’ غلام احمدپرویز؛ اپنے الفاظ کے آئینے میں‘ اور طلوعِ اسلام

سالِ رواں کے پہلے ماہ کے پہلے دن، میری ایک تصنیف … جناب غلام احمد پرویز، اپنے الفاظ کے آئینے میں… منظر عام پر آئی۔ 31؍ مارچ2006ء کو ہفت روزہ ‘فرائیڈے اسپیشل'(کراچی) نے،اور 16تا31؍مارچ کے پندرہ روزہ ‘انکشاف‘ (اسلام آباد)نے اس کتاب پر تبصرہ کیا۔ اِن دونوں کے علاوہ کسی اخبار او ررسالہ میں اس پر تبصرہ تاحال پیش نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ ماہنامہ ‘محدث’ میں بھی جس میںمیری نگارشات مسلسل چھپ رہی ہیں،اس کے بارے میں کچھ نہیں لکھا گیا۔ اس کے باوجود انگریزی محاورہ کے مطابق ‘گرم کیک’ کی طرح یہ کتاب خریداروں کے ہاتھوں میں پہنچتی رہی اور اب اس کی اشاعت ِثانیہ کا مرحلہ درپیش ہے۔ کتاب کی اس قدر مقبولیت پراللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کے حضور سربسجود ہوں۔

میری یہ خواہش تھی کہ کوئی اور ادارہ کتاب پرتبصرہ کرے یانہ کرے، لیکن طلوعِ اسلام کی طرف سے تبصرہ ضرور آناچاہئے۔ الحمدﷲ کہ میری یہ خواہش برآئی اور پانچ ماہ کے بعد جون 2006ء کے شمارہ میں تبصرئہ کتب’ کے کالم میں نہیں، بلکہ ‘شمع اخیر شب’ کے زیرعنوان مقالہ نگار نے تنقیدی تبصرہ رقم فرمایا ہے۔

اس کتاب کے حرف ِ اوّل میں، میں نے یہ لکھا تھا کہ اس کی اشاعت پر تین مختلف طبقات کی طرف سے تین جداگانہ ردّعمل ظاہرہوں گے۔ اورمیری عین توقع کے مطابق، ٹھیک ایسا ہی ہوا۔ تینوں طبقوں کے متعلق میں نے یہ لکھا تھا :
(1)
وہ طبقہ جوقرآن و سنت کی حجیت کا قائل ہے او ریہ اعتقاد رکھتا ہے کہ اطاعت ِ خداوندی، اطاعت ِ رسولؐ کے بغیر ممکن نہیں ہے، وہ اسے اپنے دل کی آواز سمجھے گا او ر ذہن و دماغ اور قلب وروح کی پوری آمادگی کے ساتھ مصنف کی تائید کرے گا اور اس کے ہم قدم و ہم رکاب رہیگا۔
(2)
دوسرا وہ گروہ جوطلوعِ اسلام کے لٹریچرکا سطحی اور یک طرفہ مطالعہ کرکے، اس کے بارے میں اچھی رائے قائم کرکے مطمئن ہوچکا ہے، وہ اس کتاب کو پڑھ کر تذبذب کے دوراہے پر کھڑا سوچ رہا ہوگا کہ کون سا راستہ صحیح ہے اور کون سا غلط؟ ایک طرف اگر وہ پرویز صاحب کی شگفتہ تحریر سے متاثر ہوکر’ مفکر ِقرآن’ کے خلوصِ قلب کا قائل ہوچکا ہے تو دوسری طرف اس کتاب کاحقائق پر مشتمل مواد اُس کی اِس عقیدت پرسخت چوٹ لگائے گا جو پرویز صاحب کے لئے اس کے سویدائے قلب(دل کاسیاہ نشان)میں پیداہوچکی ہے۔ تذبذب کے اس دوراہے پر کسی بھی راستے پر پیش قدمی کرنے سے پہلے اگر اس نے تحقیق سے کام لیا اور جن کتب و رسائل کے حوالے اس کتاب میں دیئے گئے ہیں، ان تک رسائی پاکر حقیقت ِحال کو جاننے کی کوشش کی، تو وہ مصنف کی تحقیق کی داد دیے بغیر نہیںرہ سکتا اور بالآخر کرگسوں کی صحبت میں پلنے والا یہ فریب خوردہ شاہین اپنے اصل مقام کی طرف پلٹ کر راہ ورسم شہبازی اختیار کرنے پرمجبور ہوگا۔

(3) تیسرا ٹولہ ان لوگوں پرمشتمل ہے جو سالہا سال سے طلوعِ اسلام کے لٹریچر کا یک رُخا مطالعہ کرکے ہر اس جماعت اور ہر اُس فرد کے خلاف اپنے سینوں میںکینہ و کدورت پیداکرچکے ہیں جس کے خلاف ایسا کرنا طلوعِ اسلام کا نصب العین بن چکا ہے۔ یہ لوگ، اپنے مسلک کی حمایت اور اپنے فکری مخالفین کی مخالفت میں، اپنے قلوب و نفوس میں شدید حمیت ِجاہلیہ، سنگین تعصب اور سخت ضد پیدا کرچکے ہیں۔ ایسے لوگوں پر اس کتاب کے مطالعہ کا وہی اثر ہوگا جو نزولِ قرآن نے مشرکین ِ عرب کی ذہنیتوں پرکیاتھا : {وَلَا يَزِيدُ ٱلظَّـٰلِمِينَ إِلَّا خَسَارً‌ا}اس کتاب کے مطالعہ سے ان کی چیخیں نکل جائیں گی، وہ چلائیں گے، شور مچائیں گے، سب و شتم اور دشنام طرازی پر اُتر آئیں گے او ریہ کہہ کر آسمان سر پر اٹھا لیں گے:

دیکھنا، لینا، پکڑنا، دوڑنا، جانے نہ پائےلے چلا، میری شکیبائیiوہ کافر لے چلا

اس آخری ٹولے نے بھی پہلے دو طبقوں کی طرح، ٹھیک وہی ردّعمل ظاہر کیا ہے، جس کی مجھے توقع تھی، چیخنے چلانے، شور مچانے اور سب و شتم پر اُتر آنے کا یہ ردّعمل، طلوع اسلام جون2006ء میں ظاہر ہواہے۔ اس گروہ کے متعلق میں نے یہ بھی لکھا تھا کہمجھے یہ بھی پیشگی اندازہ ہے کہ اس کتاب کے مواد کے بارہ میں وابستگانِ طلوعِ اسلام کی طرف سے یہ کہا جائے گا(جیساکہ یہ اکثر کہا کرتے تھے) کہ پرویز صاحب (یاطلوعِ اسلام) کی عبارت کوتوڑ مروڑ کر لکھا گیا ہے۔

میرا یہ انداز بھی سو فیصد درست ثابت ہوا ، اورمقالہ نگار ٹھیک وہی کچھ لکھتے ہیں جس کی مجھے توقع تھی، وہ فرماتے ہیں :
پرویز صاحب یاطلوعِ اسلام کے اقتباسات توڑ مروڑ کر، اور سیاق و سباق سے علیحدہ کرکے پیش کئے جاتے ہیں۔


حالانکہ جہاں میں نے یہ پیشگی اندازہ رقم کیا تھا، وہیں اس کے متصل ہی میں نے یہ بھی عرض کردیا تھاکہ
جو شخص یہ بات کہے، اس سے کہئے کہ جو اقتباسات اور حوالے اس کتاب میں شائع کئے گئے ہیں، وہ ان سے متعلقہ کتب و مجلات کو لے آئے اور اسکے بعد آپ کو بتائے کہ کہاں الفاظ کو توڑا مروڑا گیا ہے او رکہاں عبارات کوغلط پیش کیا گیا ہے۔ آپ اسکا شدت سے مطالبہ کیجئے آپ دیکھیں گے کہ وہ اپنے دعویٰ کے ثبوت میں کوئی دلیل بھی پیش نہیں کرسکیں گے۔


اسی گروہ کے متعلق میں نے قیاساً یہ بھی لکھا تھاکہ
اس ٹولے کے افراد، کتاب میں موجود واقعات و دلائل کونظر انداز کرتے ہوئے اُلٹا یہ شور مچائیں گے کہ یہ پرویز صاحب کی کردارکشی ہے۔

مقالہ نگار کا پورامضمون ٹھیک اسی چیز کی تائیدکر رہا ہے جو اس گروہ کے متعلق میں نے قیاس کیا تھا۔

مندرجاتِ کتاب اورمقاماتِ تنقید
اس ابتدائی تمہید کے بعد اب میں یہ واضح کرناچاہتاہوں کہ میری کتاب کے گیارہ ابواب میں سے کس باب کے کن مقامات پر، مقالہ نگار نے کیا اعتراضات کئے ہیں:
باب نمبر1: پہلے باب کاعنوان ہے۔ ‘دل اور زبان میںعدمِ موافقت’ اس باب میں، میں نے ٹھوس دلائل کے ساتھ یہ واضح کیا ہے کہ 1947ء سے قبل، اگرچہ پرویز صاحب قرآنِ مجید کے ساتھ حدیث ِرسول ؐاور کتاب اﷲ کے ساتھ، سنت ِ نبویؐ کا نام لیتے رہے ہیں، مگر اس دور میں بھی،ان کی زبان و قلم، ان کے دل کی رفیق نہ تھی۔ وہ جو کچھ اپنے لسانِ قلم سے پیش کررہے تھے، وہ اُن کا قلبی عقیدہ نہ تھا اور جو کچھ فی الواقعہ عقیدة ان کے قلب میں تھا، وہ اسے مصلحتاً مکتوم و مخفی رکھنے پر مجبور تھے۔ وہ حدیث ِرسول اور سنت نبویؐ کو حجت و سند نہ مانتے ہوئے بھی جس مجبوری کے تحت ان کا نام لے رہے تھے، اسے بھی اس باب میں واضح کردیا گیا ہے۔ اور یوں ‘مفکر ِقرآن’ صاحب، قلب و زبان کی اس مغایرت کے باعث، اُس زمانے میں بھی، جادۂ کذب و زُور پرگامزن تھے۔


