یہودی دشمن اسلام کا غلام احمد پرویز کو خراج تحسین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہودی دشمن اسلام ، آنجہانی گولڈزیہر کا غلام احمد پرویز کو خراج تحسین عالم کفر کے نام ایک اہم پیغام ایک دلچسپ تمثیلی تحریر از ڈاکٹر محمد ابراہیم محمد – کوئٹہ۔
یہودی دشمن اسلام آنجہانی گولڈزیہر کا غلام احمد پرویز کو خراج تحسین
میرے عزیزی یہود و ہنود و نصاریٰ ساتھیو!
مجھے، یعنی اگنیس گولڈزیہر ( Ignaz Goldziher ) کو یہان جہنم میں آئے ہوئے تقریباً اسی (80) سال ہوچکے ہیں، یہاں پر اپنے اسلام دشمن کارناموں کی بناء پر مجھے خاص مقام پر رکھا گیا ہے۔ اس مقام سے آگے ایک اور خاص مقام ہے کہ جہاں پر ایشیاء کے دو خاص آدمیوں ” مسٹر مرزا غلام احمد قادیانی اور مسٹر چوہدری غلام احمد پرویز ” کو رکھا گیا ہے۔ یقیناً اسلام دشمنی میں وہ ہم سب سے آگے تھے۔ اسی لیئے انہیں مقامِ خاص سے نوازا گیا ہے۔
جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ میں ہنگری (Hungry) کے ایک شہر بڈاپسٹ (Budapest) کے ایک قصبے میں 22 جون 1850 میں ایک خالص یہودی مذہبی گھرانے میں پیدا ہوا۔ میری تعلیم و تربیت روایتی یہودی ماحول میں ہوئی۔ بے حد کمسنی یعنی پانچ کی عمر میں ” تورات ” اور آٹھ سال کی عمر میں ” تالمود ” کی تعلیم عبرانی میں حاصل کی۔
یہودی ہونے کے ناطے اسلام اور مسلمانوں سے نفرت میرے خون میں شامل تھی اور خالصتاً مذہبی یہودی تعلیم و تربیت نے تو میری نفرت جنون کی حد تک پہنچا دیا۔ اور یوں اسلام دشمنی میری زندگی کا مقصد بن گئی۔ اسی مقصد کی تکمیل کی خاطر میں نے عربی زبان سیکھنے اور اسلامی علوم حاصل کرنے کا ارادہ کیا۔ میں نے جرمنی مین مشہور عربی دان پروفیسر فلائشر سے تلمذ حاصل کیا اور عربی زبان میں مہارت حاصل کی ۔ جرمنی میں لائپزگ (Lipzig)اور برلن (Berlin) کی یونیورسٹی اور ہالینڈ کی لیڈن (Leiden) یونیورسٹی میں اسلامی علوم کی تحصیل کی اور ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ میں ستمبر 1873 میں شام اور مصر چلا گیا۔ قاہری کی مشہور و معروف اسلامی درسگاہ ” جامعہ الازہر ” میں دنیا کے پہلے غیر مسلم کی حیثیت سے داخلہ لیا۔
صلیبی جنگوں (Crusade) میں بدترین فوجی اور سیاسی شکست کا سامنا کرنے کے بعد مسیحی اور یہودی، دنیا کے اکابرین اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کی جنگوں میں ہرگز ختم نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ جنگوں سے مسلمانوں میں ” جذبہ جہاد ” بیدا ہوتا ہے اور مسلانوں کا جذبہ جہاد ہی وہ چیز ہے کہ جس کے تصوور سے ہی دنیائے کفر خوفزدہ ہوجاتی ہے۔ لہذا مسلمانوں کو ختم کرنے کی کوشش کی بجائے کیوں نہ ساری توانائی اسلام کو ختم کرنے پر صرف کی جائے۔ جب اسلام ختم ہو جائے گا تو مسلمان خود بہ خود ختم ہوجائیں گے۔
اب سوال یہ تھا کہ اسلام کو کیسے ختم کیا جائے؟ تو تحقیق اور غور و خوض کے بعد یہ حقیقت سامنے آئی کہ اگر اسلام کی بنیادوں کو ڈھایا جائے تو اسلام صفحہ ہستی سے مٹ جائےگا۔ کیونکہ جب بھی کسی عمارت کی بنیاد کو ڈھایا جاتا ہے تو باقی عمارت خو بہ خود ڈھیر ہوجاتی ہے۔ اسلامی بنیاد ” قرآن و سنت ” ہے جہاں تک قرآن ک کی بات ہے’ تو قرآن کے الفاظ اور آیتوں میں کسی قسم کی کمی بیشی اور رد و بدل کرنے میں دنیائے کفر کو ہمیشہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لہذا کیوں نہ قرآن کے معنی اور مفہوم میں تبدیلی یعنی ” معنوی تحریفات و تاویلات ” کی جائے۔ جس کے نتیجے میں اسلامی عقائد اور دیگر تعلیمات کو مرضی کےمطابق تبدیل اور مسخ کیا جاسکے گا۔ اس طرح اسلام بھی صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا اور مسلمان بھی ختم ہوجائیں گے۔
