طلوعِ اسلام‘ کی خدمت ِعالیہ میں
وحی صرف قرآن ہی میں ہے یا قرآن کے علاوہ بھی پیغمبر علیہ الصلوٰة والسلام پر وحی آیا کرتی تھی؟ اس پر علماے کرام نے قرآن کریم کی روشنی میں بہت کچھ لکھا ہے، لیکن منکرین حدیث کے ہم نواؤں میں سے مولوی ازہر عباس صاحب ، فاضل درسِ نظامی فرماتے ہیں :
”لیکن جو اصل موضوع ہے، اور سب منکرین حدیث کا اصل الاصول اور عروة الوثقیٰ ہے کہ حدیث وحی نہیں ہے اور ‘وحی صرف قرآن میں ہے۔’ اس موضوع پر کچھ تحریر کرنے سے ہمارے علماے کرام ہمیشہ بچتے رہے اور اجتناب کرتے رہے ہیں۔” 1
”ہمارے علماے کرام، حدیث کو وحی ثابت کرنے کے لئے مضمون تحریر کرنے سے کیوں گریز کرتے ہیں۔ تاحال کسی کتاب ؍ رسالہ یا ‘محدث’ میں ایسا مضمون نہیں تحریر کیا گیا جس میں حدیث کو وحی ِخفی ثابت کیا گیا ہو۔” 2
اس صریح کذب اور واضح جھوٹ کا پردہ چاک کرتے ہوئے، میں نے یہ لکھا تھا کہ
”مقالہ نگار، اگر واقعی اس مسئلہ کی کھوج کرید میں مخلص ہوتے، تو ان کی رسائی اُس قلمی مناظرے تک ضرور ہوجاتی جو طلوعِ اسلام کی فکر سے وابستہ ایک فرد ڈاکٹر عبدالودود صاحب اور مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان واقع ہوا تھا، اور جس کی پوری رُو داد ترجمان القرآن ستمبر 1961ء میں اور بعد ازاں‘ سنت کی آئینی حیثیت’ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوئی تھی۔اس قلمی مناظرہ میں منکرین حدیث کے جملہ دلائل کا (بالخصوص وحی خفی پر اعتراضات کا) ایسا مسکت، اطمینان بخش اور ایمان افروز جواب دیاگیا تھا (اورہے) جو بہت سی بھٹکتی ہوئی شخصیتوں کے لئے باعث ِہدایت ثابت ہوا تھا (اور ہے)۔ 3
ہمارے اس بگڑے ہوئے ماحول میں یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ جب کوئی شخص جھوٹ بولتا ہے تواُسے نباہنے کے لئے اُسے اور کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔یہی حال ہمارے فاضل درسِ نظامی مولوی ازہر عباس صاحب کا ہے۔’ سنت کی آئینی حیثیت‘ کے بارے میں دانستہ یا نادانستہ دروغ گوئی کرتے ہوئے وہ محولہ بالا قلمی مباحثے کی بابت لکھتے ہیں :
”اس مباحثہ کا موضوع سنت کی آئینی حیثیت تھا۔ اس سارے مباحثہ میں ایک لفظ بھی __’حدیث وحی ہے’ __ کے موضوع پر نہیں۔ ” 4
اس کذب ِ صریح کی پردہ دری کرتے ہوئے، میں نے یہ لکھا تھا کہ
”اس مباحثہ میں مولانا (مودودی رحمۃ اللہ علیہ ) محترم نے ڈاکٹر عبدالودود صاحب کے جملہ سوالات واعتراضات کا وافی کافی اور شافی جواب دیا ہے اور منکرین حدیث کے اس نظریہ کی تغلیط کی تھی کہ __ وحی صرف قرآن ہی میں ہے اور خارج از قرآن وحی کا کہیں وجود نہیں ہے۔” 5
علاوہ ازیں مدیر محدث نے بھی ماہنامہ محدث کے ‘فتنۂ انکار حدیث نمبر’ میں شائع شدہ 700مقالات کی فہرست میں، ایسے مقالات کا ذکر کیا تھا جو موضوع زیربحث سے متعلق تھے، ان کے بارہ میں پھر صریح جھوٹ بولتے ہوئے فاضل درسِ نظامی مولوی ازہر عباس صاحب نے جب یہ کہہ کر انکار کیا کہ