باب نمبر2: دوسرے باب میں (جس کاعنوان ‘خارزارِ تضاداتِ پرویز’ہے) میں نے تفصیل سے یہ واضح کیا ہے کہ ان کی نگارشات ، تضادات و تناقضات سے اٹی پڑی ہیں۔
(
الف) اس وسیع خار زارِ تضادات میں سے دس مثالیں اس بات کو واضح کردیتی ہیں کہ تقسیم برصغیر سے قبل اور بعد میں ان کے موقف میں صریح تضادات اور واضح تناقضات پائے جاتے ہیں۔ ان دس مثالوں میں سے کسی ایک مثال پر بھی، مقالہ نگار کو اعتراض یاتردید کی جرأت نہیں ہوسکی۔ الحمدﷲ علی ذٰلک
(
ج) اس کے بعد پرویز صاحب کے اُن پانچ تضادات کو پیش کیاگیا ہے جو ان کی 1947ء کے بعد کی نگارشات میں موجود ہیں، ان میں سے تین تضادات پراعتراض کی کوئی گنجائش مقالہ نگار کونہ مل سکی۔ البتہ دو تضادات پر اُنہوں نے اعتراض فرمایاہے

دو اعتراضات
آخری پانچ امثلۂ تضادات میں سے تیسری اور چوتھی مثال پر مقالہ نگار کے اعتراض کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے :

زیر اعتراض پہلا تضاد یہ ہے کہ طلوعِ اسلام کے ایک مقام پر حضرت معاویہؓ کو کاتب ِوحی قرار دیا گیا ہے اور دوسرے مقام پر اُن کے کاتب ِوحی ہونے کی نفی کی گئی ہے۔


زیر اعتراض دوسرا تضاد حضرت سلمان فارسیؓ کی ذات کے بارے میں ہے۔ ایک مقام پر ان کی تاریخی شخصیت کی نفی کی گئی ہے اور اُنہیں ایک فرضی اور من گھڑت شخصیت قرار دیا گیا ہے، جبکہ دوسرے مقام پر ان کی شخصیت ہی کا نہیں، بلکہ صحابیت کا بھی اثبات کیاگیا ہے۔

میں نے ان دونوں مثالوں کے بارے میں اپنی کتاب (زیربحث) میں یہ وضاحت بھی کردی تھی کہ
تیسری اور چوتھی مثال میں، جو تحریری ثبوت پیش کئے گئے ہیں، وہ اگرچہ پرویز صاحب کے الفاظ میں نہیں ہیں، لیکن ان کے متعلق، طلوعِ اسلام (یا خود پرویز صاحب)نے کسی اختلافی نوٹ کو ظاہرنہیں کیا۔ اس لئے اُنہیں پرویز صاحب ہی کی طرف منسوب کیا گیا ہے کیونکہ اُنہیں کا یہ اصول ہے کہ کسی چیز کو بلااختلافی نوٹ کے شائع کرنا دلیل موافقت قرار پاتا ہے۔


تضاداتِ پرویز کی ان دونوں مثالوں پر، مقالہ نگار نے دو اعتراضات پیش فرمائے ہیں :

پہلااعتراض
طلوعِ اسلام کے جس اقتباس میں حضرت سلمان فارسیؓ کو تاریخی اعتبار سے ایک وضعی شخصیت قرار دیا گیا ہے، اس کا حوالہ ‘طلوعِ اسلام’ نومبر1949ء صفحہ 49 دیاگیا ہے، جبکہ اس مقام پر ایساکوئی اقتباس موجود نہیں ہے۔ چنانچہ مقالہ نگارنے اپنے تنقیدی مضمون کے آخر میں محولہ بالا صفحہ کا عکس بھی پیش کیا ہے۔

یہ اعتراض بالکل بجا ہے۔کیونکہ کتاب میں،احتیاط کے باوجود حوالہ غلط درج ہوگیا ہے۔ جس کا مجھے افسوس ہے۔بہرحال یہ اقتباس فی الواقعہ طلوعِ اسلام 1954ء کے شمارہ میں صفحہ 49 پرموجود ہے جس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔میں مقالہ نگار کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے اس لغزش کی نشاندہی کی۔

دوسرا اعتراض
دوسرا زیر اعتراض اقتباس وہ ہے جس میں حضرت معاویہؓ کے کاتب ِوحی ہونے کی نفی کی گئی ہے۔معترض کا اعتراض یہ ہے کہ مصنف کتاب نے جو یہ کہاہے کہ…’ ‘طلوعِ اسلام (یا پرویز صاحب) نے کسی اختلافی رائے کوظاہرنہیں کیا۔” تو یہ بات غلط ہے کیونکہ مضمون کے آخر میں ‘استدراک’ کے زیرعنوان، بایں الفاظ یہ اختلافی نوٹ موجود ہے :
اس مقالہ میں جس قدر حصہ تاریخ سے متعلق ہے، ظاہر ہے کہ اسے یقینی نہیں کہا جاسکتا۔ اس لئے اسے احتیاط سے قبول کرنا چاہئے۔ یہ احتیاط، اس وقت اور بھی ضروری ہوجاتی ہے جب معاملہ صحابہ کبار کے متعلق ہو۔اس سلسلہ میں ہم طلوعِ اسلام میں بڑی تفصیل سے لکھ چکے ہیں۔ اور وہ مباحث اب ‘قرآنی فیصلے’ (جلد دوم) میں درج ہوگئے ہیں، جنہیں اس موضوع کی تفصیلات سے دلچسپی ہو، وہ اسے وہاں دیکھ سکتے ہیں۔

اس اقتباس میں، ہر شخص خود یکھ سکتا ہے کہ حضرت معاویہؓ کے کاتب وحی ہونے یانہ ہونے کے متعلق ایک حرف بھی موجود نہیں ہے۔ صرف یہ’وعظ’ موجود ہے کہ تاریخ سے متعلقہ حصہ غیر یقینی ہے، اس لئے اسے احتیاط سے قبول کرنا چاہئے۔ یہ احتیاط اُس وقت اور بھی ضروری ہوجاتی ہے جب معاملہ کبار صحابہ کے متعلق ہو۔ لیکن مقالہ نگار صاحب محض میری مخالفت میں، اسے حضرت معاویہؓ کے کاتب ِوحی ہونے یانہ ہونے کے بارے میں’اختلافی رائے’ قرار دیتے ہیں اور پھر اس فاسدپر ایک اورفاسد کا یہ کہہ کر اضافہ فرماتے ہیں کہ

ملاحظہ فرمایا آپ نے، پروفیسر موصوف کا دعویٰ تھاکہ طلوعِ اسلام یا پرویز صاحب نے کوئی اختلافی نوٹ نہیں لکھا، اس لئے اسے پرویز صاحب سے منسوب کیاگیا ہے۔ آپ ذرا اس دریافت کو ملاحظہ فرمائیے۔ مستشرقین کی کتابیں بھی اسلام پر تنقید سے مملو ہوتی ہیں، مگر آج تک کسی مستشرق نے بھی اس قسم کی علمی خیانت کا مظاہرہ نہیں کیا جس کا اظہار پروفیسر موصوف نے کیا ہے۔

استدراک کے زیرعنوان، طلوع اسلام نومبر1964ء صفحہ57 پر موجود عبارت کو(جوقطعی طور پر حضرت معاویہؓ کے کاتب ِوحی ہونے یانہ ہونے سے غیر متعلق ہے) محض سینہ زوری سے ‘اختلافی رائے’ قرار دے کر مقالہ نگار کا ‘اُلٹا چور کوتوال کوڈانٹےکامصداق بننا، واقعی قابل داد ہے۔ مستشرقین نے ایسی’علمی خیانت’ کا مظاہرہ کیا ہے یانہیں لیکن مقالہ نگار نے اصل مسئلہ سے قطعی غیر متعلقہ عبارت کو اختلافی رائے’ ظاہرکرکے جس علمی خیانت کا مظاہرہ فرمایا ہے، وہ تو ہم سب کے سامنے ہی ہے۔ پھر عدل و انصاف اور امانت و دیانت کا یہ معیار بھی ہمارے سامنے ہی ہے کہ مقالہ نگار صاحب ایک طرف تو مصنف ِکتاب پر ‘علمی خیانت’ کا من گھڑت اور جھوٹا الزام عائد کرتے ہیں اور دوسری طرف اُس ‘مفکر قرآن’ کی حمایت میں کاغذ سیاہ کرنے کے ساتھ ساتھ، اپنانامہ اعمال بھی سیاہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں،جس کی واضح علمی خیانتوں، دروغ گوئیوں، فریب کاریوں اور بہتان تراشیوں کو مصنف ِکتاب نے بے نقاب کر ڈالا ہے۔


بہرحال اب ظاہر ہے کہ جب حضرت معاویہؓ کے کاتب ِوحی ہونے یانہ ہونے کے متعلق کوئی ایسا اختلافی نوٹ سرے سے موجود ہی نہیں ہے تو اسے ان دلائل کی بناپر جو میری کتاب (زیر بحث)کے صفحہ95 اور 96 پر موجود ہیں، اُنہیں پرویز صاحب کی طرف منسوب کرنا، کوئی بے جا بات نہیں ہے۔

