کیا حجة الوداع کا خطبہ غیر معتبر ہے؟’طلوع اسلام’ میگزینکو جواب

طلوع اسلام” جون 1986ء کے شمارے میں ایک مضمون بعنوان ”خطبہ حجة الوداع اور مقام حدیث ”شائع ہوا ہے۔ جس میں حجة الوداع کے خطبہ کو زیر بحث لاکر یہ تاثر دینے کی مذموم اور ناکام کوشش کی گئی ہے کہ ذخیرہ حدیث پورے کا پورا غیر معتبر ہے۔کیونکہ …… طلوع اسلام لکھتا ہے:
احادیث میں لٹریچر میں سب سے مستند حدیث حجة الوداع کا خطبہ ہے۔جو رسول اللہ ﷺ نے ایک لاکھ سے زائد صحابہ کرام کے سامنے ارشاد فرمایا۔ دوسرے الفاظ میں اس حدیث کے ایک لاکھ سے زیادہ راوی تھے۔ جب کہ دوسری احادیث، جو احادیث کے مختلف مجموعوں میں جمع کی گئیں، ان کے راویوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ تین یا چار تھی۔لیکن اس سب سے مستند حدیث کےمتن میں، مختلف کتابوں میں جو فرق ہے، اس سے پرویز صاحب کے نظریئے کی تصدیق ہوتی ہے۔1

اور یہ پرویز صاحب کا نظریہ کیاہے؟ طلوع اسلام نے مذکورہ عبارت سے قبل صفحہ 33 پر مضمون کی ابتداء میں اسے یوں بیان کیا ہے:
احادیث رسولؐ کے بارے میں علامہ پرویز صاحب مرحوم کا مسلک یہ تھا کہ آپؐ نے خود اپنی احادیث کا کوئی مجموعہ ، مرتب کرکے امت مسلمہ کے حوالے نہیں کیا تھا۔جیسا کہ قرآن مجید کے سلسلے میں کیا گیا تھا۔ جو احادیث رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کی جاتی ہیں، ان میں بعد کے لوگوں نے اپنی خواہشات کے مطابق اضافے کئے۔بعض احادیث میں تو اتنے زیادہ اضافے کئے گئے کہ ان میں خود رسول اللہ ﷺ کے اپنے الفاظ بہت کم باقی رہ گئے۔ ان کا یہ خیال بھی تھا کہ اگرچہ کچھ اضافے نیک نیتی سے کئے گئے، لیکن بعض اضافوں کے تجزیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک عجمی سازش کے تحت کئے گئے۔ اس لیے ان کا عقیدہ یہ تھا کہ صحیح احادیث کو پرکھنے کا معیار قرآن مجید ہے اور صرف انہی احادیث کو تسلیم کیا جاسکتا ہے جو قرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق ہوں۔ چنانچہ آپ نے بہت سی ایسی احادیث کو ، جو علماء کے نزدیک صحیح تھیں، لیکن ان کی تحقیق کے مطابق ، قرآنی تعلیمات کے مطابق نہیں تھیں، تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔

آگے چلنے سے پیشتر طلوع اسلام سے یہ پوچھ لینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے علامہ پرویز صاحب مرحوم” کے پاس اس بات کی کون سی سند موجود تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے قرآن مجید کاکوئی مجموعہ مرتب کرکے امت مسلمہ کے حوالے کیا تھا، جبکہ احادیث رسول اللہ ﷺ کے بارے میں ایسا نہ ہوسکا؟ اس سلسلہ میں آنجہانی غلام احمد پرویز جو بڑی سے بری دلیل پیش کرسکے، وہ یہ تھی کہ :
قرآن اپنے آپ کو بار بار کتاب کہتا ہے۔ پہلی آیت ہی ”ذٰلک الکتٰب لا ریب فیہسے شروع ہوتی ہے، او ر عرب اس لکھی ہوئی چیز کو کتاب کہتے تھے جومدوّن شکل میں سلی ہوئی صورت میں موجود ہو۔2

لیکن اس ڈھول کا پول تو ماہنامہ محدث نے اپنی مارچ 1984ء کی اشاعت میں”حسبنا کتاب اللہ” کے عنوان سے، پرویز صاحب کی زندگی ہی میں بایں الفاظ کھول دیا تھا کہ:
ذٰلک الکتٰب لا ریب فیہ” سورہ بقرہ کی دوسری آیت کا ایک حصہ ہے اور سورہ بقرہ کا بیشتر حصہ مدنی زندگی کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوا تھا۔ چنانچہ یہ حصہ جو زیر بحث ہے، بالخصوص اس زمانہ سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ مدنی زندگی کے آغاز میں ہی مومنوں اور کافروں کے علاوہ ایک تسردافریق بھی معرض وجود میں آیا، جو منافقین کے نام سے مشہور ہوا۔ اب سوال یہ ہےکہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت قرآن مجید مکمل ہی کب ہوا تھا،”کتاب” سے مراد، ایک ”مدوّن اور سِلی ہوئی کتاب ” لی جاسکے؟

