ابراہيم عليہ السلام کے تين جھو ٹ پر منکرين حديث افراد کا طوفا نی واويلا
بوہیو صاحب کی جانب سے کتب احادیث کو مشکوک ثابت کرنے کے لئے ایک صحیح حدیث پر سنگین الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ ان حضرات سے یہ تو امید نہیںکہ جواب ملنے پر اپنی اصلاح کر لیںگے، لیکن اللہ تعالیٰسے امید ہے کہ ان شاء اللہ اس ادنیٰ کاوش کو کسی بھولے بھٹکے کے لئے روشنی کا سبب بنا دیں۔ آمین۔
سب سے پہلے حدیثاور اس کا ترجمہ بوہیو صاحب ہی کے قلم سے ملاحظہ کرتے ہیں:
عن ابی ہریرہ لم یکذب ابراہیم الاثلاث کذبات بینما ابراہیم مربجبار و معہ سارہ فذکر الحدیث فاعطاہا ھاجر قالت کف اللہ ید الکافر واخدمنی ا جٰرقال ابو ہریرہ فتلک امکم یابنی ماء السماء ۔ حدیث نمبر 75 باب نمبر 42 کتاب النکاح بخاری ۔
ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ابراہیم ؑ نے تین جھوٹ سے زیادہ نہیں بولے ۔ اس حال میں کہ ابراہیم ؑ گزر رہے تھے کسی جابر کے ہاں سے اور اس کے ساتھ اس کی اہلیہ سارہ بھی تھیں۔ آگے باقی ساری حدیث بیان کی پھر عطا کی سارہ کو ھاجرہ ۔ سارہ نے کہا کہ میری خدمت کے لئے اس جابر نے اجرت دی ۔ ابو ہریرہ نے کہا پھر یہی ہے تمہاری ماں اے آسمانی پانی کی اولاد ۔
اعتراض یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے نبی کی جانب جن کے سچا ہونے کی گواہی خود قرآن میں 14/9 میں مذکور ہے، تین جھوٹ منسوب کئے گئے ہیں، جو کہ انبیاء کی توہین کے زمرے میں آتا ہے۔ لہٰذا احادیث کا پورا ذخیرہ مشکوک ہے، ناقابل اعتبار ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
حدیث کی اسناد اور صحت:
سب سے پہلی بات یہ نوٹ کیجئے کہ یہی حدیث صحیح بخاری و صحیح مسلم میں مختلف مقامات پر کہیںمجمل تو کہیںمفصل بیان ہوئی ہے۔ لیکن بوہیو صاحب کی نظر کرم جو خاص اس حدیثپر پڑی ہے اس کی وجہ فقط اتنی ہے کہ اس حدیثمیںتین جھوٹ کی تفصیل کہیںبیان نہیںکی گئی۔ اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے ان شاءاللہ۔
یہ حدیث تین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے۔ یعنی:
1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
2۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ
3۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ
اور اسے امام بخاری رحمہ اللہ کے علاوہ، امام مسلم، امام ترمذی، امام ابن حبان، امام ابو عوانہ رحمہم اللہ نے بھی صحیح قرار دیا ہے۔
اس روایت کا کوئی بھی راوی منفرد نہیں۔
یہ حدیثامام بخاری رحمہ اللہ کی پیدائش سے بھی پہلے امام عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ نے بیان کر رکھی ہے۔ ان کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کے استادوں مثلاً امام احمد بن حنبل ، امام ابن ابی شیبہ، معاصرین مثلاً امام ابو داؤد رحمہ اللہ وغیرہ اور بعد والے محدثین نے بھی روایت کی ہے۔
کسی ایک بھی محدثنے اس حدیثپر جرح نہیں کی اور نہ کسی ایک سے بھی اس کا انکار ثابت ہے۔
کذب کی لغوی تحقیق:
اصل مغالطہ اس حدیث میںاستعمال کئے جانے والے لفظ’کذب’ سے پیدا ہوا ہے۔ پہلے اس لٍفظ کی لغوی تحقیق پیش خدمت ہے:
1۔ کذب کے معنی ترغیب دلانا بھی مستعمل ہے، کذبتہ نفسہ کے معنی ہیں:اس کے دل نے اسے ترغیب دلائی۔
2۔ کذب، وجوب کے معنی میں آتا ہے:
قال الجوھری:کذب قد یکون بمعنی وجب وقال الفراء کذب علیک ای وجب علیک (نھایہ ابن اثیر: 12/4) ..[النھایۃ فی غریب الاثر لابن الاثیر 282/4ْْ]
جوہری اور فراء کہتے ہیں:کذب معنی وجب پر ہے۔
3۔ کذب، لزم کے معنی میں آیا ہے۔ کذب علیکم الحج و العمرۃ۔ تم پر حج اور عمرہ لازم ہو گیا ہے۔ [النھایۃ فی غریب الاثر لابن الاثیر 282/4ْْ]
4۔ غلطی یا خطا کے معنی میںبھی یہی لفظکذب استعمال ہوتا ہے۔ حدیثمیںہے:کذب ابو محمد [ابو داؤد: برقم 425] یعنی ابو محمد نے غلطی کی۔ ذو الرمہ شاعر نے کہا: ما فی سمعہ کذب۔ اس کے سماع میں غلطی نہیں۔[النھایۃ: 282/4]
اسی طرح خطا بھی کئی معنی میں مستعمل ہوا ہے۔
5۔ اجتہادی غلطی پر بھی کذب کا لفظ بولا جاتا ہے۔ صحیح بخاری میں نوف بقالی کے متعلق ابن عباس نے فرمایا: کذب عدو اللہ۔ نوف نے غلطی کی۔
اسی طرح راغب نے مفردات القرآن 288/2 میں فرمایا، اور دیگر کتب لغات میں بھی اسی قسم کی تفصیل موجود ہے۔ مثلاً دیکھئے:
لسان العرب : 708/1
الفائق للزمخشری: 250/3
القاموس المحیط: 166
تاج العروس: 897/1
درج بالا لغوی تحقیق یہ واضح کرنے کے لئے کافی ہے کہ جس ایک لفظ کی بنیاد پر احادیث، ائمہ حدیث اور راویان حدیث پر سب و شتم کا سارا کھڑاگ پھیلایا گیا ہے۔ اس سے استدلال میں لازمی طور پر جھوٹ ہی کا معنی کرنا ، بجائے خود کتنی کمزور دلیل ہے۔