باب نمبر 3: تیسرے باب میں’مفکر ِقرآن’صاحب کے چند صریح جھوٹ’ پیش کئے گئے ہیں۔ ان میں سب سے پہلا جھوٹ وہ ہے جسے برسوں سے پھیلایا جارہاہے اور جس میں طلوعِ اسلام کے قارئین کو یہ جھوٹا یقین دلایا جاتا ہے کہ ”پرویز صاحب برصغیر کے پہلے’قرآنی مفکر’ تھے جن کے دلائل کے نتیجے میں (1935ء کے مقدمہ بہاولپور میں) قادیانیوں کو سرکاری سطح پر کافر قرار دیا گیا تھا”… میں نے ٹھوس دلائل کے ساتھ اپنی کتاب کے صفحہ 11 سے 126 تک، اس دروغ کی قلعی کھولی ہے اور مقالہ نگار کتاب میںموجود دلائل میں سے کسی ایک کی بھی تردیدنہیںکرپائے۔ پھر اس جھوٹ کے اندر بھی، کئی ذیلی جھوٹ داخل ہیں۔ اس کے بعد ‘مفکر قرآن’ کا ایک اور سہ گونہ جھوٹ، مع ثبوت و دلائل پیش کیا گیاہے۔ جس کے پیکر ِزور سے ایک چوتھا جھوٹ بھی نمودار ہوا۔ اس باب میںمذکور، کسی واقعہ اور کسی دلیل کی تغلیط کی جرأت، مقالہ نگار کونہ ہوسکی۔ الحمد ﷲ علی ذلك

باب نمبر4: چوتھے باب کا عنوان ہے… ‘مغالطہ آرائیاں، خیانت کاریاں، فریب انگیزیاں’ اس باب میں ‘مفکر ِقرآن’ صاحب کے دجل و فریب، خیانت و بددیانتی کی سات مثالیں نہایت قوی دلائل و براہین کے ساتھ پیش کی گئی ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کی بھی تردید کی جرأت ،کارپردازانِ طلوع اسلام میں سے کسی کو نہ ہوسکی اور مقالہ نگار بھی کوئی اعتراض نہ کرپائے۔ الحمدﷲ علی ذلك


باب نمبر 5: پانچویں باب کا عنوان ہے… ‘جھوٹے الزامات، افتراء ات او ربہتانات’ اس باب میں، علماے کرام، علماے احناف، علماے اہل حدیث، سید مودودی رحمۃ اللہ علیہ ، علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ، قرآنِ مجید، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اُن تُہم و بہتانات کو مفصل او رمدلل اندازمیں پیش کیا گیا ہے، جس کا ارتکاب ‘مفکر قرآن’ کرتے رہے ہیں۔ اور حدیث ِرسولؐ کو جس طرح تضحیک واستخفاف کا نشانہ بنایا جاتا ہے،ایک مثال اس کی بھی پیش کی گئی ہے اور آخر میں مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں پرویز صاحب کے تین دعاوی کامختصر مگر مدلل جائزہ بھی لیا گیا ہے۔

اس پورے باب میں ‘مفکر ِقرآن’ کے جن بہتانات و افتراء ات کو جن دلائل و براہین کے ساتھ پیش کیا گیاہے، ان میں سے کسی ایک کی بھی تردید کی ہمت، مقالہ نگار کو نہیں ہوسکی۔ الحمد ﷲ علی ذلك

باب نمبر 6 : میری کتاب کے چھٹے باب کا عنوان ہے … ‘ناپ تول کے دُہرے معیار۔ اس باب میں، میں نے’مفکر قرآن’ صاحب کے دُہرے معیار کی سات مثالیں پیش کی ہیں، جن میں سے دو مثالیں تو وہ ہیں جوچوتھے باب میں مذکور ہیں۔ ان ساتوں مثالوں کو دلائل سے واضح کیا ہے۔ مزید برآں اس باب میں اس امر پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ ‘مفکر قرآن’ صاحب نے (مغربی اقدار و اطوارِ معاشرت اور نظامِ اشتراکیت کی باہمی پیوندکاری کے نتیجہ میں) جو ‘انقلابی اسلامقرآنِ مجید سے نچوڑا ہے، وہ چونکہ محمد رسول اﷲ والذین معہ کے حقیقی اسلام کے مخالف اور ‘مدمقابل اسلام’ کی حیثیت سے سامراجی مقاصد کے لئے مفید و کارآمد ہے، اس لئے وہ کس طرح اپنی پشت پر مغربی حمایت و معاونت کو موجود پاتا ہے، اور مغرب کے لا دین سکالر، سیکولر دانشور، یہود و نصاریٰ کے احبار و رہبان، ‘مفکر قرآن’ کی ‘قرآنی خدمات’ پر اُنہیں خراجِ تحسین پیش فرماتے ہیں، اور طلوعِ اسلام اور اس کے وابستگان، عالم کفر میں پرویز صاحب کی اس پذیرائی پر خوشی سے نہال ہیں کہ چلو عالم اسلام میں نہیں، تو عالم کفر میں تو ‘مفکر قرآن’ صاحب کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔

مقالہ نگار اس باب کی کسی مثال اور کسی دلیل کی بھی تردیدنہیں کر پائے۔ الحمدﷲ

باب نمبر 7: ساتویں باب میں، جو ‘تائید ِباطل کا رویۂ پرویز’ کے زیرعنوان ہے، دو ایسی مثالیں پیش کی گئی ہیں جن میں’مفکر قرآن’ صاحب مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی مخالفت اور عداوت وعناد کے جوش میں ہوش سے عاری ہوکر، دو باطل اُمور کی تائید پرتُل جاتے ہیں۔ مقالہ نگار نہ تو ان دونوں مثالوں، اور نہ ہی ان کے دلائل کی تردید کرسکے ہیں۔الحمد ﷲ علی ذلك

باب نمبر 8: آٹھویں باب کا عنوان ہے۔ ‘تخیلاتی مقصود اور حکمت ِعملی’ اس باب میں ایک ایسی اُصولی حقیقت پیش کی گئی ہے، جس پر سلف و خلف اور ہر عصر و مصر کے علماء و فقہا متفق ہیں۔ ہماری زبان میں، اسے سیدابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے:
ایک اُصول کو قائم کرنے پر ایسا اصرار، جس سے اس اُصول کی نسبت، بہت زیادہ اہم دینی مقاصد کونقصان پہنچ جائے، حکمت ِعملی ہی نہیں، حکمت ِدین کے بھی خلاف ہے۔

اسی اُصولی حقیقت کے تحت کئی ذیلی حقیقتیں، مثل اختیار أہون البلیتین وغیرہ سمٹ آتی ہے۔ پرویز صاحب نے سلف و خلف کے جملہ علماء وفقہا کو نظر انداز کرکے، صرف مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ ہی کو اس ‘جرم’ کا مرتکب قراردے کر، اُنہیںجس قدر نشانہ بنایا ہے، اس قدر کسی اور مسئلہ پرنشانہ نہیں بنایا۔یہاںتک کہ اس مسئلہ کی آڑ میں مولانا مودودی کے خلاف ایک ایسی آتش جنگ بھڑکائی گئی،جس کے الاؤ کو زندہ و توانارکھنے کے لئے وابستگانِ طلو ع اسلام اب تک ایندھن ڈالتے چلے آرہے ہیں۔ میں نے منکرین حدیث کے سرخیل کے خلاف یہ ‘قلمی جنگ’ اپنی سرزمین پر قرآن و سنت کے ہتھیاروں سے نہیں لڑی بلکہ ‘مفکر قرآن’ ہی کی گراؤنڈ پر ان ہی کے ہتھیاروں سے لڑی ہے۔ کیونکہ میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ یہ لوگ قرآنی دلائل کو اپنی تاویلاتِ فاسدہ کا نشانہ بنا دیتے ہیں، اور اس طائفہ کے اندھے مقلدین، ان’قرآنی تحریفات’ کو بلند پایہ ‘علمی نکات’ قرار دے دیتے ہیں۔ صاحب ِتردید اپنی جگہ مطمئن ہوجاتے ہیں کہ میں نے معترضین کے’قرآنی دلائل’ کاجواب دے دیا ہے اوردوسری طرف کی قومِ عَمُون ان’قرآنی جواہر پاروں’ پرمطمئن رہتی ہے اور نتیجتاً بات کسی قطعی فیصلہ پر پہنچنے کی بجائے بھنور میں پھنسی ہوئی کاغذی ناؤ کی طرف وہیں کی وہیں رہتی ہے۔ رہے احادیث وسنت نبیؐ کے دلائل تو وہ ان لوگوں کے نزدیک سرے سے حجت ہیں ہی نہیں۔باقی رہ گئے فقہاء و مجتہدین کے افکار و نظریات، تو ان کو یہ لوگ بھلا کیا وزن دیں گے، جو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو ردّ کردینے کے عادی ہوں۔اس لئے ان لوگوں کے سامنے نہ قرآنی دلائل ہی کارگر ہیں اور نہ ہی حدیث و سنت کی کوئی دلیل پیش کرنا سود مند ہے، اورنہ فقہاء و علما کے ارشادات، ان لوگوں کی گردنیں، اگر جھکتی ہیں تو صرف ‘مفکر ِقرآن’ کے مقولات و مقالات اور طلوعِ اسلام کی عبارات و اقتباسات ہی کے سامنے۔ان لوگوں کے نزدیک رسولِ خداؐ کی اتباع شخصیت پرستی ہے، لیکن قرآن کے نام پر پرویز صاحب کی نت نئی بدلتی ہوئی آراء و اہوا کی اتباع’ خدا پرستی’ ہے۔ اس لئے میںنے اس باب میں طلوع اسلام اور پرویز صاحب ہی کے لٹریچر سے وہ دلائل پیش کئے ہیں، جو خود ‘مفکر ِقرآن’ کی تردید اور جملہ علماء سلف و خلف (بشمول مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ )کی تائید پر شاہد عدل ہیں۔

