اطاعت ِرسولﷺاور پرویز
جو لوگ ‘ادارئہ طلوعِ اسلام’ کے اغراض و مقاصد اور مسٹرغلام احمدپرویز کے متعلق کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہیں، ان کو یقینا ادارئہ مذکور کے شائع کردہ پمفلٹ موسومہ ‘اطاعت ِرسول ‘کے نام سے بڑی حیرت ہوگی۔ لیکن یہ حیرت اسی قسم کی حیرت ہے جو مجھے مرزا غلام احمد قادیانی کی جماعت ِاحمدیہ کے ترجمان اخبار ‘الفضل’کی ایک خصوصی اشاعت موسومہ ‘خاتم النّبیین نمبر’ کے نام سے ہوئی تھی۔ کیونکہ مسٹر غلام احمد کا یہ درس اطاعت ِرسول اور مرزا غلام احمد قادیانی کا وہ عقیدئہ ختم نبوت نہ فی الواقع درسِ اطاعت ِرسول ہے اور نہ اعترافِ ختم رسالت!
جس طرح ختم رسالت کے معنی سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ محمد رسول اللہﷺپر بعثت ِانبیا ختم ہوگئی اور وہ آخری نبی تھے۔ اسی طرح اطاعت ِرسول اللہﷺکے معنی سوا ئے اس کے اور کچھ نہیں کہ حضورؐ کے ارشادات کی اطاعت کی جائے اور یہ بالکل ظاہر ہے کہ اطاعت ممکن ہی جب ہے کہ جس کی اطاعت کی جائے، اس کا حکم و ارشاد یا اس کی رہنمائی و ہدایت موجود ہو۔ اگر کوئی حکم یا ہدایت موجود ہی نہ ہو تو اس کی اطاعت کے کیا معنی یا اگر ہدایت اور حکم تو ہو لیکن کوئی شخص اس پر عمل کرنا ضروری نہ سمجھتا ہو تو پھر اطاعت کیوں کرے گا؟
اب یہ عجیب اتفاق ہے کہ مرزا غلام احمد اور مسٹر غلام احمد دونوں ہی ختم نبوت اور اطاعت ِرسول کے منکرہیں۔ لیکن دونوں ہی بالترتیب ختم نبوت اور اطاعت ِرسول کے مسئلے پر زور دیتے ہیں۔ وہ آنحضرتﷺکو خاتم النّبیین تسلیم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور یہ اطاعت ِرسول کا درس دیتے ہیں لیکن جس طرح کا ان کو اعتراف ہے اور جس قسم کی ان کی تفہیم ہے، اس کا مطلب اعتراف و تبلیغ کی بجائے محض انکار و تردید ہے اور یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ انکار کے لئے جوطریق کار (یاتکنیک) اوّل الذکر نے اختیار کیا، وہی بعینہٖ ثانی الذکر نے اختیار کیا یعنی مرزا غلام احمد نے لفظ ‘خاتم النّبیین’ کے معنیٰ بدل ڈالے اور مسٹر غلام احمد نے اطاعت ِرسول کا مطلب پلٹ دیا۔
جس طرح مرزائیوں نے کہاکہ خاتم النّبیین کے جو معنی سمجھے جاتے تھے (یعنی آخری نبی) وہ غلط ہیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ نبی جس کے بعد اس کی اُمت میں بہت سے نبی ہوں، اسی طرح پرویزیوں نے کہا کہ اطاعت ِرسول کا جو مطلب سمجھا جاتا ہے (یعنی ارشاداتِ آنحضرتؐ کی پیروی) وہ غلط ہے۔ اوراس کا صحیح مطلب ہے’مرکز ِملت کی اطاعت‘
مرزا غلام احمد کی ہفوات کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب ان کی جماعت میں سے بہت سے لوگوں کا خود اپنے پیشوا کے عقائد او راپنے طرزِ عمل پر تاسف بڑھتا جارہا ہے۔ لیکن مسٹر پرویز کے پیروکاروں کے حوصلے ابھی بلند ہیں اور ان کے خیالات کی کشتی ان کے منتشر اور غیر متوازن افکار کی تاریکیوں میں ساحل کی بجائے خوفناک چٹانوں کی طرف بہتی چلی جارہی ہے۔ ہمیں اس کشتی سے کوئی دلچسپی نہیں البتہ ان لوگوں کی سلامتی مقصود اور محبوب و مطلوب ہے جو اس پر سوار ہیں۔ اسی مدعا کے پیش نظر میںان کے رسالہ ‘اطاعت رسول’ کے مضمرات پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں۔ وما توفیقي إلا باللہ
‘عبادت؍بندگی’ اور ‘اطاعت؍محکومیت’ کو خلط مَلط کرنے کی کوشش
مقامِ شکر ہے کہ مسٹر پرویز کا یہ رسالہ اسی قدر گنجلک ، بے ربط، غیر منطقی اور اُلجھے ہوئے خیالات اور ناقص انشا کا ملغوبہ ہے کہ کوئی صحیح الخیال انسان یا عام فراست رکھنے والا شخص ایک لمحہ کے لئے بھی اس کے مندرجات سے متاثر نہیں ہوسکتا، البتہ عوام کا ‘مرض آمادہ’ مزاج اور افرنجیت کی مسموم فضا سے مائوف ذہن عجب نہیں کہ اس کا اثر قبول کرلے۔ بلاشبہ یہ ایک بدبختی ہوگی لیکن اس رسالہ کو مسٹر پرویز کی علمی فرومائیگی یا ان کی ابلہی اور بلید الفہمی کی دلیل قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ بڑے سے بڑا عالم یا دانشور بھی جب کسی واضح غلطی کی حمایت میں قلم اٹھائے گا تو اس کے خیالات میں الجھائو، بیان میں گل جھٹیاں اور استدلال میں ایسی ہی خامیاں ناگزیر ہوں گی۔ پرویز کے متعلق میرا نظریہ تو یہی ہے کہ غلط کو صحیح یا صحیح کو غلط ثابت کرنے کے لئے وہ صلاحیت بھی ان میں نہیں ہے جوو کلائے مرافعہ میں مشاہدہ کی جاتی ہے ۔ مثلا ً دیکھئے رسالہ کی پہلی ہی سطر میں لکھتے ہیں:
پہلی مثال
” دین کا مقصود ومطلوب یہ ہے کہ انسان کو دوسرے انسانوں کی محکومی سے نکال کر قوانین خداوندی کی اطاعت میںلایا جائے۔”اس دعویٰ کے ثبوت میں یہ آیت پیش کی ہے :﴿ما كانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤتِيَهُ اللَّهُ الكِتـٰبَ وَالحُكمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقولَ لِلنّاسِ كونوا عِبادًا لى مِن دونِ اللَّهِ وَلـٰكِن كونوا رَبّـٰنِيّـۧنَ…٧٩﴾… سورة آل عمران
”کسی انسان کو اس کا حق نہیں پہنچتا کہ اللہ اسے کتاب اور حکومت اور نبوت دے اور وہ لوگوں سے کہے کہ تم اللہ کو چھوڑ کر میری محکومی اختیار کرو۔ اسے یہی کہنا چاہئے کہ تم سب ربانی بن جائو۔”
اب چونکہ ایک غلط بات پیش نظر تھی کہ کوئی شخص نبی کا محکوم نہیں ہوسکتا، اس لئے پہلے تو آیت کا غلط ترجمہ کرنا پڑا۔﴿كونوا عِبادًا لى مِن دونِ اللَّهِ﴾کا صحیح مطلب تو یہ تھا کہ کوئی نبی یہ نہیں
کہہ سکتا کہ”اللہ کو چھوڑ کر میری ‘بندگی’ اختیار کرو”اس کی بجائے انہوں نے یہ ترجمہ کیا کہ ”اللہ کو چھوڑ کر میری ‘محکومی’اختیار کرو”… اس ترجمہ پر معترض کو یہ حق ہے کہ وہ کہے کہ شاید ان کو یہ بھی نہیں
علوم کہ عبدیت اور محکومی میں کتنا فرق ہے۔ پھر اسی آیت کے ترجمے میں انہوں نے خود حکومت کا لفظ لکھا ہے۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ خدا جس کو حکومت دے وہ کسی کو محکوم نہیں بنا سکتا تو کتنی بڑی حماقت ہے
بھلا وہ حکومت کیسی جہاں کوئی محکوم ہی نہ ہو۔ یہ دونوں باتیں اگرچہ مسٹر پرویز کے علم اور عقل کی کوتاہی پر دال ہیں۔ لیکن میں ان کو ایسا نہیں سمجھتا۔ یہ قصور علم اور عقل کا نہیں بلکہ اس غلط تصور کا ہے جو ان کے
ذہن پر مسلط ہے اور جس کے لئے انہیں یہ پاپڑ بیلنے پڑے ہیں۔ اگر وہ ذرا سی بھی کوشش کرتے تو ان کو قرآنِ حکیم کے اُردو ترجموں میں بھی یہ بات لکھی ہوئی نظر آجاتی کہ آنحضرتﷺپر بعض دشمنانِ دین
نے یہ الزام لگایا کہ یہ شخص اللہ کی بجائے اپنی عبادت کروانا چاہتا ہے۔ اس پر یہ آیت اُتری کہ بھلا کوئی نبی ایسا کرسکتا ہے؟ آخر اس طرح صحیح مطلب بیان کرنے میں کون سی اسلامی روح کچلی جارہی تھی جس کی
حفاظت کے لئے انہوں نے کلامِ الٰہی کی معنوی تحریف بھی کی اور کچھ مطلب حل نہ ہوا۔
زیر نظر رسالہ اسی قسم کی متعدد غلط اندیشیوں سے پرُ ہے۔ میں نے پہلی ہی سطر سے یہ مثال محض نمونہ کے طور پر پیش کی ہے۔ اب میں ان غیر اسلامی، بے مصرف اور غلط خیالات کا جائزہ لینا چاہتا ہوں جو مسٹر پرویز نے اس رسالہ میں پیش کئے ہیں۔
اس رسالہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے موضوع کو ایک غلط مقصود کا وسیلہ بنایا گیا ہے او ر اس طرح ایک نہایت متعفن غذا کو مکلف خوان پوش میں پیش کیا گیا ہے۔
موضوعِ کتاب تو ‘اطاعت ِحق’ ہے جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ
”اطاعت اور محکومیت صرف خدا کی ہوسکتی ہے۔کسی انسان کی نہیں۔” (ص ۴)
اور مقصود یہ ہے کہ احادیث ِرسول اللہﷺ کا اتباع نہ کیا جائے۔ حالانکہ اسی کا نام انکارِ سنت ہے اور یہی مسٹر پرویز کا مخصوص نظریہ ہے۔اس مقصد کے لئے سب سے پہلے انہوں نے آیاتِ قرآن حکیم سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہر شخص کو صرف اللہ کا حکم ماننا چاہئے۔
میرے خیال میں اس مضمون کی تائید میں کلام پاک کا یہ ٹکڑاکافی تھا:﴿إِنِ الحُكمُ إِلّا لِلَّهِ﴾یعنی ”حکم دینے کا حق سوائے اللہ کے اور کسی کو بھی نہیں ہے۔ ” (الانعام: ۵۷)