تعریض اور توریہ:
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے نہایت عمدہ وضاحت کی ہے کہ سچ اور جھوٹ کی تشخیص میں نفس الامر اور متکلم کے قصد اور ارادہ کو بھی دخل ہے۔ اس لحاظ سے اس کی تین صورتیں ہوں گی۔
متکلم صحیح اور واقعہ کے مطابق کہے اور مخاطب کو وہی سمجھانا چاہے جو فی الحقیقت ہے۔ یہ دونوں لحاظ (واقعہ اور ارادہ) سے سچ ہے۔
متکلم خلاف واقعہ کہے اور مخاطب کو اپنے مقصد سے آگاہ نہ کرنا چاہے بلکہ ایک تیسری صورت پیدا کر دے جو نہ صحیح ہو اور نہ ہی متکلم کا مطلب اور مراد ہو۔ یہ واقعہ اور ارادہ دونوں لحاظ سے جھوٹ ہوگا۔
لیکن اگر متکلم صحیح اور نفس الامر کے مطابق گفتگو کرے لیکن مخاطب کو اندھیرے میں رکھنا چاہے اور اپنے مقصد کو اس پر ظاہر نہ ہونے دے اسے تعریض اور توریہ کہا جاتا ہے۔ یہ متکلم کے لحاظ سے صدق ہے اور تفہیم کے لحاظ سے کذب ہے۔
صدق اور کذب میں جس طرح واقعے کو دخل ہے، اسی طرح ارادے کو بھی دخل ہے۔ صدق اور کذب کا معنی سمجھ لینے کے بعد ایک تیسری چیز بھی ذہن میں آ جانی چاہئے۔ جب متکلم خبر واقع اور مخبر عنہ کے مطابق دے، لیکن اس واقع اور حقیقت کو مخاطب سے مخفی رکھنا چاہے، تو اسے تعریض یا توریہ کہتے ہیں۔ یہ حقیقت میں سچ ہوتا ہے لیکن ایک لحاظ سے اسے جھوٹ بھی کہا جا سکتا ہے۔ راغب رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
“تعریض ایسی گفتگو ہوتی ہے، جس کے ہر دو پہلو ہوتے ہیں۔ من وجہ صدق اور من وجہ کذب۔ جیسے فیما عرضتم بہ من خطبۃ النساء سے واضح ہے۔”
[مفردات القرآن : 85/2]
آگے ہم حدیث کے الفاظ کی بحث میں دیکھیں گے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جن واقعات پر لفظ کذب کا اطلاق کیا گیا ہے، وہ توریہ اور تعریض کی شرط پر پورا اترتے ہیں نا کہ جھوٹ کی۔
اور یہی تعریض یا توریہ بہت سی جگہوں پر ثابت ہے۔ مثلاً سفر ہجرت میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے جب پوچھا جاتا کہ تمہارے ساتھ کون ہیں تو فرماتے: رجل یھدینی السبیل، کہ میرے رہبر ہیں۔ یہ مکمل صدق بھی نہیں کہ مخاطب اس سے دنیاوی رہبر سمجھتا تھا۔ اور مکمل جھوٹ بھی نہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہرحال دینی لحاظ سے تو رہبر ہی ہیں۔
قرآن سے بھی اس کی مثال پیش ہے کہ اللہ تعالی ٰ نے منافقین کے تذکرہ میں فرمایا:
إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ
جب آپ کے پاس منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ الله کے رسول ہیں اور الله جانتا ہے کہ بے شک آپ اس کے رسول ہیں اور الله گواہی دیتا ہے کہ بے شک منافق جھوٹے ہیں. [المنافقون: 1]
یہاں منافقین کی صحیح بات کی بھی تصدیق نہیں فرمائی ، اس لئے کہ یہ ان کے ضمیر کی آواز نہیں، بلکہ ضمیر کی آواز اس کے خلاف ہے۔ اگرچہ ان کی بات درحقیقت سچ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ لیکن ان کا ضمیر اس حقیقت کو قبول کرنے میں مانع ہے، لہٰذا فقط غلط ارادے کی بنیاد پر ان کی مکمل بات ہی کی تغلیط کر دی۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ فقط حقیقت واقعہ کی اہمیت نہیں، بلکہ اس پر متکلم کا ارادہ بھی جھوٹ کا اطلاق کرنے کے لئے ازحد ضروری ہے۔
ثلاث کذبات:
کذب اور توریہ کی مکمل وضاحت کے بعد، اب آتے ہیں حدیث کی طرف جس پر اعتراض پیش کیا گیا ہے۔ بوہیو صاحب نے بخاری سے مختصر حدیث پیش کی ہے، ہم درست ترجمہ کے ساتھ مفصل پیش کر دیتے ہیں:
وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ” لم يكذب إبراهيم إلا في ثلاث كذبات : ثنتين منهن في ذات الله قوله ( إني سقيم ) وقوله ( بل فعله كبيرهم هذا ) وقال : بينا هو ذات يوم وسارة إذ أتى على جبار من الجبابرة فقيل له : إن ههنا رجلا معه امرأة من أحسن الناس فأرسل إليه فسأله عنها : من هذه ؟ قال : أختي فأتى سارة فقال لها : إن هذا الجبار إن يعلم أنك امرأتي يغلبني عليك فإن سألك فأخبريه أنك أختي فإنك أختي في الإسلام ليس على وجه الأرض مؤمن غيري وغيرك فأرسل إليها فأتي بها قام إبراهيم يصلي فلما دخلت عليه ذهب يتناولها بيده . فأخذ – ويروى فغط – حتى ركض برجله فقال : ادعي الله لي ولا أضرك فدعت الله فأطلق ثم تناولها الثانية فأخذ مثلها أو أشد فقال : ادعي الله لي ولا أضرك فدعت الله فأطلق فدعا بعض حجبته فقال : إنك لم تأتني بإنسان إنما أتيتني بشيطان فأخدمها هاجر فأتته وهو قائم يصلي فأومأ بيده مهيم ؟ قالت : رد الله كيد الكافر في نحره وأخدم هاجر ” قال أبو هريرة : تلك أمكم يا بني ماء السماء .