اس سوال کا جواب آنجہانی پرویز اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک نہ دے سکے اور آج بھی ہمارا یہ قرض ان کے ذمہ ہے۔ علاوہ ازیں طلوع اسلام کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ ذخیرہ حدیث اور عجمی سازش کا سکار ہوا تو حدیث کو اس سازش سے تحفظ فراہم کرنے والے غلام احمد پرویز خود کس عربی النسل کی اولاد ہیں؟ اور اگر وہ خود بھی عجمی ہیں تو وہ دعوت ، جس کے لیے انہوں نے بقول خود ”پچاس سال” ضائع کردیئے ہیں، عجمی سازش کے طعن سے کیونکر بچ سکتی ہے؟ یہ تو ایک منطقی سی بات ہے کہ بعض محدثین کے عجمی ہونےکی بناء پر ذخیرہ حدیث اگر غیرمعتبر قرار پاتا ہے تو اس طرح پرویزی دعوت کی عمارت بھی دھڑام سے زمین بوس ہوجاتی ہے، کیونکہ اس کی بنیاد ہی ایسے لوگوں پر ہے جو خالص عجمی ہیں اور عربی زبان سے کورے بھی! جس کا ثبوت ہم قبل ازیں ”منکرین حدیث کی عربی سےناواقفی” کے عنوان سےمحدث کےگزشتہ شماروں میں مہیا کرآئے ہیں اور جس کے جواب میں انہیں ایک لفظ بھی لکھنے کی توفیق میسر نہیں ہوئی۔

طلوع اسلام نے احادیث رسولؐ کو پرکھنے کانظریہ یہ پیش کیا ہے کہ ”اس کامعیار قرآن مجید ہے اور صرف انہی احادیث کو تسلیم کیاجاسکتا ہے جوقرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق ہوں ” لیکن یہاں پھر وہی سوال سامنے آتا ہے کہ سنت ، جو قرآن مجید کی شارح ہے، اگر عجمی سازش کاشکار ہونےکی بناء پر غیرمعتبر قرار پائی، تو چودہویں صدی کا یہ عجمی مفسر قرآن، کیونکر قرآن مجید کو سمجھ کر اس کی تعلیمات کی روشنی میں حدیث رسولؐ پرحکم لگانےلگا اور معتبر ٹھہرا؟ آخر کس اصول کی رو سے یہ تسلیم کرلیاجائے کہ قرآن مجید کی تعلیمات وہی ہیں جو اس عجمی مفسر قرآن نےسمجھی ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ حدیث دشمن ہی نہیں بلکہ قرآن مجید سے بھی عداوت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہےکہ خطبہ حجة الوداع ، جوپورے کاپورا قرآنی تعلیمات سے عبارت ہے او راس کا ایک ایک جملہ ان تعلیمات کی منہ بولتی تصویر، ان کی نظروں میں جچنے سے قاصر رہا ہے۔ ذیل میں ہم علامہ شبلیکی کتاب سیرة النبیؐ سے اس خطبہ کےایک ایک جملہ کو نمبروار ذکر کریں گے (کیونکہ طلوع اسلام نے پہلے نمبر پر اسی کوتنقید کانشانہ بنایاہے)اور یہ ثابت کرنے کے لیے کہ اس کے ہرہر جملہ میں مذکور احکام و مسائل قرآن تعلیمات کے عین مطابق ہیں، اس خطبہ کے ہر جملہ کے ساتھ متعلقہ قرآنی آیت بھی درج کریں گے ۔ تاکہ پرویزی ”اصول حدیث” کے مطابق بھی اس خطبہ کاصحیح ہونا ثابت ہوسکے، جس پرویز کےناکارہ وارثوں نے قرآنی تعلیمات کے خلاف سمجھ کر اس کا انکار کردیا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ ہم کوشش کریں گے کہ جابجا ان قرآنی آیات کے مفاہیم و مطالب بھی پرویزی لٹریچر ہیسے (بلا تبصرہ)نقل کریں تاکہ یہ سند مہیا ہوجائے کہ پرویز کی معنوی اولاد کو پرویز ہی کا یہ ”اصول حدیث” ذخیرہ حدیث کو غیرمعتبر قرار دینےکے سلسلہ میں راس نہیں آیا۔ ہاں بعض مقامات پر ہم نےمتعلقہ آیات قرآنی کی توضیح امام رازیکی تفسیر کبیر سے نقل کیا ہے، کہ اس تفسیر کو ان لوگوں نے بھی جملہ کتب تفسیر میں معتبر تسلیم کیاہے۔

قارئین کرام یہ بات ملحوظ رکھیں کہ آئندہ سطور میں، خطبہ حجة الوداع سے متعلقہ روایات کی تحقیق ہم محدثین کرام کے اصول حدیث کی روشنی میں پیش نہیں کر رہے، بلکہ قبول حدیث کے لیے”قرآنی تعلیمات سے مطابقت” کے پرویزی قاعدے کے تحت انہیں پرکھ رہے ہیں۔لہٰذا اس سے مقصود نہ تو اس ”پرویزی اصول حدیث” کو سند جواز فراہم کرنا ہے اور نہ ہی پرویزی تفسیر قرآن کودرست قرا ردینا۔