مجھے خوشی ہے کہ اس باب میں مذکور دلائل و براہین کا بھی مقالہ نگار سامنا نہیںکر پائے اور تردید تو رہی ایک طرف، وہ اعتراض تک کی گنجائش نہ پاسکے۔

باب نمبر 9 : باب نمبر9 کاعنوان ہے… ‘مفکر قرآن’ کے اکاذیب و اباطیل’… اس باب میں بھی، حکمت ِعملی کے مباحث کا وہ حصہ زیر بحث آیا ہے جوبعض ناگزیر صورتوں میں جوازِ کذب ‘ کے مباحث پر مشتمل ہے، مت بھولئے کہ بعض ایسی ناگزیر صورتوں میں جواس کذب پرجملہ علماء اوّلین و آخرین متفق ہیں ، لیکن ‘مفکر قرآن’ صاحب، ماضی و حال کے جملہ علماء و فقہاء کو نظر انداز کرکے صرف اور صرف مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ ہی کونشانہ بناتے ہوئے یہ تاثر اُچھالاکرتے تھے کہ صرف مودودی رحمۃ اللہ علیہ ہی کے نزدیک:
اقامت ِ دین جیسے اہم مقاصد کے لئے، اُصولوں میں لچک اور استثنا تو ایک طرف، ان کے لئے جھوٹ بولنا بھی نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہوجاتا ہے۔

غور فرمائیے کہ ‘مفکر قرآن’ صاحب کی وہ عقل عیار، جسے وہ اپنی ‘قرآنی بصیرت’ کا نام دیا کرتے تھے، مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے ایسے اقتباسات کو پیش کرتے ہوئے ‘بعض ناگزیر حالات’ کی شرط حذف کردیا کرتی تھی۔

بہرحال اس کے مقابلہ میں، پرویز صاحب کا موقف یہ ہے کہ کسی بھی شخص کے لئے کسی بھی حال میں جھوٹ بولنا جائز نہیں ہے۔ اسے مرجانا قبول کرلینا چاہئے لیکن جھوٹ ہرگز نہیں بولنا چاہئے،کیونکہ قرآن کسی حالت میںبھی جھوٹ کی اجازت نہیں دیتا۔ اس موقف کے حق میں، پرویز صاحب بڑے دھڑلے سے ایک قاعدہ کلیہ بایں الفاظ پیش کیاکرتے تھے :
اگر سند قرآن رہے اور اس اُصول کوتسلیم کرالیا جائے کہ قرنِ اوّل کی تاریخ کا جو بیان قرآن کے خلاف ہے، وہ غلط ہے تو کسی کو اپنی فریب کاریوں اور کذب تراشیوں کے لئے دینی سند نہیں مل سکتی۔

اس کے بعد میں نے ‘مفکر قرآن’ جناب غلام احمد پرویز صاحب کے چند صریح جھوٹ، واضح اکاذیب اور نمایاں اباطیل طلوعِ اسلام ہی کے لٹریچر سے پیش کرکے یہ لکھا ہے کہ
ظاہر ہے کہ ‘مفکر قرآن’ جناب پرویز صاحب سے بڑھ کر قرآن کو سند ماننے والا کون ہوسکتا ہے، اور ان سے بڑھ کر قرنِ اوّل کی تاریخ کو جو خلافِ قرآن ہو، غلط قرار دینے والاکون ہوسکتا ہے؟ لیکن پھر حیرت بالائے حیرت اور تعجب برتعجب ہے اس امر پر کہ خود ان کو اپنی فریب سازیوں، بہتان تراشیوں، خیانت کاریوں اور مغالطہ آرائیوں کے لئے (جن کا تفصیلی ذکر ابواب گزشتہ میں کیاجاچکا ہے) دینی سند کہاں سے مل گئی؟ کیونکہ کذب و زور اور دجل وفریب کی شاید ہی کوئی ایسی صورت ہو، جسے اُنہوں نے اختیارنہ کیاہو۔

بہرحال اس باب میں مذکور کسی چیز کی تردید وتغلیط کی ہمت طلوعِ اسلام کے مقالہ نگار کو نہیں ہوسکی۔ الحمدﷲ علی ذلک

باب نمبر 10:دسویں باب کا عنوان ہے… ‘داعی ٔ انقلاب کاذاتی کردار’ یہ پورا باب مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ‘آئینۂ پرویزیت’ سے ماخوذ ہے۔ اس باب میں طلوعِ اسلام ہی کی اُمت کے ایک فرد جناب محمد علی بلوچ صاحب نے شھد شاھد من أھلھا کامصداق بنتے ہوئے ‘مفکر قرآن’ صاحب کی مالی چیرہ دستیوں کوبے نقاب کیاہے اور پرویز صاحب نے جن پرویزی حیلوں کے ذریعہ میزان پبلی کیشنز کومالی گڑ بڑ اور خورد بُرد کے ذریعہ نقصان پہنچا کر، اس کی جان نکالی، ان کاذکر کیا گیا ہے۔ ‘مفکر ِقرآن’ نے اپنی ذات سے ان الزاماتِ خیانت کو دفع کرنے کے لئے جو تکنیک اختیار کی ہے، اسے محمد علی بلوچ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے :
صحافتی بازیگری کی ایک ٹیکنیک یہ بھی ہے کہ جب آپ کے کسی کام پر اعتراض کیاجائے تو آپ کسی ایسی مشہور ہستی کا نام لے دیجئے جس کا تقدس و احترام مخاطب کے لئے مسلم ہو، اور اس ہستی کی کسی ایسی ہی مفروضہ غلطی کی نشاندہی کردیجئے جیسی آپ سے سرز ہوئی ہے، اور کہہ دیجئے کہ یہ ایسی کوئی بڑی نہیں ہے۔اپنے جرم کو ہلکا کرنے کے لئے کسی مشہور ہستی کو اپنی سطح پرلاکھڑا کرنا تو دنیا کے بہت سے شاطروں کا شیوہ رہاہے، لیکن اس مقصد کے لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی کو وہی شخص استعمال کرسکتا ہے جس کے دل میں خوفِ خدا بلکہ ایمان تک کا بھی شائبہ نہ رہا ہو۔ حسب ِعادت اس مقام پر بھی پرویز صاحب نے کتربیونت اور تحریف سے کام لیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس انداز کاالزام کبھی بھی نہیں لگایاگیا کہ آپؐ معاذ اﷲ پیسے کے معاملے میں گڑ بڑ کرتے ہیں۔ آپؐ کے متعلق، منافقین نے محض یہ الزام لگایاتھا کہ آپؐ صدقات میں سے ہم لوگوں کو کم دیتے ہیں اور دوسرے ضرورت مندوں کوزیادہ۔ یہ بات نہیں کہ اُنہیں یہ شکایت پیدا ہوئی کہ آپؐ معاذ اﷲ خود کچھ لے لیتے ہیں، دنیا جانتی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقات کے اموال کو اپنے اور اپنے اہل و عیال پر حرام کر رکھا تھا۔ (حدیث ِدل گدازے، صفحہ 37،38 + و آئینہ پرویزیت )”

اس باب کے مندرجات پربھی، مقالہ نگار کو کسی اعتراض کی گنجائش نہ مل پائی۔ الحمدﷲ

باب نمبر 11: یہ کتاب کا آخری باب ہے، اس کاعنوان ‘اخلاقی نامردی’ہے۔ اس باب میں جس چیز کو ‘اخلاقی نامردی’ قرار دیا گیا ہے وہ منکرین حدیث کا وہ رویہ ہے جس کے تحت یہ لوگ جب کسی سے اختلاف پراُتر آتے ہیں تو دورانِ بحث اپنے موقف کو تو طلوعِ اسلام کے قارئین کے سامنے یک طرفہ طور پر پیش کردیتے ہیں، لیکن اپنے مخالف کے موقف کو اُن کے سامنے آنے نہیں دیتے۔عامة الناس کے سامنے، وہ تصویرکا وہی ایک رُخ لاتے ہیں،جو اُنہیں پسند ہے، لیکن تصویر کادوسرا رُخ جسے وہ ناپسند کرتے ہیں، پیش کرنے کو وہ اپنے مفاد کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں کی انتہائی کوشش یہی ہوتی ہے کہ قارئین کرام طلوعِ اسلام ، ان کے یک رُخے مطالعے پرہی اپنی رائے قائم کرکے بیٹھ جائیں اور کسی دوسرے شخص کا موقف،خواہ وہ کتنا ہی مضبوط قوی اور صحیح ہو، ان کے سامنے آنے ہی نہ پائے۔وہ اگر اپنے مخالف کے نقطۂ نظر کا تذکرہ کرتے بھی ہیں تو اُس (مخالف) کے الفاظ میں نہیں، بلکہ خود اپنے الفاظ میں، تغیر مفہوم کے ساتھ کرتے ہیں۔ اس باب میں’اخلاقی نامردی’ کی دونہایت صریح مثالیں بڑی تفصیل سے پیش کی گئی ہیں۔ایک مثال وہ ہے جو’سنت کی آئینی حیثیت’ پر مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ اور ڈاکٹر عبدالودود صاحب کے مابین مراسلت سے تعلق رکھتی ہے اور ابتداے مراسلت ہی میں ڈاکٹر صاحب نے پوری مراسلت کی اشاعت کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے مضبوط دلائل کو طلوعِ اسلام کے قارئین تک نہ پہنچنے دیا گیا اور ڈاکٹر عبدالودود صاحب ہی کے بعض خطوط کو یک طرفہ طور پر شائع کرڈالا گیا۔ آخر میںاس طرزِ عمل کو ‘اخلاقی نامردی’ کے سوا اور کیا نام دیا جاسکتا ہے۔نیز اس مثال میں مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارات کو جس خیانت کارانہ انداز میں پیش کرکے، عبارات کے مصنف ہی کو دھوکہ دینے کی کوشش ڈاکٹر صاحب نے فرمائی تھی، اس کی بھی دس گیارہ مثالیں پیش کی گئی ہیں۔