متفق عليه
ہم سے محمد بن محبوب نے بیان کیا ، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ، ان سے ایوب نے ، ان سے محمد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابراہیم علیہ السلام نے تین مرتبہ توریہ کیا تھا ، دو ان میں سے خالص اللہ عزوجل کی رضا کے لیے تھے ۔ ایک تو ان کافرمانا ( بطور توریہ کے ) کہ ” میں بیمار ہوں ” اور دوسرا ان کا یہ فرمانا کہ ” بلکہ یہ کام تو ان کے بڑے ( بت ) نے کیا ہے ” اور بیان کیا کہ ایک مرتبہ ابراہیم علیہ السلام اور سارہ علیہا السلام ایک ظالم بادشاہ کی حدود سلطنت سے گزررہے تھے ۔ بادشاہ کو خبرملی کہ یہاں ایک شخص آیا ہوا ہے اور اس کے ساتھ دنیا کی ایک خوبصورت ترین عورت ہے ۔ بادشاہ نے ابراہیم علیہ السلام کے پاس اپنا آدمی بھیج کر انہیں بلوایا اور حضرت سارہ علیہ السلام کے متعلق پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ میری بہن ہیں ۔ پھر آپ سارہ علیہ السلام کے پاس آئے اور فرمایا کہ اے سارہ ! یہاں میرے اور تمہارے سوا اور کوئی بھی مومن نہیں ہے اور اس بادشاہ نے مجھ سے پوچھا تو میں نے اس سے کہہ دیا کہ تم میری ( دینی اعتبار سے ) بہن ہو ۔ اس لیے اب تم کوئی ایسی بات نہ کہنا جس سے میں جھوٹا بنوں ۔ پھر اس ظالم نے حضرت سارہ کو بلوایا اور جب وہ اس کے پاس گئیں تو اس نے ان کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہا لیکن فوراً ہی پکڑلیاگیا ۔ پھر وہ کہنے لگا کہ میرے لیے اللہ سے دعا کرو ( کہ اس مصیبت سے نجات دے ) میں اب تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاوں گا ، چنانچہ انہوں نے اللہ سے دعا کی اور وہ چھوڑدیاگیا ۔ لیکن پھر دوسری مرتبہ اس نے ہاتھ بڑھایا اور اس مرتبہ بھی اسی طرح پکڑلیاگیا ، بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت اور پھر کہنے لگا کہ اللہ سے میرے لیے دعا کرو ، میں اب تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاوں گا ۔ سارہ علیہ السلام نے دعا کی اور وہ چھوڑ دیاگیا ۔ اس کے بعداس نے اپنے کسی خدمت گار کو بلاکر کہا کہ تم لوگ میرے پاس کسی انسان کو نہیںلائے ہو ، یہ تو کوئی سرکش جن ہے ( جاتے ہوئے ) سارہ علیہ السلام کے لیے اس نے ہاجرہ علیہ السلام کو خدمت کے لیے دیا ۔ جب سارہ آئیں تو ابراہیم علیہ السلام کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ۔ آپ نے ہاتھ کے اشارہ سے ان کا حال پوچھا ۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے کافر یا ( یہ کہا کہ ) فاجر کے فریب کو اسی کے منھ پر دے مارا اور ہاجرہ کو خدمت کے لیے دیا ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے بنی ماءالسماء( اے آسمانی پانی کی اولاد ! یعنی اہل عرب ) تمہاری والدہ یہی ( حضرت ہاجرہ علیہ السلام ) ہیں ۔
آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ان تین واقعات پر غور فرمائیں، یہ صدق ہیں یا کذب یا تعریض و توریہ؟ اور یہ احادیث قرآن سے متعارض ہیں یا قران کے موافق؟
قرآن سے ان واقعات کی تصدیق:
پہلے تو خوب ذہن نشین کر لیجئے کہ ان تین واقعات میں سے دو تو خود قرآن ہی میں موجود ہیں اور ایک حدیث میں۔ اب یہاں بھی معترضین حدیث کا تضاد ، کج فکری اور تعصب کھل کر سامنے آ جاتا ہے کہ ایک ہی واقعہ اگر قرآن میں ہو تو اس کی تو ڈھیروں تاویلات کر کے اس کو “درست” بنانے کی کوشش کرتے ہیں، اور وہی واقعہ حدیث میں ہو تو اعتراضات کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے۔ اب یہ سوچئے کہ یہی حدیث بخاری میں قریباً پانچ مقامات پر مذکور ہے۔ کہیں مفصل، کہیں مجمل ، کہیں تعلیقاً ، کہیں مرفوعاً باسند۔ اور کتاب الانبیاء میں یہ حدیث مرفوعاً مفصل منقول ہے۔ آخر مفصل وضاحتی حدیث جب صحیح بخاری ہی میں موجود تھی، تو بوہیو صاحب نے فقط مجمل حدیث ہی کو کیوں نشانہ بنایا؟ اس کی وجہ غالب گمان ہے یہ تھی کہ اگر مفصل حدیث لکھ کر ترجمہ کر دیتے تو ایک عام شخص بھی سمجھ جاتا کہ یہ اگر جھوٹ ہیں تب تو قرآن سے بھی ثابت ہیں۔ لہٰذا فقط اس حدیث کو اور حدیث کے اس حصہ کو نشانہ تنقید بنایا جس کا ذکر قرآن میں نہیں۔ جن شخصیات کا دیانت کا معیار ایسا ہو، ان کی تحقیقات پر دین کے انتہائی اہم فیصلہ کا مدار رکھنا ، بہت ہی جہالت کی بات ہے۔ یاد رہے یہ بوہیو صاحب وہی ہیں جو صلوٰۃ سے مروجہ طریقہ عبادت مراد نہیں لیتے، بلکہ نفاذ نظام الٰہی مراد لے کر اپنے معتقدین کو پہلے ہی پانچ وقت کی لگی بندھی نماز سے چھٹی دلا چکے ہیں۔