لیکن انہوں نے بے سبب قرآنِ حکیم کی بعض غیر متعلقہ آیات کا غلط اور بے محل ترجمہ کرکے اپنی بصیرت کو ناحق مجروح کیا ہے، مثلاً﴿أَمَرَ أَلّا تَعبُدوا إِلّا إِيّاهُ﴾کا نہایت واضح مطلب یہ ہے کہ”اللہ
نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی ‘عبادت’ نہ کرو۔”لیکن پرویز کہتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کے سوا کسی کی ‘اطاعت’ مت کرو اور پھر زور دیا ہے کہ قرآن کی رو سے خدا کی ‘اطاعت’ یا ‘محکومیت’ اور
خدا کی ‘عبادت’ سے مراد ایک ہی چیز ہے۔ پھر اس باطل خیال کو صحیح ثابت کرنے کے لئے قرآن حکیم کی دوسری متعدد آیات میں ان کو معنوی تحریف کرنا پڑی۔
عبادت اور اطاعت میں فرق:حالانکہ یہ امر بالکل ظاہر ہے کہ ‘عبادت’ اور ‘اطاعت’ کے مفہوم میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ عبادت اللہ کے سوا کسی کی نہیں ہوسکتی او راطاعت اللہ کے سوا دوسروں کی بھی
ہوسکتی ہے بلکہ بعض اوقات ضروری ہوتی ہے۔ یعنی عبادت خاص اللہ کے لئے ہے اور اطاعت کسی کی بھی ہوسکتی ہے۔ قرآنِ حکیم میں﴿أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ﴾‘‘یعنی اللہ کی اطاعت ‘
کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔”کے الفاظ کم وبیش ۲۰ بار آئے ہیں لیکن«اُعْبُدُوْا اللّٰه وَاعْبُدُوْا الرَّسُوْلَ»ایک جگہ بھی نہیں۔ اگر اطاعت اور عبادت ایک ہی چیز ہوتی تو« اُعْبُدُوْا
الرَّسُوْلَ»بھی کہیں نہ کہیں ضرور ہوتا۔عبادت کا جہاں کہیں بھی ذکر ہے، وہاں«اُعْبُدُوْا رَبَّکُمْ ، اُعْبُدُوْا اللّٰهَ ، فَاعْبُدِ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّه ، وَمَا اُمِرُوْا اِلاَّ
لِيَعْبُدُوْا اللّٰهَ»یعنی اپنے ربّ کی عبادت کرو، عبادت صرف اُسی اللہ کی کرو، اللہ کے سوا کسی کی عباد ت کا تمہیں حکم نہیں دیا گیا وغیرہ۔
متعدد آیات میں اللہ کی عبادت کا حکم ہے اور اس کے سوا غیر اللہ کی عبادت سے روکا گیا ہے:﴿وَقَضىٰ رَبُّكَ أَلّا تَعبُدوا إِلّا إِيّاهُ…٢٣﴾… سورة الاسراء”تیرے ربّ کا یہ قطعی
حکم ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔”غرض تمام قرآن میں عبادت کا مستحق اللہ کے سوا کسی اور کو قرار نہیں دیا گیا۔ لیکن اللہ اور رسول کی اطاعت کا حکم یکجا طور پر بھی ہے اور آنحضرتﷺکی
اطاعت کا حکم انفرادی طور پر بھی ہے:
﴿وَأَطيعُوا الرَّسولَ لَعَلَّكُم تُرحَمونَ٥٦﴾… سورة النور”رسول کی اطاعت کرو کہ تم پر اللہ کا فضل ہو۔”
﴿وَما ءاتىٰكُمُ الرَّسولُ فَخُذوهُ وَما نَهىٰكُم عَنهُ فَانتَهوا…٧﴾… سورة الحشر”رسول جو (حکم؍رہنمائی) دے، اسے اختیار کرو اور جس سے منع کرے، اس
سے باز رہو۔”
دوسری آیات سے ‘اطاعت’ کے معنی بھی ظاہرہوگئے کہ اطاعت نام ہے اوامر پر عمل کرنے اور نواہی سے بچنے کا۔ غرض جو حکم بھی رسول دے، اس پر عمل پیرا ہونااسی طرح واجب ہے جس طرح اس حکم پر عمل پیرا ہونا جو اللہ نے دیا اور چونکہ اطاعت ِرسولؐ کا یہ حکم بھی اللہ کا ہے، اس لئے جو شخص رسول کی اطاعت کرتا ہے وہ فی الواقع اللہ کے حکم کی اطاعت کرتاہے اور یہ توجیہ خود ساختہ نہیں ہے بلکہ قرآنی صراحت موجود ہے:﴿مَن يُطِعِ الرَّسولَ فَقَد أَطاعَ اللَّهَ…٨٠﴾… سورة النساء
”جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔”
لیکن قرآن میں یہ کہیں بھی نہیں ہے کہ جس نے رسول کی عبادت کی، اس نے اللہ کی عبادت کی۔ کیونکہ اطاعت اور عبادت دونوں بالکل مختلف المعنی الفاظ ہیں۔ اگر کوئی شخص ذرا سی حقیقت پسندی کو کام میں لائے تو وہ تسلیم کرلے گا کہ بلاشبہ احکامِ الٰہی کی اطاعت بھی عبادت ہے لیکن ایسی صورتیں بھی ہیں کہ غیر اللہ کی اطاعت بھی عبادتِ الٰہی بن جاتی ہے۔ لیکن یہ کبھی ممکن نہیں کہ غیراللہ کی عبادت بھی کسی صورت اللہ کی عبادت قرار دی جائے۔ اطاعت ِرسول کا واجب ہونا اور عبادتِ رسول کا حرام ہونا قرآنِ حکیم کی نہایت واضح تعلیمات میں سے ہے۔
دوسری مثال
مسٹر پرویز نے عبادت اور اطاعت کے مفہوم کو کچھ اس طرح اُلجھا دیا ہے کہ ان کی تمام تقریر مہمل ہو کر رہ گئی ہے۔ چنانچہ آیت﴿إِنِ الحُكمُ إِلّا لِلَّهِ ۚ أَمَرَ أَلّا تَعبُدوا إِلّا إِيّاهُ…٤٠﴾کے تحت لکھا ہے:
”اگر عبادت سے مراد پرستش لی جائے تو آیت کے کچھ معنی ہی نہیں بنتے۔ حکومت صرف اللہ کے لئے ہے تم صرف اس کی پرستش کرو۔ خدا کی پرستش تو ہر حکومت میں ہوسکتی ہے۔ اقوام متحدہ نے بنیادی حقوقِ
انسانیت کا جو منشور شائع کیا ہے، اس میں پرستش کی آزادی کو انسانوں کا بنیادی حق قرار دیا ہے۔” (ص۳)
یہ عبارت ‘ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ’ کی مشہور کہاوت کے عین مصداق ہے۔ آیت کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ کے سوا اور کسی کا حکم واجب التّسلیم نہیں اور اس کا حکم یہ ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کرو۔ امریکہ میں ہو یا انگلستان میں ، روس میں ہو یا پاکستان میں، بہرحال عبادت اللہ کی کرو او ریہی اللہ کا حکم ہے۔ اگر خدا کی پرستش ہر حکومت میں ہوسکتی ہے تو آیت کے معنوں میں کیا خلل پیدا ہوگیا۔
اس سے بھی زیادہ مہمل عبارت یہ ہے:
”خدا کی پرستش تو ہم انگریز کے عہد ِحکومت میں بھی کرتے تھے اور آج ہندوستان کامسلمان بھی خدا کی پرستش کرتاہے۔ اس لئے قرآن کی رو سے خدا کی عبادت سے مراد ہی اس کی محکومیت اختیار کرنا ہے۔” (ص۳)
کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ انگریز کے عہد ِحکومت میں خدا کی پرستش جو ہم کرتے تھے اور آج ہندوستان کا مسلمان جو خدا کی پرستش کرتاہے وہ اللہ کی محکومیت سے باہرہوکر کرتا ہے اور پاکستان یا عربستان میں جو آپ خدا کی پرستش کرتے ہیں تو وہاں اللہ کی محکومیت کے اندر رہ کرکرتے ہیں۔
ایک اور عبارت اس سے بھی زیادہ لغو ہے:
”اگر خدا کی اطاعت سے مقصود محض پرستش، پوجا پاٹ، بندگی ہوتا تو ہر شخص اپنی اپنی جگہ خدا کی کتاب کی اطاعت کرسکتا تھا۔ کوئی مندر میں، کوئی مسجد میں، کوئی صومعہ میں، کوئی کلیسا میں، کوئی خانقاہ میں اور
کوئی زاویہ میں… مذہب کی رو سے خدا کی اطاعت کا یہی مفہوم ہے۔”
کیا فی الواقع مسٹر پرویز مہمل طرازی کے اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ جو لوگ پوجا پاٹ اور مندروں او رکلیسائوں میں عبادت کرتے ہیں، وہ خدا کی کتاب کی اطاعت ہے؟ یا کسی صورت اس کو خدا کی کتاب کی اطاعت کہا جاسکتا ہے؟ اور کیا خدا کی کتاب کا بنایا ہوا مذہب وہی ہے جو مندروں اور گرجائوں میں دیکھا جاتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ان ہفوات سے ملت ِاسلامیہ کی کون سی عظیم الشان خدمت انجام دی جارہی ہے اور مسلمانوں کا روپیہ کس مقصد ِاعلیٰ اور کس دینی اصلاح کے لئے بے دریغ صرف کیا جارہا ہے۔
اس عبارت میں ایک او رابلہ فریبی سے کام لیا گیا ہے کہ اس میں بجائے لفظ عبادت کے اطاعت کا لفظ استعمال کیا ہے۔ گویا مسلمان بھی مسٹر پرویز کی طرح عبادت اور اطاعت کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ہر صحیح الخیال شخص دونوں کا فرق اچھی طرح جانتا ہے۔
بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اطاعت کا عام مفہوم جس کو ایک معمولی درجہ کی فراست کا انسان بھی سمجھ سکتا ہے، مسٹر پرویز اس کے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اطاعت کا مفہوم ذہن نشین کرنے کے لئے یہ مثال ذہن میں رکھئے کہ کوئی بادشاہ اپنی محکوم رعایا میں سے کسی کو حاضر بارگاہ ہونے کا حکم دیتا ہے۔ اب اس حکم کی اطاعت ممکن ہی نہیں جب تک کہ وہ شخص شاہی گماشتوں کے ان احکامات کی بھی اطاعت نہ کرے جو حضوریٔ بارگاہ کے لئے ضروری ہیں۔ مثلاً ستھرا لباس، وقت کی پابندی، ادب اور قاعدے کے وہ طریقے جو شاہی دربار میں پیش ہونے کے لئے ضروری ہیں۔ عمالِ سلطنت اس کو ہر قدم پر ہدایات دیتے رہیں گے۔ اگر ان میں سے اس نے کسی ایک ہدایت یا حکم کی پروا نہ کی تو گویا ا س نے شاہی حکم کی تعمیل سے جی چرایا۔ اب بادشاہ کے اصل حکم کی تعمیل کے لئے تمام متعلقہ حکامِ اعلیٰ و ادنیٰ کے حکم کی تعمیل لازمی ہوگی اور سب کی تعمیل کرنا ہوگی۔ یہی معنی ہیں خدا کے حکم کی اطاعت کے اور رسول اللہ ا اور پھر خدامِ رسول اللہ اور پھر خدامِ خدامِ الرسل کے اَحکام کی اطاعت کے ۔