دوسری مثال، اس خط و کتابت پرمشتمل ہے جو میرے اور جناب محمدلطیف چوہدری، سابق ناظم ادارہ طلوع اسلام کے درمیان دسمبر 1988ء اور جنوری 1989ء میں ہوئی تھی۔ دونوں طرف کی مراسلت کو دیکھ کر ہرشخص خود اندازہ کرسکتا ہے کہ کس نے اپنے موقف کو اچھے انداز میں پیش کیا ہے او رکس نے اُوچھے انداز میں۔ کس کا موقف دلائل و براہین سے مملو ہے اور کس کا افترا پردازیوں اور بہتان تراشیوں پرمشتمل ہے، پھر ساتھ ہی محمد لطیف صاحب نے یہ مطالبہ بھی کیاکہ ان کے ارسال کردہ مکتوب کو ‘محدث’ میں شائع کیاجائے۔ محدث نے تو دونوں طرف کی مراسلت کو مارچ 1989ء کے شمارہ میںشائع کردیا، لیکن صحافتی دیانت کا یہ تقاضا، طلوعِ اسلام پورا نہ کرسکا او راپنی’اخلاقی نامردی’ کی روش پربرقرار رہا۔

بہرحال اس آخری باب میں بھی پیش کردہ ہماری کسی بات کی نہ تو تردید ہی مقالہ نگار سے ہوسکی اورنہ ہی وہ کوئی اعتراض کرپائے۔ الحمد ﷲ علی ذلک

حرف ِ آخر
آخری باب کے بعد ‘حرف ِآخر’ کے زیر عنوان میں نے چند صفحات میں پوری کتاب کا خلاصہ بیان کیا ہے او ریہ بتایاہے کہ ‘مفکر قرآن’ جناب غلام احمد پرویز صاحب کن غیر اخلاقی اور غیر شائستہ پرویزی ہتھکنڈوں سے کام لے کر علماے کرام کو بالعموم اور مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کو بالخصوص، تذلیل و تضلیل اور استہزاء و تضحیک کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کس طرح پرویز صاحب کے معاندانہ اور زہریلے پراپیگنڈے کے جواب میں، صبر و سکوت کا دامن تھامتے ہوئے اور إذا مرُّوا باللغو مرُّوا کرامًا کی روش اختیار کرتے ہوئے خدمت اسلام کی مثبت کاوشوں پرجمے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں مولانامودودی رحمۃ اللہ علیہ کے انتہائی شائستہ طرزِ عمل کی وضاحت کے لئے، میں نے اُن کا ایک اقتباس بھی __ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کا ایمان افروز جوابی طرزِ عمل __کی سرخی کے تحت پیش کیا ہے۔

مقالہ نگار کا ایک اعتراض
حرفِ آخر’ کے زیرعنوان میری مندرجہ ذیل عبارت کو (جو صفحہ 383 پرموجود ہے) مقالہ نگار نے ہدفِ اعتراض بنایا ہے :
وہ(پرویزصاحب) مالی معاملات میں گڑ بڑ کے الزام کو، اپنی ذات سے دفع کرنے کے لئے، منافقین کے نام لے کر، خود اپنی طرف سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہی الزام عائد کرکے اس ذاتِ اقدس و اعظم کو، اپنی سطح پر گھسیٹ لانے میں شرم و عار محسوس نہیں کرتے۔

پرویز صاحب کے شرم و حیا کے حوالہ سے، اس عبارت کو مقالہ نگار برسوں پہلے لکھے ہوئے میرے ایک خط کی مندرجہ ذیل عبارت کے ساتھ، متضادو متصادم قرار دیتے ہیں :
میں نے کبھی یہ ضرورت محسوس نہیں کی کہ مضبوط دلائل اور قوی براہین کے ساتھ پرویز صاحب کی تردید کرڈالنے کے بعد اُن کے متعلق ‘بے شرم ہے، بے حیا ہے جیسے سوقیانہ الفاظ بھی استعمال کروں۔” (کتاب زیربحث صفحہ 374)

یہ الفاظ میرے اُس خط سے ماخوذ ہیں جومیں نے جنوری 1989ء میں محمد لطیف چوہدری ناظم ادارہ طلوعِ اسلام ،لاہور کو اس وقت لکھے تھے جب کہ اُنہوں نے محدث میںچھپنے والے میرے ایک مضمون پر اظہار قلق کرتے ہوئے اور مجھ پر جھوٹے الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے یہ لکھا تھا کہ میں(قاسمی صاحب) نے پرویز صاحب کے لئے ‘بے حیا ہے،بے شرم ہے’ جیسے بازاری الفاظ استعمال کئے ہیں، اُس وقت میں نے جواباً انہیں یہ لکھا تھا کہ

”میرا مقالہ (جس پر آپ اعتراض فرما رہے ہیں)ماہنامہ محدث کے دسمبر 1988ء کے شمارے میں صفحہ 50سے 58 تک پھیلا ہوا ہے۔ کیا آپ اس میں کہیں یہ جملہ دکھا سکتے ہیں کہ’ ‘پرویز بے شرم ہے، بے حیا ہے” اس بے سروپا الزام تراشی اور بہتان طرازی کے جواب میں میں اس کے سوا کیاکہہ سکتا ہوں کہ:


ظالم! جفائیں کر، مگر اتنا رہے خیال
ہم بے کسوں کا بھی کوئی پروردگار ہے!

میں پرویز صاحب کے فکر کی تردید میں، ڈیڑھ دو سال سے ‘محدث’ میںمسلسل لکھ رہا ہوں۔ میں نے کبھی یہ ضرورت محسوس نہیں کی کہ مضبوط دلائل اورقوی براہین کے ساتھ پرویز صاحب کی تردید کر ڈالنے کے بعد، ان کے متعلق ‘بے شرم ہے،بے حیا ہے’ جیسے سوقیانہ الفاظ بھی استعمال کروں۔

اور یہ میری اُس زمانے کی عبارت ہے جب میں نے طلوعِ اسلام کی مکمل فائل کامطالعہ نہیں کیا تھا۔ اس وقت میں اگرچہ پرویز صاحب کو فکری طور پر راہِ راست پرنہیں سمجھتا تھا، لیکن اس کے باوجود میں اُنہیںقرآن کریم کامخلص، نیک نیت اور دیانتدار طالب علم سمجھتا تھا۔ لیکن بعد میں جب ان کی بددیانتیاں، خیانت کاریاں، کذب بیانیاں، بہتان تراشیاں اور فریب کاریاں مجھ پر عیاں ہوتی چلی گئیں تو ان کے متعلق میرا یہ حسن ظن بھی جاتا رہا۔ اور اب جبکہ ان بہتان تراشیوں کی تیرافگنی کا نشانہ بننے سے عام علماے امت اور ائمہ فقہ تو رہے ایک طرف خود قرآن اور رسولِ قرآن بھی محفوظ نہ رہ پائے تو مجھے اس امر میںرتی برابر شک نہ رہا کہ وہ خوفِ خدا، شرم و حیا بلکہ (بقول محمد علی بلوچ صاحب) ایمان تک سے عاری ہیں۔

دوسرا اعتراض
مقالہ نگار نے جو دوسرا اعتراض کیا ہے، اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مکتب ِطلوع اسلام کی کرامت کے باعث یا پرویز صاحب کے فیضانِ نظر کے صدقے مقالہ نگار بھی دوسروں کی عبارات کو پیش کرتے وقت کتر بیونت سے کام لیتے ہیں، بالخصوص ایسی عبارتوں کو پیش کرتے وقت جن سے طلوعِ اسلام کی فاسد ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے۔چنانچہ مقالہ نگار صاحب فرماتے ہیں :
مارچ 1952ء کے ترجمان القرآن میں ایک قاری نے جناب مودودی رحمۃ اللہ علیہ کو لکھا…”ابھی ابھی ایک پرچہ طلوعِ اسلام نظر سے گزرا۔ یہ پرچہ قریب قریب ان مضامین پر مبنی ہے جن میںآپ کی کتاب ‘مرتد کی سزا، اسلامی قانون میں’کی قرآن کی رو سے تردید کی گئی ہے۔ … …… …… اس سلسلے میں ہم یہ جانناچاہتے ہیںکہ ”آئندہ ماہ کے ترجمان القرآن میں آپ اس کا جواب لکھ رہے ہیں کہ نہیں؟ اگر کسی دوسرے پرچے میں اس کا جواب لکھ رہے ہوں تو ہمیں آگاہ کردیں تاکہ جو لوگ، اس پرچے کو پڑھ کر آپ کی طرف سے بددل ہوگئے ہیں ان کاازالہ کردیا جائے۔” جناب مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے پرویز صاحب کے مقالے قتل مرتد’ کا جواب تو شائع نہ کیا، البتہ مستفسر کے جواب میں پرویز صاحب کا نام لئے بغیر گالیوں کی بوچھاڑ کردی۔

