غلام احمد پرویز کی قرآنی خدمات
چوتھی مثال (واقعہ ذبح ِبقرہ اور قیاسی تفسیر)
سورة البقرة میں ، ذبح ِبقرہ کے واقعہ کے ضمن میں قتل ِنفس کا واقعہ بایں الفاظ مذکور ہے :
وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادَّارَأْتُمْ فِيهَا ۖ وَاللَّـهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ ﴿٧٢﴾ فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا ۚ كَذَٰلِكَ يُحْيِي اللَّـهُ الْمَوْتَىٰ وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿٧٣﴾…سورۃ البقرۃ
”اور تمہیں یاد ہے وہ واقعہ جب تم نے ایک شخص کی جان لی تھی، پھر اس کے بارے میں باہم جھگڑے اور قتل کا الزام تھوپنے لگے او راللہ نے فیصلہ کرلیا تھا کہ جو کچھ تم چھپاتے ہو، اسے وہ کھول کر رکھ دے گا، اس وقت ہم نے یہ حکم دیا کہ مقتول کی لاش کو، اس کے ایک حصے سے ضرب لگاؤ۔ دیکھو، یوں اللہ لوگوں کو زندگی بخشتا ہے اور یوں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھ سے کام لو۔”
اس آیت کی تفسیر میں ، قریب قریب جملہ علماے تفسیر نے یہ لکھا ہے کہ جس گائے کو ذبح کرنے کا حکم، اس سے متصل پہلی آیت میں دیا گیا ہے، اُسی کے گوشت سے مقتول کی لاش کو ضرب لگانے کا حکم دیا گیا ہے: {فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا…﴿٧٣﴾…سورۃ البقرۃ}۔اس کے نتیجہ میں مقتول کچھ دیر کے لئے زندہ ہوا، او راپنے قاتل کا نام بتا کر ہمیشہ کے لئے پھر موت کی نیند سوگیا، اور قاتل کو اس کے جرم قتل کی سزا دے دی گئی۔
اب چونکہ موت کے بعد، دوبارہ جی اُٹھنا ‘مفکر قرآن’ صاحب کے لئے عقلاً مستبعد ہے، اس لئے وہ اسے تسلیم نہیں کرتے، اور علماے تفسیر کے مقابلہ میں خود اپنی تفسیر پیش کرتے ہیں ۔ چنانچہ ان کی فضاے دماغی میں ایک لہر اُٹھی، جس کے نتیجہ میں ظن و تخمین اور گمان و تخریص پر مبنی ایک خالص قیاسی تفسیر بایں الفاظ صفحۂ قرطاس پر مرتسم ہوگئی :
”ہم جو کچھ سمجھ سکے ہیں وہ یہ ہے کہ توہم پرستیوں سے لوگوں کی نفسیاتی حالت یہ ہوجاتی ہے کہ وہ ذرا سے خلافِ معمول واقعہ کا سامنا نہیں کرسکتے، اور اس کے احساس سے ان پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے، یہی کیفیت بنی اسرائیل کی ہوچکی تھی، اور واقعۂ قتل میں ان کی اس نفسیاتی حالت کو تحقیق مجرم کا ذریعہ بنایا گیا ہے، ان سے کہا گیا کہ مشتبہ ملزموں میں سے ایک ایک شخص لاش کے قریب سے گزرے اور لاش کا کوئی حصہ اُٹھا کر اس شخص کے جسم سے چھوا جائے، ملزم کی پہچان ہوجائے گی۔ ظاہر ہے کہ اس سے ملزم کی جو حالت ہوئی ہوگی، وہ اس کے داخلی احساسات کی غماز بن گئی ہوگی، اس طرح جب مجرم کا تعین ہوگیا تو اس سے قصاص لے لیا گیا۔ قرآن نے قصاص کے متعلق کہا ہے کہ اس میں رازِ حیات پوشیدہ ہے۔
بہرحال یہ ہمارا قیاس ہے، حقیقت اس وقت ہی سامنے آئے گی، جب تاریخی انکشافات اس کی نقاب کشائی کریں گے۔” 1
پھر اس وہم و گمان اور ظن و تخمین پر مبنی تفسیر کو، جس کے متعلق خود اُن کا اپنا اعتراف ہے کہ ”یہ ہمارا قیاس ہے۔” عین مفہومِ قرآن بنا کر یوں لکھتے ہیں :
”ایک طرف تو تمہاری یہ حالت کہ ایک جانورکو ذبح کرنے میں اس قدر حیل و حجت اور دوسری طرف یہ عالم کہ ایک انسانی جان ناحق لے لی، اسے خفیہ طور پر مار دیا او رجب تفتیش شروع ہوئی تو لگے ایک دوسرے کے سر الزام دھرنے، یعنی تم میں اتنی اخلاقی جرأ ت بھی نہ تھی کہ جرم ہوگیا توکھلے بندوں اس کا اعتراف کرلو۔ لیکن جس بات کو تم چھپانا چاہتے تھے، خدا اسے ظاہر کردینا چاہتا تھا تاکہ جرم بلا قصاص نہ رہ جائے۔
مشرکانہ توہم پرستیوں سے، جن میں تم مبتلا ہوچکے تھے، انسان کی نفسیاتی کیفیت یہ ہوجاتی ہے کہ اسے کسی ذرا سی خلاف معمول بات کا سامنا کرنا پڑے تو اس پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔(31؍22) چونکہ خدا تمہاری اس نفسیاتی کیفیت سے واقف تھا، اس نے قاتل کا سراغ لگانے کے لئے ایک نفسیاتی ترکیب بتائی (جو انسان کی اُس زمانے کی ذہنی سطح کے اعتبار سے بڑی خلافِ معمول تھی) اس نے کہا کہ تم میں سے ایک ایک جاؤ، اور مقتول کے حصہ جسم کو اُٹھا سے ایسے آثار نمایاں ہوگئے،جو اس کے جرم کی غمازی کرنے کے لئے کافی تھے) اس طرح اللہ نے قتل کے راز کو بے نقاب کردیا او رمجرم سے قصاص لے کر، موت کو زندگی سے بدل دیا، کیونکہ قصاص میں قوم کی حیات کا راز پوشیدہ ہوتا ہے۔ (179؍2)
اللہ، اسی طرح اپنی نشانیاں دکھاتا رہتا ہے تاکہ تم عقل و شعور سے کام لے کر ایسے معاملات کو سلجھایا کرو، اور اس حقیقت کو سمجھ لو کہ نفسیاتی تغیر سے (افراد سے آگے بڑھ کر) کس طرح خود قوموں کی حالت بدل جاتی ہے۔(11؍13) 2