”جہاں تک … انکارِحدیث نمبر میں اس موضوع پر شائع ہونے والے 700 کے لگ بھگ مقالات کی فہرست کے متعلق تحریر فرمایا ہے تو نہایت حیرت و استعجاب کی بات ہے کہ ان 700 مقالات میں سے ایک مقالہ بھی__’حدیث وحی ہے’ __کے موضوع پر نہیں ہے۔” 6
پھر الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق، اس کے متصل بعد ہی فاضل درس نظامی صاحب یہ لکھتے ہیں کہ
”مجھے حیرت ہوتی ہے کہ قاسمی صاحب جیسے لوگ کیسے اس درجہ علمی بددیانتی کا ارتکاب کردیتے ہیں اور کس طرح قارئین کو مغالطٰہ دیتے ہیں۔ وہ فہرست طبع شدہ موجود ہے اور ہر شخص، وہ پڑھ کر اس علمی بددیانتی (Intellectual Dishonesty)کی تصدیق کرسکتا ہے۔ 7
اس واضح دروغ اور بددیانتی کی قلعی محترم مدیر ‘محدث’ جناب حافظ حسن مدنی کو یہ کہہ کر کھولنا پڑی کہ
”خواجہ ازہرعباس صاحب کا یہ کہنا کہ ‘فتنۂ انکار حدیث نمبر’ میں شائع ہونے والی فہرست میں ایک مضمون بھی ‘حدیث وحی ہے’ کے موضوع پر موجود نہیں، صریح غلط بیانی اور بددیانتی ہے جب کہ وہاں انکار حدیث کے ردّ میں مضامین کی طویل فہرست میں حدیث کے وحی ہونے کا ایک مستقل عنوان قائم کرکے اس کے تحت کئی مضامین کی فہرست شائع کی گئی ہے جس میں جید اہل علم اور شیوخ الحدیث کے مضامین بھی شامل ہیں مثلاً (1) مولانا ثناء اللہ امرتسری کا مقالہ بعنوان ‘حدیث منزل من اﷲ ہے!'(2) مولانا محمد محدث گوندلوی کا مقالہ بعنوان ‘اقسام وحی’ (3) مولانا عبدالغفار حسن کا مقالہ ‘وحی، نبوت، سنت اور حدیث’ (4) سابق مدیر معاون ‘محدث’ مولانااکرام اللہ ساجد کا 4 قسطوں پر محیط مقالہ ‘حدیث ِرسولؐ وحی ہے’۔(5) غازی عزیر مبارکپوری کا مقالہ ‘حدیث ِنبوی، وحی ہے اور اس کا منکر کافر ہے’۔” 8
رہا سنت کی آئینی حیثیت کے بارے میں، فاضل درس نظامی مولوی ازہرعباس صاحب کا یہ (شعوری یا غیرشعوری)کذب کہ اس مباحثہ میں ایک لفظ بھی ‘حدیث وحی ہے’ کے موضوع پر نہیں ہے، تو اس دروغ کے ڈھول کا پول بھی، خود میں نے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی مذکورہ کتاب میں سے سترہ عنوانات پیش کرکے کھول دیا تھا، جن میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں:
”(1) کیا حضورؐ پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی؟ (2) ما أنزل اﷲ سے کیا مراد ہے؟ صرف قرآنی وحی یا خارج از قرآن، وحی بھی؟ (3) وحی سے کیا مراد ہے؟ (4) از روئے قرآن وحی کی اقسام کیا ہیں؟ (5) کیا وحی غیر متلو بھی جبریل ہی لاتے تھے؟ (6)وحی غیر متلو پر ایمان ایمان بالرسول کا جز ہے۔ (7) کیاوحی خواب کی صورت میں بھی ہوتی ہے؟ (8) وحی بلا الفاظ کی حقیقت و نوعیت؟ (9) وحی متلو اور غیرمتلو کا فرق(10)کیا وحی صرف قرآن تک ہی محدود ہے؟” 9