اس اقتباس میں نقطوں کے ذریعہ جس عبارت کو محذوف ظاہرکیا گیا ہے وہ چونکہ طلوعِ اسلام کی ذہنیت ِفاسدہ کی عکاس ہے، اس لئے اسے مقالہ نگار نے چھوڑ دیا ہے، از راہِ کرم قارئین کرام! اس حذف کردہ عبارت کو (جودرج ذیل ہے) نقطوں والی جگہ پررکھ کر پڑھ لیں۔ پرچے میںجملے ایسے ہیں جیسے برسوں کی چھپی ہوئی دشمنی کا بدلہ نکال رہے ہوں۔

اس پرچے کے آخر میں یعنی آخری صفحہ پر مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ کے ایک تازہ فتوے کی جسے مولانا سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی تائید حاصل ہے، تردیدبھی کی گئی ہے :
ہماری سمجھ میں یہ نہ آسکا کہ آخر کس ہستی کویہ لوگ مستند خیال کرتے ہیں۔

اب رہی ‘گالیوں کی بوچھاڑ’ تواس کے لئے یہ پورا اقتباس ملاحظہ فرما لیجئے :
ہمیں تعجب ہے کہ طلوعِ اسلام کے تازہ ارشادات پر آپ نے ہمیں توجہ دلانے کی ضرورت کیوں محسوس فرمائی۔ یہ لوگ تو مسلسل دس سال سے ہم پر ایسی ہی عنایات کی بارش کئے جارہے ہیں اور کراچی سے نیا ‘طلوعِ اسلام’ شروع ہونے کے بعد تو شائد کوئی مہینہ ایسا نہیںگزرا ہے جس میں موسلادھار بارش نہ ہوئی ہو۔ پھر اس موقع پر کیا خاص بات ایسی پیش آگئی کہ آپ نے ہم سے ان کے جواب کی فرمائش کرنا ضروری سمجھا؟ کیا آپ کو یہ معلوم نہیں ہے کہ ترجمان القرآن کے صفحات میں آج تک ہم نے کبھی ان حضرات کو مخاطب نہیں کیاہے؟

ہم توقع رکھتے ہیں کہ ان کے حملوں پر ہمارے توجہ نہ کرنے کی وجہ، ہر معقول آدمی جو ترجمان القرآن اور طلوعِ اسلام دونوں کو پڑھتا ہے، خود سمجھ لے گا۔لیکن آپ کے اس خط سے محسوس ہواکہ شاید بعض لوگوں کے لئے اس سلسلہ میں ہماری طرف سے کچھ تصریح کی بھی ضرورت ہے۔ لہٰذا یہاں دو اُصولی باتیں درج کی جاتی ہیں جن سے آپ کو نہ صرف طلوع اسلام کے معاملہ میں بلکہ اُن بہت سے دوسرے لوگوں کے معاملہ میں بھی ہمارے سکوت کی وجہ معلوم ہوجائے گی جو اخبارات ، رسائل اور پمفلٹوں میں ہم پرآئے دن حملے کرتے رہتے ہیں۔

پہلی بات یہ ہے کہ جو لوگ کسی شخص کی عبارات کو توڑ مروڑ کر او ران کے ساتھ کچھ اپنی من گھڑت باتیں ملا کر پہلے اس کی ایک غلط پوزیشن بناتے ہیں اور پھر خود اپنی ہی بنائی ہوئی اس پوزیشن پر حملہ کرتے ہیں، ان کی اس حرکت سے صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ وہ تین قسم کی کمزوریوں میں مبتلا ہیں: ایک یہ کہ وہ اخلاق و ذہن کے اعتبار سے نامرد ہیں، ان میں یہ جرأت نہیں ہے کہ آدمی کی اصل پوزیشن پرحملہ کرسکیں۔ اس لئے پہلے وہ اس کی ایک ایسی کمزور پوزیشن بنانے کی کوشش کرتے ہیں جس پر حملہ کرنا آسان ہو۔ پھربہادروں کی سی شان کے ساتھ اس پردھاوا بول دیتے ہیں۔دوسرے یہ کہ وہ بے حیا ہیں، اُنہیں اس کی کچھ پروا نہیں کہ جن لوگوں کو اُس شخص کی اصلی پوزیشن معلوم ہے وہ اس کی اس کاریگری کے متعلق کیا رائے قائم کریں گے۔ ان کی نگاہ میںبس یہ کامیابی کافی ہے کہ کچھ ناواقف لوگوں کو وہ غلط فہمی میںمبتلاکردیں۔ تیسرے یہ کہ وہ خدا کے خوف اور آخرت کی جواب دہی کے احساس سے بالکل فارغ ہیں۔ ان کے لئے جو کچھ ہے، بس پبلک ہے جسے دھوکہ دے کر اگر وہ اپنا کام نکال لے گئے تو گویا اُنہیں فلاح حاصل ہوگئی۔ اوپر کوئی عالم الغیب جانتا ہے کہ اُنہوں نے کن افترا پردازیوں سے اپنا کام نکالا ہے تو جانا کرے۔ یہ نامردی او ر یہ بے حیائی اور یہ ناخداترسی جن لوگوں کے طرزِ عمل میں صاف جھلک رہی ہو، ان کو اپنا مدمقابل بنانے کے لئے ہم کسی طرح تیار نہیں ہیں۔ وہ اگر اپنی ساری عمر بھی ہم پر حملے کرنے میں کھپا دیں تو شوق سے کھپاتے رہیں ،ہم کبھی ان کا جواب نہ دیں گے۔

دوسری بات یہ ہے کہ قومی مسائل ہوں یا علمی مسائل؛ ان میں اگر آدمیت اور معقولیت کے ساتھ گفتگو کی جائے تو دلیل کا جواب دلیل سے دیا جاسکتا ہے۔اس طرح کے مباحثے مفید ونتیجہ خیز بھی ہوتے ہیں اور دلچسپ بھی۔ ان میں ہم احقاقِ حق اور افہام و تفہیم کے لئے بھی حصہ لینے کے لئے تیار ہیں او رطلب ِعلم اور طلب ِحق کے لئے بھی۔ ہمیں اپنی ہی بات منوانے پر اصرار نہیں ہے۔دوسرے کی بات معقول و مدلل ہو تو ہم کھلے دل سے اس کو مان لیں گے۔مگر جو لوگ دلیل سے کم اور گالی سے زیادہ کام لیں،جو زبان کھولتے ہی پہلے آدمی کی عزت پر حملہ کریں، جن کی تقریر کا اصل مدعا آدمی کو بدنیت او ربے ایمان ثابت کرنا ہو۔ اور جنہیں کوئی ذلیل سے ذلیل تہمت تراشنے میںتامل نہ ہو، ان کو کسی علمی یاقومی مسئلے میں بحث کا مخاطب بنانا کسی شریف اور معقول آدمی کے لئے تو ممکن نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کی باتوں کا جواب دینے کی فرمائش جو لوگ ہم سے کرتے ہیں ان کی اس فرمائش سے ہمیں شبہ ہوتا ہے کہ وہ یا تو ہمیں بھی اسی قماش کا آدمی سمجھتے ہیں اور یہ ہماری توہین ہے یا وہ خود شرافت اور رذالت کا فرق نہیں سمجھتے اور یہ ان کی توہین ہے۔

مقالہ نگار صاحب کو یہ اعتراض اور شکایت ہے کہ اس اقتباس میں جناب مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے پرویز صاحب اور طلوعِ اسلام کے لئے’نامرد ، بے حیا اور ناخدا ترس ‘ جیسے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ اکبر الٰہ آبادی کے الفاظ درج ذیل ہی میں اس اعتراض کا جواب دیا جاسکتا ہے :


شیطان کو رجیم کہہ دیا تھا اک دن
اِک شور اُٹھا خلافِ تہذیب ہے یہ

یقینا طلوعِ اسلام اور پرویز صاحب کے طرزِ عمل میںنہ صرف یہی تینوں اوصاف بلکہ دیگر اوصاف بھی پائے جاتے ہیں۔ اورمیری کتاب میںقدم قدم پر اس کے دلائل، براہین، شواہد اور ثبوت موجود ہیں۔ اگر کوئی شتر مرغ کی طرح آندھی کے آثار دیکھ کر ریت میںسر چھپا لے یا اپنے قارئین کو یکطرفہ پراپیگنڈے کے خول میں بند کرکے، اُنہیں یہ جھوٹا اطمینان دلا دے کہ کتابِ زیر بحث میں پرویز صاحب یاطلوعِ اسلام کے اقتباسات کو توڑ مروڑ کر یاسیاق وسباق سے علیحدہ کرکے پیش کیا گیاہے تو اس جھوٹ سے حقیقت نفس الامری بدل نہیں جائے گی، بلکہ کاذبین کے اکاذیب میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔

اب سوال پیدا ہوتاہے کہ جھوٹے کو جھوٹا، خائن کو خائن، تضاد گو کو تضاد گو، بہتان تراش کو بہتان تراش، اخلاقی نامرد کو اخلاقی نامرد، حیا سے عاری شخص کو بے حیا اور خداخوفی سے بیگانہ فرد کو ناخدا ترس نہ کہا جائے تو پھر کیاکہا جائے؟ ‘مفکر قرآن’ صاحب ہی جواباً فرماتے ہیں :
ہم ایک شخص کو اپنے ذاتی تجربہ اوردلائل و شواہد کی بنا پر جھوٹا اور بددیانت پاتے ہیں۔ ہمارا علیٰ وجہ البصیرت یقین ہے کہ وہ ایسا ہی ہے، ہم اسے دل میں ایسا سمجھتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جب ہم ایسے شخص کاذکر کریں تو کیا اسے جھوٹا اوربددیانت کہیں یا سچا اورنہایت ایماندار؟ ہمارے نزدیک یہ انتہائی بددیانتی ہے اور منافقت ہے کہ جس شخص کو جھوٹا اوربے ایمان (بددیانت )سمجھتے ہیں، اسے محض اس لئے سچا اور ایماندار کہیں کہ اسے جھوٹا کہنے سے اس کے مداحین بُرا مانیں گے۔

