کیا حجة الوداع کا خطبہ غیر معتبر ہے؟’طلوع اسلام’ میگزینکو جواب Part 3
سطوربالا سے ظاہر ہے کہ طلوع اسلام کے ”باباجی پرویز مرحوم ” قرآن مجید سے بھی مخلص نہیں تھے۔ورنہ وہ قرآن مجید میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے تصاویر تیار کرانے کے ذکر سے ، اگر ”تصویر کے جواز” پر استدلال کرسکتے ہیں، تو بالکل اسی طرز استدلال کے مطابق، قرآن مجید میں حضرت ہارون علیہ السلام داڑھی کے ذکر سے، ”داڑھی کی شرعی حیثیت ” بھی واضح ہورہی ہے۔پھر قرآن مجید گود میں رکھ کر اس ”مفسر قرآن” کا داڑھی منڈائے ہوئے فوٹو اتروانا آخر کیا معنی رکھتا ہے؟چنانچہ جب خود قرآن مجید سے ان لوگوں کا یہ سلوک ہے، تو ان کی طرف سے احادیث رسول اللہ ﷺ کی صحت و قبولیت کےلیے، ان کی قرآنی تعلیمات سے مطابقت کی شرط لگانا بھی نرا دھوکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خطبہ حجۃ الوداع کی روایات، کہ جن کا ایک ایک جملہ قرآنی تعلیمات کی منہ بولتی تصویر ہے، پرویز اور اس کے ناکارہ وارثوں کی نظروں میں جچنے سے قاصر رہی ہیں اور ہماری اس تحریر کامحور یہی ہے کہ خطبہ حجۃ الوداع کی مطابقت قرآن مجید کی تعلیمات سے ثابت کی جائے۔
چنانچہ ارشاد رسالت مآب ﷺ ہے:
14۔”جو لڑکا اپنے باپ کے علاوہ کسی او رکے نسب سے ہونے کا دعویٰ کرے، اور جو غلام اپنے مولیٰ کے سوا کسی اور کی طرف اپنی نسبت کرے۔اس پر خدا کی لعنت ہے۔”
رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان بھی قرآنی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ کیونکہ بیٹے کاغیر باپ کی طرف، اور غلام کاغیر مولیٰ کی طرف اپنے کو منسوب کرنا واضح غلط بیانی او رجھوٹ ہے اور جھوٹوں پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَنَجْعَل لَّعْنَتَ ٱللَّهِ عَلَى ٱلْكَـٰذِبِينَ ﴿٦١﴾…سورۃ آل عمران
جبکہ سورۃ الاحزاب کی درج ذیل آیت میں بھی اس فرمان رسول اللہ ﷺ کی تائیدموجود ہے کہ:
﴿ٱدْعُوهُمْ لِءَابَآئِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ ٱللَّهِ…﴿٥﴾…سورۃ الاحزاب
”یعنیجنہیں تم فرط محبت سے بیٹا کہہ دیتے ہو، بہتر یہی ہے کہ تم انہیں ان کے باپ کی طرف منسوب کرکے (ابن فلاں)کہہ کر پکارو۔ یہ بات قانون خداوندی کی رُو سے زیادہ قرین عدل ہے۔”1
15۔ارشاد رسالت مآبﷺ ہے:
”ہاں عورت کو اپنے شوہر کے مال سے اس کی اجازت کے بغیر کچھ دینا جائز نہیں۔”
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوالَا تَخُونُواٱللَّهَ وَٱلرَّسُولَ وَتَخُونُوٓاأَمَـٰنَـٰتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٢٧﴾…سورۃ الانفال
”اے جماعت مؤمنین! تم نہ تو نظام خداوندی (خدا اور رسول) سے کسی قسم کی خیانت کرو اور نہ ہی ان ذمہ داریوں کی ادائیگی میں، جو تمہارے سپرد کی جائیں۔ تم جانتے ہو ایسا کرنے کا نتیجہ کیا ہوگا؟”2