ان ساری نگارشات اور جملہ حوالوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے جب فاضل درس نظامی مولوی ازہر عباس صاحب نے پھر یہ مطالبہ بطور تحدی پیش کیاکہ
”پروفیسر(مولوی) محمد دین قاسمی اور ان کی معرفت تمام علماء اسلام کو تحدی (Challenge) کرتا ہوں کہ وہ اس موضوع پرکوئی جامع و مبسوط مضمون تحریر فرمائیں: وإن لم تفعلوا ولن تفعلوا” 10
اس تحدی پر جواباً میں نے یہ لکھا تھا کہ
”اب اس فاضل درسِ نظامی مولوی صاحب کو یہ کون سمجھائے کہ خدائی لب و لہجے میں دیے جانے والے اس چیلنج سے بہت پہلے سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ ‘جامع و مبسوط مضمون’ کیا بلکہ منکرین حدیث کے جملہ اعتراضات و اشکالات کا مفصل جواب ‘ترجمان القرآن 1961ء’ کے شمارہ میں اور ‘سنت کی آئینی حیثیت‘ نامی کتاب کے 392 صفحات پر پیش کرچکے ہیں۔ چونکہ اس قلمی مباحثہ نے منکرین حدیث کے غبارۂ استدلال کی ساری ہوا نکال دی تھی، اس لئے اپنے حلقہ کے لوگوں میں اس غبارے کو ہوا سے بھرا ہوا ظاہر کرنے کے لئے باربار یہ لوگ اپنے اس پراپیگنڈے کو دہراتے چلے جاتے ہیں کہ”علماء کرام اس موضوع پر لکھنے سے ہمیشہ گریز کرتے ہیں۔” تاکہ طلوعِ اسلام کے قارئین کو اپنے اس یکطرفہ یلغاری پراپیگنڈے کے خول میں بند رکھا جائے اور ان تک اپنے مخالفین کے روشن موقف کی کوئی کرن نہ پہنچنے پائے، اسی لئے اس پورے قلمی مباحثہ کو من و عن طلوع اسلام میں شائع نہیں کیا گیا (حالانکہ منکرین حدیث کے مباحث ڈاکٹر عبدالودودصاحب اس کی اشاعت کا وعدہ کرچکے تھے)۔” 11
زیر بحث موضوع پر میری طرف سے حوالہ شدہ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی نگارشات کو اور مدیر محدث جناب حسن مدنی صاحب کے بیان کردہ اُن مضامین و مقالات کو(جن کی فہرست ‘فتنۂ انکار حدیث نمبر’ میںموجود ہے) نظر اندازکرتے ہوئے، بلکہ ان کے متعلق یہ صریح جھوٹ بولتے ہوئے کہ __ ان میں ایک لفظ بھی ‘حدیث وحی ہے’ کے موضوع پرنہیں ہے__ فاضل درسِ نظامی، مولوی ازہر عباس صاحب نے جب از سر نو چیلنج پیش کیا تھا تو میں نے عرض کیا تھا کہ مولوی ازہر عباس صاحب
”اگر طلوع اسلام میں دو طرفہ مباحث کو بغیر قطع و برید کے صحیح صحیح شائع کرنے کی یقین دہانی (طلوعِ اسلام ہی میں) کرا دیں تو ان کے چیلنج کوقبول کیا جاسکتا ہے۔” 12
ہم نے دسمبر 2005ء سے لے کر مارچ 2006ء تک کے طلوعِ اسلام کو مسلسل دیکھا تو ہمیں مایوسی ہوئی کہ اس قسم کی یقین دہانی سے ہر شمارہ خالی تھا۔اپریل 2006ء کے شمارہ کی فہرست میں’محدث کی خدمت ِعالیہ میں’ کا عنوان دیکھ کر ہمیں خوشی ہوئی کہ اس میں یقینا ہماری مطلوبہ یقین دہانی موجود ہوگی، ع لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد۔ ایسی کسی یقین دہانی کاذکر تک نہ تھا بلکہ 9نکات پیش کرکے، یہ مطالبہ داغا گیاکہ ان کا جواب دیا جائے۔ یہ بالکل وہی تکنیک ہے جو ڈاکٹر عبدالودود صاحب نے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ سے دورانِ مراسلت اختیار کررکھی تھی کہ مولانا محترم کے دلائل کو نظر انداز کرکے بحث کو بے جا طول دیتے ہوئے ہر خط میں کچھ نئے نکات سامنے لاکر یہ مطالبہ کیا کرتے تھے کہ ان کا جواب دیا جائے۔