وہم و گمان ، ظن و قیاس اور تخریص و تخمین اور مسرفانہ الفاظ پر مبنی اس ‘مفہومِ قرآن’ کو بھی ملاحظہ فرمایئے، اور اس کے ساتھ ساتھ طلوع اسلام 1975ء کے شماروں کے ٹائٹل صفحات پر بتکرار و اعادہ پیش کیا جانے والا یہ اشتہار بھی دیکھئے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ __ ”قرآن سمجھ میں نہیں آسکتا__تفسیروں سے، کیونکہ تفاسیر میں عام طور پر مفسروں کے اپنے خیالات و معتقدات قرآنی مطالب پر غالب آجاتے ہیں ۔”__گویا پرویز صاحب کی ‘تفسیر قرآن’ اور ان کے ‘مفہومِ قرآن’ میں نہ ان کا کوئی اپنا خیال اور عقیدہ ہوتا ہے ، نہ وہم اور گمان اور نہ ہی قیاس اور ظن۔ یہ ‘تفسیر قرآن’ اور یہ ‘مفہوم قرآن’ خالص ‘وحی’ پر مبنی ہے، جن میں ”ان کے اپنے خیالات و معتقدات، قرآنی مطالب پر غالب” بالکل نہیں ہوئے۔
پھر اس ‘خالص قرآنی تفسیر’ میں ‘مفکر ِقرآن’ کا یہ بلند بانگ دعویٰ بھی ملاحظہ فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ ”نے قاتل کا سراغ لگانے کے لئے ایک نفسیاتی ترکیب بتائی (جو انسان کی اس زمانے کی ذہنی سطح کے اعتبار سے بڑی خلافِ معمول تھی) اس نے کہا: تم میں سے ایک ایک جاؤ اور مقتول کے حصۂ جسم کو اُٹھا کر لاش کے ساتھ لگا دو”__ خدا نے کہاں یہ ترکیب بتائی؟ کس کتاب میں یہ مذکور ہے؟ کس قرآن میں اس کا ذکر ہے؟کس انسائیکلو پیڈیا میں یہ مکتوب ہے؟ کس پیغمبر خدا پر اس ترکیب کی وحی ہوئی؟ اور ‘مفکر قرآن’ کو اس کا علم کیسے ہوا؟ کیا اس کے متعلق خود پرویز صاحب پر وحی اُتری ہے؟ یا پھر ان کی’قرآنی بصیرت‘، ‘نظریۂ ارتقا’ کے تحت ترقی کی منازل طے کرتی ہوئی’مزاج شناسئ خدا’ کے مرتبہ تک پہنچ گئی ہے؟ کاش، کارپردازانِ طلوعِ اسلام یہ واضح کردیں کہ عامة الناس’مفکر ِقرآن’ صاحب کے بارے میں کیا اعتقاد رکھیں ؟ … وہ ‘مزاج شناسِ خدا’ تھے یا مفتری علیٰ اللہ؟
قیاسی تفسیر اور پھر یہ دعاوی بھی
اب ایک طرف وہم وگمان پر مبنی یہ تفسیر ہے جس کے قیاسی ہونے کا خود اُنہیں بھی اقرار ہے، اور دوسری طرف اُن کے یہ دعاوی بھی ملاحظہ فرما لیجئے،جن میں ‘مفکر قرآن’ صاحب بڑی دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے یہ اعلانات بھی کیا کرتے تھے :
(1) میرے نزدیک یہ شرک ہے کہ انسان اپنے ذہن میں پہلے سے کوئی خیال لے کر قرآن کریم کی طرف آئے اور پھر قرآن سے اس کی تائید تلاش کرنا شروع کردے۔ 3
(2) میں نے قرآنی تعلیم کو اپنے کسی خیال یا رجحان کے تابع رکھنے کی جسارت کبھی نہیں کی۔ 4
(3) میں نے جب بھی قرآن پر غور کیا ہے، اپنے خیالات کو اس میں دخیل نہیں ہونے دیا۔ 5
پھر ‘مفہوم القرآن’ کے اس پہلو پر بھی غور کیجئے کہ اس میں کس قدر قرآنی الفاظ کی رعایت برتی گئی ہے اور کس قدر ‘مفکر قرآن’ کے اپنے ‘قیاس و گمان’ کا دخل ہے۔ پھر قرآنی آیات کے گنتی کے چند الفاظ کا مفہوم بیان کرنے کے لئے’مفکر قرآن’ کے قلم سے الفاظ کا جو سیلاب اُمنڈ آیا ہے، اس کا طول و عرض بھی ملاحظہ فرمائیے اور پھر سوچئے کہ اگر قرآنی آیات کا یہی مفہوم و مطلب ہے تو عرب کے اَن پڑھ اور سادہ مزاج بدوؤں کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ مفہوم آسکا ہوگا، جس سے خود ‘مفکر قرآن’ صاحب بھی بایں علم و دانش اور بایں حکمت و فضیلت 1935ء تک خالی الذہن تھے، کیونکہ 1935ء میں وہم و گمان پر مبنی یہ قیاسی تفسیر پیش کرنے کی بجائے اُنہوں نے یہ فرمایا تھا :
”اضْرِبُوْہُ بِبَعْضِھَاکی تفسیر میں اتنا کچھ لکھا گیا کہ خواب، کثرتِ تعبیر سے پریشان ہوگیا ہے، لیکن بایں ہمہ بات ویسی کی ویسی ہی مشکل رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے اور اس کا صحیح مفہوم، تاریخی انکشافات کی روشنی ہی میں متعین ہوسکتا ہے۔ ۔ ۔ قیاس آرائیوں سے اس کا مفہوم متعین نہیں ہوسکتا۔ یہ آیت بھی ابھی متشابہات کی فہرست میں ہے، تاریخ اپنا کوئی اور ورق اُلٹے گی، تو اس وقت یہ آیت محکمات کی فہرست میں منتقل ہوجائے گی۔ قرآنی حقائق و معارف زمانہ کے شکن درشکن گیسوؤں میں لپٹے ہوئے ہیں ۔ علم انسانی کی نسیم سحری، جوں جوں ان پیچوں کو کھولتی جاتی ہے، یہ گوہر آبدار حسین آویزوں کی طرح وجۂ درخشندگیٔ عالم ہوتے جاتے ہیں ۔” 6
حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ ‘مفکر قرآن’ صاحب کا کسی ‘تاریخی انکشاف’ کا انتظار بھی کوئی خوشگوار موقف نہیں ہے، لیکن اس کی بجائے اپنے گمان و قیاس پر مبنی موقف کو الفاظ کا بے تحاشا اسراف کرتے ہوئے لفاظی اور وہم و ہوا کے مرکب کی شکل میں ‘مفہوم القرآن’ کے نام سے پیش کرنا، اس سے بھی بدتر عمل ہے۔ أعاذ نا اﷲ من ذلك
پرویز __ وفادار غلامِ مغرب