طلوع اسلام نے علامہ شبلی نعمانیکی کتاب ”سیرت النبیؐ” سے خطبہ حجة الوداع کا جو متن شائع کیاہے، اس کے ایک ایک جملہ کو ہم نمبر وار زیربحث لاتے ہیں۔ارشاد رسالت مآب ﷺ ہے:
1
۔ ہاں جاہلیت کے تمام دستور میرےدونوں پاؤں کےنیچے ہیں۔
اس کی مطابقت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿أَفَحُكْمَ ٱلْجَـٰهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ ٱللَّهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ ﴿٥٠سورۃ المائدہ

اور غلام احمد پرویز نے مطالب الفرقان صفحہ 4؍528 میں اس آیت قرآنی کا مطلب یوں بیان کیا ہے:
یعنی او راسی طرح پھر اس نظام جاہلیت کواختیار کرلیں، جس پروہ قرآن سے پہلے قائم تھے۔ لیکن جو لوگ اس نظام خداوندی کی صداقت اور محکمیت پر یقین رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ نوع انسان کے لیےضابطہ خداوندی سے بہتر اور کوئی ضابطہ نہیں ہوسکتا۔

قرآن کریم کے ایک دوسرے مقام پر اسی جاہلیت کےدستور پر یوں تنقید کی گئی ۔ فرمایا اللہ رب العزت نے:
﴿وَلَا تَبَرَّ‌جْنَ تَبَرُّ‌جَ ٱلْجَـٰهِلِيَّةِ ٱلْأُولَىٰ﴿٣٣سورۃ الاحزاب

اور پرویز نے اس آیت قرآنی کا مفہوم یوں لکھا ہے:
او رجب تم باہر جاؤ تو اپنی زینت کی نمودونمائش نہ کرو، جیساکہ قرآن سے پہلے عہد جاہلیت میں عورتیں کیاکرتی تھیں۔3

2۔ ارشاد رسالت مآبﷺ :
بےشک تمہارا رب ایک ہے

ارشاد باری تعالیٰ :
﴿إِنَّمَا ٱللَّهُ إِلَـٰهٌ وَ‌ٰحِدٌ ۖ سُبْحَـٰنَهُۥٓ أَن يَكُونَ لَهُۥ وَلَدٌ﴿١٧١سورۃ النساء
یاد رکھو ، کائنات میں الٰہ صر ف ایک ہی ہے او روہ اللہ کی ذات ہے۔4

نیز فرمایا:
﴿قُلْ أَغَيْرَ‌ ٱللَّهِ أَبْغِى رَ‌بًّا وَهُوَ رَ‌بُّ كُلِّ شَىْءٍ﴿١٦٤سورۃ الانعام
ان سے کہو، کیا (تم چاہتے ہو کہ) میں خدا کو چھوڑ کر کسی او رنشوونما دینے والے کو تلاش کروں، حالانکہ وہ کائنات کی ہر شے کا نشوونما دینے والا ہے۔5

3۔ ارشاد رسالت مآبﷺ:
بےشک تمہاراباپ ایک ہے

ارشاد باری تعالیٰ:
﴿وَلَقَدْ كَرَّ‌مْنَا بَنِىٓ ءَادَمَ وَحَمَلْنَـٰهُمْ فِى ٱلْبَرِّ‌ وَٱلْبَحْرِ‌﴿٧٠سورۃ بنی اسرائیل
ہم نے تمام فرزندان آدم کو واجب التکریم بتایا ہے……………” 6

نیز فرمایا:
﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱتَّقُوارَ‌بَّكُمُ ٱلَّذِى خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَ‌ٰحِدَةٍ﴿١سورۃ النساء

امام رازیفرماتے ہیں:
واعلم أن العقل دل علیٰ أنه لابدللناس من والد أوّل وإلالزم أن یکون کل ولد مسبوق بوالد لا إلیٰ أوّل وھو محال والقرآن دل علیٰ أن ذٰلك الوالد الأوّل ھو آدم عليه السلام7
یعنی عقل کا تقاضا یہ ہے کہ لوگوں کا سب سے پہلا کوئی ایک باپ ہونا چاہیے۔وگرنہ سلسلہ غیر متناہی چل نکلے گا جو کہ محال ہے اور قرآن کریم نے بتلایا کہ انسانیت کاسب سے پہلے باپ آدم علیہ السلام ہے۔

4۔ ارشاد رسالت مآبﷺ :
ہاں عربی کو عجمی پر، عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے۔