نماز خدا کا ایک حکم ہے لیکن بندۂ حق خدا کے اس حکم کی اطاعت کر ہی نہیں سکتا جب تک رسول یہ نہ بتائے کہ نماز کیا ہے او رپھر وہ طریقے نہ سکھائے جو ادائے نماز کے لئے مقرر ہیں۔ کیونکہ رسول اسی کام کے لئے بھیجا جاتاہے او راسی لئے اسے مامور من اللہ کہتے ہیں۔ جس طرح ایک دانشمند مدار المہام سلطنت شاہی احکام کی تبلیغ کے بعد تعمیل حکم کے لئے ہدایات نافذ کرتا ہے، اسی طرح ایک مامور من اللہ احکام الٰہی کی تبلیغ کے بعد تعمیل کے لئے ہدایات دیتا ہے۔﴿يُعَلِّمُهُمُ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ﴾کے یہی معنی ہیں کہ رسول صرف اللہ کا حکم سنا کر سبکدوش نہیں ہوجاتا بلکہ اس حکم کی اطاعت کے لئے ضروری
احکامات بھی نافذ کرتا ہے۔ نہایت بدبخت ہے وہ رعایا جو عمالِ شاہی کی ہدایات کو تسلیم نہ کرے اور نہایت بدبخت ہے وہ مسلمان جو رسول اللہ کی اطاعت کو بھی واجب نہ جانے۔
اطاعت ِرسول کا صحیح موقف اس سے کم، اس سے زیادہ یا اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔
لیکن مسٹر پرویز نے اطاعت ِرسول کے ایک ایسے معنی گھڑ لئے ہیں، جو اطاعت ِرسول کی بجائے مخالفت ِرسول کا ایک مستقل عنوان بن گیا ہے۔ یہاں پر آپ کو یقین نہ آئے گا کہ ایک مسلمان جو اس قرآن پر
ایمان رکھتا ہو جس میں اتباع و اطاعت رسولؐ کا حکم ایک دو جگہ نہیں بلکہ بیسیوں مقام پر موجود ہے، کس طرح اطاعت رسولؐ کی مخالفت کرسکتا ہے او رکیسے ممکن ہے کہ﴿أَطيعُوا الرَّسولَ﴾کے نہایت
واضح اور بار بار دہرائے ہوئے حکم سے انحراف کرے۔ بلاشبہ اطاعت ِرسول سے انکار کرنا عام مسلمانوں کے لئے ممکن ہی نہیں۔ لیکن مسٹر پرویز کو اسلامی نظریات سے کنارہ کش ہونے کی جو خاص فنی مہارت
حاصل ہے، اسی مہارت سے اس باب میں بھی انہوں نے کام لیا ہے۔ یہ کام احتساباً اگرچہ سخت مشکل تھا لیکن عملاً نہایت آسان ہے۔ ہم ان کے اس فن کا ذکر اجمالاً تو ابتدائی صفحات میں کرچکے ہیں، یہاں پر کس
قدر تفصیل اور وضاحت مقصود ہے۔
اطاعت ِرسول سے انحراف کی پرویزی دلیل:مسٹرپرویز نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں اطاعت ِخدا اور رسولؐ سے منکر ہوں۔ انہوں نے صرف یہ کہا کہ اطاعت ِخدا و رسولؐ کے معنی ‘نظامِ مرکز’ کی اطاعت ہے، وہ
ص۱۳ پرلکھتے ہیں:
”اللہ و رسولؐ سے مراد وہ نظامِ یا نظامِ مرکز ِامام ، امیر ہے ، جو اللہ کے قانون کو عملاً نافذ کرتا ہے”
اس عبارت کی خوبی یہ ہے کہ اس میں اللہ کے قانون کے نفاذ کا ذکر کرکے خدا کی اطاعت کا تصور تو باقی رکھا ہے لیکن رسول کی جگہ امام یا امیر کو دے دی گئی ہے یعنی جس طرح رسولؐ، اللہ کے قانون کو عملاً نافذ کرتا
ہے، اسی طرح امام یا امیر بھی اللہ ہی کے قانون کو عملاً نافذ کرتا ہے۔ اب آپ یہ تو کہہ ہی نہیں سکتے کہ یہ تعبیر حکم قرآناَطِيْعُوْا الرَّسُوْلَکے صریحاً خلاف ہے کیونکہ انہوں نے آگے چل کر وضاحت
کردی ہے کہ تمام مقامات میں ”اللہ و رسولؐ سے مراد امام یا امیر یا اسلامی نظام ہے۔” (ص ۱۳)
اور اس پر ستم ظریفی دیکھئے کہ فرماتے ہیں:
”یہ مفہوم انوکھا نہیں بلکہ شروع ہی سے ایسا سمجھا جاتا رہا ہے اور اب بھی ایسا ہی سمجھا جاتا ہے۔ اس پر ہمارے دور کی تفسیریں بھی شاہد ہیں، مثلاً ابوالکلام صاحب آزاد کی ترجمان القرآن اور مودودی صاحب کی
تفہیم القرآن۔” (ص ۱۳)
یعنی ‘ترجمان القرآن ‘ اور ‘تفہیم القرآن’ میں یہی بتایا گیا ہے کہ﴿أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ﴾میں اللہ اور رسول سے مراد امام یا امیر یا اسلامی نظام ہے۔ اس انکشاف سے ادھر تو مولانا آزاد
کی روح پھڑک ہی گئی ہوگی۔ ادھر مولانا مودودی کے رفقا کو لازم ہے کہ مسٹر پرویز کو اس معنی آفرینی کا شکریہ لکھ بھیجیں!!
اب ذرا آپ وہ دلیل جو اس امر کے ثبوت میں ہے کہ خدا اور رسول کے معنی امام یا امیر یا اسلامی نظام کے ہیں، جگر تھام کر سنئے۔ مبادا آپ کی فراست کلیجہ پھاڑ کر دم توڑ دے۔ فرماتے ہیں کہ
«اَطِيْعُوْا اللّٰهَ وَرَسُوْلَه، وَلَا تَوَلَّوْا عَنْه»میں اللہ اور رسول (دو) کا ذکر ہے اور عنہ میں ضمیر واحد ہے۔اس لئے ان دونوں سے مراد ایک امیر یا امام ہے۔”
عنہ کی ضمیر واحد ہونے سے خدا اور رسول کے معنی امیر یا اسلامی نظام کے کس طرح ہوگئے؟ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔ سردست یہ عبارت اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ مسٹرپرویز عربی زبان سے خوب
واقف ہیں۔ یہاں تک کہ ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ ‘عنہ’ میں ضمیر واحد ہے اور غالباً یہ ایک ایسا انکشاف ہے کہ آج تک کلامِ الٰہی کے مفسرین نہ دیکھ سکے کہ یہ ضمیر واحد ہے اور اس کے معنی سواے امیر یا ا سلامی
نظام کے اور کچھ ہو ہی نہیں سکتے! انہوں نے غلطی کی جو اس آیت کا یہ مطلب سمجھا کہ اس میں اللہ اور رسول کی اطاعت کا حکم اور رسول کے حکم سے سرتابی کرنے کی ممانعت ہے اور یہ نہ دیکھا کہ اس ضمیر واحد
کورسول کی طرف پھیر دینے سے مسٹر پرویز کا کارخانہ تباہ ہوجائے گا اور امارت و امامت یا اسلامی نظامت کا تصور ختم ہوجائے گا۔ لیکن یہ دلیل نظام اسلامی کے قرآنی ثبوت میں مسٹر پرویز کا شاہکار نہیں ہے کیونکہ اس سے بھی بڑا ثبوت انہوں نے یہ دیا ہے کہ
”ہمارے ہاں بھی گورنمنٹ (حکومت) یا نظامی اجتماعی ادارہ (Organisation) کے لئے واحد کے ہی صیغے استعمال ہوتے ہیں۔ یہی مفہوم قرآن کے ان مقامات میں ہے۔” ( ص۱۲)
اب تو شاید کسی شخص کو بھی شبہ نہیں رہے گا کہ اللہ و رسول کے معنی ‘اجتماعی ادارہ’ ہے کیونکہ انگریزی میں Organisation کے لئے واحد ضمیر استعمال ہوتی ہے …خدا یا! عام بصیرت کا کیا اس قدر
فقدان ہے کہ ایک شخص کو ایسے بے سروپا خیالات پیش کرنے کا حوصلہ ہوسکتا ہے؟
یقین ہے کہ اب کچھ کچھ آپ سمجھنے لگے ہوں گے کہ مسٹر پرویز کے اس ایچ پیچ اور خلجان میں پڑنے اور دوسروں کو خلجان میں ڈالنے سے کیا مدعا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ اطاعت ِرسول کا زمانہ ختم ہوچکا، اب نظامِ اسلامی کی اطاعت ہی رسول کی اطاعت ہے۔چنانچہ اطاعت ِرسول کے یہ معنی سمجھانے کے بعد اب اطاعت ِرسول کا طریقہ بھی سنئے:
”مذہب میں ہر شخص خدا کی اطاعت انفرادی طور پر کرتا ہے لیکن دین میں خدا کی اطاعت اجتماعی طور پر کرائی جاتی ہے [گویا خدا کی اطاعت جو اجتماعی طور پر کرائی جائے، اس کو مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ ناقل]
لہٰذا مذہب میں اطاعت کے لئے صرف خدا کی کتاب کافی ہوتی ہے۔ لیکن دنیا میں خدا کی اطاعت کے لئے کتاب کے علاوہ کسی جیتی جاگتی شخصیت کی بھی ضرورت ہوتی ہے [مدعا یہ ہے کہ جیتی جاگتی ہستی ہی نہ ہو
تو خدا کی اطاعت کیوں کر ممکن ہے؟]۔ اسلام ‘دین’ کا نظام ہے مذہب نہیں، اس لئے اس میں تنہا کتاب کافی نہیں۔ اس کتاب کے مطابق اطاعت ِخداوندی کرانے والامرکز بھی ضروری ہے۔ یہ مرکزی شخصیت
خدا کا رسول ہوتا ہے جس کی اطاعت خدا کی اطاعت ہوتی ہے۔” ( ص ۶) آگے لکھاہے:
”لیکن رسول چونکہ بشر ہوتا ہے اور کسی بشر کی اطاعت جائز نہیں، اس لئے رسول کی اطاعت اس کی اطاعت نہیں بلکہ خدا کی اطاعت ہوتی ہے۔” ( ص۷)
یہ مضمون آئندہ دو صفحات تک پھیلا ہوا ہے۔ جس کو اصطلاحِ قصائد میں ‘تشبیب’ کہتے ہیں لیکن اس تشبیب کے بعد اب گریز ملاحظہ کیجئے:
”یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ اطاعت اس کی کی جاتی ہے جس کی بات سنی جاسکے جو محسوس طور پر درمیان میںموجود ہو۔ جو محسوس طور پر درمیان میں موجو د نہ ہو، عملی معاملات میںاس کی اطاعت کی ہی نہیں جاسکتی۔” (ص ۱۱)
یہ گریز آپ کو مقصود کے قریب تر لا رہا ہے ، مزید سنئے:
”جب حضور نے وفات پائی تو کیفیت یہ ہوگئی کہ خدا کی کتاب تو موجود تھی لیکن وہ محسوس شخصیت جس نے کتاب اللہ کی اطاعت کروانی تھی [یہ جملہ کم سواد اشخاص کے خاص طرزِ نگارش میں سے ہے] موجود نہ
رہی۔ یہ تو الگ بات ہے کہ رسول اللہ نے اپنی احادیث کا کوئی مجموعہ مرتب فرما کر اُمت کو نہیں دیا تھا۔ اگر کوئی ایسا مجموعہ موجود بھی ہوتا تو بھی مشکل وہی رہتی کہ کتابیں موجود تھیں لیکن مرکزی شخصیت موجود
نہ تھی۔ [یہ پیش بندی اس لئے ہے کہ اگر احادیث کا کوئی مجموعہ ثابت بھی ہوجائے تو اس کو بے اثر اور بے فائدہ بنا دیا جائے] ” (ص ۱۹)
دیکھا آپ نے مسٹر پرویز نے کس بے ڈھنگے طریقہ سے حدیث کی افادیت کوختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ چاہتے تو حدیث کی موجودگی میں بھی خود کو مرکزی شخصیت ثابت کرکے حدیث کو بھی اسی طرح ختم کردیتے جس طرح انہوں نے قرآن کا خاتمہ کیا یعنی آیاتِ کلامِ الٰہی کی طرح احادیث کو بھی فرمودۂ رسول کہے جاتے او رمطلب من مانا بیان کرتے رہتے۔ اب کون تھا جو ان سے پوچھتا کہ دین اور مذہب کا یہ فرق کہاں سے نکالا؟… کسی ضمیر کے مفرد ہونے سے امیر یا حاکم کا مفہوم کیوں کر پیدا ہوا؟… اطاعت اور عبادت ایک ہی چیز کس طرح ہوئی؟… دین میں اجتماعی او رمذہب میں انفرادی عبادت کا تصور کہاں سے لیا؟… اطاعت کے لئے کسی جیتی جاگتی شخصیت کی تلاش کیوں ہے؟… اسلام کے مذہب نہ ہونے کی کیا دلیل ہے؟… مرکزی نظام کے بغیرخدا اور رسول کی اطاعت محال کیسے ہوئی؟… کسی بشر کی اطاعت کا ناجائز ہونا کس قرآن میں ہے؟… اگر رسول اللہ نے اپنی احادیث کا کوئی مجموعہ مرتب فرما کر نہیں دیا تو دنیا میںہے کوئی شخص جس نے اپنے اقوال کا مجموعہ خود مرتب کرکے دیا ہو… مسٹر پرویز کا قصر عقائد جن فاسد بنیادوں پر قائم ہے ان کا سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہوجاتا۔یہ رسالہ اس قسم کے اور بھی بے سروپا نظریات کا مجموعہ ہے۔ من جملہ ان کے ایک نہایت خلافِ عقل اور بے جان نظریہ یہ ہے کہ ”رسول بشر ہے اور کسی بشر کی اطاعت جائز نہیں٭۔” ( ص ۷)
رسولﷺ کی اطاعت واتباع فرض ہے!
میں کہتا ہوں او رہر عقل سلیم اس بات کو تسلیم کرے گی کہ رسول تو رسول ہے؛ ہر شخص کی بلکہ کافر تک کی بات مانی جاسکتی ہے بشرطیکہ وہ معصیت ِخالق پر منتج نہ ہو۔ کافر ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل کیوںکرتے ہو؟ کافر حاکم کا فیصلہ کیوںتسلیم کرتے ہو؟ کافر مدعی کے وکیل کیوں بنتے ہو، کافر وکیل کا مشورہ کیوں مانتے ہو؟ البتہ اگر پرویز کا یہ مطلب ہے کہ حکم الٰہی کے مخالف حکم کی اطاعت جائز نہیں تو یہ بلاشبہ درست ہے، خود نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ«لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق»یعنی بڑے سے بڑے بادشاہ کا بھی ایسا حکم ماننا جائز نہیں ہے جس میں اللہ کی نافرمانی ہوتی ہو۔ لیکن ایسی
صورت میں ‘رسول’ کا ذکر خارج از بحث ہے کیونکہ کبھی کوئی رسول معصیت ِخالق کا حکم دے ہی نہیں سکتا۔ لہٰذا یہ جملہ رسول بشر ہے اور کسی بشر کی اطاعت جائز نہیں، ایک ایسے منطقی تضاد پر مشتمل ہے جس
کے قرب و جوار میں بھی عقل وفراست کا گزر نہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ مسٹر پرویز کے تمام استدلالات کی اصل بنیاد اسی ایک ابلہ فریب اصول پر ہے کہ خدا کے سوا کسی کی اطاعت جائز ہی نہیں۔صحیح خیال یہ ہے کہ ہر شخص کی اطاعت جائز ہے بشرطیکہ اس اطاعت سے احکامِ الٰہی کی مخالفت نہ ہو۔ لیکن رسول کی اطاعت جائز کیا، واجب ہے کیونکہ اس میںاحکامِ الٰہی کی مخالفت ممکن ہی نہیں!!
رسول اور غیر رسول کی اطاعت میںیہ فرق ہے اور یہ ایک ایسا ثابت شدہ قطعی اور محکم اُصول ہے جسے تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں۔ اور یہ جو مسٹر پرویز نے لکھا ہے:
٭ اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ کسی نبی کو اس کا حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوگوں سے اپنی اطاعت کروائے۔” (ص ۷)
نہایت شرمناک جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ نے واضح کیا، غیر واضح الفاظ میں بھی نہیں فرمایا کہ کسی نبی کو اس کا حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوگوں سے اپنی اطاعت کروائے۔ بلکہ اس کے بالکل برعکس اس کا واضح ارشاد ہے کہ نبی کا منصب ہی یہ ہے کہ لوگوں سے اپنی اطاعت کروائے:
﴿وَما أَرسَلنا مِن رَسولٍ إِلّا لِيُطاعَ بِإِذنِ اللَّهِ…٦٤﴾… سورة النساء
”یعنی ہم نے رسول کو بھیجا ہی اس لئے ہے کہ بحکم الٰہی اس کی اطاعت کی جائے۔”
٭ اسی طرح یہ کہنا بھی کہ
”خدا کی اطاعت براہِ راست نہیں کی جاسکتی، اس کی اطاعت رسول کی وساطت سے کی جاسکتی ہے۔” (ص ۷)
علمی اور منطقی لحاظ سے ایک مہمل جملہ ہے۔ کیونکہ کسی کی وساطت سے کسی کے حکم کی اطاعت کے ہمیشہ یہ معنی ہوتے ہیں کہ کوئی شخص خود تعمیل حکم نہ کرے بلکہ کسی اور سے کروادے مثلاً خاوند بیوی کو کھانا لانے کا حکم دے اور بیوی نوکر کے ہاتھ کھانا بھیج دے تو یہ خاوند کی اطاعت نوکر کی وساطت سے ہوئی۔ لیکن یہ صورت یہاں نہیں ہے۔ اللہ نے بندے کو جن فرائض کی بجا آوری کا حکم دیا ہے، اس کا بجا لانا براہِ راست بندے ہی کا کام ہے۔ اس کی اطاعت رسول کی بجا آوری سے نہیں ہوسکتی۔عیسائیت کی بنیاد اسی غلط خیال پر قائم ہے۔
مسٹر پرویز اگر یہ کہنا چاہتے تھے کہ خدا کی اطاعت کا طریقہ رسول کی ہدایت کے بغیر کوئی شخص نہیں جان سکتا تو یہ بلاشبہ درست ہے ۔ لیکن اس مدعا کے لئے یہ عبارت صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اطاعت کا جہاں تک سوال ہے وہ براہِ راست ہی ہر شخص کو کرنا پڑے گی۔ ہر متنفس احکامِ الٰہی کی اطاعت کا براہِ راست مکلف ہے۔ کاش مسٹر پرویز سمجھ سکیں کہ اطاعت کے مفہوم کو وساطت سے کوئی نسبت نہیں۔ رسول کی وساطت حکم پہنچانے کے لئے ہوتی ہے۔ اطاعت کے لئے رسول کی وساطت ایک بے معنی تخیل ہے۔
٭ اسی طرح اس آیت کا مدعا بھی نہایت گنجلک بنا دیا گیا ہے :﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِى الأَمرِ مِنكُم ۖ فَإِن تَنـٰزَعتُم فى شَىءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ…٥٩﴾… سورة النساء”اے ایمان والو! تم اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی او راپنے میں سے صاحب اختیار لوگوں کی۔
پھر اگر کسی معاملہ میں تمہیں اختلاف (منازعت) ہو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لے جائو۔”
لکھتے ہیں کہ ”اس آیت میں اسلامی نظام کا پورا نقشہ دے دیا گیا ہے۔”
اگر اسلامی نظام سے مراد اسلامی نظامِ حیات ہے تو کسی شخص کو انکار کی گنجائش نہیں۔ بلاشبہ اس میں اسلامی نظامِ زندگی کا نقشہ بتایا گیا ہے کہ خدا کے حکم کو مانو اور رسول ؐ کے حکم کو بھی مانو او رحاکم وقت کی بھی اطاعت کرو۔ لیکن حاکم وقت کی اطاعت کے لئے یہ شرط بڑھانا ضروری ہے کہ اس کا حکم واجب اطاعت جبھی ہوگا کہ وہ خدا اور رسول کے احکام کے خلاف نہ ہو۔
لیکن اسلامی نظام کے وہ خدوخال جو مسٹر پرویز نے پیش کئے ہیں، وہ اس آیت کی تصریحات سے کوسوں دور ہیں ۔
”اس نظام میں تمام متنازعہ فیہ اُمور کے فیصلوں کے لئے رسولؐ کے پاس آنے کا حکم ہے۔” (ص۱۴)
کوئی پوچھے کہ رسول کے پاس آنے کا حکم اس آیت میں کہاں پر ہے۔ اگر لفظردوہ الی الرسولکے معنی رسول کے پاس آنے کے ہیں تو رُدُّوْه اِلَی اللّٰهِ کے معنی اللہ کے پاس جانے کے کیوں نہیں
ہیں؟ اللہ و رسول کی طرف کسی معاملہ کو لے جانے کا واضح مدعا صرف یہ ہے کہ دوباتوں میں سے جو بات کتاب و سنت کے مطابق ہو، اس پر عمل کرو۔ لیکن وہ شخص جو سنت کا قائل ہی نہ ہو وہ اس بات کو کیسے مان
سکتا ہے۔ مسٹر پرویز کو چاہئے کہ وہ دیکھیں کہ کسی امر کے پیش آنے پر فقہائے اسلام کس طرح اس کو اللہ ورسول کی طرف ردّ کرتے یا لے جاتے تھے۔
٭ یہاں پر یہ خیال پیدا ہوسکتا ہے کہ قرآنِ حکیم سے رسولؐ کے پاس آنے کا حکم ثابت کرنے سے مسٹر پرویز کے مقاصد کو کیا تقویت پہنچتی ہے۔ اس کی تفصیل کے لئے ملحقہ عبارت کو پڑھئے:
”لیکن جب یہ نظام مدینہ سے آگے بڑھا تو یہ عملاً ناممکن تھاکہ دور دراز کے لوگ اپنے مقدمات کے فیصلوں کے لئے مرکز کی طرف آتے۔ اس کے لئے مختلف مقامات میں ماتحت افسر’صاحبانِ امر’ مقر ر کرنے
پڑتے۔” (ص ۱۴)
اب دیکھئے رسول ؐ کے پاس آنے کا حکم کس طرح غیر رسول کے پاس جانے کے حکم میں منتقل ہوتا جارہا ہے۔ آگے بڑھئے:
”ان افسروں یا عدالتوں کی اطاعت خود مرکزی حکومت کی اطاعت تھی لیکن ایک فرق کے ساتھ اور وہ یہ کہ مرکزی حکومت کے فیصلوں کے خلاف کہیں اپیل نہیں ہوسکتی تھی، اس کا فیصلہ حرف ِ آخر تھا لیکن ان ماتحت عدالتوں کے فیصلے کے خلاف مرکز میں اپیل ہوسکتی تھی۔ یہ مطلب ہے اس سے کہ
﴿فَإِن تَنـٰزَعتُم فى شَىءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ﴾اگر تم میں اور اولی الامر صاحبان اور افسرانِ ماتحت میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو تم ایسے معاملے کو مرکز کی
طرف Refer کرو۔ وہاں سے جو فیصلہ صادر ہو، اس کی اطاعت تم پر فرض ہوجائے گی۔”
غور کرتے جائیے کہ پہلے رسول کا فیصلہ مطلوب تھا، پھر رسول کے بعد ماتحت افسروں کا فیصلہ واجب تسلیم ہوا۔ پھر اختلاف کی صورت میں مرکز کا فیصلہ قطعی ہوا۔ آخر کی عبارت میں ‘مرکز’ کا لفظ رسول کی بجائے مصلحتاً استعمال کیا گیا ہے۔ آگے چل کر یہ مرکز جس کے ساتھ رسول کا تصور ہنوزباقی ہے، خالصتاً حکامِ وقت کے تصور میں بدل جائے گا۔ سائنس کی اصطلاح میں اس کو ‘عمل تبخیر’ یا ‘عمل تقطیر’ کہتے ہیں۔
پرویزی ‘مرکز ملت’ کے فیصلوں کی حیثیت:اب اس فیصلہ کی حقیقت سنئے جس کا مرکز سے قطعی طور پر صادر ہونا اور جس کی اطاعت فرض ہونا بتایا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ
”حضور فیصلے وحی کی رو سے نہیں کرتے تھے__ اپنی ذاتی بصیرت کے مطابق کیا کرتے تھے__ ان میں اس کا بھی امکان تھا کہ حق دار کے خلاف فیصلہ صادر کر دیا جائے… یہ قرآن کی اس آیت کے مطابق ہے
جس میں حضور سے کہا گیا ہے کہ … ”ان سے کہہ دو کہ اگر میں کسی معاملے میں غلطی کرتا ہوں تو وہ غلطی میری اپنی وجہ سے ہوتی ہے، اس کا ذمہ دار میں خود ہوتا ہوں، لہٰذا اس کا وبال بھی مجھ پر ہوگا۔ اور اگر میں صحیح راستہ پر ہوتا ہوں تو وہ اس وحی کی بنا پر ہے جو میرے ربّ کی طرف سے میری طرف آئی ہے۔” (ص ۱۶، ملحضا ً)
واضح ہو کہ مسٹر پرویز نے ان خیالات کو قرآن اور حدیث کی رو سے ثابت کیا ہے۔ اگر چہ احادیث کو وہ ظنی اور ناقابل یقین تصور کرتے ہیں لیکن جہاں تک ان خیالات کا تعلق ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہم اس کو صحیح تسلیم کرتے ہیں۔ یہ بات کہ یہ خیالات کہاں تک قرآن و حدیث کے مطابق ہیں، ہم آگے بیان کریں گے؛ سردست حضورؐ کے فیصلوں کو کسی دیہات کی چوپال میں نمبردار چودھری کے فیصلہ کے برابر رکھ کردیکھئے تو آپ دونوں میں کوئی خط ِامتیاز قائم نہ کرسکیں گے۔ کیونکہ بہرحال اس کا فیصلہ صحیح ہوگا یا غلط۔ غلط ہو تو اس کا ذمہ دار چودھری خود ہے اور اس کا وبال بھی اسی پر ہوگا لیکن اگر وہ صحیح ہے تو توفیق الٰہی سے ہوگا۔ دونوں میں فرق صرف الفاظ کا ہے۔ وہاں جس چیز کو وحی کہا گیا ہے یہاں توفیق ِالٰہی کہہ دیا گیا ہے۔
حضورؐ کے فیصلوں کو اس مقام پر لے آنے کی وجہ یہ ہے کہ آگے چل کر مسٹر پرویز کو خدا اور رسول کی اطاعت کی یہی صورت بیان کرنی ہے اور اسی کو وہ ‘خلافت علی منہاجِ نبوت’ کہتے ہیں۔ لیکن یہاں ایک بار پھر مسٹر پرویز کی دینی بصیرت پر ہمیں افسوس کرنا چاہئے کہ ان کے خیال میں حضور کے فیصلے کبھی غلط ہوتے تھے اور وہ اپنے غلط فیصلوں کی ذمہ داری اپنے اوپر لیتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ ان کے غلط فیصلوں کا وبال ان پر ہوگا۔ حالانکہ نہ کوئی آیت اس پر شاہد ہے او رنہ کوئی حدیث اس کی تائید کرتی ہے اور نہ عقل ِسلیم کے نزدیک یہ ممکن ہے کہ خدا کا رسول غلط فیصلے کرے اور وبال کا مستوجب ہو۔
مشکل یہ ہے کہ مسٹر پرویز شاید یہ جانتے ہی نہیں کہ غلط فیصلہ کرنا کس کو کہتے ہیں؟ حضور کی ذاتِ گرامی کا تو ذکر ہی کیا، کسی عدالت کا ایک قانون دان جج بھی غلط فیصلہ نہیں کرتا۔ ان کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ فیصلہ حق دار کے خلاف ہو اور پھر بھی جج نے فیصلہ کرنے میں غلطی نہ کی ہو کیونکہ فیصلہ کے صحیح ہونے کا انحصار اس بات پر ہے کہ فیصلہ کرنے میں قانونی مطالبات کو کہاں تک پورا کیا گیا ہے۔ چنانچہ ابن قیم نے اسی بنا پر یہ اصول اخذ کیا ہےالأحکام الظاہرة تابعة للأدلة الظاہرةیعنی ظاہری احکام ظاہری دلائل کی بنا پر دیئے جائیں گے(حقیقت خواہ کچھ ہو)۔ (اعلام الموقعین:ج۳)
ہماری عدالتیں بھی نافذ الوقت قوانین ِشہادت کے مطابق فیصلہ کرتی ہیں اور رسول بھی فیصلہ کے وقت خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے قانون کی پیروی کرتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ حضور فیصلے وحی کی رو سے نہیں کرتے تھے، انتہائی بے خبری ہے۔ وحی کی رو سے فیصلے کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ان قاعدوں کو ملحوظ رکھا جائے جو فصل ِتنازعات کے باب میں اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی خفی یا وحی جلی کے تحت رسول اللہ کوبتا دیئے۔ اس میں ذاتی بصیرت کا جہاں تک تعلق ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ فصل ِتنازعات کے باب میں کسی قاعدئہ دین ِبرحق کی مراعات میں غفلت نہ فرماتے تھے۔ چنانچہ حضرت اُمّ سلمہ کی روایت جو مسٹر پرویز نے منکر حدیث ہونے کے باوجود بدیں ثبوت پیش کی ہے کہ حضور فصل معاملات میں غلطی بھی کردیتے تھے، اس میں خود یہ وضاحت ہے کہ ”اگر میں کسی شخص کو اس کے بیان کے مطابق اس کے بھائی کا حق دے دوں تو اسے سمجھنا چاہئے کہ میں اسے آگ کاٹکڑا دے رہا ہوں، اسے چاہئے کہ اسے نہ لے۔”
اس میں فیصلے کی غلطی کا ذکر نہیں ہے بلکہ اپنی طرف سے فیصلہ صحیح کرنے کا اعلان ہے کیونکہ حضور مدعی کے بیان کے مطابق فیصلہ جبھی دیتے تھے کہ مدعا علیہ دعوے کی غلطی ثابت نہ کرسکے۔ ایسا فیصلہ تو غلط نہیں کہا جاسکتا البتہ دعویٰ ہی غلط رہا ہو تو اس کا وبال مدعی کو بھگتنا پڑے گا۔ جس کو حضور نے آگ کے ٹکڑے سے تعبیر فرمایا۔
حدیث میں ایسی صورت بھی مروی ہے کہ ارتکابِ جرم کا ذاتی علم ہونے کے باوجود شہادت کی شرعی حیثیت مکمل نہ ہونے کے باعث مجرم کو بری کردیا گیا۔ جس طرح عدالت ہائے عالیہ کے فاضل ججوں کے فرائض میں سے ہے کہ وہ ذاتی بصیرت کو ملک کے قوانین عدلیہ کی حدود سے متجاوز نہ ہونے دیں،اسی طرح شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بھی فرض تھا کہ وہ ذاتی بصیرت کوشرعی ضوابط کی حدود سے بڑھنے نہ دیں۔ ہائی کورٹ کے بعض فیصلوں میں آپ کو یہ بھی ملے گاکہ خود فاضل ججوں نے اظہارِ افسوس کیا ہے کہ وہ مجرم کو استغاثہ کے نقائص کی بنا پر سزا نہ دے سکے، حالانکہ ان کی ذاتی بصیرت اور ذاتی معلومات ارتکابِ جرم کا ثبوت بہم پہنچاتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے فیصلوں کو غلط تسلیم نہیںکیا گیا۔ بلکہ وہی فیصلے دوسرے عدالتی فیصلوں کی نظیر قرار پائے۔ غرض یہ کہنا کہ حضور فیصلے وحی کی رو سے نہیں بلکہ ذاتی بصیرت سے کیا کرتے تھے، علومِ دینیہ بلکہ اُصول عدلیہ سے محض کورا ہونے کی دلیل ہے۔
مسٹر پرویز کی آشفتہ بیانی دیکھئے کہ اسی رسالے میں ایک جگہ آیت﴿فَاحكُم بَينَهُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ﴾پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
”رسول اللہ سے کہہ دیا گیا کہ اس نے لوگوں کے متنازعہ فیہ اُمور کے فیصلے کتاب اللہ کے مطابق کرنے ہیں۔”( ص ۷)