اب قرآن سے انہی دو واقعات کا ثبوت ملاحظہ کیجئے:
پہلا واقعہ: بت شکنی:
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب قوم کو بت پوجتے دیکھا، تو فرمایا:ان بتوں کے ساتھ تم نے کیا تماشا بنا رکھا ہے،پھر پوری صراحت سے حلفی اعلان فرمایا: تمہاری غیر حاضری میں یقینا تمہارے ان بتوں کا تیا پانچہ کر کے رہوں گا۔
غور فرمائیے، اس اعلان اور حلفی بیان کے بعد جھوٹ بولنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ قوم اپنے مشاغل کے لئے چلی گئی، ان کی غیر موجودگی میں پورے اطمینان سے بڑے بت کے سوا باقی بتوں کو ریزہ ریزہ کر دیا، واپسی پر جب بت خانہ ویران پایا تو کہرام مچ گیا، بڑے حزن و ملال سے قوم کے چودھریوں نے کہا: کسی بڑے ظالم نے ہمارے بتوں کا یہ برا حال کیا ہے۔
بات ڈھکی چھپی نہ تھی، حلفی اعلان ان کے کانوں میں تھا، فوراً حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ملزم قرار دیا گیا۔ ایک ابراہیم نامی نوجوان کو ہم نے سنا تھا وہ ان کو برا بھلا کہتا تھا۔
اسی وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بلانے کا فیصلہ ہوا کہ اسے کھلی عدالت میں پیش کر کے اس کے خلاف شہادت قائم کرو۔
اس قدر کھلے اور پیش افتادہ واقعات میں نہ جھوٹ کی گنجائش ہے نہ انکار کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قوم کی بے وقوفی کو نمایاں کرنے کے لیے جواب میں تعریض کی صورت اختیار کی، کھلا اقرار نہیں کیا، اس لیے کہ واقعہ تو معلوم ہی تھا، فرمایا۔ اس بڑے بت نے ہی یہ کیا ہے۔
اور انہوں نے سر نیچا کئے ندامت سے اقرار کیا، تم جانتے ہو یہ تو بول نہیں سکتے۔ اصل مقصد یہی تھا کہ ان کی زبان سے ان کے دین کی کمزوری ظاہر ہو جائے، ورنہ دونوں فریق جانتے تھے کہ جسے بولنے کی ہمت نہیں، اسے توڑنے کی قدرت کہاں سے ہوگی۔
یہ واقعہ سورہ الانبیاء آیت 52 سے لے کر 66 تک بیان ہوا۔ مودودی صاحب کا اس مقام پر ترجمہ پیش ہے:
یاد کرو وہ موقع جبکہ اُس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ “یہ مورتیں کیسی ہیں جن کے تم لوگ گرویدہ ہو رہے ہو؟” 52
انہوں نے جواب دیا “ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت کرتے پایا ہے” [21:53]
اس نے کہا “تم بھی گمراہ ہو اور تمہارے باپ دادا بھی صریح گمراہی میں پڑے ہوئے تھے؟”
[21:54]
انہوں نے کہا “کیا تو ہمارے سامنے اپنے اصلی خیالات پیش کر رہا ہے یا مذاق کرتا ہے؟”
[21:55]
س نے جواب دیا “نہیں، بلکہ فی الواقع تمہارا رب وہی ہے جو زمین اور آسمانوں کا رب اور اُن کا پیدا کرنے والا ہے اِس پر میں تمہارے سامنے گواہی دیتا ہوں
[21:56]
اور خدا کی قسم میں تمہاری غیر موجودگی میں ضرور تمہارے بتوں کی خبر لوں گا”
[21:57]
چنانچہ اس نے اُن کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور صرف ان کے بڑے کو چھوڑ دیا تاکہ شاید وہ اس کی طرف رجوع کریں
[21:58]
(اُنہوں نے آ کر بتوں کا یہ حال دیکھا تو) کہنے لگے “ہمارے خداؤں کا یہ حال کس نے کر دیا؟ بڑا ہی کوئی ظالم تھا وہ”
[21:59]
(بعض لوگ) بولے “ہم نے ایک نوجوان کو ان کا ذکر کرتے سُنا تھا جس کا نام ابراہیمؑ ہے”
[21:60]
انہوں نے کہا “تو پکڑ لاؤ اُسے سب کے سامنے تاکہ لوگ دیکھ لیں (اُس کی کیسی خبر لی جاتی ہے)”
[21:61]
(ابراہیمؑ کے آنے پر) اُنہوں نے پوچھا “کیوں ابراہیمؑ، تو نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے؟”
[21:62]
اُس نے جواب دیا “بلکہ یہ سب کچھ ان کے اس سردار نے کیا ہے، اِن ہی سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں”