بندہ ٔ خدا ! اگر آپ واقعی ‘احقاقِ حق اور ابطالِ باطل’ ہی کا مقصد پیش نظر رکھتے ہیں تو اس کا تقاضا بھی یہی ہے (اور فائدہ بھی اسی صورت میں ہے) کہ فریقین کاموقف بلاکم و کاست ‘طلوعِ اسلام’ اور ‘محدث’ دونوں میں شائع ہو تاکہ دونوں طرف کے قارئین ، جانبین کے موقف کو پڑھ کر کوئی حتمی رائے قائم کرسکیں۔اسی بلاکم و کاست’ طلوع اسلام’ میں ہمارے موقف کی اشاعت کی یقین دہانی ہمیں مطلوب ہے۔ کارپردازانِ طلوعِ اسلام کا ایسی یقین دہانی سے گریز یہ ظاہر کرتا ہے کہ ‘احقاقِ حق اور ابطالِ باطل’ ان کے پیش نظر ہرگز نہیں ہے، بلکہ یہ لوگ صرف یہ چاہتے ہیں کہ قلم کے ذریعہ عقلی کشتی اور ذہنی دنگل لڑتے ہوئے قارئین طلوعِ اسلام کو اپنے یک رُخے مطالعہ کے خول میں بند رکھا جائے اور اُن کے ظلمت کدوں میں ہمارے روشن موقف کی کوئی کرن بھی نہ پہنچنے دی جائے۔ تاریکیوں میں پلنے والوں کا ہمیشہ سے یہی رویہ رہا ہے کہ ظلمت کے دبیز پردے ان پر بدستور قائم رہیں، اور ان کا تاریک موقف یکطرفہ طور پر ہی ان کے قارئین تک پہنچتا رہے۔
یہی وجہ ہے کہ ماضی میں طلوعِ اسلام(مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے دلائل و براہین کو اپنے صفحات میں شائع کرنے کی بجائے) ڈاکٹر عبدالودود صاحب ہی کے موقف کو یکطرفہ طور پر شائع کرتا رہا ہے (حالانکہ ڈاکٹر صاحب موصوف نے اس پوری مراسلت کی اشاعت کا ابتدا ہی میں وعدہ کرڈالا تھا، اور پھر وہ یہ وعدہ نبھا نہ سکے)آج پھر طلوعِ اسلام یہ چاہتا ہے کہ اس بحث کونئے سرے سے چھیڑا جائے لیکن اشاعت کا وعدہ نہ کیا جائے تاکہ ماضی کی طرح ‘وعدہ خلافی’ کے الزام سے بچا جائے اور ساتھ ہی مطلوبہ یقین دہانی بھی نہ کرائی جائے، تاکہ یہ راہ کھلی رکھی جائے کہ اپنے مخالفین کے مضبوط موقف کو خود اُن کے اپنے الفاظ میں پیش کرنے کی بجائے اُسے اپنے من مانے مفہوم کے ساتھ پیش کیا جاسکے۔ اسے مکتب ِطلوع اسلام کی کرامت سمجھئے یاپرویز صاحب کا فیضانِ نظر کہ کذب و خیانت کی روش اپنانے میں مولوی ازہر عباس صاحب پرویز صاحب کے طابق النعل بالنعل پیروکار ہیں، وہ بھی اپنے پیشوا و مقتدا کی طرح علما کے موقف کو علما کے اپنے الفاظ میں پیش کرنے کی بجائے اپنے خود ساختہ الفاظ میں پیش کرنے کے عادی ہیں، جیسا کہ مئی 2005ء کے شمارۂ طلوع اسلام میں اُنہوں نے نسخ کی حقیقت کو کسی عالم دین کے اصل الفاظ میں درج کرنے کی بجائے تغیر شدہ مفہوم کے ساتھ اپنے من گھڑت الفاظ میں پیش کیا ہے۔ متعلقین طلوع اسلام کی ایسی ہی حرکات کو دیکھتے ہوئے میں نے یہ عرض کیا تھاکہ