__یہ جملہ بھی اَدبِ اُردو میں شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے __ اور پھر یہ کہہ دیا کہ حضور مقدمات کے فیصلے وحی کی رو سے نہیں کرتے تھے۔اب یا تو اس کا یہ مطلب ہے کہ کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرنا وحی کی رو سے فیصلہ کرنا نہیں ہے اور یا پھر یہ کہ حضور خدا کے حکم کے خلاف کیا کرتے تھے۔ (نعوذ باللہ) مسٹر پرویز نے حضور کے بعض فیصلوںکو غلط ثابت کرنے کے لئے قرآنِ حکیم کی یہ آیت بھی پیش کر دی ہے کہ
﴿قُل إِن ضَلَلتُ فَإِنَّما أَضِلُّ عَلىٰ نَفسى ۖ وَإِنِ اهتَدَيتُ فَبِما يوحى إِلَىَّ رَبّى…٥٠﴾… سورة سبا”یعنی کہو کہ اگر میں غلط راستے پر ہوں تو یہ غلط راستہ اپنے ہی برے کو ہے اور اگر ٹھیک راستے پر ہوں تو جان رکھو کہ یہ میرے ربّ کی وحی ہے۔”
(اگر اس سے تم نے روگردانی کی تو گویا خدا سے پھر گئے)
مدعا یہ ہے کہ میں غلط راستے پر نہیں ہوں۔ میں خود اپنا برا کیوں چاہوں گا۔ تم کو تو یہ سوچنا چاہئے کہ اگر میں فی الواقع صحیح راستے پر ہوں تو یہ خدا کے حکم سے ہے۔ تمہارا کیا حشر ہوگا اگر تم نے یہ راہ اختیار نہ کی۔ یہاں پر نہ کسی متنازع فیہ امر کا ذکر ہے نہ مقدمات کی کارروائی کا۔ بلکہ اس سے پہلے کی آیت﴿قُل جاءَ الحَقُّ وَما يُبدِئُ البـٰطِلُ وَما يُعيدُ٤٩﴾… سورة سبا”یعنی سچ
عیاں ہوگیا اور جھوٹ ہیچ ہے، اوّل بھی اور آخر بھی ”__ نے نہایت وضاحت سے بتا دیا کہ یہاں پر محض ہدایت اور گمراہی کا تقابل ہے۔ حضور کے اس کہنے سے کہ اگر میں گمراہ ہوا تو اس کا خمیازہ مجھ کو بھگتنا
پڑے گا، یہ نتیجہ نکالنا کہ فی الواقع حضور گمراہی میں مبتلا تھے، ایک غبی انسان کے سوا اور کون نکال سکتا ہے۔ مسٹر پرویز نے اس کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ اگر میں کسی معاملے میں غلطی کرتا ہوں تو وہ غلطی میری اپنی
وجہ سے ہوتی ہے یعنی میں خود ایک و جہ ہوں غلطی کرنے کی، اس کی بابت کیا کہا جائے سوا اس کے کہ ع چہ بے خبرز مقامِ محمدؐ عربی است!
پرویزی مرکز ملت میں رسول اللہ کا مقام:رسول اللہﷺکے فرائض متعلقہ نظامِ اسلامی کی وہ تفصیل بھی قابل ِداد ہے جو اس رسالے میں بتائی گئی ہے:
”رسول اللہ کے ذمے اس ضمن میں دو کام تھے: ایک تو متنازعہ فیہ اُمور میں کتاب اللہ کے متعلق فیصلے کرنا اور دوسرے کتاب اللہ نے جن قوانین کو محض اُصولی طور پر بیان کیا تھا او ران کی جزئیات کو دانستہ چھوڑ دیا گیا تھا۔ تاکہ وہ بھی اصولوں کی طرح ہمیشہ کے لئے غیر متبدل نہ قرار پاجائیں؛ اپنے خیالات کے مطابق ان کی جزئیات متعین کرنا۔” ( ص۱۵)
متنازعہ اُمور کے فیصلے کی کیفیت اوپربیان ہوچکی او ریہ بھی ذکر ہوچکا کہ مسٹر پرویز کے نزدیک تمام متنازعہ امور کا فیصلہ مرکز کے باہر ماتحت افسران کیا کرتے تھے۔ اس طرح حضور کا کام صرف اپیل سننے تک تھا، وغیرہ… باقی قرآنی قوانین کے اُصول کی جزئیات کے متعلق وہ لکھتے ہیں کہ قرآن نے تو اسے دانستہ چھوڑ دیا کہ مبادا اُصول کی طرح جزئیات بھی غیر متبدل قرار نہ پاجائیں۔ یعنی اصول غیر متبدل ہیں لیکن ان کے تحت جزئیات متبدل ہی رہیں گی۔
جزئیات سے کیا مراد ہے اور اس کے تعین کا کیا طریقہ ہے، اس کا جاننا بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ لکھتے ہیں:
اب رہا جزئیات کا متعین کرنا تو اس کے لئے قرآن نے حضور کو حکم دیا تھا کہ﴿وَشاوِرهُم فِى الأَمرِ﴾تم معاملات میں ان (جماعت ِمؤمنین) سے مشورہ کیا کرو۔” ( ص۱۷)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ جزئیات کا تعین بھی حضور کے اکیلے کا کام نہیں تھا بلکہ مشورہ سے ہوتا تھا چنانچہ اس کے ثبوت میں انہوں نے مشکوٰۃ کی ایک حدیث کا ترجمہ اس طرح شروع کیا ہے:
”عبداللہ بن زید بن عبد ربہ نے کہا کہ جب رسول اللہ نے ناقوس بجانے کا حکم دیا تاکہ اسے بجا کر لوگوں کو نماز کے لئے جمع کریں تو مجھ کو خواب میں ایک شخص دکھائی دیا جس کے ہاتھ میں ناقوس تھا۔” وغیرہ (ص ۱۷)
پھر بتایا گیا ہے کہ اس شخص نے خواب میں اذان کے الفاظ سکھائے اور اسی طرح رسول اللہ نے اذان دینے کا حکم دے دیا۔ راوی کا بیان ہے کہ جب عمر بن خطاب نے اذان کی آواز سنی تو انہوں نے قسم کھا کر کہا کہ میں نے بھی خواب میں ایسا ہی دیکھا ہے۔ تب حضورؐ نے فرمایا کہ خدا ہی کو تعریف ہے ۔
آپ اس حدیث کو پڑھ کربتائیے کہ کیا اسی کا نام مشورہ ہے۔ اس واقعہ کے بیان کرنے اور مشورہ کی اس عجیب و غریب صورت کے پیش کرنے کی غرض یہ ہے کہ سننے والے رسول ؐ کی حیثیت کو اس بلند مقام سے جو مسلمان اب تک سمجھ رہے تھے، نیچے لاکر رسول کی ضرورت کا احساس ہی ترک کردیں۔
پرویزی مرکز ملت میں حاکم وقت کا مقام:…چنانچہ لکھتے ہیں:
”ظاہر ہے کہ رسول اللہ کے بعد دین کے باقی رہنے کی صورت یہی ہوسکتی تھی کہ رسول کا ایک جانشین ہوتا جو محسوس شخصیت کی حیثیت سے رسول کی جگہ لے لیتا۔ اسے خلیفۃ الرسول رسول کا جانشین کہا جاتا ہے۔ (ص۲۰) …
خلیفۃ الرسول اس فریضہ (یعنی فریضہ رسول) کو بدستور انجام دیتا تھا۔ اب﴿فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤمِنونَ حَتّىٰ يُحَكِّموكَ فيما شَجَرَ بَينَهُم…٦٥﴾… سورة
النساء“(تیرے ربّ کی قسم یہ لوگ کبھی مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے متنازعہ فیہ اُمور میں تجھے حَکم نہ بنائیں) میں کَ (تجھے) سے مراد خلیفۃ الرسول تھا۔”(ص۲۲)
دیکھا آپ نے رسول کے بعد خلیفہ رسول نے کس طرح رسول کی ضرورت کو ختم کردیا۔ آگے جاکر اس رسالہ میں خلیفہ کی ضرورت کو بھی ختم کردیا گیا ہے اور آنحضرتﷺکی بجائے کسی محسوس شخصیت کو پھر سے قائم کرنے کی تحریک شروع کی گئی ہے جس کانام ‘طلوعِ اسلام’ ہے …!!
مسٹر پرویز کے آئندہ عزائم کیا ہیں، ان کے اپنے الفاظ میں ان کی کوشش یہ ہے کہ
”جس محسوس شخصیت (مرکز ِملت) کے گم ہوجانے سے یہ سارا انتشار پیدا ہوا ہے، اسے پھر سے قائم کردیا جائے۔ جسے ہم تمام متنازعہ اُمور میں اپنا حکم بنائیں اور اس طرح خدا کے اس حکم کی اطاعت کرسکیں کہ﴿فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤمِنونَ حَتّىٰ يُحَكِّموكَ فيما شَجَرَ بَينَهُم…٦٥﴾… سورة النساء(ص۲۸)
اس سے ان کا مطلب یہ ہے کہ وہی ک کی ضمیر جو پہلے آنحضرتﷺکے لئے تھی اور بعد میں خلیفہ کے لئے ہوئی، اب مرکز ِملت کے لئے ہو:
”یہی وہ خلافت علی منہاجِ نبوت ہوگی: (1) جو اُمت کے تمام متنازعہ امور کا فیصلہ کرے گی (2) جو اس وقت ہمارے پاس شریعت کے نام سے موجود ہے، وہ کتاب اللہ کی روشنی میں اس کا جائزہ لے گی، جوکچھ اس میں غلط ہوگا اسے محو کردے گی۔ جس جس بات میں موجودہ حالات کے متعلق کسی تبدیلی کی ضرورت ہوگی، اس میں مناسب تبدیلی کردے گی باقی علیٰ حالہٖ رہنے دے گی۔” (ص ۲۹)
غرض اس رسالہ میں جو اطاعت ِرسول کا عنوان ہے، اس سے مراد اس زمانہ میں مرکز ِملت کی اطاعت ہے ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
”میری کوشش یہ ہے کہ ہم میں پھر سے خلافت علیٰ منہاجِ نبوت کا سلسلہ قائم ہوجائے تاکہ ہم پھر اللہ اور رسول کی اطاعت کرسکیں۔” (ص۲۹)
یہ اطاعت کس طرح ہوگی:
”اسی طرح جس طرح حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ کے زمانے میں اللہ اور رسول کی اطاعت کی جاتی تھی۔”
اور ان حضرات کے زمانے میں اطاعت کس طرح کی جاتی تھی، اس کی تفصیل یہ ہے:
(1) جن اُمور کی جزئیات پہلے متعین نہیں ہوئی تھیں، ان کی جزئیات متعین کی جاتی تھیں۔ (2) جو جزئیات پہلے متعین ہوچکی تھیں او ران میں کسی تغیر و تبدل کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی انہیں علیٰ
حالہٖ قائم رکھا جاتا تھا (3) جن جزئیات میں اقتضائے حالات کے مطابق کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوتی، اس میں تبدیلی کردی جاتی تھی۔” (ص۲۲،۲۳)
”اگر زمانے کے تقاضے اس کے خواہاں ہوں تو نبی اکرم کے زمانے کے فیصلوں میں مناسب ردّوبدل کیا جاسکتا ہے او رایک خلیفہ کے فیصلہ کو خلیفہ مابعد بھی بدل سکتا ہے۔” ( ص۲۴)
مسٹر پرویز اسی کو ‘اطاعت ِرسول’کہتے ہیں اور اسی اطاعت ِرسول کی ترغیب اس رسالہ میں دی گئی ہے۔ یعنی ایک محسوس شخصیت قائم کی جائے جو دین کیلئے نئی جزئیات متعین کرے اورحسب ِضرورت رسولﷺکی متعین کردہ جزئیات میں ردّوبدل کرے اور زمانہ یہی کہتا رہے کہ یہ اطاعت رسول ہو رہی ہے!