نیز فرمایا:
﴿إِنَّ ٱللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّواٱلْأَمَـٰنَـٰتِ إِلَىٰٓ أَهْلِهَا…﴿٥٨﴾…سورۃ النساء
”یعنیامانت ان کے مالکوں کی طرف لوٹا دو۔”3
لہٰذا بیوی کا خاوند کے مال سے، اس کی اجازت کے بغیر کسی کسی رشتہ دار یا غیر کو دینا امانت داری کے خلاف ہے۔ کیونکہ خاوند اپنا مال بیوی کو امانت دار سمجھ کر اس کے حوالے کرتا ہے۔ ضروری ہے کہ یہ مال اس کے اصل مالک کو ٹھیک ٹھیک لوٹا دیا جائے، ورنہ یہ خیانت ہوگی اور جس کی قرآن مجید اجازت نہیں دیتا۔یوں یہ فرمان رسول اللہ ﷺ بھی قرآنی تعلیم کےمطابق ہے۔
16۔ارشاد رسالت مآب ﷺ:
”قرض ادا کیا جائے۔”
ارشاد باری تعالیٰ :
﴿فَلْيُؤَدِّ ٱلَّذِى ٱؤْتُمِنَ أَمَـٰنَتَهُۥ وَلْيَتَّقِ ٱللَّهَ رَبَّهُۥ…﴿٢٨٣﴾…سورۃ البقرۃ
”اسے چاہیے کہ اپنی امانت کو پوری پوری دیانت سے واپس کردے اور اسی طرح اپنے نشوونما دینے والے کے قانون کی نگہداشت کرے۔”4
اس آیت میں امانت سے مراد قرض ہے۔ جیسا کہ ”قرآنی قوانین” کے صفحہ 118 پر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے جبکہ مذکورہ بالا آیات (الانفال:27۔النساء :58) بھی اس جملے کی قرآنی تعلیمات سے مطابقت پر دال ہیں۔ کیونکہ قرض بھی بطور امانت ہی لیا جاتاہے۔جس کا ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔
17۔ارشاد رسالت مآب ﷺ:
”عاریت واپس کی جائے۔”
عاریت کو واپس نہ کرنا، بلکہ ہضم کرجانا،باطل طریقے سےلوگوں کا مال کھانے میں داخل ہے اور قرآن مجید نے اس سے منع فرمایا ہے:
﴿وَلَا تَأْكُلُوٓاأَمْوَٰلَكُم بَيْنَكُم بِٱلْبَـٰطِلِ…﴿١٨٨﴾…سورۃ البقرۃ
پھر عاریت ، مستعیر کے پاس بطور امانت ہوتی ہے، او رامانت کی ادائیگی کے متعلق قرآنی آیات اوپر درج کی جاچکی ہیں۔
18۔ارشاد رسالت مآبﷺ :
”عطیہ لوٹایا جائے۔”
ارشاد باری تعالیٰ:
﴿وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَآ أَوْ رُدُّوهَآ…﴿٨٦﴾…سورۃ النساء
امام رازی فرماتے ہیں:
”واعلم أن لفظ التحیة، علیٰ ما بیناہ صار کنایة عن الإکرام فجمیع أنواع الإکرام یدخل تحت لفظ التحیة”5
یعنی لفظ ”تحیۃ” عزت و توقیر او راکرام و احترام کی جمیع اقسام کو شامل ہے، (خواہ یہ سلام کہنے سے متعلق ہو یا عطیہ اور تحفہ دینے سے)
آیت مذکورہ بالا (النساء :86) میں چونکہ ہر قسم کے ”تحیۃ” کو لوٹانے کا حکم دیا گیا ہے، لہٰذا عطیہ کو لوٹانا بھی قرآنی تعلیمات کے مطابق ہے۔
19۔ارشاد رسالت مآبﷺ:
”ضامن تاوین کا ذمہ دار ہے۔”
مصارف صدقات کاذکر کرتے ہوئے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّمَا ٱلصَّدَقَـٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱلْعَـٰمِلِينَ عَلَيْهَا وَٱلْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِى ٱلرِّقَابِ وَٱلْغَـٰرِمِينَ…﴿٦٠﴾…سورۃ التوبہ
