی علامت یہ بھی ہے کہ یہ لوگ علم حدیث کے ضمن میں محدثین کی وضع کردہ بیشتر اصطلاحات سے ناواقف ہوتے ہیں۔

About thefinalrevelation
Leave a reply