حسبنا کتاب الله
کتاب اللہ – سے کیا مراد ہے ؟
بےشک قرآن کو ’لاریب فیہ‘ کہا گیا ہے ، لیکن ۔۔۔ اگر ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی زبان پر بھی ایمان رکھتے ہیں تو جان لینا چاہئے کہ زبانِ رسالت سے یہ بھی فرمایا گیا ہے:
الا اني اوتيت الكتاب و مثلہ ۔
) میں قرآن کے ساتھ اس کی مثل ایک اور چیز بھی دیا گیا ہوں )۔
ابو داؤد ، كتاب السنة ، باب : في لزوم السنة ، حدیث : 4606
اور اس ’ایک اور چیز‘ سے سوائے ’حدیث‘ کے اور کوئی دوسری چیز مراد نہیں ہے!
ہمارے زمانے کے بہت سے روشن خیال افراد ۔۔۔ دانستہ یا نادانستہ ۔۔۔ منکرینِ حدیث کے پروپگنڈے کا بآسانی شکار اس لیے ہو جاتے ہیں کہ صحیح احادیث زندگی کے بیشمار معاملات میں جس لائحہ عمل کی اتباع کا حکم دیتی ہیں وہ ہمارے نفس کو گوارہ نہیں ہوتا ۔
منکرینِ حدیث کے پرپگنڈے میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ایک قول بہت مقبول ہے اور وہ اب تب جب تک اس کو بڑی ہی رغبت سے دہراتے رہتے ہیں ۔
آئیے ۔۔۔ ذرا دیکھتے ہیں کہ اس مبارک قولِ فاروقی کی کیا حقیقت ہے ؟
یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں:
’حسبنا کتاب اللہ‘ یعنی ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے ۔
( بحوالہ : صحیح بخاری ، کتاب المرضی ، باب قول المريض قوموا عني ، حدیث : 5731(
جب حضرت عمر (رض) نے یہ الفاظ ادا کیے تھے تو اس کا وہ مفہوم قطعاََ آپ (رض) کے ذہن میں نہ تھا جو منکرینِ حدیث و سنت سمجھتے ہیں ۔ یعنی منکرینِ حدیث ’کتاب اللہ‘ سے مراد صرف قرآن مجید لیتے ہیں ۔
جبکہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم اجمعین) اور دیگر اہلِ عرب بالخصوص حضرت عمر (رض) ’کتاب اللہ‘ سے مکمل شریعت مراد لیتے تھے ۔۔۔ اور اس کی دلیل بھی صحیح بخاری کی حدیث سے سن لیں:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں مسجدِ نبوی میں بیشمار صحابہ (رضی اللہ عنہم اجمعین) کے مجمع میں ایک طویل خطبہ دیا ۔ اس خطبے کے ان الفاظ پر دل تھام کے غور کیجئے گا ۔
الرجم في كتاب الله حق على من زنى إذا أحصن
( ترجمہ : رجم کا حکم کتاب اللہ میں حق و ثابت ہے جب کہ شادی شدہ زنا کرے(
منکرینِ حدیث کے سارے گروہ یا ان کے خیالات سے اتفاق رکھنے والے تمام افراد کو ہمارا کھلا چیلنج ہے کہ:
رجم کا حکم قرآن کریم سے نکال کر دکھا دیں!
اگر نہیں نکال سکتے (اور انشاءاللہ تاقیامت نہیں نکال سکیں گے !!) تو دل بڑا کر کے حضرت عمر (رض) کے تعلق سے یہ غلط فہمی پھیلانے سے ہمیشہ کے لیے باز آ جائیں ۔ اور اس بات کو ٹھنڈے دل سے قبول فرمائیں کہ جب حضرت عمر (رض) نے ’حسبنا کتاب اللہ‘ کے الفاظ ادا کیے تھے تو آپ رضی اللہ عنہ کے نزدیک ’کتاب اللہ‘ سے پوری شریعت مراد تھی ۔
اور مکمل شریعت قرآن و حدیث ۔۔۔ ان دونوں سے مل کر بنتی ہے ۔۔۔ صرف قرآن سے نہیں!
اور ایک بات یہ بھی اچھی طرح یاد رہے ۔۔۔۔
صرف صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم اجمعین) یا اہلِ عرب نے ہی ’کتاب اللہ‘ سے پوری شریعت (قرآن اور حدیث) مراد نہیں لی تھی بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک بھی ’کتاب اللہ‘ سے مراد ’قرآن اور سنت‘ دونوں ہیں!
اس کی دلیل بھی صحیح بخاری کی حدیث کے ذریعے پیش خدمت ہے ۔ یہ حدیث ’واقعہ عسیف ( مزدور کا واقعہ)‘ پر مبنی ہے جو صحیح بخاری کے ساتھ صحاح ستہ کی دیگر کتابوں میں بھی موجود ہے ۔
جب رسول اللہ (ص) کے نزدیک ایک غیرشادی شدہ مرد اور ایک شادی شدہ عورت کے زنا کا واقعہ فیصلے کے لیے پیش ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ کی قسم ! میں تم دونوں کے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا ۔۔۔ تیرے بیٹے (مرد) کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے اور ۔۔۔ عورت اگر زنا کا اعتراف کرے تو اسے رجم کر دو ۔
( بحوالہ : صحیح بخاری ، کتاب المحاربین ، باب الاعتراف بالزنا ، حدیث : 6916)
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ:
رسول اللہ (ص) اِس حدیث میں اللہ کی قسم اٹھا کر بیان دے رہے ہیں کہ رجم کی سزا کتاب اللہ کے مطابق ہے حالانکہ یہ سزا قرآن کریم میں کہیں بھی مذکور نہیں ہے ۔
لہذا خود اللہ کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زبانِ مبارک سے ثابت ہو گیا کہ ’کتاب اللہ‘ سے مراد صرف ’قرآن کریم‘ نہیں ہے بلکہ اوپر درج کردہ ابو داؤد کی صحیح حدیث کے مطابق:
’کتاب اللہ‘ سے مراد ’ قرآن و سنت ‘ دونوں ہیں!