اولیاتِ عمرؓ:اب مجھے صرف یہ بتانا رہ گیا ہے کہ مسٹر پرویز کا مطلب جزئیات سے کیا ہے اور زمانے کے تقاضے سے کیا مراد ہے؟ پرویز نے اگرچہ جزئیات کی تعریف نہیں بتائی، البتہ چند مثالیں ضرور دی ہیں۔ ایک مثال یہ ہے:
”نبی اکرمﷺ کے زمانہ سے لے کر عہد ِصدیقی تک ایک مجلس میں دی ہوئی تین طلاقوں کو ایک شمار کرکے طلاقِ رجعی قرا ردیا جاتا تھا۔ حضرت عمرنے اپنے زمانہ میں اسے تین شمار کرکے طلاقِ مغلظ قرار دے دیا۔” (ص۲۳)
اس مثال میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ قرآنِ حکیم کے کون سے اُصولی حکم کا جزئیہ ہے۔ پھر یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ حضرت عمرؓ نے اس کے لئے باہمی مشورہ کب کیا۔ حالانکہ ان کو مشورہ کرنا ضروری تھا۔ اس سلسلے میں یہ بیان کردینا ضروری ہے کہ مسٹر پرویز کو حضرت عمر کے اس فیصلے سے اختلاف ہے۔ چنانچہ یہاں پر انہوں نے صرف اتنا اشارہ کردیا ہے کہ ”ہمیں اس وقت اس سے بحث نہیں کہ قرآن کی رو سے صحیح طلاق کی پوزیشن کیا ہے، ہم یہاں صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حضور کے زمانے کے فیصلے حضور کے خلفا کے عہد میں بدلے جاسکتے ہیں” ، اس سے مقصد یہ ہے کہ خلفا کو قرآن کی رو سے کسی حکم کی صحیح پوزیشن کے خلاف بھی حسب ِضرورت تبدیلی کا حق حاصل ہے۔چنانچہ اس کا ثبوت ایک اور واقعہ سے دیا گیا ہے کہ
”حضرت عمر نے فیصلہ دیا کہ جنگ کے دوران کسی پر حد جاری نہ کی جائے اور قحط کے زمانے میں چور کا ہاتھ نہ کاٹاجائے۔” (ص۲۴)
مطلب یہ نکلا ہے کہ وقت کے تقاضوں میں یہ قوت ہے کہ حد ِقرآنی ساقط ہوسکتی ہے اور قرآنی حکم کو بدلا جاسکتا ہے۔حالانکہ خود مسٹر پرویز کا کہنا ہے کہ ”وحی کی رو سے متعین شدہ جزئیہ میں کوئی بھی تبدیلی کرنے کامجاز نہیں۔” (ص ۲۵)
باوجود اس کے ان کی رائے ہے : ”جن اُمور کی قرآن نے اجازت دی ہوئی ہے (اس فقرہ کے اَدبی محاسن کوبھی پیش نظر رکھئے گا) اگر حالات کا تقاضا ہو تو مرکز ِملت انہیں وقتی طور پر بند بھی کرسکتا ہے۔” (ص۲۵)
قرآن کے حکم میں تبدیلی کی ایک اور مثال یہ دی ہے کہ ”حضور کے زمانے میں مؤلفۃ القلوب کو صدقات کی مد سے اِمداد دی جاتی تھی، حضرت عمر نے اپنے زمانے میں اسے ختم کردیا۔” (ص۲۴)
اسی سلسلہ میں انہوں نے لکھا ہے: ”یہ جزئیات وحی کی رو سے متعین نہیں ہوتی تھیں۔ اس باب میں حضور کو صحابہ سے مشورہ لینے کا حکم تھا۔” (ص۲۵)
سوال یہ ہے کہ کیا مسٹر پرویز اور ان کے تمام جماعتی مل کربھی بتا سکتے ہیں کہ حضور نے یہ تمام جزئیات کس کے حکم سے متعین فرمائیں۔ کس نے مشورہ دیا کہ ایک مجلس میں تین طلاق ایک ہی طلاقِ رجعی ہوگی۔نبی اکرم نے ارتکابِ جنایات پرحد جاری کرنے اور چور کا ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ کن کن صحابہ کے مشورہ سے کیا۔ مؤلفۃ القلوب کو زکوٰۃ دلائے جانے کے حق میں کن اصحاب نے رائے دی؟ اگر یہ تمام احکامات حضور نے مشورہ سے نہیں دیئے بلکہ یہ سب وحی کی رو سے متعین شدہ جزئیات تھیں تو اب یہی سوال میں کرتا ہوں کہ حضرت عمرؓ کو ان تمام جزئیات میں تبدیلی کرنے کا کیا حق تھا۔ صاف کیوں نہیں کہتے کہ دراصل حضرت عمر کا نام لے کر خود قرآنی احکامات میںردّوبدل کرنامقصود ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ قرآنی فیصلوں اور حضور کے احکامات میں کسی تبدیلی کا سوال کسی عہد میں پیدا ہی نہیںہوا اور نہ ہوسکتا ہے۔ حضرت عمر نے ہرگز کسی جزئیہ میں تبدیلی نہیں کی بلکہ خدا اور رسول کے احکامات کی وہی تعبیر ان کے خیال میں صحیح تھی جس کا انہوں نے حکم دیا۔ اگر کسی پچھلے فیصلہ کی مخالفت انہوں نے کی ہے تو صرف اس لئے کہ اس فیصلے کو انہوں نے منشا رسول کے خلاف سمجھا۔ ان کے یا صحابہ کرام بلکہ فقہائے اُمت اور علمائے برحق میں سے کسی کے حاشیہ خیال میں یہ تصور آہی نہیں سکتا تھا کہ وہ حضور کے مقرر کردہ کسی جزئیہ کوبدل دیں۔یہ سب عہد جدید کے مسلوب الحس اور بے رحم مدعیانِ اسلام کا ہی کام ہے کہ وہ علانیہ رسول کے فیصلہ میں تبدیلی کا پرچار کرتے ہیں اور کوئی ان سے باز پرس نہیں کرتا۔
حد کا روکنا اور قطع ید کا التوا اس قسم کے حالات کی بنا پر تھا جن میں حرام حلال ہوجاتا ہے اور وہ﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفسًا إِلّا وُسعَها﴾کے تحت آجاتا ہے او ریہی قرآن کا حکم ہے اور رسول ؐ کی ہدایت ہے۔اور یہ کہنا کہ حضرت عمر نے فیصلہ دیا کہ جنگ کے دوران میں کسی پر حد جاری نہ کی جائے کذبِ صریح ہے۔ خود آنحضرتﷺ نے یہ حکم دیا کہ ایامِ جنگ میں چوروں کا ہاتھ نہ کاٹا جائے۔ ایام جنگ میں ایک فوجی نے بشر بن ارطاۃ کی ڈھال چرالی ، پکڑا گیا۔ بشر فرماتے ہیں:« لولا أني سمعت رسول الله يقول: لا تقطع الأيدي في الغزو لقطعت يدك»(ابوداود) یعنی ”اگر آنحضرتﷺکو میں نے یہ کہتے نہ سنا ہوتا کہ دورانِ جنگ میں ہاتھ نہ کاٹے جائیں تو میں ضرور تیرا ہاتھ کاٹ دیتا۔ ”
غرض یہ حکم نیانہیں ہے۔ اگر حضرت عمر نے سابقہ حکم بدل دیا ہوتا تو اس کے بعد یہ حدود کبھی نافذ نہیں ہوتیں۔ لیکن ان کے عہد ِحیات میں بھی یہی حدود بدستور نافذ رہیں۔ لیکن یہ فہم علم دین حاصل کرنے کے بعد ہی آتا ہے۔ اسی طرح مؤلفۃ القلوب کی امداد حضرت عمرؓ نے بند نہیں کی۔ آپ نے غلط سمجھا، حقیقت یہ ہے کہ مؤلفۃ القلوب کی مد سے زکوٰۃ لینے والے ہی نہ رہے۔ جیسے اِس وقت غلام اور عاملین زکوٰۃ موجود نہیں ہیں۔ تو زکوٰۃ کی مد سے ان کودیا جانا ممکن نہیں۔ حضرت عمر جیسے فدائی سنت پر یہ اِفترا کہ انہوں نے اللہ یا رسول کے حکم کو بدل دیا، انتہائی شرمناک جسارت ہے۔ مسٹر پرویز نے لکھا ہے کہ
”یہ جزئیات وحی کی رو سے متعین نہیں ہوتی تھیں۔ اگر یہ وحی کی رو سے متعین ہوتیں تو حضور کے خلفائے راشدین میں سے کسی کو بھی اس کا حق نہیں پہنچ سکتا تھا کہ ان میں کسی قسم کی تبدیلی یا حک واضافہ کرسکتا۔” ( ص۲۵)
کاش مسٹر پرویز کو کوئی سمجھائے کہ کسی امر کا متعین کرنا تو بڑی بات ہے، حضور کاایک اشارئہ ابرو بھی کسی امر کے لئے ہو تو اس میںکسی قسم کی تبدیلی یا حک و اضافہ کا تصور ہی خلفائے راشدین کے لئے موت سے بدتر تھا۔ ع کار پاکان را قیاس از خود م یگر
مسٹر پرویز نے حضور کے مقرر فرمودہ اُمورِ دین میںحالات کے مطابق تبدیلی کی چند اور مثالیں بھی دی ہیں مثلاً
(1) ”نبی اکرم ﷺنے قیدیوں کا فدیہ ایک دینار فی کس مقرر کیا تھا، لیکن حضرت عمر نے مختلف شرحیں مقرر فرمائیں۔” … (2) ” نبی اکرم ﷺنے مختلف اجناس کی شرحِ خراج بالتفصیل مقر ر نہیں فرمائی حضرت عمر نے متعین فرمائی۔” … (3) ” نبی اکرمﷺ کے زمانہ میں بعض مفتوحہ زمینیں مجاہدین میں تقسیم کردی گئی تھیں، حضرت عمر نے یہ سسٹم ختم کردیا۔” … (4) ” رسول اللہ ﷺنے لوگوں
کے وظائف مساوی مقرر فرمائے تھے حضر ت عمر نے انہیں خدمات کے تناسب سے بدل دیا۔” … (5) ”نبی اکرمﷺ کے زمانے میں تجارتی گھوڑوں اور سمندروں سے برآمد شدہ اشیا پر زکوٰۃ نہیں لی جاتی