[21:63]
یہ سُن کر وہ لوگ اپنے ضمیر کی طرف پلٹے اور (اپنے دلوں میں) کہنے لگے “واقعی تم خود ہی ظالم ہو”
[21:64]
مگر پھر اُن کی مت پلٹ گئی اور بولے “تُو جانتا ہے کہ یہ بولتے نہیں ہیں”
[21:65]
ابراہیمؑ نے کہا “پھر کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اُن چیزوں کو پوج رہے ہو جو نہ تمہیں نفع پہنچانے پر قادر ہیں نہ نقصان [21:66]
بہرحال، اس واقعے میں آیت نمبر 63 میں حضرت ابراہیم کا یہ جملہ کہ یہ کیا دھرا اس بڑے بت کا ہے، یہ وہ جملہ ہے کہ جس پر احادیث میں لفظ کذب کا اطلاق کیا گیا ہے، جس کا درست مفہوم تعریض یا توریہ کے ساتھ ادا کیا جا سکتا ہے۔ اور ہر شخص یہاں دیکھ سکتا ہے کہ بظاہر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خلاف واقعہ بات ہی کہی ہے۔ بتوں کو توڑا تو خود ہی تھا، جیسا کہ آیت 58 سے ظاہر ہے، لیکن الزام بڑے بت پر لگا دیا، جیسا کہ آیت 63 سے ظاہر ہے، اگرچہ ان کی نیت فقط سمجھانے کی تھی۔ لہٰذا اسے خلاف واقعہ بات کہئے، تعریض کا نام دیجئے یا توریہ کہہ لیں۔ اگر آپ حدیث میں لفظ کذب سے جھوٹ مراد لیتے ہیں تو پھر یہ جھوٹ تو خود قرآن سے ثابت ہے۔ لہٰذا حدیث لکھ کر نعوذباللہ اور استغفراللہ کی گردان کرنے والوں کو آیت 21:63 لکھ کر بھی یہی گردان کرنی چاہئے۔ اور اگر آپ ہماری طرح یہاں توریہ یا تعریض مراد لیتے ہیں تو فبہا، کیونکہ اس طرح قرآن و حدیث دونوں کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام پر کوئی آنچ نہیں آتی۔
دوسرا واقعہ: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی علالت
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ کہنا کہ میں بیمار ہوں، زیر بحث حدیث میں یہ دوسرا واقعہ ہے جس پر کذب کا اطلاق کیا گیا ہے۔ یہ واقعہ بھی خود قرآن ہی سے ثابت ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ لوگ کسی تہوار یا اجتماعی کام کے لیے جانا چاہتے تھے، ان کی خواہش تھی حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کے ہمراہ چلیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے اپنے حلفی بیان کے مطابق بتوں کو توڑنے کا پروگرام موجود تھا۔ ستاروں پر نگاہ ڈال کر فرمایا:
انی سقیم
[الصافات: 89]
میں بیمار ہوں۔ قوم چھوڑ کر چلی گئی تو اسی بیمار ابراہیم نے پورے بت خانہ کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ اب یہاں سقیم کے اظہار میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے توریہ سے کام لیا۔ یہ ابہام اور تعریض تھی جو بالکل سچائی اور حقیقت پر مبنی تھی، مگر قوم نے اسے واقعی اہم بیماری سمجھا۔ انہیں حق ہے کہ اس من وجہ صداقت کو کذب سے تعبیر کریں۔ اس لئے تعریض اور توریہ کو من وجہ کذب کہا جا سکتا ہے۔
اب خود سوچئے ایسا مریض جو قوم کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہی پورے بت خانہ کا صفایا کر سکتا ہے، سینکڑوں مصنوعی خداؤں کو چند گھڑیوں میں پیوند خاک کر سکتا ہے، اس کی بیماری کی کمیت اور کیفیت کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ یہ تعریض ہی کے پیمانہ سے ناپی جا سکتی ہے، جس کا اندازہ دوست اور دشمن اپنے نقطہ نظر سے لگا سکیں۔
اب وہی سوال کہ حدیث پر ہمہ وقت تنقید و تبرا کے لئے تیار، الزامات و اتہامات کے نت نئے طریقے ڈھونڈنے والے، آخر خود قرآن کو اسی نظر سے کیوں نہیں دیکھتے؟ دیانت کا تقاضا تو یہ ہے کہ حدیث کے اقتباسات لے کر جس نہج پر تنقید کی جاتی ہے، قرآن سے وہی چیز ثابت ہو جائے تو قرآن کو بھی لپیٹ میں لے لیا جائے اور یا پھر اللہ سے ڈر جائیں اور حدیث پر غیر ضروری اور نامناسب شکوک و شبہات پید اکرنے سے باز آ جائیں۔ اللہ ہی سے ہدایت کا سوال ہے کہ ہم سب کے دل اس کی مٹھی میں ہیں، جب چاہے جسے چاہے ہدایت نصیب کر دے۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہم میں سے جو بھی گمراہ ہیں انہیں صراط مستقیم کی جانب ہدایت عطا فرما دے۔ آمین یا رب العالمین۔