تہذیب ِمغرب کے سامنے’مفکر ِقرآن’ کی فکری اسیری اور ذہنی غلامی کا صرف یہی نتیجہ نہیں تھا کہ وہ محض نظریہ و اعتقاد کی حد تک ہی اس کے سامنے دیدہ و دل فرشِ راہ کئے ہوئے تھے،بلکہ وہ عملی دنیا میں مغربی معاشرت کے ان جملہ اجزا کو بھی قرآن کے نام پر اپنانے کے داعی تھے، جنہیں مغرب نے بغیر کسی قرآن کے اختیار کررکھا تھا۔ اورجنہیں جبل ِقرآن سے کھود نکالنے کو وہ بڑے فخر سے اپنی پچاس سالہ ‘قرآنی خدمات’ قرار دیا کرتے تھے۔ آخر سوچئے تو سہی کہ مخلوط سوسائٹی، مخلوط تعلیم، ترکِ حجاب و نقاب، مردوزَن کی مطلق اور کامل مساوات، درونِ خانہ مشاغل کی بجائے، بیرون خانہ اُمور میں اُنہیں منہمک کرنا، تعدد ِازواج کو معیوب قرار دینا، عورت کو خانگی مستقر سے اُکھاڑ کر اسے مردانہ کار گاہوں میں لاکھڑا کرنا، خانگی زندگی میں اسے فطری وظائف سے منحرف کرکے، قاضی و جج بلکہ سربراہِ مملکت تک کے مناصب پر براجمان کرنا، وغیرہ جملہ لوازمِ معاشرت میں سے وہ کون سی چیز ہے جسے ‘مفکر قرآن’ نے قرآن کے نام پر پیش نہیں کیا اور اس پر مستزاد یہ کہ کارل مارکس کی اشتراکیت کو من و عن قبول کرکے اسے ‘نظامِ ربوبیت’ کے نام سے مشرف بہ اسلام کرتے ہوئے قرآنِ کریم کے جعلی پرمٹ پر درآمد کیا۔ اور پھر اسے عین قرآنی نظام باور کروانے کے لئے ان ہی آیات کے مفاہیم و تراجم میں تغیر و تبدل کرتے ہیں جن سے ماضی میں وہ بالکل برعکس مفاہیم مراد لیا کرتے تھے۔ قلب و ذہن میں کمیونزم کی محبت کے رچ بس جانے کے بعد اور آنکھوں پر اشتراکیت کی عینک چڑھ جانے کے بعد اب قرآن اُنہیں اشتراکیت کا اور ‘اشتراکیت’ اسلام کا جدید ایڈیشن نظر آنے لگتے ہیں ۔ متمول اور صاحب ِثروت صحابہ کرامؓ کی خوشحالی اب ‘سرمایہ داری’ دکھائی دینے لگتی ہے۔ وہ پاکباز ہستیاں اب مُترفین بمعنی ‘سرمایہ دار’ کا روپ اپناتے نظر آتے ہیں ۔ اور پھر یوں ساون کے اندھے کو جب ہر طرف ہرا ہی ہرا سوجھنے لگتا ہے تو پھر مغربی معاشرت اور اشتراکیت کا یہ ملغوبہ ‘انقلابی اسلام’ قرارپا جاتا ہے اور ‘مفکر قرآن’ صاحب اِسے اپنی ندرتِ نگاہ کا شاہکار قرا ردیتے ہوئے یہ اعلان فرماتے ہیں کہ ع آفتابِ تازہ پیدا، بطن گیتی (زمین) سے ہوا۔
پرویز __ عالم کفر کا منظورِ نظر
اب چونکہ ‘مفکر ِقرآن’ صاحب کا یہ ‘انقلابی اسلام’ درحقیقت محمد رسول اﷲ والذین معہ کے اصل اسلام میں نقب زنی کے نتیجہ میں نمودار ہوا ہے، اس لئے دنیاے مغرب کی نگاہ میں یہ ایک قابل قدر چیز ہے او رہمارے ‘مفکر ِقرآن‘ صاحب عالم ِکفر کی آنکھ کا تارا ہیں ، بے ایمانوں کے منظور ِ نظر اور غیرمسلموں کے محبوبِ نگاہ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیاے مغرب کے یہودی سکالر ہوں یا عیسائی عالم، ملحد دانشور ہوں یا زندیق فلسفی، سب کے سب ‘مفکر قرآن‘ کے اس ‘انقلابی اسلام’ سے خوش ہیں او راسے اپنے مخصوص مقاصد کے لئے ممدومعاون جانتے ہوئے پرویز صاحب کی تعریف و تحسین میں رطب اللسان ہیں ۔ چنانچہ وہ خود بھی اور ان کا آرگن طلوعِ اسلام بھی بڑے شاداں و فرحاں ہیں کہ چلو! عالم اسلام میں نہیں تو عالم کفر میں تو ان کی پذیرائی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ طلوعِ اسلام، علمبردارانِ کفر کے ہاں ‘مفکر ِقرآن’ (اور ان کی ‘قرآنی خدمات’) کی قدر افزائی پر خوشی سے نہال ہوتے لکھتا ہے:
”ڈاکٹر Freeland Abbot امریکہ کی Tufts یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ کے صدر اور بین الاقوامی شہرت کے مالک ہیں ۔ انہوں نے ‘اسلام اینڈپاکستان ‘ کے نام سے 1968ء میں ایک بلند پایہ کتاب شائع کی تھی، اُس میں انہوں نے فکر ِپرویز اور تحریک ِطلوعِ اسلام کے متعلق بڑی تفصیل سے دادِ تحسین دینے کے بعد کہا ہے کہ __ ”پرویز صاحب، اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے فعال ریفارمر ہیں ” __ یہ کتاب فکر ِپرویز کو دنیا کے دور دراز گوشوں تک متعارف کرانے کا موجب بن گئی ہے۔” 7
ایک اور مقام پر یورپ اور امریکہ میں مقبولیت ِپرویز کا ذکر کرتے ہوئے بڑے ہی فرحت و انبساط کے ساتھ طلوعِ اسلام یہ لکھتا ہے :
”پرویز صاحب کی تمام کتابیں ، بجز ایک، اُردو زبان میں ہیں اور ان کی پبلسٹی کا یہ عالم ہے کہ ماہنامہ طلوعِ اسلام کے سوا ان کا کہیں ذکر نہیں آتا۔ انہیں اخبارات او رمجلات میں تبصرہ کے لئے بھیجا جاتا ہے تو وہ کتابیں رکھ لیتے ہیں ، لیکن ان پر (موافق نہ سہی، مخالف ہی سہی) تبصرہ نہیں کرتے، اس کے باوجود آپ دیکھئے کہ یورپ اور امریکہ فکر گاہوں میں فکرو تحریکِ پرویز پر ریسرچ ہوتی ہے او رکتابیں اور مقالے شائع ہوتے ہیں ۔” 8
یہ اُسی امریکہ کے اسکالرز کے کلمات تحسین و تعریف ہیں جس کے ایک سکالر Professor Smith کے متعلق کبھی طلوعِ اسلام نے یہ لکھا تھا کہ وہ کہتا ہے کہ پرویز صاحب کے پیش کردہ :
”اس قسم کے انقلابی اسلام کی ریسرچ ہمارے ادارہ کے لئے موزوں نہیں رہے گی۔” 9
لیکن اب جو اس ‘انقلابی اسلام’ پر ریسرچ ہوئی تو ایسی کتابیں انہی امریکی سکالرز کے ہاتھوں لکھی گئیں جو ”فکر ِپرویز کو دنیا کے دور دراز گوشوں تک متعارف کرانے کا موجب بن گئیں ۔” یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر یہ ‘انقلابی اسلام’ واقعی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا صحیح اسلام ہے تو امریکہ کو اسلام کا یہ درد کیسے اُٹھ آیا کہ وہ اس کو متعارف کروانے کا موجب بن جائے؟ کیا یہ ‘انقلابی اسلام’ فی الواقعہ اشتراکی نظامِ معیشت اور مغربی معاشرت کے لوازمات کو قرآن کے جعلی پرمٹ پردرآمد کرنے کی وہ سازش نہیں ہے جو امریکہ، یورپ اور روس کی مادّہ پرست تہذیب کو اس لئے پسند ہے کہ اس ‘انقلابی اسلام’ کو محمد رسول اﷲ والذین معه کے حقیقی اسلام کے متبادل قرار دیا جارہا ہے۔ یوں دین ِاسلام میں رخنہ اندازی اور پیوند کاری امریکہ ، یورپی اور اشتراکی حکومتوں کے سیاسی اغراض کے عین مطابق ہے، کیونکہ :