میں بذات خود بھی عمیق اسلامی مطالعے، تحقیق اور غور و خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ اسلام کو ختم کرنے کے لیے قرآن میں معنوی تحریفات اور تاویلات کرنا لازمی ہے۔ مگر قرآن کے خلاف اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی راہ میں سب سے بڑی ” پہلی اور آخری رکاوٹ
سنت و احادث کی موجودگی ہے۔ کیونکہ سنن و احادیث ہی قرآن کے معنی اور مفہوم کی محافظ ہیں۔ یہ سنن و احادیث ہی ہیں کہ جنہوں نے قرآنی لغات اور اصطلاحات کو متعین کردیا ہے۔ جنہوں نے قرآنی آیتوں کے مفہوم کو قیامت تک کے لیے متعین کردیا ہے۔ اور ان کی تفسیر ، تشریح و توضیح کردی ہے اور ان قرآنی تعلیمات کو عملی زندگی میں قابل عمل بنا دیا ہے۔ قرآن میں معنوی تحریفات کرنے کیلئے سنن و احادیث کو راہ سے ہٹانا لازمی ہے۔
سنن و احادیث کے ہوتے ہوئے کوئی قرآن میں معنوی تحریفات نہیں کرسکتا۔ کوئی قرآن کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ کوئی اسلام کو مسخ کرکے تباہ و برباد نہیں کرسکتا۔ لہذا ان قرآنی احکامات و تعلیمات کو تبدیل کرنے اور اسلام کو مٹانے کا آسان اور مؤثر طریقہ یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح سنن و احادیث کو مسلمانوں کی زندگی سے نکال دیا جائے۔ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی جائے کہ اسلام میں سنن و احادیث کی کوئی حیثیت نہیں احادیث ناقابل اعتبار بلکہ جھوٹ ہیں اور سنن ناقابل عمل ہیں۔
چنانچہ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد میں نے ” صہیونی اغراض و مقاصد ” کی تکمیل کی خاطر قرآن و سنن و احادیث کے خلاف بھر پور انداز میں قلمی جنگ شروع کردی۔ میں نے بہت سے مضامین اور مقالے لکھے، کئی اعلٰی یونیورسٹیوں میں لیکچر دیئے، کئی کتابیں لکھیں۔ جرمن زبان میں 1890ء میں شائع ہونے والی میری ایک کتاب (Muhammedanische Studies) کو دنیا بھر میں بے حد مقبولیت ملی۔ اس کا عربی ترجمہ ” العقیدہ و الشریعۃ فی الاسلام ” اور انگریزی ترجمہ “Muslim Studies” کے نام سے شائع ہوا۔ یہ کتاب سنن و احادیث کے خلاف دنیائے کفر کی سب سے زہریلی کتاب سمجھی جاتی ہے۔ میری ان کتابوں کے ترجمے دیگر زبانوں مثلاً روسی، ہنگری، فرانسیسی اور عبرانی میں بھی ہوئے۔ ان کتابوں کے بعد میں نے مغربی مستشرقین سمیت دیگر اسلام دشمن قووتوں سے استفادہ کیا اور انہوں نے میرے افکار و نظریات اسلامی دنیا، بالخصوص مصر، شام، ملائشیا، اور برصغیر پاک و ہند میں پہنچا دیئے۔ مسلمانوں میں مغربی تعلیم مغربی افکار و نظریات اور تہذیب و تمدن سے متاءثر طبقہ جلد ہی میرے افکار و نظریات کا شکار ہوگیا۔ میرے افکار و نظریات کو پھیلانے میں اس وقت کی مغربی استعماری حکومتوں، مشنری اداروں، مغربی مستشرقین اور مسلمانوں کی صفوں میں موجود میرے فکری شاگردوں، نیاز فتح پوری، پروفیسر محمود ابوریہ، ڈاکٹر احمد امین مصری، اسلم جے راج پوری، اور چوہدری غلام احمد پرویز نے قابل قدر کردار ادا کیا۔ Well done my sons.
