حیض کے دوران جنسی رشتے

عائشہ فرماتی ہیں کہ ہم میں سےکسی کو حیض آ تااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اختلاط کرنا چاہتے تو حیض کے غلبہ کے دوران ازار  (  لونگی،تہمد  ) باندھنے کا حکم د یتےاور پھر اختلاط فرماتے ۔قرآن اس سے منع کرتا ہے ۔ اسلام کے مجرم صفحہ 46

ازالہ:۔

ڈاکٹر شبیرکو یہاں بھی غلط فہمیہوئی ہےقارئین کرام ! قرآن کریم میں ایسی کونسی آیت ہے جو اس سے روکتی ہے ڈاکٹر شبیرنے یہاں دو علمی خیانتیں کی ہیں ۔

– 1 حدیث کا ترجمہ غلط کیاہے ۔

 – 2  یت مبارکہ سے غلط استدلال کیا ہے ۔

اب قرآن کریم کا حکم ملاحظہ فرما ئیں :

اور لوگ آپ سے حیض سے متعلق سوال کرتے ہیں کہہ دیجئے حیض ایک قسم کی تکلیف ہے اس لئے دوران حیض عورتوں سے دور ر ہواور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ان کے قر یب متجا ؤاور پاک ہونے کے بعد ان کے پا سجاؤ جیسے ا للہ نےتمہیں اس کا حکم دیا ” سور ہالبقرہ ۔آیت 222  

اس آیت مبارکہ سے معلو مہوا کہ :

1)حیض عورت کے لئے تکلیف کا باعث ہے ۔

2)اس حالت میں ان سے جماع کرنا منع ہے ۔

3)جب وہ اس سے پاک ہوجائیں تو ا ن سے جماع کرنا اللہ کے حکم سے جائز ہے ۔

یہتین نکتے اس آیت سے سمجھ میں آتے ہیں ۔اب آئیں حدیث کی طرف :

عن عائشہ کان یأمرنی فأتذر قیبا شرنی وانا حائض

عائشہ فرماتی ہیں کہ حیض کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تہہ پوش پہننے کا حکم د یتےاور اس کے بعد مجھ سے مباشرت کرتے ۔

قارئین کرام ! یہ ہے وہ حدیث جسے ڈاکٹر شبیرنے خلاف قرآن کہہ کر ٹھکرادیا حالا نکہیہ ڈاکٹر شبیرکی کم علمی کی ا یکاور بہت بڑی دلیل ہے کیو نکہیہ قرآن کے موافق ہے نہ کہ مخالف۔ یہاںس ب سے بڑی جو غلط فہمی ہوئی ہے وہ مباشرت کے الفاظ سے ہوئی ۔ ڈاکٹر شبیرنے

اس کے معنی اختلاط یعنی ہمبستری کے کئے ہیں لیکن عربی میں اس کا معنی کچھاور بنتا ہےاور اردو میں مباشرت کے الفاظ کچھاور معنوں میں استعما لہوتا ہے

صاحب عون المعبود )شرح سنن ابی داؤد ( ذکر فرماتے ہیں کہ :

مباشرت سے یہاں صرف ہاتھ سے چھو نااور دو جسموں کا ملنا مراد ہے )نہ کہ جماع(

مزید وضاحت امام شوکانی فرماتے ہیں : یہ قول ہے ۔

ان المباشرة فی الاصل التقاء

مباشرت اصل میں دو جسموں کے ملنے کو کہتے ہیں ۔

لہٰذ ا حدیث کے معنی یہہوئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی کے پاس جوبحالت حیض)اور دوسری حدیث میں روزے کے بھی الفاظ ہیں جسے ڈاکٹر شبیرنے آگے تنقید کا نشانہ بنایا ہے (اٹھتے بیٹھتے تھےاور ہاتھ لگاتے تھےاور پیار بھی کرلیا کرتے تھے )نہ کہ جماع( لہٰذا اب بتا ئیںیہ کہاں قرآن کے خلاف ہے ؟اگر آپ کہیں کہ اس آیت میں قریب جانے سے منع کیا گیا ہے تو میں آپ سے پو چھتاہوں کہ کتنا قریب ؟ اگر آپ کی بات تسلیم بھی کر لیجائے تو معنی یہہونگے کہ عورت کو ایسی حالت میں اپنے گھرو حدیث کو ماننے میں کیا اختلاف ہے ۔۔۔۔؟؟

سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے دلائل :

اپنے عورت حالت حیض میں ہوتی تو وہ اس کے ساتھ کھاتے پیتے بھی نہیں تھے اورنہ ہی ان دیوں میں سے کوئ اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ی انس رض نازل فرمائی گھروں میں رکھتے تھے توصحابہ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارہ میں سوال کیا تو اللہ تعالی نے یہ آي :

} کے بارہ میں سوال کرتے ہیں ، کہہ دیج ض حت آپ سے ۓ کہ وہ گندگی ہے ، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو ۔۔۔ آیت کے آخر تک { ۔

تورسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلمنے فرمایا :

جماع کے علاو ہباقی سب کچھ کرو ۔جبیہودیوں کواس کا پتہ چلا تووہ کہنے لگے اس شخص کوہمارے ہر کام میں مخالفت ہی کر نیہوتی ہے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ) 302 ( ۔

About thefinalrevelation
Leave a reply