”مغربی ممالک، خواہ وہ یورپ ہو یا امریکہ ، اسلامیات کی طرف خالص علمی نقطہ نگاہ سے توجہ نہیں کررہے ہیں ۔ یورپ کے سامنے بھی اپنے سیاسی مقاصد تھے، اس طرح، امریکہ کے پیش نظر بھی اپنے سیاسی مصالح ہیں ۔” 10
طلوع اسلام، مسرت کے ساتویں آسمان پر پرواز کرتے ہوئے بڑے فخر و ابتہاج کے ساتھ یہ اعلان کرتا ہے :
”امریکہ اور کینیڈا وغیرہ کی یونیورسٹیاں ، فکر ِپرویز کو ڈاکٹریٹ کے لئے تحقیقاتی مقالات کا موضوع منتخب کررہی ہیں ۔” 11
اس کے بعد پرویز صاحب کی کتب پر ریسرچ ہوئی اور کفر کی مصلحتوں نے فکر ِپرویز کو اپنے اہداف و مقاصد کے مطابق محمد رسول اﷲ والذین معہ کے اصلی اسلام کے خلاف پایا تو اس فکر کی تعریف و تحسین کی گئی۔ عالم کفر کے اسکالرز کی اس تحسین و تعریف سے طلوعِ اسلام باغ باغ ہوجاتا ہے اور وفورِ مسرت سے یہ لکھتا ہے کہ
” غالباً 1960ء کا ذکر ہے،Peter Schmid نامی ایک جرمن سکالر ہندوپاک کی سیاحت کے لئے آیااور پرویز صاحب سے بھی آکر ملا۔ بعد میں اپنے تاثرات اور افکار کو کتابی شکل میں مرتب کیا جس کا انگریزی ترجمہ “INDIA – Mirage & Reality”کے نام سے شائع ہوا جس کا اس زمانے میں بڑا چرچا ہوا۔ اس نے پرویز صاحب سے اپنی ملاقات کا حال بڑے شگفتہ اور ڈرامائی انداز میں بیان کیا ہے۔ 12
اس کے بعد ‘مفکر ِقرآن’کی تعریف و تحسین میں Peter Schmid کا درج ذیل اقتباس دیا گیا ہے :
”میں پچھلی مرتبہ آیا تھا تو ایک مذہبی شخصیت، پیرمانکی شریف (مرحوم) سے ملا تھا۔ اس دفعہ ایک اور مذہبی شخصیت سے ملاقات ہوئی جس کی تعلیم اور وسعت ِظرف اسے بالکل ایک مختلف زمرہ میں شامل کرتی ہے۔ ‘قرآنک ریسرچ سنٹر’ جس کے سربراہ جی اے پرویز ہیں ، گلبرگ کے ایک مکان کی نچلی منزل پر واقع ہے۔ اسی گلبرگ میں جو فلم اسٹارز اور دیگر ارضی مخلوق کا مسکن ہے۔ ان کے کمرے میں کھانے پینے کے برتن اور ان کا (کتب خانہ اور) مسودات، اس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ وہی کمرہ ان کا دفتر بھی ہے اور خواب گاہ بھی۔ اس مردِ بزرگ کے چہرے کی عمیق لکیریں اور اس کی نیند کو ترسی ہوئی آنکھیں ، سادہ سی دھات کے فریم کا چشمہ اور سفید بال، اس حقیقت کے غماز تھے کہ وہ کن گہری سوچوں میں ڈوبا رہتا ہے۔ ان سوچوں کی پیدا کردہ علمی اور فکری صلابت میں کچھ لوچ پیدا کرتی تھیں ، تو اس کی خواب آلود آنکھیں ۔ اس کے نزدیک’ تقویٰ’ ترکِ دنیا کا نام نہیں بلکہ اس دنیا کو صفاتِ خدا کا آئینہ دار بنا دینے کی بالارادہ کوشش کا نام ہے۔” 13
لادینیت کی علمبردار تہذیب ِمغرب کے ایک اور سپوت کی طرف سے پرویز صاحب کو خراجِ تحسین پیش کئے جانے کا تذکرہ بایں الفاظ کیا گیا ہے :
”ہالینڈ کے مشہور مستشرق Dr. J. M. S. Baljon نے ایک کتاب شائع کی جس کا عنوان ہے: “Modern Muslim Koran Interpretation” یعنی ”عصر جدید کے مفسرین قرآن” اس مقصد کے لئے برصغیر ہندوپاک سے تین مفسرین کا انتخاب کیا ہے: مولانا ابوالکلام آزاد (مرحوم) علامہ عنایت اللہ مشرقی (مرحوم) اور پرویز صاحب۔”… 14
ضمناً یہاں یہ عرض کردینا ضروری ہے کہ عنوانِ کتاب کا جو ترجمہ ”عصرجدید کے مسلم مفسرین” کے الفاظ میں کیا گیا ہے، وہ قطعی غلط ترجمہ ہے۔ صحیح ترجمہ یا تو یہ ہے کہ ”تجددپسند مسلمانوں کی ترجمانی ٔ قرآن” یا پھر یہ کہ ”قرآنِ مسلم کی تجدد پسندانہ ترجمانی” طلوعِ اسلام کا غلط ترجمہ خواہ جہالت علمی کے باعث ہو یا جان بوجھ کر شعوری خیانت کے تحت؛ بہرحال اور بہرصورت معیوب حرکت ہے۔
اس ضمنی وضاحت کے بعد اس غیر مسلم مصنف نے ‘مفکر ِقرآن’ کو ان الفاظ میں ہدیۂ عقیدت پیش کیا ہے :
”پرویز صاحب کی شخصیت کے حقیقی جوہروں کو ان کی درخشندہ اور بلند پایہ علمی صلاحیتوں میں تلاش نہیں کرنا چاہئے۔ مبدائِ فیض نے اُنہیں ، ان نوجوانوں کے لئے، جن کا موجوں کے تلاطم میں گھرا ہوا سفینۂ حیات مذہبی لنگر کی تلاش میں ہو، اعلیٰ صلاحیتوں کا اُستاد او رباپ کی طرح شفیق دوست بنایا ہے۔ ان کی صاف اور شفاف نگاہ پیش آمدہ مسائل کی گہرائیوں تک پہنچ جاتی ہے اور ان کے متعلق بلا کاوش و تردّد صائب رائے، آزادانہ فیصلے، ان کے اطمینانِ قلب و شرحِ صدر کے آئینہ دار ہوتے ہیں ۔ اس سے توقع کی جاسکتی ہے کہ ان کے اثرونفوذ کا دائرہ دن بدن وسیع تر ہوتا جائے گا۔” 15
ائمہ کفر میں سے ایک اور شخصیت کی طرف سے پرویز صاحب کو ملنے والے شرفِ ِتہنیت و پذیرائی کو طلوعِ اسلام ان الفاظ میں پیش کرتا ہے:
”مستشرقین مغرب میں سے پروفیسر E. I. J. Rosentnal کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ اُنہوں نے“Islam, In the Modern National”کے عنوان سے ایک شہرۂ آفاق کتاب لکھی ہے، جسے کیمبرج یونیورسٹی پریس نے 1965ء میں شائع کیا۔ اس میں اُنہوں نے مختلف اسلامی تحریکوں کا وسیع جائزہ لیا اور پرویز صاحب اور ان کی تحریک کا ذکر خاصی تفصیل سے کیا ہے۔” 16
کینیڈا کی ایک یونیورسٹی کی علمی تحقیقات کا ذکر کرتے ہوئے، ایک ایسی کافر خاتون کے گلہاے عقیدت (جو اس نے پرویز صاحب کی ‘قرآنی خدمات’ پر پیش کئے ہیں ) طلوعِ اسلام میں ان الفاظ میں مذکور ہیں :
”کچھ عرصہ ہوا، McGill یونیورسٹی (کینیڈا) کی طرف سےMiss Sheila McDonough نامی ایک طالبہ ڈاکٹریٹ کے لئے اپنے تھیسس کی غرض سے آئی تھی۔ وہ کافی عرصہ یہاں رہی اور اس کے بعد The Authority of the past کے عنوان سے اپنا تحقیقاتی مقالہ لکھا جسے امریکن اکادمی آف ریلجئن نے 1970ء میں شائع کیا۔ اس میں اس نے سرسید، اقبال اور پرویز کو اپنی تحقیق کا موضوع قرار دیا ہے۔ مقالہ اگرچہ ایک طالب علم کا ہے لیکن اس سے اس حقیقت کا پتہ چلتا ہے کہ امریکہ اور کینیڈا وغیرہ کی یونیورسٹیاں فکر ِپرویز کو ڈاکٹریٹ کے لئے تحقیقاتی مقالات کا موضوع منتخب کررہی ہیں ۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہMcDonough نے “Social Import of Pervez’s Religius Thoughts” کے نام سے ایک اور تحقیقاتی مقالہ بھی شائع کیا ہے، وہ ابھی تک ہماری نظروں سے نہیں گزرا، لیکن علمی حلقوں میں اس کا بھی ذکر آتا ہے۔” 17
ایک اور عیسائی سکالر جو کسی عیسائی مشنری سے وابستہ ہیں ، پرویز صاحب کو جو خراجِ عقیدت پیش کرتا ہے، اسے طلوعِ اسلام یوں پیش کرتا ہے:
”سوئٹزر لینڈ کے ڈاکٹر P. Robert A. Butler پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ لاطینی سے وابستہ اور عیسائی مشنری حلقہ کی ایک ممتاز شخصیت ہیں ۔ فکر ِپرویز کے ساتھ ان کی وابستگی کا اندازہ، اس سے لگائیے کہ وہ طلوعِ اسلام کا التزاماً مطالعہ کرتے ہیں ، او رپرویز صاحب کی کوئی کتاب ایسی نہیں ، جسے وہ اس کے شائع ہونے کے ساتھ ہی حاصل نہ کرلیتے ہوں ۔ سالِ گذشتہ اُنہوں نے اپنے عرصۂ دراز کے اس مطالعہ کا ماحاصل“Ideological Revolution Through the Quran” کے نام سے ایک تحقیقاتی مقالہ کی شکل میں پیش کیاجس نے مشنری دوائر میں بالخصوص بڑی شہرت حاصل کی۔ اس مقالہ کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اب حال ہی میں ، اس کا فرانسیسی زبان میں ایڈیشن ،ٹیونس (مراکو) سے شائع ہوا۔” 18
یہ خراجِ تحسین، یہ تعریف و توصیف، یہ تہنیت و پذیرائی اور یہ گلہاے عقیدت ‘مفکر ِقرآن’ صاحب کو یہودی، عیسائی، کافرو لادین علماے مغرب کی طرف سے پیش کئے گئے ہیں ؛ کیوں ؟ اور کس لئے؟ صرف اور صرف اس لئے کہ جو ‘انقلابی اسلام’ اُنہوں نے پیش کیا ہے ، وہ مغربی ممالک کے سیاسی اغراض و مقاصد کے عین مطابق ہے۔ اس لئے وہ ‘مفکر ِقرآن’ چوہدری غلام احمد پرویز سے انتہائی خوش ہیں ، بالکل اسی طرح جس طرح کل (اور آج بھی)، انگریز اپنے ‘خود کاشتہ پودے’ مرزا غلام احمد قادیانی سے خوش تھے (اور ہیں ) اور بالکل اسی طرح جس طرح قادیانی اُمت کے داماد مشرف پرویز سے، دنیاے کفر راضی ہے۔ آج روے زمین پر پورا عالم کفر پرویز صاحب سے، سلمان رشدی سے اور تسلیمہ نسرین جیسی شخصیتوں کی ‘قرآنی خدمات’، ‘حق گوئی’ اور ‘لبرل اسلام’ سے راضی بھی ہے اور خوش بھی۔ قرآن کریم نے تو چودہ سوسال قبل ہی اس حقیقت کو واشگاف کردیا تھا کہ کفار و منافقین یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو اسلام سے اسی طرح منحرف کردیا جائے، جس طرح وہ خود راہِ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں ۔ تاکہ برسرضلالت و غوایت ہونے میں سب برابر ہوجائیں :
وَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ كَمَا كَفَرُوا فَتَكُونُونَ سَوَاءً…﴿٨٩﴾…سورۃ النساء
”وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ خود کافر ہیں اسی طرح تم بھی کافر ہو جاؤ تاکہ تم اور وہ سب یکساں ہو جائیں۔”
طلوعِ اسلام اورپرویز صاحب خوش تھے (اور اب بھی وفاتِ پرویز کے بعد طلوع اسلام شاداں و فرحاں ہے) کہ یہودی سکالرز، عیسائی مفکر، لادین و بے دین محقق، علمبردارانِ کفر، ‘مفکر ِقرآن’ کے ‘انقلابی اسلام’ سے راضی ہیں اورچاہتے ہیں کہ یہ ‘انقلابی اسلام’ پھیلتا چلا جائے۔ اسی مقصد کے پیش نظر وہ اپنے مقالات و کتب کے ذریعہ اس کی تعریف و تحسین اور اشاعت و توسیع میں کوشاں ہیں ۔