ارشادباری تعالیٰ :
﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَـٰكُم مِّن ذَكَرٍ‌ۢ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَـٰكُمْ شُعُوبًا وَقَبَآئِلَ لِتَعَارَ‌فُوٓا ۚ إِنَّ أَكْرَ‌مَكُمْ عِندَ ٱللَّهِ أَتْقَىٰكُمْ﴿١٣سورۃ الحجرات
ہم نے انسانوں کو مرد اور عورت کے اختلاط(i) سے پیدا کیاہے، باقی رہے، مختلف خاندان یاقبیلے، تو اس سے مقصود صرف اس قدر ہے کہ تمہیں ایک دوسرے کو پہچاننے آسانی ہو، ورنہ نہ کوئی قبیلہ دوسرے قبیلے سے افضل ہے نہ کوئی خاندان کسی دوسرے خاندان سے معزز، میزان خداوندی کی رو سے عزت و تکریم کا صرف ایک معیار ہے او روہ یہ کہ تم میں سے کسی کی زندگی قوانین خداوندی سے زیادہ مطابق ہے، کون ان کی زیادہ اطاعت کرتا ہے۔جس کی زندگی زیادہ سےزیادہ اس معیار پر پوری اترتی ہے ، وہی سب سے زیادہ واجب التکریم ہے۔ خواہ وہ مرد ہو یاعورت یا کسی خاندان یا کسی قبیلہ میں پیدا ہوا ہو، یہاں معیار فضیلت حسب و نسب نہیں، ذاتی جوہر اور سیرت و کردار کی بلند ہے۔8

اور اسی سے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمِنْ ءَايَـٰتِهِۦ خَلْقُ ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتِ وَٱلْأَرْ‌ضِ وَٱخْتِلَـٰفُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَ‌ٰنِكُمْ﴿٢٢سورۃ الروم
تم دیکھتے ہو کہ کائنات کی پستیوں او ربلندیوں میں کس قدر تنوع پایا جاتا ہے؟ لیکن اس تنوع کے باوجود ساری کائنات ایک مصرعہ موزوں کی طرح غیر منقسم اور متحدہ وحدت ہے۔ اسی طرح انسانوں میں رنگ اور زبان کا اختلاف ہے، لیکن وہ اس اختلاف کے باوجود ایک امت واحدہ کے افراد ہیں۔9

5۔ ارشاد رسالت مآب ﷺ:
ہرمسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، اور مسلمان باہم بھائی بھائی ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ :
﴿إِنَّمَا ٱلْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوابَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَٱتَّقُواٱللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْ‌حَمُونَ ﴿١٠سورۃ الحجرات
یاد رکھو ، مومن سب ایک دوسرے کے بھائی ہیں، او ران میں صلح کراتے وقت بھی اس حقیقت کو فراموش نہ کرو کہ یہ دونوں تمہارے بھائی ہیں، تمہارا فیصلہ بلا کسی رُو رعایت کے قانون خداوندی کے مطابق ہونا چاہیے۔10

6۔ ارشاد رسالت مآب ﷺ:
تمہارےغلام تمہارےغلام! جو خود کھاؤ، وہی ان کوکھلاؤ اور جو خود پہنو، وہی ان کو پہناؤ۔

ارشاد باری تعالیٰ:
﴿فَإِذَا لَقِيتُمُ ٱلَّذِينَ كَفَرُ‌وا فَضَرْ‌بَ ٱلرِّ‌قَابِ حَتَّىٰٓ إِذَآ أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّواٱلْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّۢا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَآءً حَتَّىٰ تَضَعَ ٱلْحَرْ‌بُ أَوْزَارَ‌هَا﴿٤سورۃ محمد
یہ لوگ اپنی مخالفت میں اس درجہ آگے بڑھ رہے ہیں کہ ان سے تصادم ناگزیر نظر آتا ہے۔سو جب میداب جنگ میں ان سے آمنا سامنا ہو تو تم بھی انہیں قتل کرو۔ جب ان کی قوت ٹوٹ جائے اور تم غالب آجاؤ تو بقیة السیف کو مضبوطی سے باندھ کر جنگی قیدی بنا لو، پھر جیسے حالات کا تقاضا ہو، اس کے مطابق انہیں یاتو معاوضہ لےکر رہا کرو (یعنی زر فدیہ لے کر یا اپنے قیدیوں کے مبادلہ کے طور پر) اور یا محض احسان رکھ کر تاآنکہ خود لڑائی اپنے ہتھیار رکھ دے (یعنی ملک میں ہر طرح کا امن و امان ہوجائے) اسی مقصد کے لیےتمہی\ں جنگ کی اجازت دی گئی ہے۔11