آیت میں ”غارمین” کےلفظ کا مفہوم ، غلام پرویز نے (مفہوم القرآن :1؍43) میں یوں لکھا ہے:
”ایسے لوگ جو دشمن کے تاوان یا قرض کے بوجھ کے نیچے اس طرح دب گئے ہوں کہ اس کا ادا کرنا ان کے بس میں نہ ہو۔”
چنانچہ قرآن مجید کی رُو سے ”غارم” کی اعانت، صدقات کی مد سے اسی لیے کی جاسکتی ہے کہ وہ ”(ضامن) تاوان (کی ادائیگی) کا ذمہ دار ہے۔”
قارئین کرام، یہ تھا شبلی نعمانی کی کتاب”سیرۃ النبیؐ” سے ”طلوع اسلام” کا نقل کردہ وہ خطبہ حجظ الوداع، جسے اس نے اپنی کوتاہ بینی سے، یا دھوکا دہی سے کام لیتے ہوئے قرآنی تعلیمات کےمنافی بتلایا ہے او راس بناء پر اسے ناقابل قبول بنانا چاہا ہے حالانکہ قبولیت حدیث کے لیے ”مسلّمہ پرویزی قاعدے” کے تحت بھی اس خطبہ کا ایک ایک جملہ قرآنی تعلیمات کی سچی تصویر ہے، جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا :
اب ہم سیرۃ النبیؐ لابن ہشام سے مورخ ابن اسحاق کے نقل کردہ خطبہ حجۃ الوداع کے فقرات نمبروار درج کرتے ہین او رحسب سابق ان کی تائید و تصحیح کے لیے بھی قرآنی آیات او رپھر ان آیات کا مفہوم پرویزی لٹریچر سے نقل کرتے ہیں۔ واضح رہےکہ خطبہ حجۃ الوداع کے جو جملے سطور بالا میں زیر بحث آچکے ہیں، انہیں یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں، لہٰذا ان سے صرف نظر کیاجارہا ہے۔
1۔ارشاد رسالت مآب ﷺ:
”لوگو، سنو میں جانتا نہیں کہ شاید اس سال کے بعد اس جگہ میں تم سے کبھی ملوں”
اس سےرسول اللہ ﷺ اپنے دنیا سے تشریف لے جانے کا ذکر فرما رہے ہیں، جبکہ قرآن مجید میں ہے:
﴿إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ ﴿٣٠﴾…سورۃ الزمر
بہرحال ان لوگوں سے جھگڑا کرنے کی ضرورت نہیں،تو نے بھی مرناہے، انہوں نے بھی مرنا ہے۔”6
موت و حیات کا علم چونکہ اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے ، اسی لیے رسول اللہ ﷺ کے فرمان میں ”شاید” (اردو ترجمہ) کالفظ موجود ہے۔
2۔ارشاد رسالت مآب ﷺ:
”تم عنقریب اپنے رب سے ملو گے، وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق سوال کرے گا۔”
مرنے کے بعد رب تعالیٰ سےملنے کا تذکرہ قرآن مجید کی اس آیت میں موجود ہے:
﴿وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَٰدَىٰ كَمَا خَلَقْنَـٰكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ…﴿٩٤﴾…سورۃ الانعام
”اور خدا کہے گا کہ (تمہیں اپنےمتبعین پربڑا ناز تھا لیکن ) آج تم ہماری عدالت میں تنہا آگئے، ایسے ہی تنہا جیسے ہم نے پہلی مرتبہ تمہیں پیدا کیا تھا……….!”7
جبکہ اعمال کی باز پرس کا ذکر قرآن مجید کی ان آیات میں موجود ہے:
﴿وَقِفُوهُمْ ۖ إِنَّهُم مَّسْـُٔولُونَ ﴿٢٤﴾مَا لَكُمْ لَا تَنَاصَرُونَ ﴿٢٥﴾…سورۃ الصافات
”لیکن انہیں ذرا ٹھہراؤ تاکہ ان سے کچھ باتیں پوچھ لی جائیں، ان سے پوچھا جائے گا کہ تم ایک دوسرے کی مدد کیوں نہیں کرتے؟”8
نیز فرمایا:
﴿وَلَتُسْـَٔلُنَّ عَمَّا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿٩٣﴾…سورۃ النحل
”اور یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ تم اپنے ہر عمل کے ذمہ دار ٹھہرو۔”9
3۔ارشاد رسالت مآب ﷺ:
”میں ہر عمل کے متعلق تمام احکام تمہیں پہنچا چکا ہوں۔”
ارشاد باری تعالیٰ:
﴿وَمَا عَلَى ٱلرَّسُولِ إِلَّا ٱلْبَلَـٰغُ ٱلْمُبِينُ ﴿٥٤﴾…سورۃ النور
”رسول کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ تم تک احکام خداوندی واضح طور پر پہنچا دے۔”10
4۔ارشاد رسالت مآب ﷺ:
”جس شخص کے پاس کسی کی امانت ہو، اسے چاہیے کہ وہ اس امانت کو مانگنے پر اس شخص کے حوالے کردے۔ جس نے امانت دار سمجھ کر رکھی تھی۔”
ارشاد باری تعالیٰ:
﴿فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ ٱلَّذِى ٱؤْتُمِنَ أَمَـٰنَتَهُۥ وَلْيَتَّقِ ٱللَّهَ رَبَّهُۥ…﴿٢٨٣﴾…سورۃ البقرۃ
”اگر تم ایک دوسرے پر اعتماد کرو، تو جس شخص پر اعتماد کیا گیا ہے، اُسے چاہیے کہ اپنی امانت کو (پوری پوری دیانت سے) واپس کردے اور اس طرح اپنے نشوونما دینے والے کے قانون کی نگہداشت کرے۔”11
5۔ارشاد رسالت مآب ﷺ:
”شیطان اس بات سے مایوس ہوچکا ہے کہ اب تمہاری اس سرزمین میں کبھی اس کی پرستش کی جائے گی۔”
ارشاد باری تعالیٰ:
﴿وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَٰهِيمَ مَكَانَ ٱلْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِى شَيْـًٔا…﴿٢٦﴾…سورۃ الحج
”اس مرکز نظام خداوندی کی تاسیس ابراہیم کے ہاتھوں عمل میںآئی تھی، تاکہ انسانوں کے لیے مملوکت صرف خدا کی رہ جائے، اس میں کسی اور کو شریک نہ کیا جائے۔”12
جب اس مرکز (کعبہ)میں، جو کہ مکہ مکرمہ میں ہے، حاکمیت صرف خدا کی ہوگی تو شیطان کو اس جگہ کی حاکمیت میں شریک نہ کیا جاسکے گا۔چنانچہ اس سرزمین میں شیطان کی پرستش کی نفی کردی گئی۔
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٢٥﴾…سورۃ الحج
”لیکن جو اس میں(مسجدالحرام میں آیت کی ابتداء میں مسجد حرم کے الفاظ موجود ہیں ……..ناقل)ظلم و زیادتی کے ساتھ حق کی راہ سے ذرا بھی ادھر ادھر ہٹے گا، اسے الم انگیز سزا دی جائے گی۔”13
حق سے اعراض بھی شیطان کی پرستش ہے جو کہ باعث عذاب ہے اور آیت میں ”من” کلمہ عموم ہے، جس میں شیطان وغیرہ سب ظالم داخل ہیں۔
6۔ارشاد رسالت مآب ﷺ:
”لیکن اگر اس کی اطاعت کی جائے تو وہ تمہارے ان اعمال سے ، جنہیں تم حقیر سمجھتے ہو ، راضی ہوجائے گا۔”