امر واقعہ یہ ہے کہ پرویز صاحب کا ‘انقلابی اسلام’، اشتراکیت اور مغربی معاشرت کے اقدار و اطوار اور عادات و آداب کے مخلوطہ پر اُسی طرح مشتمل ہے، جس طرح اکبر کا دین ِالٰہی ہندومت اور اسلام کے آمیزہ پر مشتمل تھا۔ یہاں ایک ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ‘مفکر ِقرآن’ صاحب، الفاظ تو قرآن سے لیتے ہیں مگر مفہوم اشتراکیت او رمغربیت سے لیتے ہیں ۔ کان تو وہ اپنے رکھتے ہیں مگر ما قال الرسول کو سننے کی بجائے، فلاسفۂ کفر والحاد کو سنتے ہیں ۔ زبان تو ان کی اپنی ہے مگر وہ بولی غیروں کی بولتے ہیں اور دوسرا المیہ یہ ہے کہ غیروں کی بولی بولنے والا آدمی اگر حالت ِجنگ میں ایسا کرے تو غداروں کے چوکھٹے میں ، اس کی تصویر کو محفوظ کرکے تاریخ کے ایوانوں میں سجا دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر یہی کام کوئی شخص حالت ِامن میں کرے اور قرآن کے نام پر قرآن کھول کر کرے تو اسے ‘مفکر ِقرآن’ گردان کر ‘وسیع النظری‘، ‘لبرل اسلام’، ‘رواداری’ اور ‘روشن خیالی’ کا حامل قرار دیا جاتا ہے:
خرد کا نام جنوں رکھ دیا، جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
قرآن کے نام پر’ مغرب پرستی‘
یہودی علما، عیسائی رہبان، مشنری احبار، ملحد فلاسفہ، زندیق مفکروں ، لادین دانشوروں ، بے دین سکالروں اور غیرمسلم ماہرین ِتحقیق کی طرف سے ہمارے ‘مفکر قرآن’ پر داد و تحسین کے یہ ڈونگرے اسی لئے تو برسائے گئے ہیں کہ دیار ِ مغرب میں بسنے والے اسلام کے یہ دانا دشمن خوب جانتے ہیں کہ یہ شخص ، منافقت کا لبادہ اوڑھ کر قرآن کی بجائے، مغربی مآخذ ہی کو شرف ِ تقدم عطا کرتا ہے (اور قرآن کے نام کی آڑ میں وہی کچھ کہہ اور کررہا ہے جو دنیاے مغرب چاہتی ہے) مغربی مآخذ کی طرف اپنے رجوع کے لئے’مفکر ِقرآن’ صاحب کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ اُمت ِمسلمہ میں تو کسی مسئلہ پر کبھی تحقیق اور ریسرچ ہوئی ہی نہیں ، یہ سب کچھ تو مغرب ہی میں ہوا کرتا ہے۔ لہٰذا تحقیقاتِ مغرب کی طرف رجوع ناگزیر ہے۔
”ایک جنسیات ہی پر کیا موقوف ہے۔زندگی کے اور کون سے شعبے ہیں ، جن کے متعلق ہمارے ہاں کوئی ریسرچ ہوئی ہو!حقیقت یہ ہے کہ جس قوم پر صدیوں سے سوچنا حرام ہوچکا ہو، اور تقلید ِکہن، زندگی کی محمود روش قرار پاچکی ہو، ان میں فکری صلاحیتیں بہت کم باقی رہ جاتی ہیں ۔ لہٰذا ہمیں اس مقصد کے لئے مغرب ہی کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔” 19
اور حضرت عیسیٰ ؑ کی بن باپ ولادت سے انکار کے لئے بھی پرویز صاحب کی ‘قرآنی بصیرت’ قرآنِ کریم کو ناکافی سمجھتی رہی۔ (اگرچہ وہ اپنی زبان سے {أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ} کے الفاظ کا ورد کرتے ہوئے ہرمعاملہ میں ، قرآن ہی کے کافی ہونے کا اعلان کرتے رہے) پھر قرآن کو ناکافی گردانتے ہوئے، اُنہیں یہ اعلان کرنا پڑا کہ
”اس میں بالتصریح کہیں نہیں لکھا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش بغیر باپ کے ہوئی تھی اور نہ ہی یہ لکھا ہے کہ آپ یوسف کے بیٹے تھے۔” 20
اب ظاہر ہے کہ جب حسبنا کتاب اﷲ کے دعوے دار ‘مفکر ِقرآن’ کو اس مسئلہ میں قرآن ناکافی نظر آیا اور ان کے سر پر مجبوری کی یہ تلوار بھی لٹک رہی تھی کہ ولادتِ مسیحؑ کو بہرحال بن باپ کی پیدائش ‘ثابت’ کرنا ہے، تو اُنہیں ‘اضطراراً’ اُن اناجیل کی طرف رجوع کرنا پڑا جن کی ثقاہت اور استنادی حیثیت کے وہ خود بھی قائل نہیں تھے، چنانچہ اُنہیں یہ کہنا پڑا :
”قرآنِ کریم تک آنے سے پیشتر، ہمیں ایک بار پھر اناجیل پر غور کرلینا چاہئے، اناجیل جیسی کچھ بھی ہیں ، بہرحال ان ہی کے بیانات کو سامنے رکھا جائے،(اسکے سوا چارہ ہی کیا ہے)۔” 21
اب اس شخص کا معاملہ کس قدر پرفریب ہے جو تنہا قرآن ہی کو سندو حجت بھی قرار دے اور پھر مغربی مآخذ کو اپنا مرجع بھی بنائے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ‘مفکر ِقرآن’ صاحب، قرآن کو نہیں ، بلکہ تہذیب ِمغرب ہی کے اُصول و مبادی کو اور مغربی تحقیقات ہی کو عملاً حجت و سند سمجھا کرتے تھے۔ وہ بڑے ہی ‘خلوص سے‘ اس بات کے متمنی تھے کہ اُمت ِمسلمہ کو قرآن اور رسولِ قرآن سے منحرف کرکے، لوگوں کو اپنی اُن آرا کا تابع فرمان بنایا جائے، جنہیں قرآن کے نام پر مغرب سے مستعار لے کر وہ پیش کیا کرتے تھے۔ کیونکہ (بزعم اُو) آفتابِ قرآن کی روشنی، روایاتِ حدیث کے کثیف بادلوں میں سے گزر کر ہم تک نہیں پہنچ سکتی (لیکن ‘مفکر ِقرآن’ کی آراء و اَہوا کے تہہ در تہہ دھوئیں میں سے گزر کر ہمارے پاس آسکتی ہے)۔ قرآن اور رسول قرآن سے اہل ایمان کو منحرف کردینے کے ہدف و مقصد کے اعتبار سے، غلام احمد پرویز اور غلام احمد قادیانی، دونوں ہی تشابھت قلوبھم کے رشتہ میں منسلک ہیں کیونکہ دونوں ہی تو اُمت ِمسلمہ کو اپنی ہوائی تعبیرات کے پیروکار بنانا چاہتے ہیں ۔ ایک قرآن کے نام پر اور دوسرا اپنی نبوتِ زائفہ کی آڑ میں ۔ لیکن اخلاقی پہلو سے مرزا غلام احمد کو غلام احمد پرویز پر اس اعتبار سے فوقیت حاصل ہے کہ وہ کھلے بندوں یہ اقرار کرتے ہیں کہ وہ انگریزوں کے ‘خود کاشتہ پودا’ ہیں ۔ لیکن پرویز صاحب اس قسم کی اخلاقی جرأ ت سے کوسوں دور ہیں حالانکہ اپنی ممدوح کافر حکومتوں کی مدح سرائی میں دونوں رطب اللسان رہے ہیں تاکہ مسلمان ان کے نظام کو قبول کرکے اپنے آپ کو اُن کی وفاداری اورتابعداری میں سونپ دیں ۔ مرزا غلام احمد قادیانی یہ کہا کرتے تھے :