تمہیدی گزارشات میں اگرچہ ہم نے لکھا تھا کہ خطبہ حجة الوداع کی قرآنی تعلیمات سے مطابقت ثابت کرنے کے لیے ہم متعلقہ قرآنی آیات کےمفاہیم و مطالب پرویزی لٹریچر سے بلاتبصرہ نقل کریں گے، لیکن زیر بحث مضمون میں ”طلوع اسلام” نے چونکہ خطبہ حجة الوداع کو غلامی کے پرویزی نظریہ کی روشنی میں بھی غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سورہ محمدؐ کی مذکورہ بالا آیت کا جو مفہوم، مفہوم القرآن سےنقل کیا گیا ہے، اس پر تھوڑا سا تبصرہ کرکےغلامی کے مسئلہ پر بھی مختصراً روشنی ڈال دی جائے۔ طلوع اسلام نے ”سیرت النبیؐ ”سے خطبہ حجة الوداع کا اقتباس نقل کرنے کے بعد صفحہ 35 پر لکھا ہے:
قرآن مجید سورہ محمدؐ میں اس ارشاد ربانی کے بعد کہا کہ یا تو جنگی قیدیوں پر احسان کرکے، انہیں رہا کردو یا فدیہ لے کر چھوڑ دو، اسلامی معاشرے سے غلامی کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیا گیا۔ اس لیے اس خطبے میں غلاموں کے بارے میں جو ہدایات دی گئی ہیں وہ صحیح نہیں معلوم ہوتیں۔کیونکہ ان کے ذریعے، غلامی کو اسلامی معاشرے میں پختہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

مستشرق پرویز نے غلامی کے سلسلہ میں اپنے مخصوص نظریہ کو ثابت کرنے کے لیے ہی سورہ محمدؐ کی مذکورہ بالا آیت کامفہوم ان الفاظ سے بیان کرنا شروع کیا ہے کہ:
یہ لوگ اپنی مخالفت میں اس درجہ آگے بڑھ رہے ہیں کہ ان سے تصادم ناگزیر نظر آتا ہے…………..”

آیت کے مفہوم میں ان الفاظ کا اضافہ پرویز حیلہ سازی ہے ۔ ورنہ آیت کا اصل مفہوم اس کے بعد ”سو جب میدان جنگ میں ان سے (”ان سے” کی بجائے ”کفار سے”) آمنا سامنا ہو” کے الفاظ سے شروع ہوتا ہے۔چنانچہ ان اضافی الفاظ سے پرویزی مقصود یہ ہے کہ غلامی کو اس خاص دور سے مخصوص کرنے کے بعد یہ کہا جاسکے کہ ”اسلامی معاشرے سے غلامی کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیا گیا۔” حالانکہ آیت میں﴿فَإِذَا لَقِيتُمُ ٱلَّذِينَ كَفَرُ‌واکے الفاظ صاف بتلا رہے ہین کہ ”جب بھی کفار سےمڈبھیڑ ہوجائے” تو قتال کے بعد غلامی کا مسئلہ ہر دور میں پیدا ہوسکتا ہے۔چنانچہ اہل اسلام کو چاہیے کہ دشمنان اسلام کو قتل کریں او ربقیة السیف کو پکڑ کر غلام بنالیں۔ اب غلام بنا لینے کے بعد یہ حالات پرمنحصر ہے کہ خواہ ان غلاموں کو فدیہ لے کر یا احسان رکھ کر چھوڑ دیا جائے یا ان سے تبادلہ کرکے اپنے ان مسلمان قیدیوں کو چھڑا لیاجائے جو دشمن کی قید میں ہوں اور اس آخری امکانی صورت کا ذکر طلوع اسلام نے بھی کیاہے۔

اب صورت حال یوں بنتی ہےکہ مسلمان معاشرہ اگر جنگی قیدیوں کو زر فدیہ لےکر یا احسان رکھ کر بہرحال چھوڑ دینے کا پابند ہو تو قیدیوں کا یہ تبادلہ ممکن ہی کب رہے گا؟ دشمن کو تو بہرحال یہ اطمینان حاصل ہوگا کہ مسلمان معاشرہ قرآنی حکم ﴿فَإِمَّا مَنًّۢا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَآءًکی بجا آوری کرتے ہوئے اس کے قیدیوں کو جلد یا بدیر ضرور ہی آزاد کردے گا، پھر قیدیوں کے باہمی تبادلہ کی بجائے ، اسے مسلمان قیدیوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیےغلام بنا رکھنے میں کون سا امر مانع ہوگا؟

حقیقت یہ ہے کہ جہاد تاقیامت جاری ہے۔پرویز نے اگرچہ ”یعنی ملک میں امن و امان ہوجائے، اسی مقصد کے لیے تمہیں جنگ کی اجازت دی گئی ہے” کے الفاظ لکھ کر امن و امان سے جہاد کو مشروط کرنے کی کوشش کی ہے (حالانکہ اعلائے کلمة اللہ کے لیےبھی جہاد ضروری ہے) تاہم امن و امان کا بھی یہ مسئلہ ہر دور میں پیدا ہوسکتا ہے جس کے لیے جہاد کی تاقیامت ضرورت ہے او راگر کفار سے جہاد کاحکم باقی ہے تو ان کے بقیہ السیف کو غلام بنا لینےکا حکم بھی یقیناً باباقی ہے۔ لہٰذا یہ پرویزی نظریہ غلط ہے کہ:
قرآن نے یہ حکم دے کرغلامی کے دروازے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیےبند کردیا۔12