چونکہ میری زندگی کا مقصد ہی اسلام کے بنیادی مآخذ ” سنن و احادیث” کو جھوٹ ظاہر کرکے اس کو بے اصل، بے حقیقت اور بے معنی قرار دینا تھا۔ ۔لہذا میں نے اپنی تحریروںاور لیکچروں کے ذریعے علمی تحقیق کی آڑ میں یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ سنن و احادیث دراصل عجمی اثرات کی پیداوار ہیں۔ اموی اور عباسی خلفاء نے اپنے اپنے مفادات کے لیئے احادیث گھڑیں اور ان کے رد عمل کے طور پر اس دور کے علماء نے بھی احادیث وضع کیں۔ وضع حدیث کو بنیاد بنا کر احادیث کے پورے ذخیرے کو نہ صرف مشکوک بلکہ سراسر جھوٹ قرار دیا۔ میں نے یہ باور کرانے کی بھی کوشش کی کہ ہر اختلاف چاہے عقائد، مسلک یا سیاسی لحاظ سے ہو۔ اس میں احادیث کا ہاتھ ہے۔ اس بات کو بنیاد بنا کر میں نے مسلمانوں کے درمیان اختلافات اور انتشار کا سبب احادیث کو قرار دیا۔ حالانکہ در حقیقت یہ احادیث ہی ہیں کہ جس نے امت اسلامیہ کو ایک لڑی مٰں پرویا ہوا ہے۔ یہ سنن و احادیث ہی ہیں کہ جس سے روگرادانی کے سبب مسلمان انتشار و ناکامی میں دوچار ہیں۔ میں نے صحابہ اور محدثین پر بھی سخت تنقید اور اعتراضات کئے، اسلام کے اولین منکرین حدیث ” معتزلہ ” کو ان کے انکار حدیث کے سبب بے حد سراہا، میں نے قرآن پر بھی بہت اعتراضات کئے۔ میں نے اسلام کو عربیت ، عجمیت، یہودیت، عیسائیت، مجوسیت اور یونانی افکار و نظریات کا ملغوبہ قرار دیا۔
المختصر میں نے علمی تحقیق کی آڑ میں ” سنن و احادیث ” کے احادیث کے خلاف انتہائی ذہانت سے منفی پروپیگنڈے کئے۔ اس سلسلے میں، میں نے سنت و احادیث کے خلاف اپنی تحریروں میں قصداً ہرگری پڑی روایت کو نقل کیا۔ صریح اور قطعی عبارتوں کو قصداً غلط معننی پہنائے ۔ یہی میری زندگی کا مقصد تھا، یہی میرا مشن تھا، اس مشن کے لیئے میں نے اپنی ساری زندگی وقف کردی۔
میں شکر گذار ہوں کہ اس سلسلے میں میری یہودی برادری نے میری بھرپور اخلاقی اور مالی معاونت کی۔ میں بے حد ممنون ہوں، یہودی، اور عیسائی مستشرقین کا، مشنری اداروں کا، مغربی استعماری حکومتوں کا اور مسلمانوں کی صفوں میں موجود، اپنے ہمکاروں کا، کہ جنہوں نے 13 نومبر 1921ء میں میرے مرنے کے بعد میرے مشن، میرے افکار و نظریات کو اسلامی دنیا میں پہنچایا اور پھیلایا۔ جس کے نتیجے میں اسلامی دنیا میں میرے منسوبے کے عین مطابق انکار حدیث کی وباء پھیل گئی۔ بالخصوص مسلمانوں میں مغرب زدہ طبقہ آسانی سے متاثر ہوا۔
ان تمام جدوجہد کے تنیجے میں دنیائے اسلام کے اندر ایک ایسے شخص نے جنم لیا کہ جس نے مسلمانوں کے روپ میں اسلام کے خلاف وہ سب کچھ کردکھایا کہ جو کچھ میں بھی نہ کرسکا اور نہ ہی دوسرے دشمنان اسلام کرسکے۔ میرے اس فکری شاگرد نے قرآن اور سنت و احادیث کے ساتھ جو کھیل کھیلا جو ہمارے اچھے اچھے نہ کھیل سکے ۔ اس نے ہمارے عقائد و نظریات اور دیگر مغربی اخلاقی ، معاشرتی، سائنسی نظریات پر اسلام کا لیبل لگا لگا کر پیش کیا اور کمال کی بات تو یہ ہے کہ قرآن سے ثابت کرنے کی حیرت انگیز کوشش بھی کی۔ میرے اس فکری شاگرد نے میری طرح سنت و احادیث کو عجمی سازش قرار دیا۔ میری ہی طرح اس نے بھی سنن احادیث کو مسلمانوں کے انتشار کا سبب قرار دیا۔ اس نے بھی احادیث کی حجیت، حفاظت اور حیثیت سے انکار کرکے اسے اسلام سے خارج قرار دیا۔ میری طرح اس نے بھی اکابرین اسلام بشمول تابعین، تبع تابعین اور محدثین، علماء اور مشائخ پر سخت تنقید کی اور معتزلہ کی تعریف کی۔ میری ہی طرح اس نے بھی ” موجودہ اسلام ” کی ملغوبہ قرار دیے کر مسترد کردیا۔
عزیز نصاریٰ، یہود و ہنود ساتھیو!!! اگرچہ میں قرآن اور احادیث سمیت اسلام کے کسی مآخذ، عقیدے اور تعلیمات پر تنقید اور اعتراض کرسکتا تھا، اور جیسا کہ میں نے کیا۔ لیکن یہودی ہونے کی وجہ سے میں قرآن میں معنوی تحریفات و تاویلات نہیں کرسکتا تھا۔ اسی لیئے انکار حدیث کی جدید انداز میں داغ بیل تو میں نے ڈالی لیکن قرآن میں معنوی تحریفات کاکام میں نے مسلمانوں کی صفوں میں موجود اپنے ہی کسی ہمکار کے لیئے چھوڑ دیا تھا۔ یہ گرانقدر کارنامہ بھی میرے اسی فکری شاگرد نے سر انجام دیا ۔ میرے اس شاگرد نے سنن و احادیث کی حجیت ، حفاظت سے انکار کرکے اور پھر قرآن میں حیرت انگیز طریقے اور وسیع پیمانے پر معنوی تحریفات و تاویلات کرکے اور یوں اس طرح اسلام کو بُری طرح سے مسخ کرنے کی کوشش کرکے میرے منسوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی بھر پور جدو جہد کی۔ اس نے میری توقعات سے بڑھ کر میرے مشن کو بامِ عروج پر پہنچایا۔ اس نے جس صفائی سے سارے اسلام پر ہاتھ صاف کیا۔ اس پر میں بھی حیرات ہوں، میرے اس نابغہ ، روزگار فکری شاگرد کا نام ” مسٹر چوہدری غلام پرویز ” ہے ، جو 1903ء میں بٹالہ میں پیدا اور 1985ء میں آنجہانی میں فوت ہوا۔
مسٹر پرویز نے جس جذبے سے قرآن کا مذاق اُڑایا۔ جس خلوص سے ساری عمر سنن و احادیث کے خلاف جدو جہد کی۔ جس ذہانت سے غیر اسلامی عقائد و نظریات پر اسلام کا لیبل لگا لگا کر اسلامی تعلیمات کو مسخ و برباد کرنے کی کوشش کی۔ جس محنت سے مسلمانوں میں کفر و ارتداد ، فتنہ و انتشار پھیلانے کی بھرپور سعی کی، اور جس عقیدت مندی سے ہمارے اسلام دشمن مشن کو کامیابی سے ہمکناز کرنے کی پر عزم جدوجہد کی، وہ یقیناً عالم کفر کے لیئے ناقابل فراموش اور قابل تعریف ہیں۔ پرویز نے ” مسجد اقصیٰ” اور مسلمانوں کے نبی کی واقعہ معراج کی یادگار مقام ” گنبد صخرہ ” سے انکار کرکے، اور اس طرح مسلمانوں کے تیسرے مقدس ترین مقام ” بیت المقدس ” کو مسلمانوں کی نظر میں بے وقعت ثابت کرنے کی کوشش کرکے ، یہودیوں پر بے پناہ احسانات کیئے۔ میں بے حد مسرت اور عقیدت کے ساتھ اعلان کرتا ہوں کہ میرے اس ہونہار شاگرد مسٹر پرویز نے میرے اسلام دشمن مشن کو باقاعدہ ایک منظم اور سرگرم تحریک کی شکل دے کر ، اور میرے فکر و نظریات کو علمی عملی طور پر پھیلا کر خود کو میرا ” حقیقی جانشین، بہترین نمائندہ، صحیح فکری شاگرد، اور اچھا علمی وارث ” ثابت کیا۔ مجھے اپنے شاگرد کے اعلیٰ کارناموں پر فخر ہے۔ چنانچہ میں نے 1889ء میں ملنے والے اپنے گولڈ میڈل کو مسٹر پرویز کے نام کرتا ہوں، کیونکہ میرے نسبت وہ اس انعام کا زیادہ حقدار ہے۔ مجھے اگر اعزاز حاصل ہے کہ مین نے سب سے پہلے انکار حدیث کی جدید انداز میں بنیاد رکھی تو مجھے یہ فخر بھی ہے کہ میرے افکار و نظریات نے ایک ایسے شاگرد ” مسٹر پرویز ” کو جنم دیا جس نے ہزاروں ” گولڈزیہر ” پیدا کئے، جو مسلمانوں کے روپ میں مسلمانوں کے درمیان رہ کر اسلام اور سنن و احادیث کے خلاف نہایت سرگرمی سے کھلم کھلا جنگ کررہے ہیں۔ یقیناً مسٹر پرویز کو اسقدر ناقابل فراموش جد و جہد اور بہترین کارناموں پر دنیائے کفر کا سب سے بڑا اعزاز ملنا چاہیئے۔
اس سلسلے میں ، گولڈزیہر اپنے دوسرے آنجہانی ساتھیوں ” ابوجہل ، ابولہب، عبداللہ بن ابی، مسیلمہ کذاب، عبد اللہ بن سبا، ہلاکو خان، تھیوڈ ورنولڈیکے، تھیوڈ و رہزتزل، کال مارکس، لینن وائزمین، جوزف شاخت ، سر ولیکم میو، رجپال، گولڈا میئر، بریثرنیف اور مرزا غلام قادیانی، ” سمیت عالم کفر سے پُر زور اپیل کرتا ہے کہ ” رئیس المنافقین المرتدین، خادم الکفار و المشرکین، ” مسٹر غلام احمد پرویز ” کو اسلام دشمنی اور مسلمانوں میں کفر و ارتداد، فتنہ و انتشار وسیع پیمانے پر پھیلانے کی اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں ” بعد از مرگ ” کفر کا سب سے بڑا اعزاز دیا جائے، ہماری یہ درخواست بھی ہے کہ میرے شاگرد مسٹر پرویز کے مشن کو نہایت سرگرمی سے جاری رکھنے والے ادارے ” طلوع اسلام ” کے ساتھ بھرپور خصوصی تعاون کیا جائے، اس سلسلے مٰں ایک اور گذارش بھی ہے کہ کسی بھی اسلام دشمن مشن کے سلسلے میں مسلمانوں سے ڈرنے یا احتیاط کرنے کی ضرورت نہیں ، کیونکہ مسلمانوں کی اکثریت اپنےدین سے غافل اور لاپرواہ ہے۔ انہیں دین السلام کے فروغ اور دفاع سے کوئی تعلق اور دلچسپی نہیں، وہ بے چارے آخرت سے بے پرواہ ہوکر دنیا پرستی میں مبتلاء ہوچکے ہیں، البتہ، علماء حق ، داعیان دین اور مجاہدین اسلام سے ضرور بالضرور خبردار اور محتاط رہیں، کیونکہ دین کے فروغ اور دفاع کے لیئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتے، اسلام کے ان شیدائیوں کو نہ تو خریدا جاسکتا ہے، نہ ان کو ڈرایا جاسکتا ہے، کیونکہ انہوں نے اپنے اللہ سے ” جنت ” کے بدلے اپنی جانوں کا سودا کررکھا ہے۔ ان کا تو نعرہ ہی ہمارے لیئے عجیب و غریب ہے کہ زندگی گزرے تو ہدایت اور اسلام کی خدمت کے ساتھ اور موت آئے تو شہادت کے ساتھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
فقط
آنجہانی اگنیس گولڈزیہر
Source: Link