”میں ابتدائی عمر سے اس وقت جو قریباً ساٹھ برس کی عمر تک پہنچا ہوں ، اپنی زبان اور قلم سے اس اہم کام میں مشغول ہوں کہ مسلمانوں کے دلوں کو گورنمنٹ ِانگلشیہ کی سچی محبت اور خیرخواہی اور ہمدردی کی طرف پھیروں ۔”22
اور غلام احمد پرویز صاحب اپنے ‘نظامِ ربوبیت’ کے حوالہ سے مجبور تھے کہ وہ کمیونسٹ ممالک کے اشتراکی نظام کو آیۂ رحمت قرار دیں ، وہ لکھتے ہیں :
”اس وقت کمیونزم کی طرف سے دنیا کے سامنے اس کا معاشی نظام پیش کیا جارہا ہے، اس کا فلسفہ نہیں ۔ اس نظام کے متعلق بدلائل و شواہد بتایا جارہا ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلہ میں انسانیت کے لئے آیۂ رحمت ہے (اور یہ واقعہ بھی ہے)۔ 23
اور لطف کی بات یہ ہے کہ اسی آیۂ رحمت نظام کے بارے میں اسی کتاب کے ابتدائی صفحات میں خود پرویز صاحب ہی کے قلم سے یہ بھی مرقوم ہے :
”میں نے ایک مدت تک، اس تحریک (کمیونزم) کا دِقت ِنظر سے مطالعہ کیا ہے ۔۔۔ اور اس مطالعہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ تحریک انسانیت کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ اس تصور سے میری روح کانپ اُٹھتی ہے کہ اگر یہ نظام کہیں ساری دنیا پر مسلط ہوگیا تو اس سے وہ کس عذابِ الیم میں مبتلا ہوجائے گی۔” 24
آمدم برسرِ مطلب
خیر! چھوڑیئے،’مفکر ِقرآن’ صاحب کی اس تضاد بیانی کو؛ ہم اُن کے وسیع و عریض خارزار تضادات میں کہاں تک آبلہ پائی کرتے رہیں گے، ان کا تو سارا لٹریچر ہی تضادات وتناقضات سے اٹا پڑا ہے۔ بات یہ ہورہی تھی کہ ‘مفکر قرآن’ صاحب اگرچہ نام تو قرآن ہی کالیا کرتے تھے، لیکن عملاً وہ رجوع الیٰ القرآن کی بجائے مراجعت فرمایا کرتے تھے مغربی مآخذ کی طرف اور اسی لئے دنیا بھر کے یہودی، عیسائی اور سیکولر و کافر مفکرین، ان پر گلہائے عقیدت و محبت نچھاور کرتے رہے ہیں ،کیونکہ اُن کی ‘پچاس سالہ قرآنی خدمات’ اور ان کا ‘انقلابی اسلام’ محمد رسول اﷲ والذین معہ کے لائے ہوئے اصل اسلام کے مقابلہ میں اُنہیں قابل قبول ہے۔ کیونکہ یہی ‘انقلابی اسلام’ امت ِمسلمہ میں فکروعمل میں انتشار کا موجب ہے، اور عالمِ کفر کا مطلوب و مقصود بھی یہی ہے۔
یہی ‘قرآنی خدمات’ علماء ِ امت ِ محمدیہؐ کی نظر میں
اب آیئے! یہ دیکھیں کہ ‘مفکر ِقرآن’ صاحب کی ان ‘قرآنی خدمات’ اور ان کے ‘انقلابی اسلام’ کو اُمت ِ محمدیہ کے علماے کرام کس نظر سے دیکھتے ہیں ۔
علماے کرام کے نزدیک’مفکر ِقرآن’ صاحب کی عمر بھر کی ‘قرآنی خدمات’ کا ماحصل، اس کے سوا کچھ نہیں کہ انہوں نے دورِ حاضر کی غالب تہذیب سے جملہ معاشرتی اطوار لے کر، اُنہیں قرآن کے نام پر اُس معاشی نظام کے ساتھ ملا کر پیش کیا ہے جسے کارل مارکس نے اشتراکیت کی صورت میں ترتیب دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ جاہلیت کے اس نظام کو قرآن کے جعلی پرمٹ پر درآمد کرکے پیش کرنا، قرآن کی نہیں بلکہ تہذیب ِمغرب ہی کی نشروتبلیغ اور ترویج وتنفیذ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علما نے تحریک ِطلوعِ اسلام کا ایک مدت تک مطالعہ کرکے 1962ء میں پرویز صاحب اور ان کے ہم خیال افراد پر کفر کا فتویٰ عائد کیا۔ اس فتویٰ پر تقریباً ایک ہزار علماے کرام کے دستخط تھے۔ یہ فتویٰ کسی ایک مفتی، یا کسی ایک مکتبہ فکر کے علما کی طرف سے نہیں ، بلکہ تمام مکاتب ِفکر کے علما کی طرف سے متفقہ طور پر جاری ہوا تھا۔ غلام احمد قادیانی کے بعد غلام احمد پرویز وہ دوسری شخصیت ہے جس کے کفر پر کسی ادنیٰ شائبۂ اختلاف کے بغیر، اجماعِ اُمت قائم ہوا ہے جو بجاے خود اہل اسلام کے لئے ایک شرعی حجت ہے۔ پھر یہ پاکستان کے علما ہی کی طرف سے جاری نہیں ہوا، بلکہ سعودی عرب کے علما بالخصوص امام حرمین شریفین، شیخ محمد عبداللہ السبیل اورسعودی عرب کے سابق مفتی ٔاعظم شیخ عبدالعزیز بن باز نے بھی ایک تفصیلی فتویٰ دیا ہے۔ مزید برآں حکومت کویت کی وزارت الاوقاف کی فتویٰ کمیٹی کے سربراہ شیخ مشعل مبارک عبداللہ احمد الصباح نے بھی ایسا ہی فتویٰ ٔ کفر صادر فرمایا۔ پاکستان کے علما کے اس فتویٰ کا ذکر ‘طلوعِ اسلام’ مارچ 1962ئ، صفحہ 7 پر کیا گیا ہے۔ رہے سعودیہ اور حکومت ِکویت کے فتوے تو ان کا ذکر ماہنامہ ‘محدث’ اگست ؍ستمبر 2002ء کے صفحہ 112 اور 113 پر موجود ہے۔
اب غور طلب بات تو یہ ہے کہ جس ‘انقلابی اسلام’ سے یہود و نصاریٰ کے احبار و رہبان، کفر والحاد کے پیشوا، لادینیت کے حامل دانشور اور سیکولرازم سے وابستہ مفکرین تو راضی اور خوش ہوں مگر عالم اسلام کے علما پرویز صاحب کے اس ‘انقلابی اسلام’ اور ان کی ‘پچاس سالہ قرآنی خدمت’ کی بنا پر ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں ‘مفکر ِقرآن’ پر کفر کے فتوے لگا رہے ہوں تو اُس ‘انقلابی اسلام’ اور ‘قرآنی خدمات’ کی قدروقیمت معلوم شد!