طلوع اسلام کے ”بابا جی پرویز مرحوم” نے کفار و ملحدین کے ساتھ نامعلوم کیاخفیہ مراسم قائم کررکھے تھے کہ انہیں میدان جنگ میں غلام بنا لینے سے انکار کرکے ان کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں؟ بایں ہمہ ”قرآنی نظام ربوبیتاور ”قرآنی دعوت” کے لیے انہوں نے پچاس سال بھی صرف کردیئے۔ حالانکہ کفار کے بقیة السیف کو غلام بنا لینے میں بھی ان کی خیرخواہی پائی جاتی ہے۔ کیونکہ بجائے غلام بنانے کے اگر انہیں چھوڑ دیا جائے تو غالب گمان یہی ہے کہ وہ اپنے کافر معاشرہ میں واپس جاکر کبھی اسلام قبول نہیں کریں گے۔ اس کے برعکس اگر وہ مسلمان معاشرہ میں رہیں گے، خواہ غلام بن کر ہی، اسلامی اخلاق سے متاثر ہوکر ان کے اسلام قبول کرلینے کا امکان قوی تر ہے۔پھر نامعلوم غلامی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کردینے سےمسٹر پرویز کی کون سی غرض پوشیدہ تھی؟

غلامی کو باقی رکھنے کے جواز میں قرآن مجید ہی سے ایک او رپہلو سے بھی گفتگو کی جاسکتی ہے۔ ذرا ان آیات قرآنی کوذہن میں لائیے، جن میں غلام آزاد کرنے کو بعض جرائم کاکفارہ بتلایا گیاہے او ریہ جرائم تاقیامت ممکن الوقوع ہیں۔چنانچہ ”آیہ ظہارمیں فرمایا:
﴿وَٱلَّذِينَ يُظَـٰهِرُ‌ونَ مِن نِّسَآئِهِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوافَتَحْرِ‌يرُ‌ رَ‌قَبَةٍ مِّن قَبْلِ أَن يَتَمَآسَّا﴿٣سورۃ المجادلہ

غلام احمد پرویز نے اس آیت کا مفہوم یوں بیان کیا ہے:
یعنی جو لوگ اپنی بیوی کو ماں (یا ایسے ہی کوئی الفاظ) کہہ بیٹھیں، او راس کے بعد پشیمان ہو کر اپنی اس بیہودہ بات کو واپس لینا چاہیں (تو انہیں کچھ جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ وہ جرمانہ یہ ہے کہ) قبل اس کے کہ وہ بحیثیت میاں بیوی ایک دوسرے کے پاس جائیں، ایک غلام آزاد کریں۔ یہ اس لیے ہے کہ تم آئندہ نصیحت پکڑو اور اللہ تمہارے معاملات سے باخبر ہے۔13

اب دیکھئے ”ظہار” تاقیامت کسی بھی وقت کسی سے بھی واقع ہوسکتا ہے اور اس کے کفارہ میں جہاں دو ماہ کے روزے رکھنا یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہمیشہ کے لیے باقی ہے۔ وہاں مذکورہ بالا آیت کے تحت غلام آزاد کرنے کی صورت بھی تاقیامت باقی ہے۔ اور یہ جبھی ممکن ہے ، جبکہ غلامی کےدروازہ کو کھلا چھوڑ دیا جائے۔ ورنہ یہ آیت منسوخ ٹھہرے گی کیونکہ اس میں ایک ایسی چیز کو کفارہ ظہار میں ذکر کیا گیاہے، جس کا دروازہ بقول پرویز نزول قرآن کے وقت ہمیشہ کے لیے بند کردیا گیا تھا۔ حالانکہ پرویز او ران کی پارٹی کے نزدیک الحمد سے لے کر والناس تک قرآن کا ایک لفظ بھی منسوخ نہیں (قرآن میں نسخ کی اس بحث کو بھی ہم آئندہ سطور میں ایک مستقل حیثیت سے ذکر رہے ہیں)اسی طرح سورة النساء میں ہے:
﴿وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَـًٔا فَتَحْرِ‌يرُ‌ رَ‌قَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰٓ أَهْلِهِۦٓ إِلَّآ أَن يَصَّدَّقُوا﴿٩٢سورۃ النساء

پرویزنے مفہوم القرآن میں اس آیت کے تحت لکھا ہے:
اگر کسی کے ہاتھوں کوئی مومن غلطی سے مارا جائے تو وہ اس کے بدلے میں ایک مومن غلام آزاد کرے، نیز مقتول کے وارثوں کو اس کا خون بہا دے، اگر وہ خون بہا معاف کردیں تو اور بات ہے۔14

اگر پرویز او ران کی پارٹی کے نزدیک غلامی کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند بند کیا جاچکا ہے تو شاید ان لوگوں نے کوئی ایسا انتظام بھی کررکھا ہوگا کہ آئندہ کوئی بھی مومن غلطی سے کسی کے ہاتھوں بھی مارا نہ جائے اور اگر حالات اس کی نفی کرتے ہیں تو انہیں غلامی کے دروازہ کو بھی کھلا چھوڑنا ہوگا تاکہ قتل خطائیں دیت کے طور پر مومن غلام آزاد کیا جاسکے۔