لہٰذا پرویز صاحب ہی کے اس فرمان کی رو سے بھی ہم یہ بددیانتی اور منافقت نہیں کرسکتے کہ جسے ہم علیٰ وجہ البصیرت ، جھوٹا، خائن، متناقض الکلام، بہتان تراش، شرم و حیا سے عاری،خدا خوفی سے فارغ اور آخرت کی جوابدہی سے بے پرواہ پاتے ہیں، اسے ایسا نہ کہیں اور ایسا نہ لکھیں۔ جھوٹے کو جھوٹا او ربددیانت کو بددیانت کہنا، بد اخلاقی نہیںبلکہ امر واقعہ کا اظہار ہے۔ متناقض الکلام او ربہتان تراش کوبہتان کہنا خلافِ تہذیب نہیں بلکہ اس کی واقعی حیثیت کو بیان کرنا ہے۔ شرم و حیا سے عاری، خدا خوفی سے فارغ اور آخرت کی جوابدہی سے بے پرواہ کو ایسا کہناگالی نہیں، بلکہ حقیقت نفس الامری کا اعلان ہے۔

سید مودودی رحمۃ اللہ علیہ پر ‘عنایات
تاہم اگر آپ اسے گالیاں ہی قرار دینا چاہتے ہیں تو میں یہ عرض کروں گا کہ ان گالیوں سے کہیں زیادہ گالیاں خود پرویز صاحب علماے کرام کوبالعموم اور سید ابو الاعلیٰ مودودی کوبالخصوص دیتے رہے ہیں۔عام علما کے خلاف سارے جہان کی لغزش لفظ ‘مُلّا’ میں سمیٹ کر جس جس طرح نشانہ بناتے رہے ہیں، اس کی ایک ہلکی سی جھلک میرے اس مقالہ میں دیکھی جاسکتی ہے جو محدث کے مارچ 2006 کے شمارہ میں بعنوان ‘علماے کرام کے خلاف،پرویز صاحب کا معاندانہ پراپیگنڈہچھپ چکا ہے۔باقی رہے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ ، تو اُن کو دی جانے والی چند گالیاں مقالہ نگار کی خدمت ِاقدس میںنذرہیں۔ چونکہ یہ سب گالیاں طلوعِ اسلام میںمحفوظ ہیں،اس لئے ماہ و سال اور صفحہ نمبر بھی بطورِ حوالہ درج کئے جارہے ہیں:


نمبرشمار    مغلظاتِ    طلوعِ اسلام   ماہ و سال      صفحہ نمبر
(1)
ملائیت کاسرخیل (مودودی صاحب) فروری 1953ء 15
(2) 
اسلام اور پاکستان دونوں کی دشمن (مودودی کی جماعت اسلامی) اکتوبر 1953ئ 45
(3) 
اسلام اور پاکستان، دونوں کیلئے خطرہ (مودودی) 14مئی 1955ئ 5
(4)
 ٰٰٔٔفتنہ انگیزی کا زہر پھیلانے میںمنظم طور پرسرگرم کار (مودودی) جنوری1961ئ 44تا45
(5) 
اپنی مفاد پرستی کیلئے اسلام کے مقدس نام کو استعمال کرنیوالا(مودودی) جنوری1961ئ 44تا45
(6) 
یہود کی طرح دین ساز(مودودی) مئی1963ئ 149
(7) 
پاکستان کا کھلا کھلا باغی(مودودی) دسمبر1963ئ 34
(8) 
بیچ بازار کھڑے ہوکر گالیاں دینے والا(مودودی) جنوری 1964ئ 31
(9) 
سرمایہ دارانہ نظام کاحامی ٔ اعظم(مودودی) اگست،ستمبر1964ئ 126
(10) 
دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والا دسمبر 1963ئ 42
(11) 
ہر آن بدلتے ہوئے اور تضاداتی اسلام کا علمبردار، جس پر جنوری 1966ئ 23اصل اسلام بھی سرپیٹ کر رہ جائے۔ +جنوری1974ئ 16
(12) 
جھوٹا اور بے اُصول (جس سے تعاون کرنا ممکن ہی نہیں) (اداریہ) جنوری 1968ئ 2تا8
(13) 
ساری زندگی تضادات سے بھرپور اگست1968ئ 49
(14) 
جرأت اور دیدہ دلیری سے جھوٹ بولنے والا فروری 1969ئ 40
(15) 
مذہبی آمریت کے مقام پر براجمان فروری 1970ئ 32
(16) 
صحابہ سے بغض رکھنے والا جون 1970ئ 61
(17) 
نہ خوفِ خدا، نہ شرمِ رسول فروری 1971ئ 78
(18) 
ڈھٹائی سے مکیاولی سیاست پر کاربند ستمبر 1971ئ 63
(19) 
پاکستان میں اس لئے آیاکہ اسلام کوذلیل کرے اور پاکستان کو کمزورکرے جولائی1973ئ 25
(20) 
مرزائیت کے نقش قدم پر چلنے والا، مگر اس سے بھی زیادہ خطرناک دسمبر1974ئ 23
ایضاً جون 1976ئ 9
(21) 
اُمت ِمحمدیہؐ سے شدید بغض و عناد رکھنے والا دسمبر 1974ئ 39
(22) 
دین اسلام کو تفریح سمجھنے والا ستمبر1976ئ 15
(23) 
نفرت کی اشاعت کے مشن کا علمبردار جنوری 1977ئ 14
(24) 
سیرتِ رسولؐ کو داغدار کرنے کا سازشی بلکہ اس سازش کا بانی مارچ 1977ئ 16
(25) 
اسلام کو بدنام کرنے والا مارچ 1977ئ 16
(26) 
قرآنِ کریم کی ابجد سے بھی ناواقف مارچ 1977ئ 31
(27) 
قرآن سے کھلا کھلا بغض رکھنے والا اپریل 1977ئ 27
(28) 
نظریۂ ضرورت کے تحت فتوائے کذب دینے والا فروری 1983ئ 7
(29) 
نظریۂ ضرورت کے اسلام کا حامل جولائی 1983ئ 48
(30) 
ہوسِ اقتدار میں پاکستان کو جہنم میں دھکیلنے والا اکتوبر 1985ئ 26
یہ وہی مودودی رحمۃ اللہ علیہ صاحب ہیں ، جن کے متعلق کبھی پرویز صاحب نے طلوع اسلام میں یہ بھی لکھا تھا کہ
ترجمان القرآن، ایک ماہانہ مجلہ ہے جو چھ سال سے مسلسل اسلام کی صحیح ترجمانی اور قرآن حکیم کی حکیمانہ دعوت کی نشر و تبلیغ کر رہا ہے۔ جن لوگوں کو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی فکری اور اسلامی صلاحیتوں کا علم ہے، اُن کے لیے بس یہ کہنا ہی کافی ہے کہ آپ ہی ترجمان القرآن کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ خدا تعالیٰ نے مولانا موصوف کو، اس زمانہ میں اسلام کی خدمت اور ملت کی تجدید کے لیے بہرۂ وافر عطا فرمایا ہے، اور وہ شرحِ صدر، وہ اسلامی بصیرت اور تفقہ فی الدین دیا ہے جو مغربی الحاد کے دور میں ہر چیز کا صحیح ادراک کر کے، قرآنِ کریم کی روشنی میں ہر مرض کا تریاق مہیا کرتا ہے۔ ترجمان القرآن کا موضوع قرآن حکیم ہے، ایک طرف وہ قرآنِ حکیم کی روشنی میں تاریک دلوں کو منور کر رہا ہے، اور دوسری طرف فرنگی اور مغربی الحاد کے خلاف مسلسل جہاد کر کے مغربی فلسفہ کا رعب دلوں سے نکال رہا ہے۔

قرآن کریم کو منشائِ الٰہی کے مطابق صحیح سمجھنا ، صحیح اُصولوں پر اس کی نشر و اشاعت کرنا، اسلام کے خلاف باطل سرچشموں کا پتہ لگانا اور ان کو عقل سلیم کی حجت سے بند کرنا، اسلام کے مقابلہ میں بڑی سے بڑی مخالفت سے مرعوب نہ ہونا، ذہنیتوں میں یکسر انقلاب پیدا کر دینا اور وقت کی مناسبت سے جملہ مشکلات کا حل قرآن کریم سے پیش کرنا وغیرہ وہ خصوصیات ہیں جو بحمد اﷲ رسالہ ترجمان القرآن’ کو حاصل ہیں۔ ہندوستان میں آج کل سیاست کے نام پر مسلمانوں میں جو گمراہی پھیلائی جا رہی ہے، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اس سے غافل نہیں ہیں اور کتاب و سنت کی روشنی میں مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی بھی فرما رہے ہیں۔ اس رسالہ کا مطالعہ ہر خیال کے مسلمانوں کے لیے از بس ضروری ہے، خصوصاً ان تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کے لیے جو فلسفہ جدیدہ، سائنس اور مغربی حکما کی دانش فروشیوں سے مرعوب ہو چکے ہیں اور جنہوں نے مذہب کو عقل و دانش اور ترقی کے خلاف سمجھ لیا ہے۔ کالج اور یونیورسٹیوں کے طلبہ اور اساتذہ کو اس رسالہ کا مطالعہ سب سے پہلے کرنا چاہئے، بلحاظِ نصب العین اور مسلک ‘ ترجمان القرآن’ اور ‘طلوع اسلام’ کو ایک ہی اصل کی دو شاخیں سمجھئے۔”( طلوعِ اسلام ، جولائی1938ء صفحہ 78 )