تھی، حضرت عمر نے ان پر زکوٰۃ قائم کی۔”
لیکن ان میں سے کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں جسے حضور کی متعین فرمودہ باتوں میں سے کسی میں تبدیلی کہا جاسکے۔ ان میں یا تو کذب بیانی ہے یا غلط فہمی ہے اور یا پھر ابلہ فریبی سے کام لیا گیا ہے مثلاً حضور کا فدیہ کی مقدار ایک دینار مقرر کرنا جھوٹ ہے۔ حضور نے تو بعض اوقات فدیہ کے لئے کوئی رقم رکھی ہی نہیں۔ ایک بار دس آدمیوں کو لکھنا سکھا دینا ہی فدیہ قرار دیا تھا۔ لوگوں کے وظائف اگر کبھی مساوی مقرر ہوئے تو وہ لوگ مساوی وظائف ہی کے حقدار تھے۔ اس سے یہ مطلب سمجھ لینا کہ مساوی وظائف ہی کا حکم تھا، سخت غلط فہمی ہے۔اسی طرح اگر حضور کے زمانے میں کسی چیز پر زکوٰۃ نہ تھی اور بعد میں لگا دی گئی تو اس میں کسی حکم کی تبدیلی کیسے ہوئی؟ تبدیلی تو جب ہوتی کہ کسی چیز پر زکوٰۃ کی ممانعت ہوتی(جیسے نمک وغیرہ پر تھی) او رپھر اس پر زکوٰۃ لگتی۔ یہ بھی مسٹر پرویز کی غلط فہمی ہے۔ شرحِ خراج کا بالتفصیل مقرر نہ فرمایا جانا اور پھر بالتفصیل اس کا مقرر ہوجانا بھی کسی حکم میں تبدیلی نہیں ہے۔ بلاشبہ بعض زمینیں مجاہدین میں تقسیم کردی گئی تھیں لیکن بعض کی تقسیم سے کل کے لئے حکم ثابت کرنا ابلہ فریبی نہیں تو او رکیاہے؟
اگر مسٹر پرویز کو احادیث کا شعور ہوتا اور سیرتِ صحابہؓ سے واقف ہوتے تو نہ ایسی بے ڈھنگی باتیں کہتے اور نہ خلفائے راشدین پر احکامِ رسول کی تبدیلی کا الزام لگاتے۔ نبی اکرمﷺکے فیصلوں میں ردّوبدل او
رحک و اضافہ کی نظیریں مسٹر پرویز کو ان کے سوا نہیں ملیں اور وہ صرف انہی باتوں کو مڑ مڑ کر اپنی تحریروں میںپیش کرتے رہتے ہیں لیکن ان کا دعویٰ یہ ہے:
”یہ چند واقعات محض بطورِ مثال درج کردیئے گئے ہیں … ”
مدعا یہ ہے کہ حضور کے حکم میں تبدیلی کی صرف یہی نظائر نہیں ہیں بلکہ اس سے بہت زیادہ ہیں اب یہ ہر شخص خود اندازہ لگا لے کہ حضور کی وفات سے بارہ چودہ سال کے اندر اندر جب کہ حالات اس قدر بدل گئے کہ نبی اکرمﷺ کی متعین کردہ پچاسوں جزئیات میں تبدیلی کردی گئی۔ توجبکہ چودہ نہیں، چودہ سو سال گزر چکے ہیں تو جزئیاتِ دین میں کس قدر تبدیلیاں درکار ہوں گی۔
مسٹر پرویز کونہایت شدت سے اس امر کا احساس تھا کہ شریعت ِاسلامیہ کا تمام ڈھانچہ ہزاروں سال کا پرانا، کہنہ اور بوسیدہ ہو کر از سر نو ساخت و تعمیر کے قابل ہوگیا ہے لیکن ان کے لئے مشکل یہ ہے کہ وہ ابھی
تک خلافت ِراشدہ کا سلسلہ از سر نو قائم نہیں کرسکے، تاہم وہ مایوس نہیں ہیں۔ لکھتے ہیں:
”ہم میں جو یہ خیال پیدا کردیا گیا ہے کہ اب خلافت ِراشدہ کا سلسلہ قائم ہی نہیں کیاجاسکتا تو یہ نااُمید ی کا نتیجہ ہے۔ اسلام نے قیامت تک زندہ رہنا ہے، اس لئے اس میں خلافت کا سلسلہ بدستور قائم کیا جاسکتا
ہے۔” ( ۲۸)
یعنی چودہ سو سال سے جو اسلام مردہ پڑا ہوا ہے، اسے مسٹر پرویز پھر زندہ کریں گے۔ سردست تو ان کی ہدایات صرف یہ ہیں:
”جب تک خلافت کا یہ سلسلہ قائم نہیں ہوجاتا، کسی فرد کو اس کا حق نہیں پہنچتا کہ اُمت کے اُمورِ شریعت: نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ کی جزئیات جس طریق پر چلی آرہی ہیں، اس میں کوئی تغیر و تبدل کرے۔
وہ صرف اتنا کرسکتا ہے کہ یہ بتا دے کہ فلاں معاملہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ قرآن کے مطابق نہیں۔” (ص ۲۹)
یعنی مسٹر پرویز ملت ِاسلامیہ پر ایک ایسا وقت لانا چاہتے ہیں کہ اُمت کے اُمورِ شریعت: نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ کی جزئیات جس طریقہ پر چلی آرہی ہیں، ان میں تغیر و تبدل کیا جائے۔ ان کے ان بلند عزائم کے باوجود ہم مسٹر پرویز کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے سردست کسی شخص کو یہ اجازت نہیں دی کہ ہمارے مذہبی اعمال میں مداخلت کرے۔ہمیںیقین ہے کہ عالم اسلام پر ایسی منحوس صبح کبھی طلوع نہ ہوگی جس میں کسی ایسے نظام سے دوچار ہونا پڑے جو مسلمانوں کے ہاتھ کو کتاب و سنت کے مرکزی دامن سے جدا کردے۔ اطاعت ِرسول کے معنی صرف یہ ہیں کہ ایک مسلمان قرآن و حدیث پر بیک وقت عامل ہو، اس کے علاوہ مرکز ِملت کا نہ کوئی مفہوم ہے اور نہ مسٹر پرویز خود یا ان کی نسل کبھی ایسے مرکز ملت سے دوچار ہوسکے گی جس میں نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کا نام تو ہو لیکن اس کے ارکان موجود نہ ہوں۔
حقیقی مرکز ِملت کیا ہے؟
جسد ِشریعت ان ہی اجزائے ترکیبی سے وجود میں آیا ہے جس کی تزئین و تشکیل جناب رسول اللہﷺکے وحی آشنا ذہن اور معجز آفرین ہاتھوں نے کی۔ خلفائے راشدین کی حیاتِ طیبہ کا تمام سرمایۂ ناز و افتخار ان ہی جزئیات کی موبمو اور ہوبہو اتباع تھی اور افرادِ ملت کی خوش بختی محض اس میں ہے کہ ہم ان ہی اسلاف کے نقوشِ قدم کی تلاش میں لگے رہیں او رجہاں جہاں ان کا قدم پڑا ہے، اسی پر قدم رکھیں۔ مرکز ِملت وہ نہیں ہے جو اس وقت مسٹر پرویز کے مائوف ذہن میں ہے بلکہ وہ ہے جو آج سے چودہ سو سال قبل قائم ہوا او راب تک قائم ہے اور اسی کو چمٹے رہنے اور اسی سے وابستہ رہنے کا ارشاد اس حدیث میں ہے:
«عليکم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدي عضوا عليها بالنواجذ وتمسکوا بها وإيا کم ومحدثات الأمور»
”تم پر لازم ہے کہ میرے طریقے اور میرے بعد خلفائِ راشدین مہدیین کے طریقے کی پیروی کرو اور اس کو دانتوں سے مضبوطی سے پکڑ رکھو اور اسی پر جمے رہو اور خبردار نئی باتوں سے بچتے رہنا”
نئی بات جس سے بچنے کی حضور نے تاکید فرمائی ہے، یہی مرکز ملت کا ناشدنی تصور ہے جس کے نام سے بھی ملت ِاسلامیہ بلکہ ملل ِعالم ناواقف ہیں۔
آخر میں، اربابِ بصیرت کی خدمت میں مؤدبانہ عرض ہے کہ وہ بار بار غور کریں کہ مرکز ِملت کے اس لامرکزی تصورِ اطاعت ِرسول کی یہ منکرانہ توجیہ، دین اور مذہب کی یہ بے سبب تفریق، آیاتِکلامِ الٰہی کی یہ معنوی تحریف اور احادیث ِرسولؐ و اخبارِ صحابہ ؓسے اس استغنا میں آخر ملت ِاسلامیہ کی کون سی خدمت مقصود ہے۔ مسلمانوں کو یا دنیا کو ان کوششوں سے کون سا سیاسی، اقتصادی یا اخلاقی فائدہ پہنچ رہا ہے۔ قومی ترقی کی کون سی راہیںکشادہ ہوئیں او ران کے اس مسلسل درس نے کتنے مسلمانوں کے اخلاق درست کئے اس جدوجہد کا مآل سوائے اس کے اور کیا ہے کہ مسلمانوں کی چودہ صد سالہ روایات کی عظمت، علماء و صلحائے ملت کے فضل و ہنر، ائمہ مفسرین و محدثین و فقہا کی مافوق العادت دینی بصیرت اور من حیث المجموع تمام شرعی ضوابط کی تنقیص و تضیعف اور اربوں افرادِ ملت کی عقل و دانش کی تضحیک اور نتیجۃً خود مذہب اسلام کا ابطال ہو۔وما علينا إلا البلاغ
﴿رَبَّنا ءامَنّا بِما أَنزَلتَ وَاتَّبَعنَا الرَّسولَ فَاكتُبنا مَعَ الشّـٰهِدينَ٥٣﴾… سورة آل عمران