سورة المائدة میں ہے:
﴿لَا يُؤَاخِذُكُمُ ٱللَّهُ بِٱللَّغْوِ فِىٓ أَيْمَـٰنِكُمْ وَلَـٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ ٱلْأَيْمَـٰنَ ۖ فَكَفَّـٰرَ‌تُهُۥٓ إِطْعَامُ عَشَرَ‌ةِ مَسَـٰكِينَ……….. أَوْ تَحْرِ‌يرُ‌ رَ‌قَبَةٍ۔ الآیة” (المائدہ:89)

مفہوم القرآن میں اس آیت کا مفہوم یوں لکھا ہے:
یاد رکھو، لغو اور مہمل قسموں پرکوئی مؤاخذہ نہیں ہوتا۔باقی رہیں وہ غلط قسمیں جو تم نے قصد و ارادہ سے نہایت محکم طور پر کھائی ہوں، تو انہیں بھی توڑا جاسکتا ہے، لیکن اس صورت میں کچھ کفارہ دینا ہوگا، یہ کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے…………. یا کسی غلام (گردن) کا آزاد کرنا۔15

شاید مسٹر پرویز نے کہیں سے یہ گارنٹی حاصل کرلی ہو کہ آئندہ کوئی بھی شخص قصد و ارادہ سے محکم طور پر کوئی قسم نہ کھائے گا اور اسی بناء پر وہ غلامی کے دروازہ کوبڑے دھڑلے سےبند کررہے ہوں۔ لیکن اگر ایسی قسمیں آج بھی کھائی جارہی ہیں تو پھر انہیں، اس کے کفارہ کے طور پر ”غلام (گردن) کے آزاد کرنے” کی شق کو منسوخ کرنےکا حق کس نے دے دیا ہے؟

اسی طرح فرمان الٰہی ہے:
﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواكُتِبَ عَلَيْكُمُ ٱلْقِصَاصُ فِى ٱلْقَتْلَى ۖٱلْحُرُّ‌ بِٱلْحُرِّ‌ وَٱلْعَبْدُ بِٱلْعَبْدِ وَٱلْأُنثَىٰ بِٱلْأُنثَىٰ﴿١٧٨سورۃ البقرۃ
اگر قاتل آزاد مرد ہے، تو وہی آزاد مرد سزا پائے گا۔ اگرقاتل غلام ہے، تو اس غلام کو سزا دی جائے گی۔ اگر وہ عورت ہے تو اس کا عورت ہونا اسے سزا سے نہیں بچا سکے گا، اسے بھی سزا بھگتنی پڑے گی۔16

اگر بقول پرویز قرآن مجید کا ایک لفظ بھی الحمد سے لے کر والناس تک منسوخ نہیں ہے اور غلامی کا دروازہ بھی ہمیشہ کے لیے بند کردیا گیا تو کون غلام قاتل ہوگا اور کون سے غلام کوسزا دی جائے گی؟ پھر قرآن میں اس حکم کا باقی رہ جانا چہ معنی دارد؟ اب یا تو قرآن سے اس آیت کانسخ مان لیجئے اور یا ”غلامی کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کردیا گیا” والے نظریہ پر نظرثانی فرمائیے، کہ دونوں میں سے ایک ہی صورت ممکن ہوگی۔

علاوہ ازیں حکم قصاص والی سورہ بقرہ کی یہ آیت حجة الوداع کے موقع پر منٰی میں نازل ہوئی تھی جبکہ سورہ محمدؐ کی جس آیت سے پرویز صاحب غلامی کے دروازے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کررہے ہیں، وہ اس سے بہت پہلے دوران سفر ہجرت آپؐ پر نازل ہوچکی تھی۔لہٰذا اگر اس آیت کے الفاظ ”فاما منا بعد واما فداءسے غلامی کو بند کرنا مقصود ہوتا تو اس کے بعد سورة البقرہ میں غلاموں کے مابین قصاص کا ذکر کرنے کے کوئی معنی ہی نہ تھے۔ کیونکہ بقول پرویز سورہ محمدؐ کی آیت کے ذریعہ، بہت پہلے غلامی کے دروازہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کیا جاچکا تھا۔

اسی طرح اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
﴿وَٱلَّذِينَ يَبْتَغُونَ ٱلْكِتَـٰبَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَـٰنُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرً‌ا﴿٣٣سورۃ النور
اور غلام اور لونڈیوں میں سے جو اپنی آزادی کے لیے تم سے ”تحریری سند(ii) ” لینا چاہیں، انہیں پروانہ آزادی دے دینا چاہیے۔ بشرطیکہ تم دیکھو کہ وہ اس قابل ہیں کہ اپنی بہبودی کا خود خیال رکھ سکیں (یعنی وہ ایسے نااہل او ربے سمجھ نہ ہوں کہ تم سے الگ ہوکر اپنے آپ کو بھی سنبھال نہ سکیں۔17