دو قابل توجہ باتیں
یہاں میں، قارئین کرام کی توجہ کے لئے، دو باتوں کوپیش کرناضروری سمجھتا ہوں :
a
ایک یہ کہ پرویز صاحب علماے کرام اور مولانا مودودی کے خلاف انتہائی دریدہ دہنی کے ساتھ ان پرلگائے گئے جھوٹے الزامات کو بہ تکرار و اِعادۂ بسیار __ اس لئے بھی__ اُچھالا کرتے تھے کہ اس کی آڑ میں خود ان کی اپنی حرکاتِ سیئہ چھپی رہیں۔ چالاک، عیار اور مکار لوگ، بلند نصب ُالعین کالبادہ اوڑھ کر، تنقید کے پردے میں تنقیص و توہین کرتے ہوئے، دوسروں پرکیچڑ اُچھالا کرتے ہیں تاکہ ان کی اپنی سیاہ عملی مستور ومخفی رہے۔ اس نفسیاتی حقیقت کو ایک مقام پر خود طلوعِ اسلام نے بھی بیان کیا ہے، اس لئے میں مقالہ نگار اور دیگر وابستگانِ طلوع اسلام کے سامنے اسی اقتباس کا آئینہ پیش کئے دیتا ہوں، تاکہ وہ خود بھی:
اپنی روش کا نفسیاتی تجزیہ کرکے دیکھیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کا نفس، دوسروں کی تنقیص میں اس لئے مصروف ہے تاکہ اس کی اپنی سہل انگاری ڈھکی رہے اور اسے چھپانے کے لئے، اُس نے بلندنصب العین کو آڑ بنا رکھا ہو، فریب ِنفس سے اکثر ایسا ہوا کرتا ہے۔

اور دریدہ د ہنی اور تلخ نوائی کے ساتھ علماے کرام کے خلاف، ان جھوٹے اور باطل الزامات کی بوچھاڑ… اس لئے بھی ہے کہ اس سے علما اور ان کے متبعین کے خلاف قلوبِ قارئین طلوعِ اسلام میں جو نفرت پیدا ہوتی ہے، وہ اُنہیں متحد رکھنے میں کام آئے، کیونکہ عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگوں کو دوسروں کے خلاف متحد رکھنے کے لئے ‘ حب ِ علی’ سے کہیں زیادہ مؤثر داعیہ ‘بغض معاویہہی کا داعیہ سمجھا جاتا ہے، لہٰذا اپنے فرقہ منکرین حدیث کے (جسے فرقہ کی بجائے مکتب ِفکر کا نام دیا جاتا ہے) تشخص کوقائم و برقرار رکھنے کے لئے علما کے خلاف نفرت انگیز، زہریلے اور معاندانہ پراپیگنڈے کی یلغار کو پیہم رواں دواں اور جواں رکھنا، ‘مفکر قرآن’ کی ایک مجبوری تھی۔ اور یہ ٹیکنیک انہوں نے بدقسمتی سے اُمت ِمسلمہ ہی کے بعض بے بصیرت پیشواؤں سے اخذ کی ہے، کیونکہ بقول پرویز صاحب :
فرقہ بندی کی نفسیات یہ ہیں کہ اپنے فرقہ کے لوگوں کے دل میں دوسروں کی طرف سے نفرت پیدا کی جائے۔ جس قدر نفرت شدید ہوگی، اتنا ہی فرقہ زیادہ مضبوط ہوگا۔

فرقے ہوں یا پارٹیاں، ان کا جداگانہ تشخص، دوسرے فرقوں یا پارٹیوں کے خلاف جذباتِ نفرت کی بنا پرقائم رہتا ہے۔

اور طلوعِ اسلا م کی فائل گواہ ہے کہ پاکستان میں پرویز صاحب نے اپنی ساری عمر، علما کے خلاف، (بالخصوص)مولانامودودی رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف جذبات نفرت کوبھڑکانے اور ہوا دینے ہی میں کھپا دی۔

b اور دوسری بات یہ کہ’مفکر ِقرآن’ صاحب علما کے خلاف جوالزامات عائد کرتے رہے ہیں، ان میں بعض قطعی بے اصل،بے بنیاد اور بے سروپا ہیں اور بعض کو اپنے مخالفین کی عبارات کو کانٹ چھانٹ، مسخ و تحریف، سیاق و سباق سے اُکھاڑ پچھاڑ، کتر بیونت اور خدع وفریب کا نشانہ بناتے ہوئے ‘ثابت’ کیاہے جن کی قلعی میری (زیربحث)کتاب میں کھولی گئی ہے۔ جبکہ میں نے پرویز صاحب کے متعلق اپنی کتاب میں جوکچھ لکھا ہے، وہ ایسے اٹل حقائق ہیں جنہیں دلائل و براہین اور شواہد و بینات سے ثابت کیا گیاہے اور جنہیں اگر کوئی عدالتی جج بھی اپنی تحقیق و تفتیش کی جولانگاہ بنائے تو وہ بھی کمپوزنگ کی اغلاط کے سوا حقائق وواقعات میں کوئی سقم نہیں پائے گا۔

بہرحال میں’مفکر ِقرآن’ صاحب کی اس صلاحیت کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ بہرحال قلمی صلاحیتوں کے دھنی تھے۔ اُنہوں نے اپنے زورِ قلم سے گالیاں دینے کو بھی ایک فن بنا دیا ہے۔ جناب افتخار احمد بلخی مرحوم ان کی ‘ادبی اور قرآنی خدمات’ میں سے تیسری خدمت کاذکربایں الفاظ کرتے ہیں :
رہی وہ تیسری خدمت یعنی ذوق دشنام طرازی کی تسکین اور اس کے مقتضیات سے عہدہ برآ ہونے اور اخلاقی بضاعت کے افلاس پر فریب و ریا کے پردے ڈالے جانے کی خاطر جو گالیوں کو باضابطہ ایک ‘فن شریفبنا کر پیش کئے جانے کی ضرورت میں، پوری سرگرمی کے ساتھ انجام دی جارہی ہے، وہ دراصل اس دورِ ترقی و تجدد کا ایک مرض ہے، جس کے متواتر وپیہم دورے پڑتے رہتے ہیں۔ اس مرض کو آپ ‘ملا خولیا’ کے نام سے یاد کرسکتے ہیں۔ اس مرض کی علت وہ احساسِ کمتری ہے جو تحت الشعور میں جاگزیں ہے، یا کتاب و سنت میں درک و بصیرت کے فقدان کا ایک ردّعمل ہے جو اس شکل میں ظہور پذیر ہوتا رہتا ہے۔

اور اس ‘جہادِ اکبر’ کے لئے اس ادارے نے جو اسلحہ فراہم کررکھے ہیں، وہ ذاتی پر خاش، آتش حسد، گندگیاں اُچھالنے کی فن کاری، تضلیل و تحقیر، تضحیک و استہزا، کذب و افترا، اتہام ودشنام طرازی اور اقتدارِ وقت کواُکساکر، جبر و تشدد پرآمادہ کرنے کی سعی جیسے ‘قرآنی’ حربے ہیں۔


حوالہ جات
1.
کتاب (زیربحث) ، ص٣٣تا ٣٥
2.
ایضاً، ص٣٦
3.
طلوع اسلام، جون ٢٠٠٦ئ، ص٧
4.
کتاب(زیر بحث)، ص٣٦
5.
ایضاً ، ص٣٥
6.
کتاب(زیر بحث) ص ٨٥
7.
طلوع اسلام، جون ٢٠٠٦ئ،
8.
نومبر ١٩٦٤ئ، ص٥٧
9.
طلوع اسلام، جون ٢٠٠٦ئ، ص١٠
10.
تفہیمات، ج٣، ص٧٦
11.
طلوع اسلام، جولائی ١٩٥٩ء ، ص٣٣
12.
طلوع اسلام، دسمبر ١٩٨١ئ، ص٤١
13.
کتاب (زیر بحث)، ص٣٠٠
14.
کتاب (زیربحث)، ص٣٢٩
15.
طلوع اسلام، جون ٢٠٠٦ئ، ص٧تا٨
16.
طلوع اسلام، جون ٢٠٠٦ء ، ص٧
17.
کتاب(زیربحث) ، ص٣٧٤
18.
طلوع اسلام، جون ٢٠٠٦ئ، ص٨
19.
ترجمان القرآن، مارچ ١٩٥٢ئ، ص٧٠
20.
ترجمان القرآن، مارچ ١٩٥٢ئ،ص٧٠تا٧٢
21.
طلوع اسلام، ١٧ دسمبر ١٩٥٥ئ، ص١٦
22.
طلوع اسلام، دسمبر ١٩٤٠ئ، ص١٣
23.
ایضاً، اپریل ١٩٧٣ئ، ص١١
24.
ایضاً، نومبر ١٩٧٨ئ،ص٢
25.
فتنۂ انکار حدیث کا منظر و پس منظر، حصہ سوم،ص٢٩
26.
فتنۂ انکار حدیث کا منظر و پس منظر، حصہ سوم، ص٢٨

About thefinalrevelation
Leave a reply