تیسرا واقعہ: بیوی یا بہن
یہ وہ تیسرا واقعہ ہے جو قرآن میں مذکور نہیں۔ اس لئے بوہیو صاحب نے تنقید و بے جا الزامات کی بوچھاڑکا رخفقط اسی واقعہ کی جانب رکھا ہے۔ اور دوسرے دو جھوٹوں کا تذکرہ تک نہیں کیا۔ مثلاً دیکھئے لکھتے ہیں:
اب اس کہانی میں یعنی حدیث کے کٹے ہوئے ٹکڑوں میں حضرت ابراہیمؑ کے تین عدد جھوٹ بھی لکھے ہوئے ہیں۔
جن میں ایک یہ ہے کہ جابر بادشاہ کو ابراہیم ؑ نے سارہ کے بارے میں کہا کہ یہ میری بہن ہے ۔
سوال یہ ہے کہ اتنے سارے اعتراضات کئے گئے ہیں، تو وہ دو جھوٹکیوں پیش نہیںکئے گئے ، فقط ایک ہی جھوٹ بیان کرنے پر کیوں اکتفا کیا گیا؟ اور درست وجہ قارئین پر واضح ہو چکی ہوگی کہ اگر وہ واقعات بھی پیش کر دئے جاتے تو پھر خود پر بھی زد پڑتی۔ خیر،
حدیث کو مکرر ملاحظہ کر لیں۔ اس تیسرے توریہ کے متعلق حدیث اپنی وضاحت آپ کرتی ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ میں نے ظالم کے پاس تمہیںاپنی بہن کہا ہے، تم میری تکذیب نہ کرنا ، کیونکہ دین کے لحاظسے تم میری بہن ہو اور اس سرزمین میںتمہارے سوا کسی سے میرا یہ دینی رشتہ نہیں ہے۔
اس تعریض کی حقیقت، ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ سے خود ظاہر فرما دی کہ اس سے دینی اخوت مراد ہے ، گو کہ ظالم اس سے بظاہر نسبی اخوت سمجھے گا۔ اس تعریض سے یہی مغالطہ مقصود ہے۔ تاکہ عصمت بھی محفوظ رہے اور شر بھی نہ پہنچ سکے۔
ایسے حالات میں تو اگر عصمت کی حفاظت اور حدود اللہ کے احترام کے لئے اگر واضح جھوٹ بھی بولا جائے تو اس میں کچھ حرج نہیں۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعریض کی راہ اختیار فرمائی، جو درحقیقت صحیح ہے اور اس کی سچائی معلوم۔
حافظ ابن حجر نے فرمایا:
اس مقام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ کے سامنے حقیقت کھول دی، ظالم کو مغالطہ میںرکھا ۔ تعریض کا یہی مطلب ہے۔
بوہیو صاحب نے بھی کذب کے معاملہ میں یہیں تک گفتگو کی ہے۔ اس کے آگے کچھ عجیب و غریب اعتراضات ہیں، مثلاً
اب کوئی یہ بتائے کہ کسی جابر ظالم فاحش آدمی کے لئے اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اس کی پسندیدہ عورت کسی مرد کی کیا لگتی ہے ؟
بیوی ہو یا بہن ہے تو وہ عورت ہی اور جابر اور فاحش کا فحاشی والا مقصد تو دونوں سے یکساں طور پر پورا ہو سکتا ہے ۔
یہ حدیث ساز لوگ اس طرح کی ہیرا پھیری سے پڑھنے والوں کو بیوقوف بنانا چاہتے ہیں ۔
غور کیجئے کہ اس سوال کی بنیاد کوئی تاریخی واقعہ یا حقیقت نہیں، بلکہ فقط ایک ذہنی اپچ ہے کہ کسی ظالم شخص کے لئے رشتہ کی کیا اہمیت؟ حالانکہ عین ممکن ہے کہ وہ ظالم شخص بہن بھائی کے رشتہ کے معاملہ میںزیادہ حساس ہو اور اس کی بنیاد کوئی واقعہ بھی ہو سکتا ہے اور اس کا مذہب بھی۔ ہو سکتا ہے وہ آتش پرست ہو اور آتش پرستوں کے مذہب میںبہن بھائی کے رشتہ کی خصوصی اہمیت ہوا کرتی تھی۔ یہاں تک کہ بڑے سے بڑا بوالہوس آتش پرست بھی کسی کی بہن پر بری نظر نہیں ڈال سکتا تھا اور اپنے اس مذہبی اصول کا احترام کرتا تھا کہ جو عورت اپنے بھائی کی تولیت اور کفالت میں ہے یا جس عورت کو کسی شخص نے اپنی بہن بتا دیا ہے وہ ہرطرح سے محفوظ ومامون ہے اور اس کا بھائی ہی اس کے بارے میں تمام تر حق اختیار رکھتاتھا۔ ایسے فقط عقلی سوالات گھڑ کر اور خود ساختہ پس منظر پیدا کر کے صحیحسند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ حدیثکا انکار کرنے والوں کو منکر حدیث کہا جائے تو ہمارے بھائی اسے بھی ہماری ہی جانب سے سختی اور شدت سمجھتے ہیں۔
گالی کا معاملہ:
حدیثکے بعض الفاظ سے گالی اور تبرا کو بھی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو فی الحال موضوع سے متعلق نہیں۔ لہٰذا اس سے متعلقہ بحث سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنی توجہ فقط کذبات ثلاثہ پر مرکوز رکھتے ہیں۔
کچھ مزید معروضات:
یہ بات کس قدر سچ ہے کہ تعصب کی عینک جس رنگ کی ہو، دنیا اسی رنگ میں رنگی نظر آتی ہے۔ جس حدیث سے ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فضیلت اور ان کی سچائی نظر آتی ہے، اسی سے ہمارے ان بھائیوں کو توہین و تنقیص کا پہلو ملتا ہے۔
اس حدیثسے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے زندگی بھر کبھی توریہ یا تعریض تک نہیں کی ماسوائے ان تین مقامات کے کہ جہاں انہوں نے دعوت و تبلیغ کی خاطر یا عصمت کی حفاظت کی خاطر توریہ کیا۔ ڈیڑھ صد سال سے بھی زائد عرصہ کی زندگی میں فقط تین ناگزیر مقامات کے علاوہ کبھی بھی خلاف واقعہ بات کا نہ کہنا بجائے خود حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بہت بڑی فضیلت اور ان کی سچائی کا ثبوت ہے۔
اس حدیثمیںدراصل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جھوٹ بولنے کی نفی کی گئی ہے نا کہ اسے ثابت کیا گیا ہے۔ علماء کی اصطلاح میںاس طرز کلام کو تاکید المدح بما یشبہ الذم کہتے ہیں۔ یعنی مدح میںاس طرحتاکیدی حکم لگانا کہ بظاہر اس میںمذمت کا پہلو نکلتا ہو۔ اس سے پہلے کہ علمائے کرام پر طعن و تشنیع شروع ہو، لیجئے قرآن مجید سے مثال ملاحظہ فرمائیں:
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ هَلْ تَنقِمُونَ مِنَّا إِلاَّ أَنْ آمَنَّا بِاللّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلُ وَأَنَّ أَكْثَرَكُمْ فَاسِقُونَ
کہہ دو اے اہلِ کتاب تم ہم میں کون سا عیب پاتے ہو بجز اس کے کہ ہم الله پر ایمان لائے ہیں اوراس پر جو ہمارے پاس بھیجی گئی ہے اور اس پر جو پہلے بھیجی جا چکی ہے باوجود اس کے تم میں اکثر لوگ نافرمان ہیں۔[المائدہ: 59]
اس آیت میں یہ ذکر ہے کہ اپنے آپ کو اہل اسلام عیب سے بری ثابت کرتے ہیں کہ ہم میں کوئی عیب نہیں۔ مگر طرز کلام میں ایک عیب کا اقرار کرتے ہیں، جو حقیقت میں عیب ہی نہیں۔ یعنی ہم میں صرف یہ عیب ہے کہ ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور کوئی عیب نہیں۔ مگر اللہ پر ایمان رکھنا چونکہ عیب نہیں، اس واسطے ثابت ہوا کہ ہم میں کوئی عیب نہیں۔ اسی طرح اس حدیث کا یہی مطلب ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نہایت راست باز تھے۔ پس ثابت ہوا کہ اگر وہ جھوٹے ہوتے تو ان تین مقامات پر بھی واضح جھوٹ بولتے، لیکن انہوں نے سنگین ترین مقامات پر بھی فقط توریہ سے کام لیا، لہٰذا ثابت ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔
کیونکہ جب یہ ثابت ہو گیا کہ جن باتوں کو کذب کہا گیا ہے، حقیقت میں بہرحال جھوٹ نہیں تھیں، تو اس حدیث کا یہی مطلب ہوا کہ ابراہیم علیہ السلام نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، پس حدیث میں جھوٹ کی نفی کی تاکید ہے نا کہ اثبات۔
ایک اہم ترین سوال:
اب یہاں آخر میں ایک نہایت اہم سوال کا جواب بہت ضروری ہے۔ یہ سوال بوہیو صاحب یا رانا صاحب کی جانب سے تو نہیں اٹھایا گیا، لیکن مخلص متبع سنت لوگوں میں بھی یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے یہ تین جھوٹ توریہ یا تعریض ہی کے قبیل سے تھے تو ان پر حدیث میں کذب کا اطلاق کیوں کیا گیا؟
یہ تذکرہ احادیث میں دو مقامات پر آیا ہے۔ ایک شفاعت کی حدیث میں کہ جب لوگ قیامت کے دن شفاعت کے لئے انبیاء کے پاس پھرتے پھراتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام معذرت کے طور پر فرمائیں گے:
انی قد کذبت ثلاث کذبات فذکر(ترمذی ، حسن صحیح: 297/4)
حضرت ابراہیم اپنے تین کذبات کا ذکر فرما کر شفاعت سے انکار فرما دیں گے۔ دوسرا مقام وہی ہے جو زیر بحث ہے۔
اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ جب یہ بات ثابت ہو چکی کہ یہ تعریض ہے، جسے من وجہ کذب کہا جا سکتا ہے، تو متکلم کو اختیار ہے جس عنوان سے چاہے تعبیر کرے۔