اور آخر میں ؛ یہ جملہ معترضہ بھی
آخر میں یہ بھی جان لیجئے کہ مغرب کے جن علماے کفر والحاد اور علمبردارانِ لادینیت نے پرویز صاحب کے لٹریچر پر ریسرچ کرکے اُنہیں خراجِ تحسین پیش کیا ہے، ان ہی علما نے بیسیویں صدی میں دفاعِ اسلام کا عظیم فرض انجام دینے والے مولانا مودودی ؒ کی کتب پر بھی ریسرچ کی ہے اور اس کے نتیجہ میں وہ مولانا مودودیؒ کی تعریف وتحسین کرنے کی بجائے ان کی تحقیر و توہین کرتے ہیں اور اُنہیں نامبارک، نامسعود اور منحوس قرار دیتے ہیں ۔ صرف ایک حوالہ ملاحظہ فرمائیے اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہ اقتباس بھی غالباً اُسی پروفیسر اسمتھ کا ہے، جس نے پرویز صاحب سے کراچی میں ملاقات کی تھی۔ (اس ملاقات کا ذکر طلوع اسلام: 3؍ستمبر 1955ء صفحہ 13 پر موجود ہے)۔ وہ لکھتا ہے:
25“Finally we come to the most ominous representative of this trend, back to religious conservation:Syed Abu-Al-A’la Mawdudi
مولانا مودودیؒ کوئی مبرا عن الخطا یا کوئی معصوم شخصیت نہیں تھے، یقینا ان سے بھی غلطیاں ہوئی ہوں گی (بلکہ یقینا ہوئی ہیں اور خود ہمیں بھی، اُن سے بعض امور میں اختلاف ہے) لیکن بہرحال وہ ایسے خطاکار اور گنہگار نہ تھے کہ عالم کفر کے کافر سکالر، ملحد پیشوا، زندیق، فلاسفہ، یہودی ربی اور عیسائی احبار و رہبان ان سے خوش ہوتے۔ اگرکسی کی آنکھوں پرتعصب کی عینک نہ چڑھی ہو، سینے میں کینہ و کدورت نہ ہو، دلِ درد مند اور قلب ِحق پسند میں ذرّہ برابر بھی ایمان موجود ہو تو وہ یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ __”مودودی صاحب کی یہی فضیلت ومنقبت کیا کم ہے کہ کفار اہل مغرب کے ہاں وہ انتہائی نامسعود، از حد نامبارک، اور منحوس ترین (The most ominous) شخصیت قرار پاتے ہیں ۔”__ اور وہ اپنی اس تحقیر و توہین پر بجاطور پر یہ کہہ سکتے ہیں :
إذا أتتك مذمـتي من ناقـص فھي الشھادة لي بأني کامل
”جب کسی ناقص و کمتر کی طرف سے میری مذمت آئے، تویہی دراصل میرے کامل ہونے کی شہادت ہے۔”
اور اس کے برعکس’مفکر ِقرآن’ جناب چوہدری غلام احمد پرویز کی یہی رسوائی کیا کم ہے کہ علمائِ یہود ہوں یا احبار و رہبانِ عیسائیت، علمبردارانِ کفر ہوں یا پیشوا یانِ الحاد، فلاسفۂ زندقہ ہوں یا دانشورانِ دہریت؛ وہ سب کے سب راضی اور خوش ہوکر اُنہیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں ۔ خود سوچ لیجئے کہ ان کا ‘انقلابی اسلام’ کفار و ملحدین کے کام کا ہے؟ یا خدا اور رسولؐ کے کام کا؟ إن في ذلك لعبرة لأولي الأبصار!! فاعتبروا یأولي الأبصار!!
حوالہ جات
1. برقِ طور، ص190 تا191
2. مفہوم القرآن، ص25 تا 26
3. طلوع اسلام، اگست 1961ئ، ص74
4. ایضاً
5. طلوع اسلام، دسمبر 1969ئ، ص36
6. معارف القرآن، ج3، ص356
7. طلوع اسلام ، نومبر 1976ئ، ص58
8. طلوع اسلام، نومبر 1976ئ، ص60
9. طلوع اسلام، 3 ستمبر، ص13
10. طلوع اسلام، 3 ستمبر1955ئ، ص13
11. طلوع اسلام، نومبر 1976ئ، ص59
12. طلوع اسلام، نومبر 1976ئ، ص57
13. طلوع اسلام، نومبر 1976ئ، ص57
14. طلوعِ اسلام، نومبر 1976ئ، ص58
15. طلوع اسلام، نومبر 1976ئ، ص58
16. طلوع اسلام، نومبر 1976ئ، ص58
17. طلوع اسلام، نومبر 1976ئ، ص59
18. طلوع اسلام، نومبر 1976ئ، ص59
19. سلیم کے نام، ج3، ص140
20. شعلہ مستور، ص105
21. شعلہ مستور ، ص58
22. تبلیغ رسالت، ج7، ص10
23. نظام ربوبیت، ص398
24. نظام ربوبیت، ص 22
25. Modern Islam in India, by Wilfred Cantwel Smith, Sh. M. Ashraf, 7-Aibak Road, New Anarkali, Lahore, 1969. Page 164