”وابستگانِ طلوعِ اسلام اور اس کے کارپردازوں کے اخلاق و کردار سے یہ توقع بھی نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے مخالف کے موقف کو بلاکم و کاست صحت و دیانتداری کے ساتھ، اپنے رسالہ میںشائع کریں گے، جیساکہ ماضی کا تجربہ اس پر شاہد ہے۔” 13
اب اگر طلوعِ اسلام ، بلا کم و کاست، ہمارا موقف اپنے ہاں شائع کرنے سے گریزاں ہے اور اپنے یکطرفہ پراپیگنڈے کے ذریعہ سے اپنے قارئین کو یہی باور کروانا چاہتا ہے کہ علماے کرام قرآنِ کریم کے علاوہ وحی کے اثبات سے عاجز و گریزاں رہے ہیں اور اپنی لاف زنی کے ذریعہ اپنے قارئین کے قلوب و اذہان میں یہی تاثر پیدا کرنا چاہتا ہے کہ
”ہمارا ملا، طلوعِ اسلام میں پیش کردہ دعوت کا جواب دلائل و براہین سے تو دے نہیں سکتا (اس لئے کہ وہ قرآن کی دعوت ہے، اور ملا بیچارہ قرآنی دعوت سے محروم ہوتا ہے)” 14
نیز یہ کہ جو روشِ بد خود طلوع اسلام نے اپنا رکھی ہے، اُسے اپنے مخالفین کے سرتھوپ کر، اپنے قارئین کو یہ یقین دلایا جائے کہ
”ہمارے خلاف پراپیگنڈہ کرنے والوں کی کیفیت جدا ہے۔ وہ یہ نہیں کرتے کہ جوکچھ طلوعِ اسلام کہتا ہے، اُسے اُس کے الفاظ میں اس کے قارئین یا سامعین کے سامنے پیش کرکے، اس پرقرآن کریم کی روشنی میں تنقید کریں۔ وہ کرتے یہ ہیں کہ اپنی طرف سے ایک غلط بات وضع کرتے ہیں اور اسے طلوعِ اسلام کی طرف منسوب کرکے گالیاں دینی شروع کردیتے ہیں۔” 15
تواس کاصاف مطلب یہ ہے کہ طلوع اسلام اپنی روشِ کذب و خیانت کو اپنائے رکھنے پر بھی مصر ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کے قارئین کی نگاہوں سے اس کی دروغ گوئی اور خیانت کاری چھپی بھی رہے۔
آخر میں،پھر یہ گزارش ہے کہ اگر واقعی مو لوی ازہر عباس صاحب (فاضل درسِ نظامی) ‘احقاقِ حق اور ابطالِ باطل’ کے مقصد میں مخلص اور نیک نیت ہیں، تو اُنہیں ہماری مطلوبہ یقین دہانی کی طلوعِ اسلام میں اشاعت میں تامل نہیں ہوناچاہئے۔جونہی وہ ایسا کریں گے ہم زیربحث موضوع پر اپنا مفصل مقالہ ارسالِ خدمت کردیں گے، جوبیک وقت ‘محدث’ میں بھی اور طلوعِ اسلام میں بھی شائع ہوگا، اسی طرح جواب اور پھر جواب الجواب بھی دونوں مجلات میں شائع ہوں گے اور جب یہ بحث چل نکلے گی تو مولوی ازہر عباس کے حالیہ9 نکات بھی(دیگرنکات کے ساتھ) زیر بحث آجائیں گے۔
حوالہ جات
1.طلوع اسلام، مئی2005ئ،ص 30
2. طلوع اسلام، مئی2005ئ،ص 30
3. محدث، اگست2005ئ، ص31۔32
4. طلوع اسلام، نومبر2005ئ، ص25
5. محدث نومبر 2005ئ، ص56
6. طلوع اسلام، نومبر2005ئ، ص25
7. طلوع اسلام، نومبر2005ئ، ص25
8. محدث، نومبر2005ئ، ص 55
9. محدث، نومبر 2005ئ، ص57
10. طلوع اسلام، نومبر 2005ئ، ص27
11. محدث، نومبر 2005ئ، ص60
12. محدث، نومبر2005ئ، ص61
13. محدث، نومبر 2005ئ، ص61
14. طلوع اسلام، مئی 1953ئ، ص47
15. طلوع اسلام، اپریل 1979ئ، ص61