نیز حضرت ابراہیم علیہ السلام چونکہ شفاعت سے گریز فرما رہے ہیں، انہیں وہی عنوان اختیار کرنا چاہئے جو اس مقصد کے لئے مفید ہو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس قسم کی تعریض بھی عمر میں بس تین ہی دفعہ فرمائی، جو بذات خود من وجہ صدق ہے۔ حقیقت میں انہ کان صدیقا نبیا کی تائید ہے، تعارض ہے ہی نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحتاً فرمایا تو بھی سچ تھا اور تعریضاً فرمایا تو بھی سچ تھا۔ صدیقا کا معنی یہی ہے کہ:
لم یکذب قط اولم یکذب الا قلیلا (لسان العرب، راغب، المحیط، قاموس وغیر ذالک من اسفار اللغۃ)
اب حضرت ابراہیم علیہ اللسام کے اس فعل تعریض پر کذب کا اطلاق اس وجہ سے بھی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شان اس سے بہت بلند و ارفع تھی کہ آپ مصلحتاً بھی ایسی بات کرتے جو اگرچہ درست تھی، مگر بظاہر خلاف واقع تھی۔ یہ بات اگرچہ بذات خود معمولی ہے، مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسبت بہت بڑی ہے۔ لہٰذا اسے حسنات الابرار سیئات المقربین کے تحت کذب کہا گیا ہے۔ قرآن مجید میں اس کی تائید حضرت نوح علیہ السلام کے واقعہ سے ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ اجازت دی تھی کہ اپنے اہل کو کشتی میں سوار کر لیں، آپ نے سمجھا کہ اہل میں بیٹا بھی شامل ہے، اس لئے اس کو بھی کشتہ پر بٹھانے کی اجازت طلب کی۔ حضرت نوح علیہ السلام نے لفظ اہل کی تعبیر میں غلطی کی تھی اور اگرچہ یہ معمولی نوعیت کی غلطی تھی تھی، کیونکہ بیٹا بھی لغوی طور پر اہل میں یقیناً شامل ہوتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی اس تعبیر کو ناروا فعل اور جہالت قرار دیا۔
قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ فَلاَ تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ
[11:46]
فرمایا اے نوح وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے کیوں کہ اس کے عمل اچھے نہیں ہیں سو مجھ سے مت پوچھ جس کا تجھے علم نہیں میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کہیں جاہلوں میں نہ ہو جاؤ.
جس طرح آیت کریمہ میں حضرت نوح علیہ السلام کی لغزش کو جہالت کہا گیا ہے۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعریض کو کذب کہہ دیا ہے۔ اب اگر قرآن کی تصریح کے مطابق جاہل کہنے سے حضرت نوح علیہ السلام کا جاہل ہونا ثابت نہیں ہوتا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کذب کا لفظ استعمال فرمانے سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کاذب کیسے بن گئے؟
پھر یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جب قرآن نے بعض حالات میں مردار کھانے کی اجازت دی ہے اور کسی شخص کو ویسے حالات پیش آ جائیں اور حدیث میں یہ تذکرہ آ جائے کہ فلاں فلاں حالات میں فلاں نیک بندہ مردار کھانے پر مجبور ہوا۔ تو کیا اسے حرام خور کہا جائے گا؟
اسی طرح اللہ نے اکڑ کر چلنے کی مذمت کی ہے، لیکن ساتھ ہی دوران جنگ ایسا کرنے کی اجازت بھی دی ہے، اب جو شخص دشمن کے مقابلہ میں اکڑ کر چلے گا، کیا اسے اللہ کے حکم کا نافرمان کہا جائے گا؟
اسی طرح حضرت آدم علیہ السلام کا اللہ تعالیٰ کے واضح و صریح حکم کی نافرمانی کرنا خود قرآن میں مذکور ہے جس پر وہ توبہ کرتے رہے۔ اب کیا انہیں اس کی وجہ سے نافرمان کہا جائے؟
بالکل اسی طرح کذب حرام ہے، لیکن جن مقامات پر اللہ نے اس کی اجازت دی ہے وہاں وہ درحقیقت صدق ہی ہے اور ایسے شخص کو کسی صورت کاذب نہیں کہا جا سکتا۔ مثلاً عصمت کی حفاظت کا معاملہ۔ اور دیگر دو معاملات تو خود قرآن میں مذکور ہیں ہی۔
ان گزارشات سے معلوم ہوا کہ کذب کو تعریض پر محمول کرنا ایک بالکل صحیح اور معقول توجیہ ہے، اور اس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عصمت پر کوئی زد نہیں پڑتی اور اس معنی کی رو سے کذبات ثلاثہ والی روایت انہ کان صدیقا نبیا آیت کے خلاف نہیں ہے ۔
واللہ اعلم۔
الحمدللہ، ہماری جواب ختم ہوا ۔ درحقیقت ان اعتراضات کے مدلل و مفصل جوابات تو علمائے کرام بہت پہلے دے چکے ہیں، میں نے تو فقط خوشہ چینی کی ہے۔ انہی کی کتب سے دلائل کو موضوع کی مناسبت سے جمع کر دیا ہے۔ شکریہ!
(از شکاری)
Source : Link