بنا بریں ”نااہل او ربے سمجھ” غلاموں کو مکاتبت کے ذریعے آزاد کردینا مفید نہیں، بلکہ انہیں غلام ہی رکھنا چاہیے۔ چنانچہ اس مقام پر ”غلامی کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کردینے والے ”محترم پرویز صاحب” غلامیکے بجائے، ” غلاموں کی آزادی” کا دروازہ بند کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ قارئین کرام، یہ ہے وہ ”مفسر قرآن” جو قرآن کو سمجھ کر اس کی تعلیمات کی روشنی میں احادیث رسولؐ کو پرکھنے کا فریضہ انجام دینے نکلا تھا اس لیے کہ اس کی دانست میں ذخیرہ حدیث سارے کا سارا ”عجمی سازش” کا شکار ہوگیا تھا۔لہٰذا حدیث رسولؐ کو اس سازش سے بچانے کے لیے ایک ایسے ہی مفسر قرآن کی ضرورت تھی جو ”اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی” کا مصداق ہوتا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ظہار، قتل خطأ، اور قسم ، غلاموں کے مابین اور مکاتبت وغیرہ کا حکم اگر قرآن مجید میں مذکور ہے، یہ احکام ہم نے پرویزی لٹریچر سے بھی من و عن نقل کردیئے ہیں، پھر یہ احکام منسوخ بھی نہیں بلکہ یہ تمام باتیں تاقیامت ممکن الوقوع بھی ہیں، جن کے کفارہ کے طور پر منجملہ روزے رکھنے اور مساکین کو کھانا کھلانے کے، غلام آزاد کرنے کی بھی ایک صورت موجود ہے، تو اس قرآنی حکم کی بجا آوری جبھی ممکن ہے کہ غلامی کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کرنے کی بجائے تاقیامت اسےکھلا چھوڑ دیا جائے اور کفار کے بقیة السیف کو غلام بنا لینا جائز ہو۔لہٰذا ”غلامی” کے سلسلہ میں مسٹر پرویز کا نظریہ ان کی اپنی تحریروں کی روشنی میں یکسر باطل ہے۔ تو پھر اس نطریہ کی روشنی میں خطبہ حجة الوداع میں غلاموں کے بارے دیئے گئے احکامات کیوں غلط ہیں او راس بناء پر خطبہ حجة الوداع کی روایات غلط کیوں قرار پائیں۔ (جاری ہے)


حوالہ جات
1.
صفحہ 34
2.
قرآنی فیصلے:ص218
3.
مفہوم القرآن: 3؍973
4.
مفہوم القرآن پرویز:1؍234
5.
مفہوم القرآن پرویز :1؍334
6.
مفہوم القرآن پرویز :2؍645
7.
تفسیر کبیر:8؍75
8.
مفہوم القرآن پرویز :3؍1208
9.
مفہوم القرآن پرویز:3؍934
10.
مفہوم القرآن:3؍1206
11.
مفہوم القرآن :3؍1185
12.
مفہوم القرآن :3؍1185
13.
مفہوم القرآن:3؍1288
14.
مفہوم القرآن:1؍209
15. 1
؍271
16.
مفہوم القرآن:1؍65
17.
مفہوم القرآن:2؍803


i.یہ مرد آدمؑ، اور عورت حواؑ ہیں۔ قرآن کریم نے سورۃ نساء کی پہلی آیت میں آدمؑ کو ”نفس واحدہ” بھی کہاہے اور آپؑ کی بیوی حواؑ کو آپؑ کا ”زوجبتلایا ہے۔پرویز صاحب نے بھی یہاں انسانوں کی پیدائش کا ذریعہ مردو عورت کااختلاط بتلایاہے۔ لیکن دوسری جگہ آپ ”نفس واحدہ” سے مراد وہ پہلا جرثومہ حیات لیتے ہیں جوسمندر کے کنارے کی کائی میں آج سے اربوں سال پہلے پیدا ہوا تھا۔ اور ”زوج” سے مراد اس جرثومہ کا دو ٹکڑوں میں بٹ جانا بتلاتے ہیں۔ طلوع اسلام”جو احادیث رسول اللہ ﷺ کی سنت کے لیےقرآنی تعلیمات سے مطابقت کی شرط لگاتا ہے، اسے اپنے ”باباجی مرحوم پرویز” کے بیان کردہ ان دو مختلف قرآنی مفاہیم میں بھی مطابقت تلاش کرنی چاہیے۔ ورنہ ان کی یہ تفسیر قرآن غلط قرار پائے گی او راس کا ”عجمی سازش” ہونامتحقق ہوجائے گا۔
ii.
یہاں بھی قرآن مجیدنے لفظ ”کتاب” کیا ہے اور مسٹر پرویز نے اس کا ترجمہ تحریری سند” کیاہے۔ اب اس چند سطری ”تحریری سند” کومدوّن کرنا او رسینا پرونا طلوع اسلام کے ذمہ ہے۔


Source : Link

About thefinalrevelation
Leave a reply