وہ اعمال، جن کو انسان معمولی اور حقیر سمجھ کر کر گزرتا ہے، شیطان کے پسندیدہ مشاغل ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِن يَدْعُونَ مِن دُونِهِۦٓ إِلَّآ إِنَـٰثًا وَإِن يَدْعُونَ إِلَّا شَيْطَـٰنًا مَّرِيدًا ﴿١١٧﴾ لَّعَنَهُ ٱللَّهُ ۘ وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا ﴿١١٨﴾ وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَءَامُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ ءَاذَانَ ٱلْأَنْعَـٰمِ وَلَءَامُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ ٱللَّهِ ۚ وَمَن يَتَّخِذِ ٱلشَّيْطَـٰنَ وَلِيًّا مِّن دُونِ ٱللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا ﴿١١٩﴾…سورۃ النساء
امام رازی فرماتے ہیں:
”معنی الآیة أن الشیٰطن لعنه اللہ قال عند ذالك لأ تخذن من عبادك حظا مقدرا وھم الذین یتبعون خطواته ویقبلون و ساوسه”14
یعنی ” شیطان ملعون نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ میں تیرے بندوں سے ایک معین حصہ اپنے ساتھ ملالوں گا او روہ ایسے لوگ ہیں جو کہ اس کے نقش قدم پر چلتے اور اس کے القاء کردہ وسوسوں کو قبول کرلیتے ہیں۔”
7۔ارشاد رسالت مآب ﷺ:
”لوگو! نسئ یعنی حرمت والے مہینوں کو آگے پیچھے کرناکفر میں اضافہ کرنا ہے۔”
ارشاد باری تعالیٰ :
﴿إِنَّمَا ٱلنَّسِىٓءُ زِيَادَةٌ فِى ٱلْكُفْرِ ۖ يُضَلُّ بِهِ ٱلَّذِينَ كَفَرُوايُحِلُّونَهُۥ عَامًا وَيُحَرِّمُونَهُۥ عَامًا لِّيُوَاطِـُٔواعِدَّةَ مَا حَرَّمَ ٱللَّهُ فَيُحِلُّوامَا حَرَّمَ ٱللَّهُۚ…﴿٣٧﴾…سورۃ التوبہ
کہ ”امن کے کسی مہینے کو ہٹا کر آگے پیچھےکردینا کفر میں اضافہ کرنا ہے۔ اس سے کافر گمراہی میں پڑے رہتے ہیں، ایک سال تو اس کو حلال سمجھ لیتے ہیں اور دوسرے سال حرام، تاکہ ادب کے مہینوں کی، جو خدا نے مقرر کیے ہیں، گنتی پوری کرلیں اور جو خدا نے منع کیاہے اس کو جائز کرلیں۔”
مستشرق پرویز نے لکھا ہے:
”نسأ الشيء” کسی چیز کو پیچھے ہٹا دینا، مؤخر کردینا۔ سورہ توبہ میں ہے۔ ”إنما النسيء زيادة في الكفر”(37؍9) ”یقیناً نسئ کفر میں ایک اضافہ ہے۔” ویسے تو قرآن کریم نے یہ کہہ کر اس کی تشریح کردی ہے کہ ”يُحِلُّونَهُۥ عَامًا وَيُحَرِّمُونَهُۥ عَامًا”(37؍9) ایک سال اسے حلال قرار دیتے ہین اور ایک سال اسے حرام کردیتے ہیں۔”15
(جاری ہے)
حوالہ جات
1.مفہوم القرآن ۔پرویز۔3؍364
2.قرآنی قوانین۔پرویز۔صفحہ 124
3.قرآن قوانین ۔پرویز ۔صفحہ 124
4.مفہوم القرآن: 1؍112
5.تفسیر کبیر:10؍215
6.مفہوم القرآن۔پرویز:3؍1075
7.مفہوم القرآن :1؍310
8.مفہوم القرآن:3؍1036
9.مفہوم :2؍617
10.مفہوم القرآن:2؍810
11.مفہوم القرآن:1؍112
12.مفہوم :2؍757
13.مفہوم:2؍757
14.تفسیر کبیر:11؍47
15.لغات القرآن:4؍1604